دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کے پرچاری
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
پاکستان میں موجود ایک بڑی عالمی این جی او میں ایک اعلی عہدے پر فائز ہمارے ایک مہربان دوست نے ایک پاکستانی صحافی کے ویب پیج پر کچھ ایسے خیالات کا اظہار فرمایا جن سے یہ تاثر پیداہوتا ہے کہ جیسے مقبوضہ کشمیر میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور وہاں کے باشندے بھارت کے ساتھ بالکل خوش اور مطمئین ہیں جبکہ موصوف نے آزاد کشمیر کے بارے میں کچھ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے اصل "غلام" اور شدید تعصب پسماندگی اور مصائب کا شکار تو یہاں کے باشندے ہیں ، تو راقم نے وہیں ان کے ارشادات کے جواب میں صرف ریکارڈ کی درستی کے لئیے چند گزارشات تحریر کیں جو قارئین کے مطالعہ کے لئیے پیش ہیں۔

آپ کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حالت اور سوچ کا زرا سا بھی اندازہ یا معلومات نہیں ہیں ، زرا ویزا لے کر وہاں تشریف لے جائیں ، وہاں کے باشعور اور تعلیم یافتہ لوگوں سے خود ملیں ان کی زہنی آزادی ، رجہان اور ماحول کا جائزہ لیں ، تب آپ جو بھی کہیں گے تسلیم ہو گا، یہاں یا بیرون ملک چند مشکوک پس منظر والیبھارتی زبان بولنے والے افراد سے مل کر یا ان سے پوچھ کر کبھی مقبوضہ کشمیر کی کیفیت کو جانا سمجھا نہیں جا سکتا ،ان عناصر سے معلومات لے کر بھاشن دینے سے بہتر ہے کہ براہ راست نریندر مودی ، راج ناتھ سنگھ یا اجیت دوگل کے ارشادات اور خیالات کو ہی دھرا دیا کیجئیے، کہتے وہ بھی یہی کچھ ہیں جو آپ فرما رہے ہیں، لیکن زرا واضع الفاظ میں ، مختصرا اور براہ راست ۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ بھی اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر تشریف لے گئیں تھیں اور وہاں انہوں نے حکام کے علاوہ سول سوسائٹی اور طلبا سے ملاقاتیں کیں ، تو محترمہ کا بیان میڈیا پر موجود ہے، اس بیان میں انہوں نے فرمایا تھا کہ کشمیر کے لوگوں سے مل کر اور ان کے خیالات جان کر میری آنکھیں کھل گئی ہیں ،کشمیر میں کوئی بھی، کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا ۔ اس بیان اور اظہار حقیقت پر بھارتی حکومت ان سے شدید ناراض بھی ہو گئی تھی ۔

راقم کے خاندان کا تعلق چونکہ مقبوضہ کشمیر سے ہی ہے، اور ہماری ساری برادری وہیں اپنے آبائی علاقوں میں صدیوں سے مقیم ہیں، لہزا ان کے جزبات کی بیبنیاد ترجمانی کسی ایسی شخصیت کوکرتے سن کرجنہوں نے کبھی مقبوضہ کشمیر دیکھا تک نہیں نہ وہ وہاں کی زبان کا ایک لفظ تک بول یا سمجھ سکتے ہیں ان کا اس موضوع پر یہ بالکل سطحی ، فاصلاتی اور بیبنیاد موقف سن یا پڑھ کر اس بارے میں کشمیری عوام اور وہاں کی اکثریت کا موقف بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے ۔

ایک عجیب بات میرے مشاہدے اور تجربے میں آئی ہے کہ پاکستان یاآزاد کشمیر میں بیرونی این جی اوز " سے " وابستہ یا ملازم افراد ایک مخصوص مکتبہ فکر کے حامل اور اس کا پرچار کرتے دکھائی دیتیہیں، اور بڑی آسانی سے تھوڑا سا بھی غور کرنے پر ان کے موقف ،بیانات ، رجہان کی حیرت انگیز بلکہ پراسرار مماثلت سامنےآتی ہے ۔ پاکستان کے عوام کی کشمیر اس کے جغرافیائی حقائق ، لسانی ، ثقافتی سماجی اور سیاسی تفریق سے ناواقفیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوے ان تک بھارتی موقف ہی زرا مختلف الفاظ میں ، زرا مختلف پیکنگ میں پیش کرنا بالکل مناسب نہیں ہے ۔ آپ کا تعلق آزاد کشمیر کے جس دور دراز تقریبا سرحدی علاقے سے ہے اس کا آج سے پچاس برس قبل اور اب کے حالات ، سہولیات کا ہی موازنہ فرما لیجئیے ان علاقوں کا موازنہ سوئٹزرلینڈ کے ساتھ نہ فرمائیے گا کیونکہ عمومی طور پر پاکستان پورے میں کہیں اس کی مثال صادق یا منطبق نہیں آتی ۔ لہزا اس علاقے کا وہیں کے ساتھ موازنہ کرنا قرین انصاف ہے ۔

چند برس قبل مقبوضہ کشمیر سے ہمارے والد کے دوست سینئیر صحافی اور روز نامہ " سرینگر ٹائمز " کے ایڈیٹر صوفی غلام محمد صاحب ( مرحوم ) اور کشمیر کلچرل اکیڈمی کے اس وقت کے سربراہ مشہور سکالر محترم محمد یوسف ٹینگ پاکستان تشتریف لاے، ان کوہم نے آزاد کشمیر کا بھی تفصیلی دورہ کروایا صوفی غلام محمد صاحب نے تقسیم سے قبل بھی یہ علاقے دیکھ رکھے تھے، وہ یہاں کی پہلے کی حالت کے مقابلے میں ترقی دیکھ کر حیران رہ گئے، اور ان کے مطابق ان علاقوں نے مقبوضہ کشمیر کے پہلے سے ترقی یافتہ علاقوں کی نسبت شرح کے لحاظ سے زیادہ ترقی کی ہے، کیونکہ تقسیم سے قبل ان علاقوں میں شہری ، ترقیاتی اور تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں جبکہ اس کے مقابلے میں مقبوضہ کشمیر اس وقت بھی اپنی نوعیت اور علاقے کے لحاظ سے ترقی یافتہ علاقہ تھا ۔۔۔۔۔ ہے جہاں ( مقبوضہ کشمیر میں) اعلی ترین تعلیمی ادارے ، ائیر پورٹس ، تفریحی مقامات ، کاروباری مواقع اعلی ہوٹلز ، وافر زرعی اور صنعتی پیداوار وغیرہ سب کچھ تھا ۔ جبکہ ان علاقوں ( آزاد کشمیر ) کو ان کی پسماندگی کی وجہ سے تقریبا " جنگلی علاقے " سمجھا جاتا تھا ۔ لہزا ترقی کی شرح کے لحاظ سے ان علاقوں کی ترقی زیادہ ہوئی ہے ۔

تقسیم سے قبل ڈوگرہ مہاراجہ کے دور میں ان علاقوں کو " پہاڑ پور " کہا جاتا تھا اور سرکاری ملازمین کو سزا کیطور پر ان علاقوں میں بھیجا جاتا تھا ۔ آج ان علاقوں میں زندگی بالکل بدل چکی ہے ، یہاں کے باشندوں کے لئیے پورا پاکستان کھلا ہے یہ بغیر کسی پابندی یا تعصب کے پورے پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے ، اعلی نوکریوں پر فائز ہوتے ، کاروبار کرتے اورجائیدادیں خریدتے ہیں ۔ ان سے عمومی طور پر محبت اور احترام کا رویہ رکھا جاتا ہے ان سے کوئی تعصب نہیں برتا جاتا ، جس بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ترقی اورباشندوں کی خوشحالی اور سکون کی کہانیاں صاحب سنا رہے ہیں، وہاں کے باشندوں سے پوچھیں وہ جب کسی کام سے بھارت جاتے ہیں، توان کوکشمیری مسلم ہونے کی وجہ سے کوئی ہوٹل کاکمرہ تک نہیں دیتا ، وہ وہاں ہر وقت ایک خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار رہتے ہیں ، جموں گو کہ ریاست کا حصہ ہے، لیکن وہاں بھی ہندو اکثریت میں جب کوئی کشمیری مسلم جاتا ہے تو وہ وہاں بھی مسلسل ایک خوف کے عالم میں رہتا ہے ۔ سینکڑوں کشمیری بغیر کسی جرم کے صرف اپنے نظرئیے کی پاداش میں تیس تیس سال سے بھارت کی جیلوں میں بند ہیں ، بھارتی حکومت کی طرف سے ان کی جائیدادوں کو ضبط یا مسمار کیا جا رہا ہے ۔

فاروق عبداللہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خاندان نے کشمیر کو بھارت میں شامل کروایا ، ہم نے ہندووں اور سکھوں میں اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادیاں کیں، لیکن پھر بھی بھارت میں ہم پر اعتبار نہیں کیا جاتا ،یہ حال اور کیفیت ہے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی علامت سمجھے جانے والے عبداللہ خاندان کی ۔ بھارت میں پچیس کروڑ مسلمان ہیں لیکن وہاں کانگریس کی طرف سے لوک سبھا کی ممبر رہ چکی مشہور شخصیت شبانہ اعظمی کہتی ہیں کہ ہمیں مسلم نام ہونے کی وجہ کوئی فلیٹ تک کراے پر نہیں دیتا ، گجرات فسادات میں اسی نریندر مودی کی وزارت اعلی کے دور میں ممبر راجیہ سبھا مجاہد آزادی کانگریس کے سینئیر لیڈر احسان جعفری کو ان کی سرکاری وزرا کالونی میں رہائش گاہ پر کرسی سے باندھ کر ان کے سامنے ان کی بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی، اور پھر ان کو باپ کے ساتھ نزر آتش کر کے راکھ بنا دیا گیا ۔ ابھی حال ہی میں یو پی جہاں ساڑھے چار کروڑ مسلم ووٹر ہیں چھ بار بھارتی لوک سبھا کے ممبر رہ چکے عتیق احمد ان کے بھائی شفیق احمد کو پولیس حراست میں کس طرح سرعام اجرتی قاتلوں سے ہلاک کروایا گیا ، ان کے نوجوان سترہ سالہ بیٹے کو گرفتار کر کے جعلی انکاونٹر میں ہلاک کیا گیا ، ان کی جدی پشتی جائداد کوبلڈوروں سے مسمار کیا گیا ،ان کی بیگم کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا گیا ، میڈیا پر سب نے دیکھا کہ وہاں کے مسلمانوں سے جب میڈیا مین عتیق احمد اور اس کے خاندان کے قتل اور بربادی پر ان کی راے پوچھنے کی کوشش کرتیتو ، احساس بیبسی سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے لیکن وہ خوف کی وجہ سے زبان سے کچھ بولنے کی جرات نہ کرتے ۔ وہاں کا وزیر اعلی درندہ صفت سوامی آدیتیہ رائے کہتا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ بھارت کے پچیس کروڑ مسلمانوں کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ انھیں "شیڈول کاسٹ" یعنی ( چوڑے چماروں ،کم زات افراد کا صیغہ ) میں شامل کیا جاے تاکہ ان پچھڑی زاتوں کے لئیے حکومت نے نوکریوں میں جو کوٹہ رکھا ہوا ہے اس میں سے ہی مسلمانوں کو کچھ تو نوکریاں مل سکیں ۔

برادر محترم بھارت کی ترقی دکھا کر شاید ہمیں اس " باعزت " شیڈول کاسٹ میں شمولیت کے امیدواروں میں شامل کرنے کے لئیے للچا رہے ہیں ۔ جیسے کسی پسماندہ علاقے کا معصوم بچہ پہلی بار شہر کی بتیاں ،ٹریفک اور ٹرینیں دیکھتا ہے، تو وہ اس کے لئیے عجوبہ ہوتی ہیں، اسی طرح برادر محترم جنہوں نے مقبوضہ کشمیر نہیں دیکھا ، یا صرف بھارتی فلموں میں دیکھا سنا ہے، وہ کشمیریوں کو وہ پسماندہ گاوں کا بچہ سمجھ رہے ہیں، جس نے پہلی بار بتیاں اور ریل دیکھی ہو اور حیرت اور خوشی میں تالیاں بجا رہا ہو ۔ دنیا نے، پاکستان نے،بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیری عوام سے ان کیمستقبل کا حتمی فیصلہ ان کی راے اور مرضی یعنی ان کے حق خود ارادیت کے مطابق کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے ، اب بھارت چاہیسر قلم کرے یا سونے کے نوالے کا لالچ دے کشمیری اپنے مطالبے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے اور تمام سازشوں اور مشکلات کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں اپنی جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہیں ۔ " سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا "
واپس کریں