دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
امن کی آشا ، شاردہ یاترا ، حقائق و خدشات
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ہمارے عزیز دوست اور معروف دانشور جناب خیر الزماں راشد نے اپنی وال پر مشہور و معروف تاریخی مقام شاردہ پیٹھ کی تاریخ اور اس کے تناظر میں اس مقام سے وابستہ کشمیری پنڈت برادی بلکہ بھارت بھر کے براہمن طبقے کی دیرینہ خواہشات کے ضمن میں ان کی اور اپنی اس ضمن میں خواہشات کی یکسانیت کے تحت، اس مقام کے تاریخی اور مذہبی پس منظر کے حوالے سے اس علاقے کے مستقبل اور یہاں دوبارہ سے ہندو مذہبی تقریبات اور عبادات کے احیا کی اپنی خواہشات کا زکر فرمایا ہے۔ لیکن یہاں ان کی تحریر تھوڑی سے الجھی ہوئی ہے جس میں بہت مختصر پیرائے میں شاردہ کے مختلف اور متضاد تاریخی ادوار اور یہاں سے وابستہ روایات ، حکایات اور واقعات کا کچھ اس انداز میں زکر فرمایا ہے کہ ایک عام قاری کے لیے بدھ دور میں شاردہ کی حیثیت اہمیت اور کردار اور پھر ہندو بلکہ آریا غلبے کے بعد اس قدیم مذہب ، اس کی مذہبی عمارات و علامات اور بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی آبادی کی تباہی ،قتل و غارت اور پھر مکمل معدومی کے ضروری ذکر یعنی بدھ مذہب پر ہندو مذہب کے غلبے اور اس کے اثرات کے حقاق کو مکمل نظر انداز فرماتے ہوئے شاردہ پیٹھ کا ذکر صرف ہندو روایات اور تشکیل شدہ اعتقادات کی روشنی میں ہی فرمایا ہے ۔

پیٹھ مندر اور اس کے علمی مقام کی خصوصیات کا اظہار کرتا لفظ ہے ۔اگر ہندو روایات کے نقطہ نظر اور مفہوم کے تناظر سے ہی دیکھیں تو پیٹھ ، استھان اور کسی عام عبادت گاہ کے کردار کا فرق ان ناموں سے ظاہر ہے ۔پیٹھ ایسے متبرک و مقدس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں ان مذہبی علوم کے ماہرین کی طرف سے مذہبی احکام و روایات تخلیق کی جاتی ہیں ۔ استھان اس مقام کو کہا جاتا ہے جو کسی مخصوص مقدس شخصیت سے کسی بھی طرح وابستگی اور تعلق رکھتا ہو ۔ اور ان سب سے ہٹ کر ایک عام عبادت گاہ صرف عوام کو عبادت کی بنیادی سہولت مہیا کرنے کے لیے قائم کی جاتی ہے ۔ اس حوالے سے شاردہ مندر یا عبادت گاہ کا پیٹھ کہلانا اس کے مزہبی اور علمی مقام ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ لیکن اس تقدس کی فضا میں ہمیں اس عبادت گاہ کے بدھ دور کے معدوم شدہ اور برباد و تاراج کر دئیے گئے ماضی کو ذرا الگ رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔جس سے ہمیں اس مقام یعنی شاردہ کے شاندار ماضی میں جھانکنے اور اس کے علمی , مزہبی اور تاریخی مقام کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔

شاردہ پیٹھ کہلانے والے آج کے کھنڈرات ماضی بعید میں اعلی علوم کی ایک بدھ درسگاہ کے روپ میں دکھائی دیتے ہیںجہاں ٹیکسا شیلا کی درسگاہوں میں پڑہانے والے اساتزہ شاردہ کی درسگاہ اور آس پاس کے پہاڑوں میں بنی گھپائوں میں مستقل قیام پزیر اعلی روحانی اور علمی مقام کے حامل تارک دنیا بھکشو اہل دانش سے تحصیل علم اور روحانی رہنمائی و تحصیل کے لیے آیا کرتے تھے ۔ ان گوشہ نشین اور تارک دنیا بھکشوئوں اور ان کے شاگردوں کا تعلق لداخ، تبت، چین ،وسطی ایشیا کے علاوہ مشرق بعید کے ممالک تک سے ہوا کرتا تھا۔ان کے علاوہ شمالی پنجاب سے بھی علم اور گیان کے متلاشی یہاں آتے اور اپنی علمی و روحانی پیاس بجھاتے ۔ مشہور محقق اور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی جنہوں نے قدیم بالاورستان ، دردستان کے علاقوں ، یہاں وادر ہونے والے قدیم قبائل اور ان کے شمالی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ساتھ علمی ، ثقافتی ، تہذیبی اور سماجی تعلق پر بہت قابلِ قدر کام کیا ہے ۔ انہوں نے شاردہ کے آس پاس کے پہاڑوں میں بہت سی ایسی گپھائوں کا ذکر کیا ہے جہاں یہ بدھ بھکشو ، تارک دنیا ہو کر گیان دھیان میں مشغول رہا کرتے ۔

گیان اور روحانیت کی ان خصوصیات اور مقام کی وجہ سے شاردہ کو شمالی پنجاب سے لے کر چین تک کے علاقوں میں ایسی حیثیت حاصل رہی جیسے کہ کوئی قیمتی چمکتا ہوا ہیرا ہوا کرتا ہے ۔ بعد میں پورے مغربی اور شمالی ہند میں ہندو غلبے کے بعد جو چندر گپت موریہ کے دور سے شروع ہوتا ہے , بدھ مذہب ، ان کے مقدس اور علمی مقامات اور اس مذہب سے تعلق رکھنے والی آبادی کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور انتہائی ظلم ,، تشدد اور جبر کے زریعے بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی ہر علمی ، مزہبی علامت کو لوٹ کر تباہ و برباد کر دیا گیا اور اپنا مذہب تبدیل نہ کرنے والے پرامن بدھ عوام کا قتل عام کیا گیا۔اور اس حد تک کیا گیا کہ ان تمام علاقوں میں اس مذہب، اس کی علامات اور اس کے ماننے والوں کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔شاردہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ ایک قیمتی ہیرے کی حیثیت رکھتا تھا, ، لہذا اس میں مذہبی علامات کی تباہی اور نسل کشی کے ساتھ ساتھ اس سے اور اس کی جغرافیائی اہمیت سے استفادہ کا لاحہ عمل اختیار کیا گیا ۔

عظیم بدھ حکمران کنشک نے تیسری بدھ عالمی کانفرنس اسی شاردہ کے مقام پر ہی منعقد کروائی اور اس کانفرنس کے مندرجات کو تانبے کی سات تختیوں پر کنندہ کر کے یہیں شاردہ میں کسی مقام پر قیمتی جواہرات سمیت دفن کیا گیا ، جن کو ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا ۔ جب بھی یہ تختیاں دریافت ہوئیں یہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں قیمتی ترین دریافت ہو گی ۔ ہندو فاتحین نے شاردہ کے مقام کی مرکزی حیثیت اور ماضی کی شہرت کے مدنظر یہاں کی بدھ مونٹیسوری یا علمی مرکز کو ایک ہندومندر کی شکل دے دی اور اس کے بعد تقسیم ہند کے وقت تک شاردہ ایک ہندو مندر اور متبرک مقام کے طور پر جانا جاتا رہا ۔ شاردہ کی ایک اہمیت اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی تھا کیونکہ یہ دردستان اور کشمیر کا آباد سرحدی مقام بھی تھا جہاں ایک طرف تو سرسوتی کی مقدس ندی مغرب کی طرف سے آ کر کشن گنگا میں شامل ہوتی اور دریا کے کشمیر کی طرف کو ایک مقدس شفاف چھوٹی سی ندی جو شاردہ مندر کے قدم چھوتے ہوے گزرتی تھی۔اسے مدھو متی کہا جاتا تھا اور جس مقام پر یہ ندی کشن گنگا میں جا کر ملتی تھی اس مقام اتصال کو ہندوئوں کے نزدیک متبرک ترین مقام سمجھا جاتا تھا ۔

کچھ ہی عرصہ قبل بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ لائن آف کنٹرول کے بالکل سامنے واقعہ ٹیٹوال کے قصبے میں تشریف لائے اور یہاں شاردہ کے علامتی نام سے ایک مندر کا افتتاح کیا ۔ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حاضرین کو خوشخبری سنائی کہ بہت جلد وہ اصل شاردہ پیٹھ کی یاترا اور وہاں عبادت کے لیے جاسکیں گے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں پاکستان سے کسی قسم کے مزاکرات یا کسی مفاہمت کا کوی ذکر نہیں کیا ۔ اب ان کے ذہن میں کیا ہے اور وہ پاکستان سے بات کیے یا اجازت لیے بغیر کس طرح شاردہ یاتراکو ممکن بنا سکیں گے؟اس کے بارے میں اندازہ ہی لگایاجاسکتا ہے ۔ خوش گمانی رکھنا بہر صورت بدگمانی رکھنے سے بہتر ہوتا ہے ۔ پورا کشمیر ایک انسانی المیہ اور رستے ہوے تکلیف دہ زخم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ،لہذا ایسے حالات میں ماضی گم گشتہ کے خواب دیکھنا اور دکھانا ، خود فراموشی کے مترادف ہے ۔ کشمیر کی غیر فطری تقسیم کی وجہ سے ہزاروں خاندان اور لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑے ہوئے ہیں اور ان خونی رشتوں کے بھی آپس میں ملنے پر پابندی ہے۔ ایسے حالات میں سنگ و خشت کے نوحے پڑھنا اور انسانوں کے مصائب و آلام سے اغماز غیر فطری اور غیر انسانی رویہ ہے ۔

شاردہ دور قدیم سے ہی سلطنت کشمیر اور دردستان کا سرحدی مقام رہا ہے ، جہاں دریائے کشن گنگا ان ریاستوں کی سرحد کا کام کرتا تھا ۔ شاردہ کے بدھ تشخص کو انتہائی بیدردی اور شقادت کے ساتھ ہندو غلبے نے تباہ و برباد کر دیا ، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس علاقے میں بدھوں ان کی عبادت گاہوں اور بدھ آبادی کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دیا ۔ اس کے بعد اس بدھ مونٹیسوری کو بھی ہندو کیا گیا اور اسے ایک مندر کی شکل دے دی گئی ، جو کھنڈرات کی شکل میں آج تک موجود ہے۔تاریخ کی روشنی میں یہ عین ممکن ہے کہ آپ ہاتھی کو خیمے میں سر ڈالنے کی اجازت دیں،تو وہ سونڈ سے پکڑ کر آپ کو ہی خیمے سے نکال باہر کرے ۔ بھارت میں متعصب ، اور درندہ صفت ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کے اقتدار کی مسلسل تیسری ٹرم چل رہی ہے اور مسلم دشمنی کے نعرے کی بنا پر اس کی مقبولیت بھارت کی ہندو آبادی میں روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ اور ہر الیکشن میں یہ پارٹی اپنے مسلم دشمن ایجنڈے اور ریکارڈ پر ہی الیکشن لڑتی اور پہلے سے زیادہ اکثریت سے جیتتی ہے ۔ آپ نے اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے انتہائی متعصب وزیر داخلہ کے دورہ ٹیٹوال کا ذکر انتہائی سرسری انداز میں کر کے حقائق اور شواہد کی درست ترجمانی نہیں فرمائی ہے ۔ موصوف نے ٹیٹوال میں اپنی تقریر میں ، شاردہ یاترا کے لئیے نہ کوئی درخواست کی اور نہ ہی اس بارے میں کسی بھی قسم کے مزاکرات کے ارادے کا اظہار کیا ، بلکہ انتہائی زہریلے لہجے میں اپنے ہندو سامعین اور حاضرین کے سامنے اعلان کیا کہ ہم بہت جلد شاردہ کی یاترا کو جائیں گے۔ اس تقریر کے دھمکی آمیز لہجے میں موصوف نے نہ " اہل نیلم " سے اجازت لینے کا ذکر کیا اور نہ ہی اس بارے میں حکومت پاکستان سے کسی بھی قسم کے مزاکرات کا ، بلکہ دھمکی آمیز زہریلے لہجے میں بین اسطور میں " بزور " اس یاترا کے لئیے " مناسب ماحول " کو پیدا کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اس بارے میں ایک " ٹائم فریم " کا بھی اعلان کیا ۔

ہمارے ممدوح خیر الزمان صاحب نے بڑی نیک نیتی اور معصومیت کے ساتھ راج ناتھ جیسے زہریلے سانپ کا کچھ اس محبت اور لگائو سے پرامید قسم کا ذکر فرمایا ہے کہ جیسے کوئی معصوم بچہ کسی انتہائی خطرناک زہریلے سانپ کے زہر سے بے خبر رہتے ہوئے اس کے شوخ رنگوں کی تعریف کرے بلکہ ان شوخ رنگوں کی بنا پر اس سے نہ صرف خود کھیلنے کی کوشش کرے ، بلکہ ساتھ دوسرے معصوم بچوں کو بھی اس " رنگین کھلونے " سے کھیلنے کی ترغیب دے ۔ ہم اس خطرناک خوش فہمی کا لحاظ کرتے ہوے ، حقائق کے برعکس اپنے طور پر یہ " قیاس اور تصور" بھی کر لیں کہ ہم پاکستان سے چھ گنا بڑے بھارت کے تمام " براہمنوں " کو بلکہ دیگر ہندو عوام کو شاردہ یاترا " کی "اجازت" دے بھی دیتے ہیں تو ان کے مذہبی اعتقاد اور نظریات کے مطابق ماضی کے ریکارڈ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب سے پہلے شاردہ پیٹھ کی " مقدس سرزمین " کو ان ملیچھوں اور پلید لوگوں سے پاک کروانے کا اور ان کو دریا کے پار تک محدود کر دینے کا مطالبہ کیوں نہیں کریں گے؟ وادی کشمیر جہاں کی ہندو پنڈت اقلیت ہزاروں سال سے مسلم اکثریت کے ساتھ رہتی ، بستی آئی ہے لیکن ان تمام سماجی ، ثقافتی قومی ، نسلی ، لسانی تعلقات اور ہم آہنگی کے باوجود وہ کسی مسلم کے ہاتھ سے تو کجا ان کے ساتھ بیٹھ کر بھی کھانا نہیں کھاتے ، کسی مسلمان کے قدم رکھ دینے سے ان کی " رسوئی " بھرشٹ ہو جاتی ہے۔ ان کی ویب سائٹس بشمول " پنن کشیر اپنے ہم قوم کشمیری مسلمان اکثریت کے خلاف نفرت کے زہر سے لتھڑی ہوی ہوتی ہیں ۔ یہ متعصب احسان فراموش کسی بھی بھارتی کی نسبت کشمیری مسلمانوں سے زیادہ نفرت کرتے ہیں ،جس کا اظہار ان کے ویب پیجز کے مشاہدے اور مطالعے سے ہوتا ہے ۔ لہذا ان سے واسطہ پڑے بغیر ان کے بارے میں نہ صرف خود یکطرفہ محبت بلکہ آرگیزم میں مبتلا ہونا اور دوسروں کو بھی اس بارے میں قال اور رضامند کرنے کی کسی بھی کوشش کی بحیثیت ایک متاثرہ کشمیری راقم بالکل حمایت نہیں کر سکتا ۔کاش جتنا احساس اور ہمدردی اس مراعات یافتہ کشمیری پنڈت اقلیت کا ظاہر کیا جا رہا ہے اس ہمدردی کا عشر عشیر بھی ہم منقسم بدنصیب کشمیری مسلمانوں کو بھی نصیب ہوتا ۔

جیسا کہ قارئین کو معلوم ہو گا کہ ہندوئوں کی مقدس ترین مذہبی یاترا امر ناتھ گپھا یاترا مقبوضہ وادی کشمیر کے ہی ایک علاقے اننت ناگ یا اسلام آباد سے شروع ہو کر دشوار گزار راستوں اور مختلف وادیوں سے گزرتی ہوئی ایک ایسے غار تک پہنچتی ہے جہاں غار کی چھت سے گرتے ہوے پانی کے قطرے منجمد ہو کر ہندوئوں کے لیے مقدس ترین مذہبی علامت شیو لنگ بناتے ہیں، جن کی یاترا کے لیے ہر سال پورے بھارت سے ہزاروں یاتری اس دشوار گزار علاقے میں آتے ہیں۔یہ گپھا یا غار اس طرح دریافت ہوئی تھی کہ اس علاقے میں مویشی چرانے والے چوپان جو یہاں ملک کہلاتے اور باربرداری کے گھوڑے پالنے کا کام کرتے ہیں، ان کے خاندان نے پہاڑوں میں مویشی چراتے ہوے یہ گھپا اور یہاں برف سے بنا ہوا شیو لنگ دیکھا تو اپنے کسی ہندو جاننے والے سے ذکر کر دیا اور پھر اس کی خواہش پر اسے ساتھ لے جا کر اس گھپا اور اس شیولنگ کا مشاہدہ کروایا ۔ اس ہندونے واپس آ کر اپنے مذہبی پروہتوں سے بات کی تو اس طرح ہوتے ہوتے اس جگہ کی یاترابہت بڑی مذہبی سرگرمی کا مرکز بن گئی ۔

لیکن یہاں دو چشم کشا باتوں کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جس ملک فیملی نے اس مقام کو دریافت کیا تھا اور وہی آج تک اپنے گھوڑوں یا پالکیوں کے ذریعے بزرگ اور کمزور یاتریوں،جو خود یہ دشوار سفر نہیں کر سکتے، انھیں اپنے گھوڑوں یا کندھوں پر اٹھا کر یہاں تک لاتے ہیں اور اس باربرداری کے کام پر ان کی اجارہ داری ہے, لیکن ان کوبھی اس مقدس مقام کے بھرشٹ ہو جانے کے خدشے سے ایک خاص مقام سے آگے آنے کی اجازت نہیں, ور نہ ہی ان کو یہاں کوئی عارضی ہوٹل چلانے یاکھانے پینے کی چیز بیچنے کی اجازت ہے کیونکہ ہندو یاتری ان کے ہاتھ سے کچھ لینے یا کھانے پینے پر تیار نہیں ہوتے۔یہ ملک خاندان نسل در نسل چوپان تھے اورآج بھی اسی طرح خستہ حال چوپان ہیں اور باربرداری کا وہی کام کرتے ہیں جو یہ نسلوں سے کرتے آئے تھے ۔ اتنی بڑی مذہبی ایونٹ نے،جس میں ان کا باربرداری کا کردار آج بھی ہے ، ان لوگوں کے اقتصادی یا سماجی مقام میں کوی کسی قسم کی بہتری نہیں لائی ۔یہ اسی ضمن کی زندہ مثال ہے لہذا یہ توقع کہ ہندو یاتری شاردہ بازار میں آ کر نیلم کیفے ، گیلانی کیفے ،یا گجر کیفے پر آ کر کھانا کھایا کریں گے اوراس طرح یہاں کے لوگوں کی اقتصادی حالت بہتر ہو جائے گی , ، حقاق اور شواہد کی روشنی میں ایک گمراہ کن, خوش فہمی ہی ہے ,جس کا حقیقت سے دور دور کابھی واسطہ نہیں ۔
واپس کریں