دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کا لاوارث قومی تشخص
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ہمارے ایک محترم دوست نے اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ افغان ایک قوم ہیں ، اور وہ ایک قومی ریاست ہے, جبکہ پاکستان میں کی اقوام ہیں لہذا یہ ایک قومی ملک نہیں ہے ،تو راقم نے اس موضوع پر ان کی خدمت میں اپنا موقف بھی پیش کیا۔ افغان بھی کئی اقوام کا مجموعہ ہیں ۔ وہ پختون ، تاجک ، فارسی بان ، ازبک اور دیگر بہت سی دیگر چھوٹی بڑی اقوام کا مجموعہ ہیں ۔ اگر تفریق اور فرق ہی دیکھنا ہو تو کسی بھی علاقے مثلا پوٹھوہار کو ہی دیکھ لیں، اس میں کتنی " اقوام " آباد ہیں۔ کیا اب محلے ، گائوں ، قصبے اور شہر کے تناسب اور اکثریت کی بنا پر تقسیم کریں گے؟ تب بات رشتے داریوں اور گھروں کی اسی بنیاد پر تقسیم تک جائے گی؟ مسئلہ پھر بھی حل ہونا ممکن نہیں ۔

پاکستان میں ایک قوم بننے کے بہت سے مضبوط دلائل، وجوہات اور علامات و امکانات ہیں۔ یہ تصور اتنا مضبوط ہے کہ اس نے متحدہ ہندوستان کی اکثریتی اور زیادہ متمول وبااثر ہندو اکثریت کی مخالفت کے باوجود اپنے لیے ایک الگ خودمختار ملک بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی ، جس میں بہت بڑا اور بنیادی کردار اس وقت کی باشعور مسلم قیادت کا ہی تھا، جنہوں نے مختلف قسم کے اختلافات ، عصبیات اور تعصبیات کے شکار مسلمانوں کی اکثریت کو ایک واضح مقصد دے کر اکھٹا کر دیا اور اپنی منزل مراد حاصل کر لی ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مخلص اور ولولہ انگیز قیادت سے بہت جلد محروم ہو گیا ,۔ اس کے بعد پاکستان کے سیاسی پارلیمانی نظام کے خلاف کچھ عالمی طاقتوں کی مرضی کے مطابق ریشہ دوانیاں اور سازشیں شروع ہو گئیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا ۔ ان کے قاتل کو بھی گرفتار کرنے کے بجائے موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا ۔ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے اور اس کیس کے شواہد حیدرآباد کے نزدیک ایک طیارہ حادثہ میں ختم ہوگئے۔ اس کے بعد اس رہے سہے اقتدار کو سیاسی قیادت سے چھین کر ریٹارڈ بیوروکریٹس کے حوالے کر دیا گیا ۔پاکستان کا اقتدار ایک میوزیکل چیئر اسے بوجوہ فروغ بھی دیا ۔

جب کہ اس کے جواب میں جس لیڈر شپ کو پاکستانی قوم کا سلوگن دینا تھا،وہ بار بار آمریت کی گود میں جا بیٹھتی رہی اور اگر بہ رضاو رغبت نہ بیٹھتی تو آمر اپنی گود میں بٹھانے کے لیے انھیں منسوخ ومسترد کرتے ہوے اپنی مدد کے لیے نئی سیاسی قیادتیں تشکیل دے لیتے ۔اس پر بھی بے یقینی اور سیاسی قیادتوں پر عدم اعتماد کا عالم یہ رہا کہ نوبت غیر جماعتی مجلس شوری تک بھی پہنچتی پاکستان کے عوام نے دیکھی۔ ریفرنڈم میں جنوں اور بھوتوں کو بھی ووٹ ڈالتے پھٹی ہوئی حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ دیکھا ۔ اس طرح علاقائی قوم پرستوں کے لئیے میدان بالکل خالی چھوڑا گیا اور اب تو ان کو پاکستان کے موجودہ ابتر حالات معاشی ناگفتہ بہہ صورتحال کی بدولت پاکستان کی تاریخ , جواز اور ضرورت سے ناآشنا نوجوان نسل کے ازھان تک براہ راست یکطرفہ رسائی حاصل ہو چکی ہے اور پاکستانی قومیت کے نظریے کو ایک جرم اور گناہ جیسی حیثیت میں پیش کیا جانے لگا ہے ۔

پاکستان کے روایتی دشمنوں نے بھی اس صورتحال کو بڑھانے ، ابھارنے میں اپنا کردار اداکیا ہے اور انہوں نے پاکستان میں سرگرم عمل کسی مضبوط نظریاتی بنیاد اور سوچ سے بے خبر اور اس وطن کے قیام کے مقصد سے ناآشنا نسل کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان کے بہت سے نام نہاد دانشور و دیگر کی مدد اور استعمال سے اپنے وطن کے تاریخی جواز سے ناآشنا اور بے خبر نوجوانوں کی سوچ کو اس وطن کی اہمیت , ،مقاصد اور جواز کے بارے میں مایوسی کا شکار بنانے کا کام کھلے عام کیا جا رہا ہے۔ ایسی سوچ کو اس طرح نوجوانوں اور عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ ملک اور قوم دشمن سوچ رکھنا بہت دانش کی بات اور ترقی پسندی کی علامت ہے ۔ دوسری طرف پاکستان پر مسلط کردہ اس اندھیرے ساے یعنی آمرانہ سوچ نے جس طرح اپنے مقاصد کے لیے جواز پاکستان، نظریہ پاکستان اور پاکستان کی طرح عوام اور نوجوانوں کی سوچ اور نظام تعلیم کو اس طرح سوچے سمجھے منصوبہ بند طریقے سے متاثر کیا، پاکستان کی تاریخ کومسخ کیا ، اس ملک کے نظام تعلیم کو ایسا بنا دیا گیا کہ اس میں سے باشعور انسانوں کے بجاے صرف زومبی ذہنیت ہی برآمد ہو رہی ہے جن کو باآسانی مذہب اور مملکت کے نام پر کسی بھی طرف کو ہانکا جا سکتا ہے ۔ پاکستان میں آمریت اور اس کی خواہش نے اپنی ہی پیداکی گئی اس جاہلیت اور مقاصد سے لاعلمی سے پورا پورا فائدہ بھی اٹھایا۔ حتی کہ اب یہ نوبت آ چکی ہے کہ اب پاکستان میں مطالعہ پاکستان ایک طعنہ اورطنز بنا دیا گیاہے ۔ اسی کا نتیجہ ہم آج پاکستان کے موجودہ سیاسی ، سماجی ، اقتصادی ، فکری ، نظریاتی زوال کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔

آج بھی کوئی بڑی پارٹی پاکستانی قومیت کا سلوگن لے کر قوت ، اخلاص اور سچائی کے ساتھ سامنے آئے تو پاکستان کے عوام کی اکثریت آج بھی ان ہی کی حمایت کرے گی ۔مثال کے طور پر موجودہ پاکستان پیپلز پارٹی نے، جس کی قوت کا مرکز بنیادی طور پر سندھ ہے لیکن پورے ملک میں سیاست کرنے لے لئیے وہ بھی " پاکستان کھپے " کا اظہار کر کے اپنے پائوں جمانے کی جگہ ڈھونڈتے ہیں ، باقی صوبوں کی قوم پرست قیادتیں بھی جب اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں، تو ان کی نمائندہ قیادتیں وہاں پاکستان میں جمہوریت اور قومیت کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا پاکستان کی اسمبلیوں میں پہنچنا ، وہاں بیٹھنا پاکستان کے پارلیمانی نظام سے اپنے آئینی اور قومی حقوق کے حصول کی امید رکھنا ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کی حب الوطنی اور اخلاص پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت کیا ہے ۔ مشر محمود خان اچکزئی اور اے این پی کی قیادت اس بات کی روشن مثال ہیں ۔اپنے علاقوں کے اور وہاں رہنے والے عوام کے جمہوری و آئینی حقوق کا مطالبہ کرنا ، ملکی ترقی میں ان کی نمائندگی کی خواہش کسی بھی علاقے کے عوام کی قیادت کے جائز ترین مطالبات ہوتے ہیں۔لیکن بدنیتی سے ان جمہوری اور آئینی مطالبات کو " آمرانہ سوچ " اپنے مفادات کے تحت غلط سمت یعنی علاقائی نفرت انگیز قوم پرستی حتی کہ ملک دشمنی تک کی طرف موڑنے اور الزام دینے کا حربہ استعمال کرتی ہے ۔

آج کے پاکستان کے موجودہ بدترین حالات میں، جنھیں ملک کی سیاسی و غیر جمہوری تاریخ کے شاخسانے کے طور پر بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے ، پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ کوئی بڑی سیاسی جماعت اخلاص اور سچائی کے ساتھ دوبارہ سے پاکستانی قومیت کا پرچم بلند کرے تاکہ آج بھی اپنے وطن پاکستان سے محبت کرنے والے عوام کی اکثریت کو ایک مرکزپر اکھٹے ہونے اور اپنے وطن کی خدمت اور ترقی کا موثر پلیٹ فارم مہیا ہو سکے ۔ اس طرح پاکستانی قومیت کے خلاف سازشوں کا عوامی اندازمیں عوام کی رائے سازی اور مدد کے زریعے جمہوری طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔ منطقی طور پر یہ نعرہ اپنانے اور پاکستانی قوم، ا پرچم بلند کرنے کی صلاحیت اور اہلیت ہمیں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں دکھائی دیتی ہے لیکن اس نظریاتی احیا ء کی ذمہ داری کی اہلیت حاصل کرنے کے لئیے انھیں اپنی صفوں کی تطہیر و ترتیب نو کی شدید ضرورت ہے ۔

ہم ان سب علاقوں جو آج پاکستان پر مشتمل ہیں قدیم ترین تاریخ کے مطابق ان سب علاقوں کو مشترکہ طور پر انڈس سویلازیشن کہا اور لکھا جاتا ہے ، توآج ہم اس ہی تہذیبی اکائی کو پاکستان کہتے کیوں شرماتے ہیں ۔ ہمارے آس پاس کے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں ہمیں اپنے مقام اور پاکستانی قومیت اور وطن کی اہمیت کا شعوری تجزیہ ضرور کرنا چاہیے کہ اپنے وطن سے مایوسی کا اظہار کر کے اسے ہی ہر مصیبت اوربرائی کی جڑ بتا کر ہم آخر متبادل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کس جگہ، کس کے زیر سایہ، کون سا مقام، حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کی امید رکھتے ہیں؟کیا ہم نریندر مودی سے ،افغان طالبان سے ، ایرانیوں سے یا چینیوں سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہمیں اپنے زیر سایہ لے کر ہماری حسبِ منشا کفالت کریں گے؟یا مغلیہ دور کے بعد کا پنجاب بننا چاہتے ہیں، جہاں ہر سال بیرونی حملہ آور آ کر تمام جمع شدہ مال و متاع ، عزت و آبرو، بزور چھین کر لے جایا کرتے تھے ۔ ذرا سوچئیے گا۔


واپس کریں