دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان پر امریکی دلچسپی کے موضوعات اور اثرات
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
تقسیم کے وقت برصغیر کی زیادہ تر صنعت , بھاری کارخانے , اور تعلیمی ادارے و مرکزی بیوروکریسی بھارت میں تھے , حتی کہ تمام اسلحہ ساز کارخانے تک بھارت میں تھے۔ پاکستان کے علاقے اپنے نہری نظام کی وجہ سے صنعتی نہیں بلکہ زرعی پیداوار والے علاقوں کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ اب بھی پچھلے پندرہ بیس سال میں بھارت کو امریکہ کے ساتھ کھل کر سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر کردار اور چین کے خلاف اس سیوابستہ امریکی امیدوں کی وجہ سے مزید تیزی سے ترقی ,جدیدیت اور بھاری بیرونی سرمایہ کاری اورجدید صنعت کاری سے فادہ اٹھانے کا موقع ملاہے, جس سے اس نے بھرپور طریقے سے فادہ اٹھایا ہے ۔ لہذا وہی نریندر مودی جسے امریکہ اس کے متعصِب اور متشدد نظریات وکردار کی وجہ سے امریکہ کا ویزا تک دینے سے انکاری تھا , اسی نریندر مودی کو اب امریکی مفاد کے پیش نظر سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔

گو کہ بھارت اور امریکہ کا خفیہ تعاون انیس سو باسٹھ کی ہندچینی جنگ کے وقت جان ایف کینیڈی کے دورسے جاری تھا ، گو کہ ظاہری طور پربھارت خود کو غیر وابستہ ملک قرار دیتا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ اور پنڈت جواہر لال نہرو اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے درمیان بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والے ایک خفیہ دفاعی معادے کی خبریں کافی سال بعد سامنے آیئں،جس کے تحت ہی ہند چین جنگ کے دوران میں امریکہ نیامداد کے طور پر بھارت میں جدید ہتھیار بڑی تعداد میں مہیا کیے ۔ اب یہ تعاون اور اس کی بیشتر تفصیلات کھل کر سب کے سامنے ہیں ۔ ادھر پاکستان نے بھی روس کے خلاف تشکیل دیے گے امریکی فوجی اتحاد سیٹو میں شمولیت اختیار کر لی , اور امریکہ سے اپنی فوج کے لیے جدید ہتھیار حاصل کر لیے ۔گو کہ پاکستان کے عوام کو امریکہ کے ساتھ اس فوجی اتحاد میں شمولیت کے فیصلے کی وجہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے لاحق خطرات اور عدم تحفظ کے احساس کوبتایا گیا لیکن پاکستان کے اس امریکی فوجی اتحاد میں شمولیت کے فیصلے کوبہانہ بنا کر پنڈت نہرو اقوام متحدہ , پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ کئے گئے کشمیر میں راے شماری کروانے کے وعدے سے مکر گئے ۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فوجی امداد کے معادے میں پاکستان کو پابند کیا گیا تھا کہ یہ امدادبھارت کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکے گی ۔

جب ایوب خان کو نصف شب کے وقت گہری نیند سے اٹھا کر ان کے سیکریٹری نے چینی پیغام پہنچایا کہ ہند چین جنگ کی وجہ سے موقع ہے کہ ایوب خان کشمیر میں فوج داخل کر دے۔اس پر بقول الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب ایوب خان نے ناگواری کا اظہار کیا , اور یہ کہتے ہوئے دوبارہ سونے کے لیے چلے گے کہ یہ فوج کی نقل و حرکت کو مذاق سمجھتے ہیں ۔اس کے پس پردہ یہ وجہ تھی کہ امریکہ نے پاکستان کوواضع الفاظ میں یہ دھمکی دی تھی کہ اس جنگ کے دوران کوئی مداخلت یا بھارتی کشمیر پرحملہ براہ راست امریکہ پر حملہ سمجھا جاے گا۔اسی وجہ سے ایوب خان نے یہ حملہ کرنے جرات نہیں کی ۔ لیکن اس دھمکی کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان کو بھی ہاتھ میں رکھنے کے لیے یہ وعدہ بھی کیا کہ اس جنگ کے بعد امریکہ مسلہ کشمیر حل کروانے کے لیے بھارت پر دباو ڈالے گا۔لیکن بھارت چین جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے اپنے وعدے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی ۔ تب ہی ایوب خان نے امریکی وعدہ خلافی سے مایوس ہو کر انیس سو پینسٹھ کی جنگ چھیڑ دی۔ اس پرامریکہ نے پاکستان کے پاس موجودامریکی ہتھیاروں اور ایرفورس کے امریکی جہازوں کے لیے سپیر پارٹس اور ایمونیشن کی سپلای روک دی تھی, کیونکہ امریکہ کے موقف کے مطابق, یہ ہتھیار صرف سوشلسٹ روس کے خلاف استعمال کے لیے دیے گے تھے ۔ بھارت سے پاکستان کی جو فضائی جھڑپ چند برس قبل ہوی تھی جس میں بھارتی جہازگرا کر پالٹ ابھینندن کو گرفتار کیاگیا تھا اس پربھارت نے بھی پاکستان کی طرف سے ایف سولہ جہازوں سے حملہ کرنے اور ایک پاکستانی جہاز گرا دینے کا دعوی کیا ، جس پر ایک امریکی خاتون نمائندہ نے پاکستان آکر عملی طور پر دیے گے ایف سولہ جہاز گِنے کہ کہیں کوئی ایف سولہ جہاز بھارت کے خلاف تو استعمال نہیں کیا گیا۔ جب یہ ایف سولہ جہاز دی گئی تعداد کے مطابق پورے پائے گے تو ہماری طرف سے بھی فخریہ طور پر یہ بیان دیا گیا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت اس معاملے میں جھوٹ بول رہا ہے کہ ہم نے ان جھڑپوں میں ایف سولہ جہاز استعمال کیے ہیں ۔اب امریکی گواہی جو جہازوں کی گنتی کے بعد جاری کی گی ہمارے موقف کی سچائی کا ثبوت ہے,یہ حالات تھے۔

پھر بھی ان سب معاملات کے باوجود شروع کے برسوں میں پاکستان نے بہت تیزی سے ترقی کی۔ لیکن پھر امریکہ نے یہاں غیرنمائندہ آمروں کی حوصلہ افزائی کر کے اور مصنوعی سیاسی قیادت اور بالواستہ طور پر سیاسی بحران پیدا کر کے اس ترقی کا راستہ روک دیا اور پاکستان میں جمہوری نظام کی پیش رفت کو تباہ و برباد کرنے میں سرگرم کردار ادا کیا ۔جب بھی پاکستان میں جمہوری نظام لانے اور اس کو تسلسل دینے کی کوشش کی گی، امریکہ نے کسی نہ کسی بہانے پاکستان پرپابندیاں لگادیں،اور اس کی ہر قسم کی امداد روک دی گی ۔امریکہ پاکستان تعلقات کی کی پوری تاریخ میں جب بھی امریکہ پاکستان کے قریب آیا اور اس سے اپنے قومی مفادات پورے کروائے ایسا ہمیشہ پاکستان میں آمرانہ ادوار میں ہی ہوا وہ ایوب خان کادور ہو یاجنرل ضیا الحق کا جہادی دور یاپرویزمشرف کا دس سال پرمحیط روشن خیالی کا دور ہو ,،امریکہ ہمیشہ ان ادوارمیں ہی پاکستان پرمہربان رہا ۔ لیکن ان ادوار میں بھی امریکہ نے کبھی پاکستان کو ایسی امدادنہیں دی نہ کوئی صنعت یاکارخانے لگانے کے لیے امداد دی کہ پاکستان اس امداد سے کہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی طرف نہ چل نکلے ۔ دوسری طرف قیام پاکستان کے چند ہی سال بعدپاکستان کے امریکی کیمپ کا حصہ بننے کے فیصلے کے بعد سے ، پاکستان نے روس کیخلاف امریکی فوجی وسیاسی اتحاد کاحصہ بننے کا انتخاب کیا اور روس کے خلاف جاسوسی کے یو ٹو والے واقعے سے لے کر جنگ افغانستان تک روس کیخلاف ہر امریکی کاروای میں سرگرم حصہ لیا ۔ اس کے باوجود روس نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان کو ترقی کیلیے بیش قیمت اور ضروری اثاثے کے طور پر جدید ترین کراچی سٹیل مل لگاکر دی۔ بلوچستان میں روس معدنیات کی تلاش کے لیے جدید آلات کے زریعے سروے بھی شروع کرنے کو تھا لیکن اسی اثنامیں زوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا کر پاکستان کی ترقی کی طرف پیش رفت کی ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا گیا۔

ذوالقار علی بھٹو کو اقتدار سے اتارنے کی تحریک کے دوران یہاں امریکی نماندوں کی پراسرار نقل و حرکت نوٹ کی گی ،حتی کہ امریکی سفیر بریف کیس اٹھائے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ تک میں آتے جاتے دکھائی دینے لگے ۔ اس کے بعدجنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں پاکستان کے ملک کو ایک جنگی اور انتہا پسندانہ معاشرے میں تبدیل کر دیا گیا اور ایک طرح سے افغانستان میں جنگ کاانتظام وانصرام ہماری معیشت قرار پائی ۔امریکی سرپرستی میں افغان جنگ میں افرادی قوت مہیا کرنے کے مقصد سے ہزاروں کی تعداد میں مدارس قام کیے گے جن کاکام, مفت دِینی تعلیم کے نام پر افغانستان کی جنگ کی آگ میں جھونکنے کے لیے پاکستان کے غریب ترین طبقات کے بچوں کو , اس جنگ کا ایندھن بنانااور اس افغان جنگ کے لیے افرادی قوت مہیاکرنا تھا , اس جنگ میں پاکستان کے غریب ترین طبقے کے ہزاروں نوجوانوں کو اس جنگ میں شہید کروایا گیا اور ان کے خون پر مفادات کچھ اور لوگوں نے حاصل کیے ۔ اس ہی قام کردہ نیٹ ورک کے تباہ کن اثرات ہمارا معاشرہ اورملک آج تک بھگت رہا ہے ۔امریکہ کی امداد کا ارتکاز پاکستان پر قابض کسی بھی عوامی جوابدہی سے آزاد وماورا آمروں تک کی امداد تک محدود رہا, جنہوں نے پاکستان کی ریاست کے مفادات کی قیمت پر امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے زاتی مفادات اورسرپرستی کے عوض آلہ کار کے طور پرکام کیا , اور اس کے عوض بھاری زاتی مفادات اور اپنی ناجاز حکومتوں کے جواز کے ضمن میں امریکی سرپرستی اور سیاسی مدد حاصل کی ۔

اب بھی افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ بنائے اور پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث دہشت گرد بھی پاکستان میں اپنی دہشت گردی کی کاروایوں کے لیے جدید ترین امریکی اسلحہ اور آلات ہی استعمال کر رہے ہیں , جوامریکہ افغانستان سے جاتے ہوے بھاری مقدار میں ان کے لیے چھوڑ گیا , گو کہ کل ہی امریکہ نماندے نے اس سے انکار کیا ہے لیکن زمینی شواہد اور حقاق امریکی نماندے کے اس تردیدی بیان کی تصدیق نہیں کرتے ۔ حالات کومجموعی طور پر تاریخ اور حقاق کے تناظر میں دیکھنا اورسمجھنا چاہیے تاکہ ہم میں اپنے مسال کو سمجھنے اور ان کی درستگی و سدباب کی موثر حکمت عملی اپنانے کا شعور پیدا ہواور ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کے سدھار کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ اقوام اور ممالک اپنی زندگی میں بہت سے مراحل سے گزرتے ہیں اور اپنے وجود کے منطقی جواز تک پہنچنے کے سفر کے دوران ایسے مراحل اور مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔ان مشکلات اور صورتحال کا ایک فادہ بھی ہوتا ہے کہ عوام کی توجہ اپنے اصل مسال کی طرف مبذول ہوجاتی ہے۔وہ ان کو پہچان کر ان پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر اس کے نتیجے میں وہ وقت بھی آتا ہے جب وہ شعوری طور پر ان مسال کو حل کرنے پر قابل ہوجاتے ہیں اوراپنے نقصان اورمفاد کا درست شعور حاصل کرلیتے ہیں ۔ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک انہی یاایسے ہی مراحل سے گزر چکا ہے،ہم اپنی روایت اور عقیدت پسندانہ طبیعت کی وجہ سے علم و شعور میں دنیا سے پیچھے رہ چکے ہیں لیکن کبھی نہ کبھی ہم بھی ,علم و عرفان ، شرفِ انسانیت اور ترقی وخوشحالی کی اس منزل تک پہنچ ہی جائیں گے جوانسانیت کا اصل مقصد رہا ہے ۔
واپس کریں