دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اخلاقیات اور علوم
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
علم،سانس اور ٹیکنالوجی درحقیت ایک ایسا مشترکہ انسانی ورثہ ہے جسے نسل انسانی نے اپنے لاکھوں برس کے ارتقائی سفر کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدات، تجربات اور تجزیات کی بنا پر بتدریج حاصل کیا ہے۔نسل انسانی کے ارتقائی سفر کے ساتھ ساتھ ان علوم کا ارتقا ء اور اس کے نتیجے میں ان کی وسعت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔سوچ کے اور ضرورت کے نت نئے زاویوں اور ضرورتوں کے مطابق ان دریافت شدہ علوم و فنون کی نت نئی شاخیں اور آگے ان شاخوں کی مزید شاخیں پیدا ہو رہی ہیں۔ سادہ الفاظ میں مجموعی طور پر یہ علوم سائنس و ٹیکنالوجی یعنی فنون تیار کر سکتے ہیں بلکہ کر رکھے ہیں ۔یا ھم ان ہی علوم و فنون کی مدد سے دنیا کی پیداوار کو کی گنا بڑھا کردنیا کے وسائل کی منصفانہ اور مخلصانہ تقسیم کا انتظام کر کے دنیا کا ماحول بہتر بنا کر اس دنیا کو تمام انسانوں کے لیے ایک جنت ارضی کی صورت بھی دے سکتے ہیں ۔

ان علوم کوہم نے کس طرح ،کس نیت سے اور کہاں استعمال کرنا ہے ، یہ فیصلہ ہماری اخلاقیات نے کرنا ہے۔ اس دور تک اس اخلاقیات ، جس پر آج اہل علم و دانش اور اہل مزھب اپنی اجارہ داری جتلاتے ہیں اور گاہے بگاہے ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی اپنی تشریح کردہ اخلاقیات پر فخر بھی جتلاتے ہیں اور اسے اپنا پیٹنٹ یا اجارہ بتاتے ہیں ، اس اخلاقیات کا کیا معیار ہے؟ اس کا جواب ہمارے آس پاس کی دنیا کی موجودہ حالت ہے ۔ یعنی یہ ناکامی جو اس دنیا میں پھیلے ہوے ظلم و استحصال اور محرومی کی شکل میں ہمارے گرد دور دور تک بکھری پڑی ہے ۔یہ اس موجودہ مذہبی یا غیر مذہبی نام نہاد اخلاقیات کی حالت ,معیار اور مکمل ناکامی کی عکاس ہے ۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم روایتی اور مروجہ اخلاقیات کی اس ناکامی بلکہ منافقت کے پوری طرح افشاں ہو جانے اور اپنے دعوی کردہ مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام ہو جانے کے بعد عدل ،انصاف، مساوات، احساس ، رحم اور مشترکہ دکھوں ،یکساں نوعیت کے آلام اور مشکلات کی زنجیر سے بندھی ہوئی انسانی برادری کے احساس، ضرورت اور دستیاب سہولت کی بنیاد پر ایک نئی اور اپنی مشترکہ ضرورت کی بنیاد پر غیر جامد اخلاقیات کا تعین کریں ۔ تاکہ اس دنیا میں پائے جانے والے غیر انسانی ،ظالمانہ تفاوت اور ایک جیسے ہی انسانوں کے درمیان مصنوعی فرق کو دور کر کے انسان کو واقعی اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کر سکیں۔ یہ تو اب ہزاروں سال کے مشاہدے،تجربے اور علم نے ثابت کر دیا ہے کہ اس درجے پر عالم انسانیت کو کسی اور نے نہیں ،ہم نے خود فائز کرنا ہے ۔ تو آئیے اس طرف چلیں جہاں وہی خوبصورت دنیا ہو جس کا خواب دیکھنا اور احساس ہی ایک سکون آور اور مسرت انگیز تجربہ ہے۔تو جب یہ خواب حقیقت بن جائے گا تب ہی ہم صحیح معنوں میں سمجھ اور دیکھ سکیں گے کہ درحقیقت شرف انسانی سے بہرہ مند اشرف المخلوقات ہونے کا تجربہ کتنا فرحت انگیز اور خوشگوار ہوتا ہے ۔


واپس کریں