دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قومیت کا مخمصہ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ہمارے کچھ پختون، باعلم و باشعور ، دانشور دوستوں کی طرف سے افغان کرکٹ ٹیم کے مقابلے کے جزبے اور ایک متحد قومی ٹیم کی حیثیت سے بہترین کھیل پیش کرنے والی افغان ٹیم کے بہترین کھیل اور فتوحات کی وجہ، ان کی قومیت کے جزبے کو بتایا گیا ہے ، جس پر ہمیں زاتی طور پر کوئی اعتراض یا اختلاف نہیں، لیکن صرف اپنے قومی تناظر کی نمائندگی اور وضاحت کے لئیے ایک ہی جیسے معیار کی بنیاد پر ان کے دعووں کا سرسری طور پر اپنے " قومی تناظر " میں تقابل اور تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ، جو قارئین کے مطالعہ کے لئیے پیش خدمت ہے ۔

یہ اتحاد اور جزبہ کی صفات افغان ٹیم میں بار بار ذکر کر کے پیدا کر دی گئی ہیں ، یا ایسا تصور کر لیا گیا ہے ، جس طرح بھارت جیسے متنوع اقوام اور تضادات سے بھرپور اور مشتمل ملک میں ، نظریہ ضرورت کے تحت مصنوعی طور پر " بھارتی قومیت " کو کوشش کر کے، پیدا کیا گیا ہے، چاہے اس کےلئیے سیاسی قیادت کے بھاشن ، فوجی طاقت ، مزہبی اکثریت کی طاقت اور مفادات ، یا زرائع ابلاغ ( فلم وغیرہ کے میڈیم کو ایک پراپگنڈہ ٹول کے طور پر ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے ۔ اسی طرح یہ کہہ کہہ کر کے پٹھان کی " غیرت " کا نشان بندوق ہے، تو ان کی نسلوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب کے بجاے بندوق تھما دی گئی ، اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے، کہ اکثریت اب بندوق کو ہی غیرت کی علامت سمجھنے لگے ہیں، چاہے اس کی وجہ سے نسلیں اور ان کا مستقبل ہی تباہ کیوں نہ ہو جائے، بزرگ پختون لیڈر (مرحوم) باچا خان بھی یہی فرمایا کرتے تھے، کہ بندوق کے بجاے قلم اور علم ہی درحقیقت پشتون غیرت کا نشان اور معیار ہونا چاہئیے ۔

دوسری طرف ہمارا وطن ، بدقسمت پاکستان ہے، جہاں پاکستانی قومیت کے خلاف بات کرنا، اس کا انکار کرنا ، اس کی مخالفت کرنا ، اس کے جواز تک پر سوال اٹھانا، ایک فیشن اور ایک چلن بنا دیا گیا ہے، جس کی اب یہاں کی تاریخی شعور سے بےخبر اکثریت زیادہ دور تک سوچے سمجھے ، اور منطقی نتائج کا اندازہ کئیے بغیر اتباع کر رہی ہے ۔ پاکستان کے موجودہ صوبوں میں چھوٹی علاقائی قومیتوں اور ان کے لامحدود حقوق کی فرمائش اور پرچار کرنے والے ، وہاں کے بھی نسلی لسانی تضادات سے آنکھیں بند کر کے اکثریتی قومیتوں کی ان پر مشتمل یا مختض علاقوں میں وہاں کی نسلی اور لسانی اقلیتوں پر غلبے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں ، اور ان علاقوں کے اکثریتی گروہوں یا قومیتوں کی وکالت کرنے والے ، اپنے کھلے اور واضع دوہرے معیار کے تحت ، پاکستانی قومیت جس کی بنیاد ہم سب کے مشترکہ مفادات ہیں، کی مسلسل مخالفت اور انکار کرتے ہیں ۔

اگر پاکستانی قومیت کی اور اس سے وابستہ اجتماعی مفاد کی بات کی جاے تو اس کے خلاف ، اس مشترکہ پاکستانی قومیت کی مخالفت اس طرح جزبے اور شد و مد سے کی جاتی ہے گویا یہ کوئی بہت نیک کام ہو ۔مختصرا یہ کہ قومی ، لسانی ، تہزیبی تاریخی طور پر منقسم اور مسلسل باہم برسرپیکار افغانستان تو ایک قوم ہے ، تضادات اور اختلافات کی سرزمین بھارت بھی ایک " بھارتی قوم" ہے ، لیکن مشکلات ، خطرات اور لاحق سماجی و مزہبی عوارض کے باوجود ، پچیس کروڑ انسانوں کو تحفظ فراہم کرنے ، عمومی طور پر پرامن زندگی اور ایک پہچان دینے والا ، موجودہ اور آئندہ نسلوں کے سنہری مستقبل کی امید اور نوید دینے والا ، آئندہ نسلوں کی عزت وقار ترقی مساوات اور انصاف کی غیر متعصب امید " پاکستان " ان کی نظر میں ایک قوم کہلانے کا حقدار نہیں ، بہت خوب۔

واپس کریں