دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وطن کی بنیادوں پر حملہ اور زہر کی کاشت
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
بھارتی فلمی اداکار سلمان خان کے والد سلیم خان جو خودبھی بھارتی فلم انڈسٹری کی معروف اور متمّول شخصیت ہیں نے فرمایا ہے کہ گو کہ بھارت میں ” کچھ مشکلات “ واقعی ہیں , لیکن بھارت مسلمانوں کے رہنے کے لٸیے آج بھی ” بہترین“ ملک ہے ۔ بھارتی ایجنسیوں کے پالتو اجرتی قاتل اور معروف سکھ گلوکار سِدھو مُوسے والا, کے قاتل گینگسٹر وشنو بشنوٸی نے جسے اس کے تحفظ کے لٸیے جیل میں وی آٸی پی طریقے سے رکھا گیا ہے , اور وہ وہاں سے اپنا اجرتی قتل اور بھتہ لینے کا بزنس چلا رہا ہے ,اس نے جیل سے سلمان خان کو قتل کی دھمکی دی تو بغیر کسی وجہ کے سلمان خان کو سرعام اس سے معافی مانگ کر اور مانگا گیا بھتہ دے کر اپنی جان بچانی پڑی ۔سلیم خان نے بھارت میں رہنا ہےوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں , اس طرح ارب پتی اداکار شاہ رخ خان کو آٸی پی ایل کے میچز کے دوران اپنی ہی خریدی گٸی ٹیم کے میچ کے موقع پر اس کے بچوں کے سامنے جس طرح زلیل بھی کیا گیا, اور الٹا اس سے معافی بھی منگواٸی گٸی, اس کی آنکھوں میں بےبسی کے آنسو ہمیں اچھی طرح یاد ہیں ۔

یو پی میں حال ہی میں چھ بار ممبر اسمبلی منتخب ہونے والے عتیق احمد اور ان کے بھاٸی کوکیسے سرعام پولیس کی حراست میں اجرتی قاتلوں سے قتل کروایا گیا, اس کے سترہ سالہ بیٹے کو جعلی پولیس انکاونٹر میں ہلاک کروایا گیا , ان کی بیگم تک کو گرفتار کیا گیا , ان کے ایک کمسن بیٹے کو اس کی برین واشنگ کے لٸیے ایک ”سرکاری مرکز“ میں بھیج دیا گیا , ان کی پشتینی جاٸیداد کو بلڈوزرز کے زریعے مکمل طور پر تباہ کیا گیا , پھر بھارتی میڈیا چینلز کےنماٸندوں کا مسلم علاقوں میں جا کر طنزیہ انداز میں لوگوں سے عتیق احمد کے قتل پر راے پوچھنا , اور لوگوں کے خوف اوربےبسی کا عالم ان کےچہروں سے عیاں ہوتا تھا, اور وہ خوف کے مارے کچھ کہنے کی بھی ہمت نہیں کرتے تھے , سوشل میڈیا کے زریعے یہ دردناک مناظر دنیا نے دیکھے ۔ گجرات فسادات میں ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے سرکاری محفوظ علاقے میں مقیم انڈین کانگریس کے سینٸیر بھارت نواز لیڈر احسان جعفری کی بیٹیوں کی جس طرح اس کے سامنے عصمت دری کر کے باپ کے ہمراہ نزر آتش کیا وہ تاریخ میں رقم ہے ۔

لیجنڈ اداکارہ اور مشہور شاعر اور دانشور جاوید اختر کی بیگم , شبانہ اعظمی جو کانگریس کی طرف سےممبر اسمبلی بھی رہیں, وہ ریکارڈ پر ہیں کہ کسی مسلمان کو دِلّی یا ممبٸی جیسے بڑے شہروں میں بھی کوٸی فلیٹ یا مکان صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے کراے پرنہیں دیتا ۔ بھارتی مسلمانوں کا المیہ یہ ہےکہ انھیں ہندو اکثریت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لٸیے خود کوعام ہندو سے زیادہ بڑا دیش بھگت اور پاکستان دشمن موقف اختیار کرنا پڑتا ہے, لیکن ان پر پھربھی اعتبار نہیں کیاجاتا ۔ کانگریس کے بڑے لیڈر اور معروف علمی شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کوبھی وصیت کرنی پڑتی ہے, کہ ان کے کتاب کے آخری تیس صفحات ان کی موت کے بعد شاٸع کٸیے جاٸیں , شیخ عبداللہ کےبیٹے کانگریسی لیڈر فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے والے ہم تھے , اوربھارت میں ہم پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا ۔

بھارت کے مسلمانوں کا نوکریوں اور دیگر سروسز میں یہ حال ہے کہ ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ ان کو درجہ فہرست , یعنی شیڈول کاسٹ ( چوڑے چماروں {معزرت , راقم یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن قارئین کو سمجھانے کے لٸیے مجبوراً لکھنا پڑا} ) زاتوں میں شمار کیاجاے , تاکہ ان کے لٸیے مختض نوکریوں میں کوٹہ میں سے ان کوبھی کچھ نوکریاں مل سکیں ۔ فلم میڈیا دیکھ کر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں راے قاٸم کرنا درست نہیں جو بھارتی مسلمان محنت مزدوری کر کے یابیرون ملک جا کرکچھ خوشحال ہو جاتے ہیں, توکچھ عرصے میں منظم فرقہ وارانہ فسادات کروا کر ان کو دوبارہ سے تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ آپ بھارت جا کرآزادانہ گھومیں پھریں لوگوں سےملیں ۔ سلمپ پر آباد مسلم بستیوں میں جاٸیں تو آپ یہ سب مشاہدہ کر سکتے ہیں, اور مجھے یقین ہے کہ آپ کھلے زھن کے ساتھ وہاں مسلمانوں کا عدم تحفظ , ان کی عمومی حالت اور اکثریت کا تعصب دیکھ لیں, تو واپسی پر پاکستان کی سرزمین کو سجدہ کریں گے ۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں بار بار کی آمریت اور منظم طریقے سے پھیلاٸی گٸی مزہبی جاہلیت اور انتہا پسندی نے پاکستانی معاشرے کو تباہی کے دہانےپر پہنچا دیا ہے, لیکن زرا غور فرماٸیے کہ اس کاآغاز منّظم اور منصوبہ بند طریقے سے قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد سے, آمروں اور طالع آزماوں کے زریعے امریکی مدد , سرپرستی اور مشورے سے ہی کیا گیا تھا , امریکی مفاد کے لٸیے آمروں کے زریعے لگایا یہ زہریلا پودا اب ایک تناوردرخت بن چکا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں موجود اندھا مزہبی اعتقاد جو عوام کو ازراہ تقدس کچھ سوچنے کے قابل نہیں چھوڑتا , لیکن اس سب کے باوجود زمین اور آسمان کا فرق ہے, پاکستان کے باشعور عوام کی اکثریت آج بھی انتہاپسندی , سے نفرت کرتی ہے, اور جب بھی ان کو اپنی راے کے اظہار کا آزادانہ موقع ملا انہوں نے اس کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا ہے , پاکستان میں انتہا پسندوں کی منّظم سرپرستی اورمدد کے باوجود وہ کبھی یہاں اتنی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوے, کہ اپنے طور پر الیکشن جیت کر برسراقتدار آ سکیں ۔ جبکہ بھارت میں گاندھی تک کو قتل کرنے والی, ہندو فرقہ پرست اور انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہر بار انتہا پسند اور متعصب ہندو اکثریت کی مدد اور حمایت سے ہر الیکشن میں پہلے سے زیادہ اکثریت سےبرسراقتدار آتی ہے ۔ بھارت کا صوبہ اتر پردیش جومسلم تہزیب کا ایک مرکز رہا ہے , وہاں یہ حالت ہے کہ وہاں کا متعصب , فرقہ پرست، درندہ صفت وزیر اعلیٰ آدیتیہ ناتھ سوامی جو اعلانیہ طور پر مسلمانوں کا شدید مخالف ہے , وہ کھلے عام یو پی کے چار کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے بارے میں کہتاہے, کہ ہمیں ان کے ووٹوں کی اور ان کی حمایت کی کوٸی ضرورت نہیں , اس کے یہ کہنے کی وجہ اتر پردیش کی ہندو متعصب سوچ کی حامل اکثریت کی روزبروز بڑھتی ہوٸی حمایت کا زعم ہے ۔

ہمارے وطن پاکستان میں کچھ عرصے سے زراٸع ابلاغ پر ایک منظم اور زہرآلود , گمراہ کن مہم جاری ہے , جس کے تحت پاکستان کی اپنی تاریخ سے بےخبر نوجوان نسل جس سے ہندو کا تعارف صرف میڈیا یعنی فلم کے میڈیم کے زریعے ہی ہے , اور وہ ہندو کو ویسا ہی سمجھتے ہیں جیسا اسےبھارتی فلموں میں پیش کیا جاتا ہے ,لیکن حقیقی زندگی میں بھارت سے محبت میں بھرا ہوا ”بجرنگی بھاٸی “ نہیں آتا , بلکہ خطرناک جاسوس بلیک پرنس ,کشمیرا سنگھ اجیت دوگل اور کلبھوشن یادیو جیسے تربیت یافتہ قاتل ,دہشت گرد , تخریب کار اور جاسوس آتے ہیں ۔ لہزا اس نسل کو پاکستان کے قیام کے مقاصد سے برگزشتہ کرنے کے کام میں پراسرار تسلسل کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ,اس سلسلے میں پراسرار اور مشکوک پس منظر کے حامل بہت سے افراد اور لکھاری بھی سرگرم نظر آ رہے ہیں , یہ لوگ صف اول کے میڈیا یعنی پرنٹ میڈیا اور ٹیلی میڈیا سے دور رہتے ہوے , کیونکہ وہاں ان کو چیک ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے , ہر گھر تک اور ہر نوجوان تک براہ راست رساٸی رکھنے والے سوشل میڈیا , اور مختلف ویب پورٹلز کے زریعے پاکستان کی نوجوان نسل کو اپنے وطن کے قیام , اور مقاصد سے متنفر کرنے کی کوششوں میں , اس وطن کے قیام کو ایک غلطی بتانے,اس وطن کی تشکیل کی تحریک کی قیادت کے بارے میں بےبنیاد اور جھوٹے شکوک وشبہات پیدا کرنے اور نوجوان نسل کے خام ازھان میں اپنے وطن سے نفرت , تعصب اور بےیقینی کی زہریلی فصل کی کاشت میں مصروف دکھاٸی دیتے ہیں ۔

جس طرح فوج کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے آفیسرز جب کوٸی منصوبہ بندی کرتے ہیں , تو اس منصوبہ بندی میں ان کے بنیادی شعبہ کی جھلک ضرور آ جاتی ہے , مثال کے طور پر بکتر بند دستوں سے تعلق رکھنے والا آفیسر جب کوٸی منصوبہ بناے گا تو وہ بھاری طور پر محفوظ حرکت پزیر حکمت عملی بناے گا , آرٹلری یعنی توپ خانہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والا فاصلاتی نوعیت کی منصوبہ بندی کرے گا, جس میں وہ محفوظ فاصلے پر رہتے ہوے ہدف حاصل کرنے کی پلاننگ کرے گا , انفنٹری سے تعلق رکھنے والا اپنے ہدف کی جانب پھیلاو پر مشتمل ایسی پیش قدمی کا منصوبہ بناے گا, جو ہدف پر پہنچ کر اس پر مرتکز ہو جاے , اسی طرح سابق بھارتی جاسوس ” اجیت دوگل“ جو اپنے جاسوسی مشن کے دوران پانچ سال سے زاٸد عرصہ پاکستان میں گزار چکے ہیں, اور اب وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں , کشمیر میں بھی ان ہی کے ڈاکٹراٸن کے مطابق جارحانہ حکمت عملی اختیار کی گٸی ہے , اور وہاں کی تقریباً تمام قیادت کوجیلوں میں بند کر دیا گیا ہے ,پاکستان کےبارےمیں بھی ان کی حکمت عملی ان کے بنیادی شعبے اور ان کے سابق پیشہ ورانہ تجربے کے مطابق ہی تشکیل دی گٸی ہے, جس کے تحت ایک طرف تو پاکستان میں اپنے ایجنٹس کے زریعے براہ راست تخریب کاری کروانا جیسے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس مقامی ناراض عناصر کی دہشت گردی کے لٸیے سہولت کاری کرتے ہیں, اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف انڈر کَور افراد کے زریعے پاکستان کی نوجوان نسل کے سامنے اس مملکت کے قیام کو ایک غلطی کے طور پر پیش کرتے ہوے اس مملکت کی بنیادوں پر خطرناک حملہ کرنا اور اس بارے میں یہاں کی نوجوان نسل میں بےیقینی پیدا کرنے کا مشن مختلف افراد کو استعمال کرتے ہوے سوشل میڈیا کے زریعے جاری ہے ۔ اور یہ عمل روایتی تخریب کاری سے بھی زیادہ خطرناک ہے , اور اس مزموم منصوبے کی مختلف جہتیں , اہداف اور طریقہ کار اس کے منبع اور مرکز کی طرف واضع طور پر اشارہ کرتی ہیں ۔

دوسری طرف وہ نسل جس نے اپنی آنکھوں سے قیام پاکستان سے قبل کے حالات دیکھے اور بُھگتے اور پھر ان کے ردعمل کے طور پر تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی , وہ نسل تقریباً ختم ہو چکی ہے , اور آزادی کے بعد جس طرح ان کو اپنے نظریہ کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہٸیے تھا , بوجوہ وہ بھی نہ کر سکے , جس کی بنیادی وجہ قیام پاکستان کے فوری بعد سےآمریتوں کا جاگیردار اور سرمایہ دار کی مدد سے اس نظام کو یرغمال بنا لینے میں کامیاب ہو جانا تھا , اس عمل میں پاکستان کے عوام کی قیادت کو براہ راست قتل کروا کر , اور سازشوں کے زریعے عوامی راے عامہ کو یرغمال بناتے ہوے بار بار اقتدار پر قبضہ کیا گیا , اس عمل میں پاکستان کے محل و وقوع کی وجہ سے ان عناصر کو بیرونی مدد اور سرپرستی بھی حاصل رہی , کیونکہ کسی بھی عوام کی نماٸندہ حکومت کے مقابلے میں ان بیرونی طاقتوں کو اپنے مفادات کی تکمیل آمروں کے زریعے کرنا زیادہ آسان محسوس ہوتا رہا , اور یہاں سے بھی ان کو پنجابی مہاورے ” پَنڈ چوراں نالوں تاولی “ کے مصداق اس عمل میں پوری پوری حمایت حاصل رہی ۔ یہ آمر چونکہ عوام کےمنتخب نہیں ہوتے تھے, لہزا اپنی کمزوری کی تلافی کے لٸیے , زاتی فواٸد اور طاقت حاصل کرنے کے لٸیے, بار بار بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر قومی مفادات کا سودا کرتے رہے ۔

اس عمل میں یہ یہاں تک گٸے کہ پاکستان کے عوام کے سامنے اپنی پسند اور مفاد کے مطابق ڈمی قیادت کو تشکیل دے کر کھڑا کرتے رہے , اور یہ تجربہ بھی بار بار بری طرح سے ناکام اور ایکسپوز ہوتا رہا ۔اسی تعصب اور جاگیردارانہ سوچ کی وجہ سے ہی مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی ہم سے الگ ہو گٸے , اور 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ، گو کہ ظاہری طور پر بنگلہ دیش کا قیام بنگالی قومیت اور لسانیت کے نام پر عمل میں لایا گیا تھا لیکن اتنی عقل ان کو بہرحال تھی کہ مغربی بنگال جہاں وہی بنگالی قوم ، وہی زبان اور وہی کلچر تھا ، فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں ہندو بنگالی اکثریت تھی اور مشرقی بنگال یعنی " بنگلہ دیش " میں مسلم بنگالی اکثریت تھے، لہزا انہوں نے مغربی بنگال کے ہندو بنگالی کو نہ اپنے ساتھ شامل کرنے کی بات یا کوشش کی، نہ خود ان کے ساتھ شامل ہوے ، جو لوگ دوقومی نظریہ کو ایک ناکام اور متروک نظریہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، "بنگلہ دیش" کا مسلم اکثریتی تشخص ان کے اعتراض اور طعنے کا شافی جواب ہے ، گویا کہ بوجوہ پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا لیکن مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کے ہندو بنگال سے الگ رہنے کے فیصلے نے دو قومی نظرئیے کی صداقت کی ہی تصدیق کی ، خطبہ الہ آباد میں بھی علامہ اقبال نے مسلم اکثریت پر مشتمل متعد ریاستوں کے قیام کا زکر ہی کیا تھا ۔

تمام تر مشکلات اور حالات کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ پاکستان درحقیقت پاکستان کے عوام ہیں , اور پاکستان کے مستقبل کا داومدار بھی بنیادی طور پر پاکستان کے عوام پر ہی ہے ۔ مجھے کراچی کے ایک معروف مزاحیہ اداکار شکیل احمد کا چھوٹا سا وڈیو کلپ دیکھنے کا موقع ملا , جس میں ان کی دردمندی اور حُب الوطنی نے مجھے بہت متاثر کیا , اس میں وہ بڑی سنجیدگی سے فرماتے ہیں , کہ ملک کبھی برا نہیں ہوتا , اس کے رہنے والے اچھے یا برے ہوتے ہیں , پاکستان بہت اچھا ملک ہے بس اس کے رہنے والے ہم لوگ اچھے نہیں , جس روز ہم خود اچھے ہو جاٸیں گے , یہ ملک بھی بہترین ہو جاے گا ۔
واپس کریں