دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وادی کشمیر کے اولین باشندے ا ور ان کا مذہب
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
نیل مت پرانت " وادی کشمیر کا سب سے ابتدائی نذہب تھا اور کشمیر کے یہ اولین باشندے انڈس سویلائزیشن پر آرینز کے قبضے اور غلبے کے بعد آج کے سندھ ، پنجاب کے ہی علاقوں یعنی "انڈس سویلائزیشن" سے ہجرت کر کے خالی پڑی، وادی کشمیر میں آباد ہونے والے اولین باشندے تھے ۔ یہاں عظیم ستی سر جھیل کے اوڑی سے کچھ آگے ، شاید کسی زلزلیکے باعث قدرتی بند ٹوٹ جانے کی وجہ سے جھیل کا پانی زیریں طرف یعنی آج کے دریائے جہلم کی طرف خارج ہو گیا ، اس قدیم قدرتی رکاوٹ اور اس کے ٹوٹنے کے نشانات آج بھی اوڑی سے کچھ نیچے دیکھے جا سکتے ہیں اس طرح اس عظیم جھیل کے پانی کے خارج ہونے سے وادی کشمیر نمودار ہو گئی لیکن اس وادی تک پہنچنے کے تمام ممکن راستے پنجاب اور ہزارہ کی طرف سے ہی تھے ۔

جموں کی طرف اپنے دشوار گزار پہاڑی سلسلے پیر پنجال کی وجہ سے ناقابل گزر تھی اس راستے کو بھارت نے ساٹھ کی دھائی میں پانچ کلو میٹر کی " جواہر ٹنل " کی تعمیر کے زریعے قابل عبور بنایا۔ شمالی طرف بلند اور دشوار گزار درہ تراگبل اور برزل کسی بڑی نقل مکانی کو مشکل بناتے تھے ، ان راستوں کی مشکلات کا اندازہ اس داستان سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کے عظیم بادشاہ " للتا دتیہ " کے دور میں چینی ترکستان سے ایک بڑی فوج نے آ کر بلاورستان کی تقریبا تمام چھوٹی چھوٹی مقامی اور علاقائی نوعیت کی ریاستوں پر قبضہ کر لیا ، کشمیر کی تاریخ " راج ترنگنی میں رقم ہے کہ حملہ آور فوج دس ہزار افراد پرمشتمل تھی جس کا یہ چھوٹی جھوٹی ریاستیں مقابلہ نہ کرسکیں اور اس حملہ آور فوج نے ان میں سے اکثر ریاستوں پر قبضہ کر لیا ، اس پر ان ریاستوں کے قدیم راجاوں نے ریاست کشمیر کے بادشاہ " للتہ دتیہ " کو خطوط لکھے کہ ہمیں اس استبداد سے بچایا جائے ، للتا دتیہ فوج لیکر درہ تراگبل ، درہ برزل عبورکرتے ہوئے بلاورستان پہنچا ، اور قابض افواج کو شکست دیکر ان کو ان علاقوں سے واپس جانے پرمجبور کر دیا اور ان واگزار شدہ ریاستوں کا اقتدار ان کے قدیمی اصل حکمرانوں کے حوالے کر دیا ، جس پر ان سب نے شکر گزاری کے طور پر للتا دتیہ کی اطاعت کا اعلان کیا ۔ للتا دتیہ نے ان شکست خوردہ مفتوح افواج پر پابندی لگائی کہ وہ چلتے پھرتے ہوئے اپنے ہاتھ پشت کی طرف باندھ کر یعنی رکھ کرچلا کریں گے۔

راج ترنگنی کے مولف لکھتے ہیں کہ کاشغر اور اس کے ملحق علاقوں میں آج بھی لوگوں کو چلتے پھرتے ہوے اپنے ہاتھ پشت کی طرف رکھ کر چلنے کی عادت ہے ، جس کی وجہ وہی للتا دتیہ کی شرط اور حکم ہے ، جو اب ان کی عادت بن چکا ہے ۔ بات ان شمالی سمت کے راستوں کی دشواری کی ہو رہی تھی ، " للتا دتیہ " اس فتح کے بعد ان علاقوں سے اپنی فوج کے ہمراہ واپس براستہ دیوسائی آ رہا تھا تو پراسرار طور پر اپنے لشکر سمیت غائب ہوگیا ، کشمیر میں سمجھا جاتا رہا کہ یہ بادشاہ اتنا نیک تھا کہ اسے اس کے لشکر سمیت سوارگ کو آٹھا لیا گیا ،جبکہ امکان یہی ہے کہ یہ راجہ اور اس کی فوج ان علاقوں میں اچانک آ جانے والے کسی ہولناک برفانی طوفان یابرفانی لانی ( سنو سلائیڈ ) کا حادثاتی طور پر شکار بن گئے ۔

کشمیر میں آباد ہونے والے واقعی غیرت مند اور حریت پسند لوگ تھے جنہوں نے قابض اور غالب آریا قبائل کی محکومی پر ہجرت کو ترجیح دی اور کشمیر آ کر آباد ہو گئے ۔ ان ابتدائی باشندوں کا ابتدائی مذھب نیل مت پرانت تھا ، جس میں ناگ پوجا کی جاتی تھی، کیونکہ یہ ہجرت کرنے والے انڈس سویلائزیشن کے امیر اور متمول لوگ تھے اور آج تک ناگ کو خزانوں کا محافظ اور علامت سمجھا جاتا ہے، لہذا یہ لوگ بھی اپنی دولت کے محافظ کی علامت کے طور پر ناگ پوجا کیا کرتے تھے ۔ کچھ محققین کی رائے ہے کہ وادی کشمیر کے اولین آباد کار بلاورستان اور دردستان کی طرح شمال سے آ کر وادی کشمیرمیں آباد ہوئے لیکن شواہد اور قرائن اس خیال کی تصدیق نہیں کرتے کیونکہ ہمیں ان علاقوں کے قدیم آثار اور وہاں تھلپن کوہستان کے نزدیک دریافت ہوئی سنگی تصاویر میں شکار کرتے اور گھڑسوار جنگجو تو دکھائی دیتے ہیں، لیکن ناگ پوجا یا نیل مت پرانت سے تعلق کی کوئی علامت ان آثار اور منقش سنگی تصاویر میں یا وہاں اور کسی قدیم آثار میں دکھائی نہیں دیتیں ، جبکہ وادی کشمیر میں آج بھی مختلف پانی کے چشموں اور جھیلوں کے نزدیک نیل مت پرانت کی عبادت کے مقامات کے نقوش و آثار دکھائی دیتے ہیں ،بلکہ اج بھی کشمیر کے ایسے ہی قدیم اور مقدس سمجھے جانے والے مختلف چشموں اور جھیلوں کے ناموں کے ساتھ " ناگ " کا لفظ لگایا جاتا ہے ، جیسے کہ دریاے وتستہ( جہلم) کے منبع کو بھی " ویری ناگ " کہا جاتا ہے ،اسی طرح " کوکر ناگ " وغیرہ ایسے ہی نیل مت پرانت کے قدیم مذھب سے جڑے ان کی عبادت کے مقدس مقامات تھے جس میں سمجھا جاتا تھا کہ " مقدس ناگ , ان چشموں اور جھیلوں میں رہتے ہیں اور ان کے محافظ ہیں ۔ لہذا ان چشموں اور جھیلوں کے ناموں کو ان مقدس ناگوں سے منسوب کر دیا جاتا تھا ۔

ہمیں یہ بھی دیکھنا اور تجزیہ کرنا چاہئیے کہ کشمیر کے " شمال " ( بلاورستان ) میں اور شمال مغرب ( دردستان ) کی طرف کون سی اقوام آباد تھیں ، جیسا کہ آج تک ہے کہ شمال اور شمال مغرب کی طرف " شین اور یشکن اور ڈوم اقوام آباد تھیں ، شین اور یشکن خود کسی دور میں چینی ترکستان اور اس کے ملحقہ علاقوں سے ان علاقوں بلاورستان ( شمالی علاقہ جات ) اور دردستان (آج کے کوہستان ) میں آ کر آباد ہوئے ، اور ڈوم برصغیر کی طرف سے آ کر ان علاقوں میں آباد تھے ، بلکہ کئی جگہ تو یہ شین اور یشکن سے بھی پہلے سے یہاںآ اباد دکھائی دیتے ہیں ، جن کو بعد میں شمال سے آنے والے طاقتور اور جنگجو قبائل نے مغلوب کر کے ان کو معاشرے میں کمتر سماجی اور سیاسی حیثیت دے دی ۔

کشمیر کے باشندوں کی اکثریت ان شین اور یشکن لوگوں اور گلگت و بلاورستان کے مخلوط" بروق پا"لوگوں سے جسمانی وضع قطع ، سماجی ، ثقافتی اور طبیعت و مزاج میں بالکل الگ اور مختلف ہیں ۔ ان وادی کشمیر کے باشندوں کی اکثریت کی مماثلت ہمیں انڈس ویلی کے قدیم باشندوں کے ساتھ زیادہ دکھائی دیتی ہے ، جو جسمانی وضع قطع ، نسلیات، اور زبان میں الفاظ کی مماثلت ،رسم و رواج ، عادات روایات، وغیرہ کے ضمن میں قدیم سندھو ویلی کے باشندوں سے زیادہ مماثل ہیں ۔ بعدکیمختلف ادوار میں ایران ،وسطی ایشیا ، حتی کہ کاشغر تک سے تبلیغ اور کاروبار کے غرض سے لوگ آ کرکشمیر میں آباد ہوتے رہے ۔مغل حکمرانی کے دور میں بہت سے مغل قبائل اور گھرانے بھی کشمیر آ کر یہیں آباد ہوئے ، اس طرح افغان حکمرانی کے دور میں کچھ افغان اور پشتون بھی کشمیر میں آباد ہوئے ۔ سپت سندھو اور وادی گنگا و جمنا پر آریا مکمل غلبے کے بعد ہندو دھرم کے مبلغین بھی وادی کشمیر آے اور یہاں آباد ہوے لیکن اب انہوں نے یہ تبلیغ کا کام جنگ وجدل کے بجائے پیار ومحبت اور تعلق قائم کرکے کیا ۔ آج کشمیر میں آباد ہندو پنڈت اقلیت ان ہی اولین آریا مبلغین کی اولاد اور نسل ہیں ، لیکن وادی کشمیر کی آبادی کا غالب حصہ وہی انڈس ویلی سے ہجرت کر کے وادی میں اباد ہو جانے والے قدیم باشندوں پر ہی مشتمل ہے ۔

واپس کریں