دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندو کی محبت میں مبتلا نسل کی خوش فہمیاں
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
آج کا پاکستان، جو پہلے بھی ”مسلم اکثریتی علاقے“ ہی تھے، قیام پاکستان سے قبل یہاں کے تمام بڑے شہروں میں نوے فی صد سے بھی زیادہ زمین، جائیداد، اور کاروبار کے مالکان ہندو اور سکھ ہی تھے، مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود ناخواندہ، کم خواندہ، پسماندہ اور ادنی پیشوں سے وابستہ تھے، جن ملازمتوں اور خدمات میں زیادہ تر کا دار و مدار بھی ہندو و سکھ امراء پر ہی تھا، راولپنڈی اور لاہور جیسے شہر میں اکثر جائیدادوں، رقبہ جات، اور کاروبار کے مالکان ہندو اور سکھ ہی تھے، کسی بھی شہر کے محکمہ مال کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، کہ مالکان کون تھے، لاہور جیسے مسلم اکثریتی شہر کے سب سے بڑے کاروباری مرکز انار کلی میں صرف ایک دکان مسلمان کی تھی، باقی تقریباً تمام جائیداد کے مالکان بھی ہندو اور سکھ امراء ہی تھے۔

پنجاب کے تقریباً ہر شہر میں کم و بیش یہی حالات تھے۔ علامہ اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان بنانے کا مقصد ان مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں جو ہندو اور سکھ امراء کی طرف سے معاشی، اور اقتصادی استحصال کا شکار تھے، اور علمی اور شعوری پسماندگی کی وجہ سے ان کو اس کا احساس تک نہ تھا، مطالبہ پاکستان کا بنیادی مقصد ان کو اس اقتصادی استحصال سے بچانے کا ہی تھا، جیسا کہ ڈاکٹر جاوید اقبال سادہ الفاظ میں لکھتے ہیں، کہ پاکستان بنانے کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے روزی روٹی کا مسئلہ حل کرنا ہی تھا۔

ذرا تاریخ میں پیچھے جائیں تو انگریزوں کا اقتدار قائم ہونے سے قبل یہاں مسلمانوں کا اقتدار تھا، جس میں سر جھکا کر رہنا ہندو اکثریت کی مجبوری تھی، لہذا انگریزوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہندووں نے اسے اپنے لیے ایک موقع سمجھا اور بروقت جدید تعلیم حاصل کر کے انگریز کے قریب ہو گئے، جبکہ مسلمان اسی ذہنی کیفیت میں رہے کہ انگریزوں نے ان کا ہزار سالہ اقتدار ختم کر دیا لہذا مزاحمت بھی مسلمانوں نے ہی زیادہ کی اور اس کی سزا بھی زیادہ بھگتی۔

سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر اندرا گاندھی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے، جب اس نے کہا تھا کہ ”آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ آج ان موضوعات پر کوئی رائے قائم کرنے سے قبل پچھلے چھ سات سو سال کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور عسکری واقعات اور ان کی وجوہات کا گہرائی سے غیر جانبدارانہ مطالعہ ضروری ہے۔ آج کی ہماری نوجوان نسل نے ہندو کو صرف ہندی فلموں میں دیکھا ہے، ان کو طاقت ور ہندو مقتدرہ یا ہندو اکثریت کے ساتھ رہنے کا کوئی تجربہ نہیں۔نہ ان میں اتنا سیاسی اور علمی شعور ہے کہ وہ انڈیا کے ہی ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے خلاف تعصب و نفرت و تشدد کا اندازہ بھی کر سکیں۔ بھارت میں مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ انھیں شیڈول کاسٹ یعنی درجہ فہرست ذاتوں میں شامل کیا جائے، درجہ فہرست زمرے میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو بھارت میں اچھوت اور آدی واسی یعنی جنگلی انسان کہا جاتا ہے اور یہ طبقات وہاں اعلیٰ ذات کے ہندووں کی طرف سے نفرت، تعصب اور تشدد کا شکار رہتے ہیں، اور ان کی اس سماجی حالت کی وجہ سے ان کے لیے تعلیم اور نوکریوں کا حصول تقریباً ناممکن تھا، لہذا سابقہ کانگریسی حکومتوں نے ان شیڈول کاسٹ یعنی معاشرے سے پچھڑی ہوئی ذاتوں کے لیے تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کیا، اسی وجہ سے وہاں مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ان کو بھی ان درجہ فہرست ذاتوں میں شمار کیا جائے تاکہ اس طرح ان کے لیے مختص کوٹے کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتیں مل سکیں، کیونکہ بھارت میں مسلمانوں سے برتے جانے والے مذہبی تعصب کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے اپنی آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتوں کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

بھارت کے سیاسی حالات کا تجزیہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ وہاں جمہوریت اور اس کے تسلسل کی بنیادی وجہ وہاں کی آبادی میں ہندو آبادی کی فیصلہ کن اکثریت ہے، لہذا وہاں ”جمہوری اصول“ کے تحت جو بھی فیصلہ ہو گا وہ اس ہندو اکثریت کی خواہشات کاہی نمائندہ ہو گا۔ اسی برتری کی بناء پر بھارتی صوبے یو پی جہاں مسلمانوں کی تعداد چار کروڑ سے بھی زائد ہے، وہاں کا حکمران پارٹی بی جے پی سے تعلق رکھنے والا متعصب ترین، بدنام زمانہ وزیر اعلیٰ آدیتیا ناتھ سوامی علانیہ طور پر یہ کہتا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہئیں، یعنی بالفاظ دیگر وہ اتر پردیش کے چار کروڑ مسلمانوں کو انتخابی عمل سے نکال باہر کرنے کی بات کر رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں اتر پردیش جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، وہاں کے چھ بار پارلیمنٹ کے ممبر رہنے والے عتیق احمد اور ان کے بھائی شفیق احمد کو کس طرح پولیس نے اپنی حراست میں منصوبہ بندی کے ساتھ سرعام قتل کروایا، اس قتل کی دل دہلا دینے والی وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی، جس نے پہلے سے خوفزدہ وہاں کے مسلمانوں کو مزید خوفزدہ کر دیا۔ عتیق احمد کے سترہ سالہ نوجوان بیٹے کو جعلی پولیس انکاؤنٹر میں ہلاک کروا دیا گیا، ان کی جدی پشتی جائیداد پر بلڈوزر پھروا کر پیوند خاک کر دیا گیا، ان کے قتل کے بعد ان کے حلقے میں ہندو میڈیا پرسن جا جا کر مسلمانوں سے طنزیہ انداز میں عتیق کی ہلاکت اور اس کے خاندان کی تباہی پر رائے جاننے کی کوشش کرتے تو مسلمان خوف و دہشت کے مارے کچھ بولنے کی ہمت تک نہ کر سکتے تھے، بے بسی ان کے چہروں سے عیاں ہوتی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ وہ منہ سے کچھ بھی بولیں گے تو ان پر بھی جھوٹے دہشت گردی کے مقدمات بنا کر ان کو تباہ کر دیا جائے گا، گجرات کے فسادات کے دوران وہاں کے مشہور بھارت نواز، کانگریسی ممبر اسمبلی احسان جعفری کو جس طرح اس کے گھر میں ہندو ہجوم نے ہلاک کیا، اور اس کے سامنے اس کی بیٹیوں کی عصمت دری کر کے ان سب کو بہیمانہ تشدد سے ہلاک کر کے نذر آتش کیا جانا کیا کسی کو یاد نہیں، وہاں کے متعصب ہندو ڈی آئی جی پولیس ونجارا نے مشہور کیس ”عشرت جہاں“ میں اس مسلمان لڑکی کو اپنے فارم ہاؤس پر لے جا کر درجنوں افراد سے اپنے سامنے اس کی عصمت دری کروائی، اور پھر اس بدنصیب لڑکی کی لاش اور دو تین مسلم نوجوانوں کو ہلاک کر کے ان کی ہلاکت کو انکاؤنٹر ظاہر کیا گیا، جس پر ان مقتولین کے ورثاء نے کیس کیا جس میں حال ہی میں دو سال قبل سابق ڈی آئی جی ونجارا کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کیا گیا، بھارت کے تہلکہ ڈاٹ کوم نے ان ہندو لیڈرز کے انٹرویوز نشر کئیے جو قہقہے لگا لگا کر مسلمانوں کے قتل عام اور عصمت دری میں اپنا کردار اور اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کی سرپرستی اور اجازت کا کھلے عام فخریہ انداز میں ذکر کر رہے تھے، اسی ڈاکومینٹری پر تہلکہ ڈاٹ کوم کے خلاف بہت سی کارروائیاں بھی کی گئی تھیں۔

دراصل جو لوگ رات کو بھارت میں سوئے اور صبح اٹھے تو پاکستانی بن چکے تھے، اور پھر ہندو سکھ مالکان کی چھوڑی جائیدادوں پر قبضے کر کے صاحب جائیداد بھی بن گئے، یعنی ایک پہاڑی محاورے کے مطابق ”اڈیاں مارتے مارتے، گڈیاں چلانے لگے“ (یعنی جیسے گدھے کی سواری کے دوران اس کو چلانے کے لیے ایڑھیاں مارنی پڑتی ہیں، ان کو ہی ”اڈیاں“ کہتے ہیں ) ان کو ہندو اکثریت کے ساتھ رہنے کا تجربہ کیا معلوم ہو گا۔ اب فیشن بن چکا ہے کہ پاکستان کو گالیاں دو، بتاؤ کہ یہ غلط بنا تھا، ہندو تو بہت اچھے تھے، ان کے اجداد ان ہندو اور سکھ مالکان کے مویشی نہلانے پر ملازم تھے۔ اور یہ کام ملنا بھی اعزاز والی بات سمجھی جاتی تھی۔ ذرا راولپنڈی کے سجان سنگھ کے خاندان اثر و رسوخ، عہدوں اور جائیداد کے بارے میں ہی پڑھ لیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں، راولپنڈی کے مضافات کے دیہات کے معززین کو کسی کام سے راولپنڈی آنا پڑتا تو وہ اپنے تانگوں کو چادروں سے ڈھک کر شہر سے گزرا کرتے، کہ کوئی ہندو یا سکھ دکاندار جن کے یہ معززین اکثر مقروض ہوا کرتے تھے، اپنے قرض کی وصولی کے لیے آواز نہ مار دے۔

اسی طرح کلر سیداں کے بیدی خاندان کے اثر و رسوخ اور جائیداد کے بارے میں بھی کچھ مطالعہ کر لیں، یہ خاندان اس پورے علاقے میں اتنا با اثر اور مقتدر ہوا کرتا تھا کہ مشہور ہے کہ ایک بار وائسرائے ہند نے ان کے پاس ملاقات کے لیے آنا تھا تو اس کے استقبال کے لیے روات سے لے کر کلر سیداں اس خاندان کی شاندار رہائش گاہ جسے بیدی محل کہا جاتا تھا، تک پہلے چاول کی فصل کے ڈنٹھل جنھیں مونجی کہا جاتا تھا بچھائے گئے اور پھر روات سے کلر سیداں بیدی محل تک اس مونجی پر سرخ قالین بچھائے گئے۔ اس سے ہی اس خاندان کی شان و شوکت اور طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لاہور میں بھی بوٹا رام، گنگا رام، وغیرہ بڑے ہندو امراء میں سے تھے۔ ایک بھی ایسا مسلم خاندان بھی بتائیں جو اس وقت واقعی ان کے مقابلے یا برابر کا مقتدر ہو۔ اس بے خبر اور گمراہ نوجوان نسل کو ہندو کے بارے میں اس رومان میں مبتلا ہونے سے پہلے ان سے ذرا پوچھ لینا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان ٹوٹ جائے تو ان کا مقام کیا ہو گا؟ بنگالیوں نے کلچر اور زبان اور ہمارے تعصب کی بنیاد پر ہم سے علیحدگی اختیار کی لیکن اتنی عقل ان میں بھی تھی کہ بھارت والے ہندو اکثریتی بنگال کو اپنے ساتھ ملانے یا خود ان کے ساتھ ملنے کی بات یا کوشش تک نہیں کی حالانکہ مشرقی اور مغربی بنگال کی ایک زبان ایک کلچر ایک تہذیب ایک خوراک ہے صرف وہ ہندو بنگالی ہیں اور یہ مسلم بنگالی۔

لہذا حسینہ واجد جیسی ”بنگلہ قوم پرست“ بھی کبھی غلطی سے بھی بنگال کے اتحاد یا انضمام کی بات نہیں کرتی۔ ادھر ہم کو پاکستان چبھ رہا ہے اور جیسے بھی لیکن پیٹ بھر کر کھانے کے بعد ہم کھانا ہضم کرنے کے لیے ملک توڑنے، اس کے باشندوں کے خلاف آپس کی نفرت، منافرت اور تعصب بڑھانے کی باتیں کرنا، ”روشن خیالی“ سمجھتے ہیں۔ ذرا ایک سوال اپنے آپ سے پوچھیں کہ فرض کرو (، خدانخواستہ ) پاکستان ٹوٹ جاتا ہے اور آپ اب مغربی پنجاب، کے پی کے، ، بلوچستان یا سندھ کے باشندے ہیں تو ذرا اس حالت اور حالات کا اپنے گردوپیش کے تناظر میں ایک امکانی منظر نامہ اپنے ذہن میں بنا کر موازنہ اور تجزیہ فرمائیں۔

ہماری گزارشات کا مطلب ہرگز کسی دوسرے مذہب کے بارے میں تعصب یا نفرت پیدا کرنا نہیں، لیکن کسی خیالی اور فرضی کیفیت میں رہنا بھی ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے ٹھیک نہیں، موجودہ پاکستان کے نظام سے ہمیں ہزار شکایات سہی، لیکن اس کے وجود کی اہمیت سے کوئی بدنصیب ہی انکار کر سکتا ہے، یہ وطن سلامت رہے تو ہم کبھی نہ کبھی اسے اپنے خوابوں کی تعبیر کے مطابق ایک فلاحی مملکت بنا لیں گے۔ ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف ”مزید جمہوریت“ یعنی جمہوری نظام کے تسلسل میں ہی ہے، ایک بنیادی اصول ہے کہ مسائل کا حل ہمیشہ ”دستیاب آپشنز“ میں سے ہی ڈھونڈنا ممکن طریقہ ہوا کرتا ہے۔

لہذا ہمیں ان مسائل کے حل کے لیے اپنے وطن کی سرحدوں کے باہر کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اپنے اندر جھانکنا چاہیے، اور اپنے آپ سے سوال کرنے چاہئیں، اور خود سے ان سوالات کے جوابات بھی دینے چاہئیں۔ ہمارے مسائل کسی ”ایلیئن“ نے آ کر حل نہیں کرنے، بلکہ بالآخر ہم نے ہی اپنے وطن کو کامیاب اور اپنے خوابوں کی تعبیر بنانا ہے اور اس اپنے گھر کی ملکیت مکمل طور پر خود حاصل کرنی ہے۔ جیسے ہم کسی ناقابل استعمال کھنڈر بن چکی عمارت کو گرا کر اس کی جگہ دستیاب وسائل اور مٹیریل استعمال کرتے ہوئے اپنی ضرورت کے مطابق ایک کارآمد اور خوبصورت نئی عمارت تعمیر کر لیتے ہیں جو آنے والے کئی سو سال تک استعمال میں آنے کے لیے مناسب ہوتی ہے، اب اگر ہمارے پاس پلاٹ یا زمین ہی نہ ہو، یا کوئی چھین لے یا ہم خود اسے دوسروں کو فروخت کر دیں گے تو تعمیر نو کا مرحلہ تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے کہ پہلے دوبارہ سے مہنگی زمین خریدیں جس کی استطاعت ہم میں نہ ہو۔ تو یہ پاکستان بھی وہی پلاٹ ہے جو اللہ کا شکر ہے ابھی ہماری ملکیت ہے اور موقع ملتے ہی ہم اس پر تعمیر شدہ پرانے کھنڈر کو مسمار کر کے یہاں اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق آئندہ صدیوں تک کام دینے والی، ایک خوبصورت اور کارآمد عمارت تعمیر کر لیں گے۔
واپس کریں