دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
راولپنڈی، پرانی یادیں
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم

سنہ ساٹھ سے ستر کی دہائی میں صدر سیروز سنیما کے سامنے واقع " ووگیز کیفے بہت مشہور تھا, جہان راولپنڈی کے شاعر حضرات اپنی محفل جمایا کرتے تھے ، مشہور شاعر مجید امجد اور احمد شمیم بھی یہاں آیا کرتے تھے ، ان شعرا میں سے محترم طاوس بانہالی اور ایک سراج صاحب جو میرے ماموں کے قریبی دوست تھے, اور ویسٹرج سے اس محفل میں شرکت کے لیے تشریف لایا کرتے تھے , مجھے یاد ہیں , مجھے کبھی ماموں کے ساتھ ان کے دوست سراج صاحب کے گھر ویسٹرج جانے کا اتفاق ہوتا , تو مجھے ان کے پرانے سے گھر کا وسیع باغ جس میں بہت سے پھلدار درخت لگے تھے اب تک یاد ہے ۔

راولپنڈی ان دنوں ایک چھوٹا سا صاف ستھرا خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا , یہاں گورنمنٹ اربن ٹرانسپورٹ سروس کے تحت ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلا کرتی تھیں , مجھے ان بسوں کی بالای منزل میں سب سے اگلی نشست پر سفر کرنا بہت اچھا لگتا تھا , ایسا محسوس ہوتا کہ ہوا میں تیرتے ہوے جا رہے ہیں , لیاقت باغ کے وسیع میدان میں ہر عید پر ایک میلہ لگا کرتا تھا, جس کی سیر ہم بچوں کے لیے لازم تھی , اور ہماری ضد پر ابو جان کسی ملازم کے ہمراہ ہمیں یہ عید میلہ دکھانے بھیج دیا کرتے تھے ۔ یہ میلہ تقریبا ایک ماہ تک جاری رہتا تھا ۔ راولپنڈی کا ایک تفریحی مرکز ٹوپی پارک یا ایوب پارک تھا , یہ اس زمانے میں شہر سے کچھ باہر واقع تھا , اس پارک میں ایک جھیل بھی ہوا کرتی تھی , جس میں کشتیاں چلا کرتی تھیں , اسی پارک میں ایک کیفے بھی تھا, جس کے ساتھ کافی بڑا سرسبز اور یوکلپٹس کے بڑے بڑے درختوں میں گھرا ایک وسیع لان تھا, جس میں اس ریستوران کی طرف سے ٹیبلز بھی لگی ہوتی تھیں , ماموں مجھے کبھی کبھار اپنے ساتھ وہاں لے جاتے تھے, اور اسی وسیع لان میں درختوں کے نزدیک لگی کسی میز کے گرد بیٹھ کر سیپرٹ چاے منگوائی جاتی , یہ بھی اس ریستوران کی خصوصیت تھی کہ یہاں انتہائی اعلی درجے کی خوشبودار سیپرٹ چائے ملا کرتی تھی , مجھے اب تک اس چائے کی وہ سوندی سوندی خوشبو یاد ہے , اب تو مِکس چائے کا رواج ہے, اور اس مکس چائے میں وہ چاے کی مخصوص خوشبو ہی نہیں ہوتی ۔

راقم تقریبا تین، چار سال کا تھا، تو میرے ماموں بشیر صرفی مجھے اپنے ساتھ سایکل پر بٹھا کر وہاں لے جایا کرتے تھے ، اس زمانے میں سایکل تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی سواری ہوا کرتی تھی , اور کی حضرات سوٹ ٹای پہن کر سایکل پر اپنے دفاتر یا کام پر جایا کرتے تھے ۔ ہمارے ایک انکل سردار بشیر احمد خان صاحب جو اس زمانے میں ممبر آزاد کشمیر اسمبلی بھی رہے تھے , بہت بارعب شخصیت کے حامل ایک خوبصورت انسان تھے , وہ اس زمانے میں تراڑ کھل ریڈیو آزاد کشمیر میں کانٹینٹ راٹر تھے اور خود بھی ریڈیو پر تحریک آزادی کشمیر کے متعلق تقاریر کیا کرتے تھے , راقم نے انھیں اپنی بھاری بھرکم گھنگریالے بالوں والی انگریز نما شخصیت کے ساتھ سوٹ , ٹای میں ملبوس سایکل پر تراڑ کھل ریڈیو, جو راولپنڈی کی پشاور روڈ پر واقع تھا , جاتے دیکھا , اور سایکل سواری ان کی شاندار شخصیت میں کسی کمی کا باعث نہیں بنتی تھی ۔

ہم ان دنوں راولپنڈی کے بوھڑ بازار میں ڈاکٹر فقیر محمد کے کلینک کی بالای منزل پر واقع ایک مکان میں رہا کرتے تھے , گو کہ اس وقت تک نی آباد ہونے والی ایک بستی سیٹلاٹ ٹاون جو راولپنڈی شہر سے کچھ باہر ہوا کرتا تھا , میں ہمارا گھر تعمیر ہو چکا تھا لیکن شہر سے باہر واقع ہونے اور ویران علاقہ ہونے کی وجہ سے ہم وہاں منتقل نہیں ہوے تھے , مجھے بوہڑ بازار والے اس گھر کا سرخ فرشی ٹالوں والا وسیع صحن یاد ہے , میں اپنے ننہال رہنا زیادہ پسند کیا کرتا , میرا ننہال صدر ہاتھی چوک کے نزدیک ٹین بازار کے ایک احاطے میں تھا , جہاں میرے نانا نانی ایک پرانے سے گھر میں رہاش پزیر تھے , یہ محلہ بوہرا سیٹھ برادری کے کاروباری حضرات کے گھروں پر مشتمل تھا , جن کے ناموں کے ساتھ سیٹھ لگا کرتا , اور ان کی معزز خواتین کے ناموں کے ساتھ بای لگا کرتا , ہمارے ننہال کے ساتھ والے بلند مکان میں کوئی سیٹھ موسی رہا کرتے , جن کی اسلحہ کی دکانیں تھیں , ان کی بیگم صاحبہ جو اپنی برادری کے مخصوص لہنگا نما لباس میں ملبوس ہوا کرتی تھیں , بہت بارعب شخصیت تھیں, ان کا نام سارا بائی تھا , ہم سب بچے ان کے خاندان کے, اور ہم بھی, ان سے بہت ڈرتے تھے , اس زمانے میں ماحول ایسا تھا, کہ کسی بھی شرارت پر اہل محلہ کے بڑوں میں سے کوی بھی کسی بھی بچے کو ڈانٹ دیا کرتا تھا, اور اس بچے کے اہل خانہ ان بزرگ یا ان ڈانٹنے والی خاتون کا باقادہ شکریہ ادا کیا کرتے کہ آپ نے ہمارے بچے کو کسی شرارت سے منع کیا اور ڈانٹا , اور پھر اپنے گھر والوں سے اس شرارت پر مزید ڈانٹ پڑا کرتی ۔یہ لوگ کوئی الگ زبان بولا کرتے , جسے شاید یہ گجراتی زبان کہا کرتے تھے , مجھے اپنے ننہال میں وی آئی پی کی حیثیت حاصل تھی , نانا نانی, اور اپنی خالاوں کا میں لاڈلا تھا , ماموں ان دنوں کراچی یونیورسٹی میں ایم اے کر رہے تھے پھر وہ بھی اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس آ گے , اور ریڈیو آزاد کشمیر میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کے طور پر اپنی سروس کا آغاز کیا , وہ بہت اچھا ادبی زوق رکھتے تھے, اورخود بھی شاعری کیا کرتے تھے , ہمساے اور محلے کی بوہری بچیوں کے ساتھ کھیلنے والی میری دونوں خالائیں جو مجھ سے چند سال ہی بڑی تھیں روانی سے ان کی بوہری زبان بولا کرتی تھیں ۔

ماموں ووگیز کیفے میں منعقد ہونے والی شعرا کی محافل میں مجھے بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتے , یا میں ضد کر کے ان کے ساتھ چلا جایا کرتا , میں, اس کیفے میں منعقد ہونے والی شعرا کی محافل میں بور ہوتا رہتا اور شعرا کو, ایک دوسرے کے کلام پر داد دیتے دیکھا کرتا ، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ ایک دوسرے کو " واہ واہ " کیوں کہتے ہیں ۔ میری توجہ وہاں دوسری ٹیبلز پر پڑے پیسٹری اور پیٹیز کے سٹینڈ کی طرف زیادہ ہوا کرتی ۔ لیکن شعرا حضرات صرف چائے کی پیالی پر گھنٹوں گزار دیا کرتے تھے ، ایک دن میں زیادہ تنگ ہوا, تو میں نے ان کی باتوں میں دخل دیتے ہوے زور سے کہا ، میری بات سنیں ، وہ سب شاعر خاموش ہو گئے, اور میری طرف دیکھنے لگے کہ میں کیا کہتا ہوں , میں نے ان کو کہا کہ آخر آپ لوگ اپنی بک بک کب بند کریں گے , سب شاعر ہکا بکا رہ گئے ۔ دراصل میں بچپن میں بہت باتیں کرتا تھا, اور ماموں مجھے اپنا لاڈلا بھانجا ہو نے کی وجہ سے ہمیشہ ساتھ رکھتے ، تو وہ میرے مسلسل سوالات سے تنگ آ کر کبھی مجھے کہا کرتے کہ یار تو اپنی بک بک کب بند کرے گا ، اور میں نے موقع ملنے پر وہی جملہ ان شعرا پر جڑ دیا تھا ۔
واپس کریں