دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تاریخ کا کھلواڑ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک محترم فیس بک فرینڈ نے مہاراجہ کے دور میں ریاست میں " قانون " کی حکمرانی ، پینے کے پانی والے چشموں پر باولیوں کی تعمیر، درخت کاٹنے پر پابندی جیسے اقدامات کا موازنہ آج کے دور کے ساتھ کیا اور آج کے دور کو نیلی ٹینکیوں اور " گاوے گوشت" والے دور سیتعبیر کیا ، ان کی تحریر سے یہ تاثر ابھرا کہ شاید وہ دور کوئی آئیڈیل دور تھا ، جس میں پرجا آج کی نسبت زیادہ مطمئین ، خوشحال اور " آزاد " تھی تو راقم نے ان کی خدمت میں اس ضمن میں چند گزارشات رقم کیں جو قارئین کی دلچسپی اور مطالعے کے لئیے پیش خدمت ہیں ۔

یہ انتظامات اور اقدامات مہاراجہ اس لئیے کرتا تھا، کہ پوری ریاست اس کی زرخرید ملکیت تھی، پرجا کو مالکانہ حقوق کے بجاے استعمال کے حقوق مہاراجہ کی مرضی سے عارضی طور پر تفویض کئیے جاتے تھے ، ہر زمین ہر رقبہ کی حتمی ملکیت مہاراجہ کی ہی تصور ہوتی تھی ، جس میں وہ اپنے مفاد اور ضرورت کے لئیے ، بہتری اپنی زاتی ملکیت کی کیا کرتا تھا ، آج جو کہتے ہیں کہ ایک درخت چاہے وہ اپنے زیر استعمال زمین پر ہی کیوں نہ ہو کاٹنا منع تھا تو چونکہ حتمی ملکیت مہاراجہ کی تھی وہ کیسے کسی کو " اپنی زمین " میں سے درخت کاٹنے دیتا ، آج کیا کوئی غریب شخص بھی اپنی ملکیت میں سے کسی کو درخت کاٹنے دیتا ہے ؟ مہاراجہ اپنی خالصتا زاتی ملکیت میں اضافہ اور بہتری کرتا رہتا تھا ، جس کا مقصد اپنی زاتی ملکیت اور جائیداد کو بہتر بنانا ہوتا تھا ، ریاست کے عوام کو کسی حد تک حقوق تب ملنے شروع ہوئے جب انگریزوں کا عمل دخل بوجوہ ریاست میں زیادہ ہوا مہاراجہ اپنے القابات میں " سپر انگلیشیہ " لکھنے لگا ، پھر انگریزوں کی ہی بنائی " پریوی کونسل " نے مہاراجہ کا اقتدار بہت محدود کر دیا ، عوام کی بہبود کے زیادہ تر اقدامات اس دور یا اس کے بعد لئیے جانے لگے ، کیونکہ اب انگریزوں کے وسیع تر مفادات بھی روس کی قربت اور دیگر امور کی وجہ سے ریاست میں بڑھنے لگے اسی وجہ سے مہاراجہ ایک حکم ملنے پر بغیر چوں چراں کئیے تمام شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان و دیگر ملحق علاقوں کا انتظام حسب فرمائش انگریزوں کے حوالے بغیر کسی رسمی مزاحمت کے کر دیا کرتا ۔

کبھی محکمہ مال کا تقسیم سے قبل کا ریکارڈ بھی ملاحظہ فرمائیے گا، کہ نوے فی صد زمینوں کی ملکیت کس کے پاس تھی۔ آپ ہی کے علاقے میں خصوصا جنہوں نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت جیسا انتہائی اقدام اختیار کیا ، ان کے پاس اپنے اس عمل کی ، کچھ تو وجوہات ہوں گی ، کسی ایسے " باشعور " بزرگ " سے کبھی ان وجوہات اور حالات کے بارے میں بھی استفسار فرمائیے گا ، " باولیوں " سے متاثر ہونے والے سادہ لوح بزرگوں کے علاوہ بھی ،، ویسے بزرگوں کے ضمن میں ایک لطیفہ بھی سن لیجئیے ، کسی اخباری نمائندے کو معلوم ہوا کہ فلاں گاوں میں ایک بہت بوڑھا اور طویل العمر شخص رہتا ہے جس کی عمر ایک سو بیس سال سے بھی زیادہ ہے ، ، نمائندہ فورا اس گائوں پہنچا کہ اس شخص کا انٹرویو لے سکے ، پتہ کرتا کرتا ایک گھر تک پہنچا ، وسیع کچے صحن میں برف جیسے سفید بالوں اور داڑھی والا ایک بہت کمزور سا شدید رعشے کا شکار بہت بوڑھا شخص جس کی آنکھوں کی بھوویں تک سفید ہو چکی تھیں ، چارپائی پر بیٹھا ، چرس بھرا سگریٹ پی رہا تھا اور اونچی اونچی آواز میں نہ جانے کس کو گالیاں دے رہا تھا ، اخباری نمائندہ اس کے پاس بیٹھ گیا ، اور اس سے سوال کیا بابا جی آپ کی ایک سو بیس سالہ طویل عمر کا راز کیا ہے ، آپ تو اب بھی سگریٹ پی رہے ہیں ، وہ بوڑھا جواب دینے لگا تو کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا ، سانس سنبھلی تو بولا ، ایک سو بیس برس ؟ میری عمر تو چالیس سال ہے ان حرکات کی وجہ سے کچھ زیادہ لگتی ہے ۔۔

تو برادر محترم یہ باولیوں سے متاثر ہونے والے " بزرگ " بھی کچھ ان بزرگ جیسے ہی تو نہیں ؟ کیونکہ عزت نفس بہر حال باولیوں سے زیادہ محترم و مقدم ہوا کرتی ہے وہ تو انگریز اور پہلی و دوسری جنگ عظیم کا شکریہ کہ انگریز ان علاقوں اور بارانی علاقوں سے فوجی بھرتی پر مجبور ہوا تو ان کو اپنے علاقوں میں سر اٹھا کر جینا نصیب ہوا ۔اگر ہماریبزرگ سردار مختار صاحب سے کبھی اس موضوع پر بات ہوئی ہو توانہوں نے ضرور اس دور کے حالات کے بارے میں حقائق سناے ہوں گے۔ عظیم مجاہد کرنل منشا خان اور کرنل حسن خان مرحوم جب ڈوگرہ آرمی میں کمیشنڈ آفیسر منتخب ہوے تو مہاراجہ نے ڈیرہ دون سے فوجی تربیت مکمل کرنے والے ریاستی کیڈیٹس سے ملاقات کی ، مرحوم کرنل صاحب بیان فرماتے تھے کہ کس طرح ہندو ڈوگرہ کیڈٹس سے ملتے ہوے مہاراجہ کا چہرہ کھل جاتا اور وہ ان سے انتہائی گرم جوشی سے ملتا جبکہ کمیشن یافتہ مسلمان کیڈٹس کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی رسمی اور سردمہری پر مشتمل ہوا کرتا تھا اس بارے میں کرنل حسن خان صاحب نے اپنی کتاب " شمشیر سے زنجیر تک " میں تفصیل سے مہاراجہ کے اس روئیے کے بارے میں تحریر فرمایا ہے اور کرنل منشا خان صاحب سے یہی واقعات میں نے اپنے بچپن میں تب سنے جب مرحوم کرنل صاحب میرے والد صاحب سے ملاقات کے لئیے ان کے اخبار " کشیر " کے دفتر تشریف لایا کرتے تھے اسی تعصب کا زکر مرحوم قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی تصنیف شہاب نامہ میں فرمایا ہے ۔

اگر آج آزاد کشمیر میں تعصب اور قبیلہ پرستی و برادی ازم، اقربہ پروری ہے ، تو یہ ہمارا اپنا چہرہ ہے، جو اگر خوبصورت نہیں تو اس میں کسی کا کیا قصور ہے ۔ یہاں ستر سال سے قائم آزاد کشمیر حکومت کے پاس کم از کم عوامی مسائل کے حل کی صلاحیت اور درکار مناسب وسائل ضرور رہے ہیں ، اپنے اور ہمارے منتخب شدہ نمائندوں جن کو ہم ہر الیکشن میں جوق در جوق بار بار ووٹ ڈالتے ہیں زیادہ تر قبیلے اور برادری کی عصبیت اور تعصبات کی بنیاد پر ، ان کی معاشی حالت کا ہی پچھلے ستر برس کے عرصے کی بنیاد پر موازنہ فرما لیجئیے ، یہ آج کیا ہیں، اور ستر برس قبل یہ کیا تھے ، رہی گاوے گوشت والی بات تو یہ ناخواندہ لوگوں کی بازاری انداز کی دلیل آپ جیسے حساس اور باشعور انسان کی طرف سے کچھ اچھی نہیں لگتی ۔یہاں مسئلہ " اقصاے چن " کی آزادی و واگزاری کا نہیں مقامی تعمیر و ترقی کا ہے ، لہزا اصل مسئلہ ہماری اور ہماری ہی منتخبہ قیادت کی ترجیحات کا ہے ، لیکن اس سب کے باوجود بھی بتدریج بہتری آ رہی ہے، آج سے تیس چالیس برس پہلے کے اور آج کے حالات ، روزگار ، تعلیم اور کاروبار کے مواقع ، اور تعمیر ترقی کی صورت حال کا منصفانہ موازنہ فرما لیجئیے، اپنی زاتی " توقعات " کو ایک طرف رکھتے ہوئے ممکنات اور حالات کی روشنی میں ۔

آج آزاد کشمیر میں تقریبا ہر بیس پچیس میل پر ایک ڈی سی بیٹھا ہے، جو سب کے سب مقامی لوگوں کے ہی بیٹے بھائی ہیں ، بیشمار کالجز اور سکولز میں ٹیچر اور پروفیسر لگے ہوئے ہیں ، رسل و رسائل پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو چکے ہیں ، مقامی انجینئیرز اور ٹیکنیشنز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو یہیں سے تعلق رکھتے ہیں ، اکثر علاقوں میں پینے کا پانی جو ہماری مائیں بہنیں میلوں دور " باولیوں کے چشموں اور نالوں سے بھر کر لایا کرتی تھیں، آج تقریبا تمام شہروں میں اچھی بری واٹر سپلائی موجود ہے ، میڈیکل کالج اور ڈاکٹرز ہیں اور یہ صورتحال بہتری کی طرف ہی ہے، گو کہ مزید بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہا کرتی ہے وہ آج بھی ہے ۔ آپ کے قریب کی ہی ایک مثال دیتا ہوں آزاد کشمیر کا اقتدار کسی نہ کسی شکل میں زیادہ عرصہ باغ دھیر کوٹ کے علاقے کے لیڈرز کے پاس رہا لیکن اس بار بار کے بااختیار ( کم از کم اس معاملے میں ) اقتدار کے باوجود وہ اپنے علاقے میں پینے کے پانی کی مناسب سکیم نہ بنوا سکے ، یہ نہیں کہ اس کے وسائل اور اختیارنہ تھا بلکہ ترجیحات مختلف تھیں، یہی اصل معاملہ ہے ۔ برادری ازم اور اقربہ پروری بری چیز ہے تو ہم خود سب سے پہلیاس کے زمہ دار ہیں کہ بار بار ان آزماے ہوے لوگوں اور خاندانوں کو ہی منتخب کرتے ہیں ، آپ خود کیوں نہیں الیکشن لڑ کر حالات کو اپنی خواہشات کے مطابق بہتر کر لیتے ، یہاں ہم بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ چاہے پھر آپ ہار جائیں یہ تو کہہ سکیں گے کہ میں نے کوشش کی ، اپنی پوری طاقت کے ساتھ لڑتا رہا ۔کسی مصنف نے خوب لکھا ہے کہ" ماضی میں وہ رہتے اس کا زکر کرتے یا سراہتے رہتے ہیں جن کا کوئی مستقبل نہیں ہوا کرتا " ۔

میری باتوں کا برا نا منائیے گا ، آپ ایک درد دل رکھنے والے ، حساس اورباشعور فرد ہیں لہزا آپ کا ذہنی اور شعوری معیار لازما عام نیم خواندہ افراد سے بہتر ہونا چاہئیے ۔ اسی وجہ سے آپ کی طرف سے یہ غیر مصدقہ ، اور روایتی سطحی قسم کے دلائل از قسم نیلی ٹینکیاں ، گاوا گوشت وغیرہ کچھ مناسب نہیں لگتے ۔اس سے آگے لندن میں مقیم ہمارے ایک کشمیری دوست نے مہاراجہ کی اپنی پرجا سے " محبت " اور ان کی "غیرت " کے زکر کے طور پر ایک واقعہ تحریر فرمایا کہ جب مہاراجہ پٹیالہ مہاراجہ کشمیر کا مہمان تھا تو مہاراجہ کشمیر اسے پانپور کے نزدیک زعفران زار دکھانے لے گیا ، جہاں اس نے یعنی مہاراجہ پٹیالہ نے "چاند کی روشنی" میں ایک خوبصورت لڑکی دیکھ کر کر فرمائش کی جس پر مہاراجہ کشمیر سخت ناراض ہوا ، اور پرجا کو اپنے " سنتان " بتاتے ہوے حکم دیا کہ مہاراجہ پٹیالہ کو " براستہ کوہالہ " ریاست بدر کر دیا جائے ۔گو کہ راقم کی نظر میں یہ واقعہ مکمل طور پر فرضی ہے اور کشمیر کے نیشنل کانفرنسی بھارت نوازوں کی تالیف قلوب کے لئیے گھڑ کر ان میں پھیلایا گیا ، تاکہ ان کے بھارت کی طرف جھکاو کو کچھ جواز دیا جا سکے ۔ اس ضمن میں راقم کا موقف بھی پیش خدمت ہے ۔

اسی مہاراجہ نے جموں میں اپنی سنتان اور مسلم پرامن پرجا اور ان کی بیٹیوں سے بیرونی قبائلی حملہ آوروں کا جو ، انتقام لیا وہ بھی دنیا کے سامنے ہے خود یہ " غیرت مند " ان قبائلی بیرونی حملہ آوروں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بجاے اپنی سنتان پرجا کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جموں فرار ہو گیا تھا اور جموں جا کر اس قبائلی حملہ کا بدلہ اپنی " سنتان " پرجا کے نہتے پرامن مسلمانوں سے لیا، لاکھوں ہزاروں کو بیدردی سے ان ہی پٹیالہ انبالہ سے بلواے ان کی ریاستی افواج کے غنڈوں اور اپنے مسلح ڈوگروں سے قتل کروایا ، سینکڑوں ہزاروں عزت ماب خواتین کو اغوا کروایا اس عمل کی شدت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان اغوا شدہ خواتین میں ممتاز مسلم رہنما چوہدری غلام عباس کی بیٹی بھی شامل تھیں ، یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس " غیرت مند " نے اپنی پرامن ، نہتی اور بیبس پرجا کے اس انتقامی قتل عام کا آغاز اپنے راج محل کے لئیے دودھ لے کر آنے والے مسلمان گوجروں کو اپنے ہاتھ سے گولی مار کے قتل کر کے کیا ، جن بدنصیب " سنتانوں کی لاشیں راج محل کے نزدیک ایک کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئیں ۔

تاریخ میں یہ بھی رقم ہے کہ جنگ کے بعد جب بھارتی افواج کا قبضہ ریاست کے بڑے حصے پر مستحکم ہو گیا تو محترم شیخ عبداللہ جموں میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے تو اچانک ایک مسلم اغوا شدہ خاتون کسی طرح وہاں پہنچ گئی، اور اس نے شیخ صاحب کے سامنے آ کر روتے ہوے، ان سے مدد کی درخواست کی ، جس پر شیخ صاحب نے ہندو ڈوگرہ میزبانوں کی ناراضگی کے پیش نظر مائک پر ہی سٹیج سیاس مظلوم عورت کو مخاطب کر کے کہا کہ " دفع ہو جا تیری جیسی کتیاں یہاں بہت پھرتی رہتی ہیں ۔ یہ ہی وہ زھنیت اور اس کی باقیات ہیں جو آج بھی براستہ ڈوگرہ مہاراجہ بھارت کے لئیے بلواستہ طور پر ہمدردی کے جزبات پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ ادھر اس غیرت مند مہاراجہ ہری سنگھ کے "ولی عہد" تاحیات بھارتی " پارلیمنٹ کے ممبر رہے ، اب ان کی اولاد بھی بغیر کسی سابقہ دعوے کے مکمل بھارتی ہیں ۔ کدھر ہے وہ تشخص جس کی دھائی، ریاست کے مسلم عوام کے سامنے مہاراجہ کے انصاف اور محبت کی آڑ میں، دی جاتی ہے ۔

آپ کے بیان کردہ بے بنیاد قصے کے غلط ہونے کے لئیے یہی ثبوت کافی ہے، کہ مہاراجہ پٹیالہ ، کیوں کوہالہ کے راستے جہاں انگریزوں کی حکومت تھی طویل ترین راستے سے واپس جاے گا لہزا اسے کوہالہ کے راستے جلاوطن کرنے کی بات مکمل طور پر فرضی اور بیبنیاد ہے، پٹیالہ ، کپورتھلہ ، فرید کوٹ ، لدھیانہ وغیرہ سے کشمیر جانے آنے کے لئیے پٹھانکوٹ کٹوعہ گرداسپور کا سیدھا اور نزدیک ترین راستہ استعمال کیا جاتا تھا جو سب سے مختصر راستے سے ان ریاستوں کو جاتا تھا ۔ قبائلی حملہ آوروں کے حملہ اور مظالم کا جواب اور بدلہ اپنے " سنتان " پرامن بیبس مسلم جنتا سے لینے والے ایسے "غیرت مند " کی " وکالت " آپ کو مبارک ہو ، نوجوان بیخبر نسل کو ایسے فرضی واقعات سنا کر آپ ان درندوں کے لئیے نوجوان نسل کے دلوں میں ہمدردی پیدا کر ے کی کوشش فرما رہے ہیں گو کہ اسی کام پر بہت سے لوگ مامور ہیں لیکن آپ کوبھی اس منظم مہم کا حصہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ۔ جہاں تک یہ ہدایت کہ اس بیبنیاد قصے کو " آگے " پھیلاتے جائیں تو اس ضمن میں اس " واقعے " کو بھی "کتابی شکل "میں شائع کروانے کا انتظام کیا جانا چاہئیے ، جیسے جموں کی ہزاروں بیٹیوں کی جانوں اور لٹی عزتوں کے زکر کے بجاے مظفر آباد کے ہلاک شدہ ڈی سی مہتہ کی اس بیوہ کے بارے میں پوری کتاب لکھوائی جاتی ہے، جو خاتون محفوظ طریقے سے بھارت بھجوا دی گئی تھی، شاید جموں کی ہزاروں برباد کر دی گئیں مسلم بیٹیوں کی نسبت اس خاتون کا نوحہ پڑھنا زیادہ اہم تھا ۔ مہاراجہ سے منسوب کیا گیا مہاراجہ پٹیالہ والا یہ واقعہ " زیادہ سے زیادہ تاریخ بیخبر اور سادہ لوح نوجوانوں تک مہاراجہ کشمیر کی اپنی پرجا سے اس مبینہ" محبت" کا یہ فرضی واقعہ پہنچایا جا سکے ۔

اس مہاراجہ کے کردار سے اس زمانے کے یورپ کے اخبار بھرے پڑے ہیں ، جب اس نے اپنے دورہ یورپ کے دوران اپنی ایک جنسی سرگرمی کی بنا پر اخبارات میں خوب شہرت پائی ، اس کے علاوہ اس کی زرخرید ریاست میں غریب مسلمانوں کے عزت و وقار کی کیا حیثیت تھی یہ بہت سی جگہ رقم ہے مجھے ان کا زکر کرنا بھی اچھا نہیں لگتا بس قدرت اللہ شہاب کی کتاب میں سرسری زکر موجود ہے ۔جتنی آزادی" ہر کسی" کو اپنے نظریات و خیالات کے اظہار کی ہے ، راقم کے لئیے بھی کم از کم اتنی آزادی اظہار تو تسلیم فرمائیے ۔
واپس کریں