دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان پر عفریت کا سایہ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
قیام پاکستان کے وقت گو کہ قاٸد اعظم کو زیادہ وقت نہ مِلا, لیکن پھر بھی پاکستان کے لٸیے ایسے فلاحی نظام کے قیام کا خاکہ بنایا گیا تھا , جیسا کہ آج مغرب کے مثالی فلاحی ممالک میں موجود ہے , جس میں عوامی ضروریات اور سہولیات و خدمات کے شعبے سرکاری تحویل میں اور حکومت کی زمہ داری ہوتے , اوراس کے ساتھ ساتھ پراٸیویٹ سیکٹر صنعت کاری , بینک کاری اور تحقیق کے شعبوں میں میں سرکاری اداروں کے شانہ بشانہ کام کرتا ہے ۔ کچھ سال تک تو یہ نظام کسی حد تک کامیابی سے کام کرتا رہا , جس دور کو آج بھی بہت سے لوگ یاد کرتے ہیں , اس فلاحی نظام کے تحت خوراک , تعلیم , علاج , رہاٸش اور رسل و رساٸل حکومت کی زمہ داری تھا , برا بھلا چند سال تک یہ نظام جاری رہا اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے سلسلے میں قابل زکر طور پر اپنی افادیت ثابت کرتارہا ۔

ہماری نسل کو اب تک وہ راشن ڈپو سے سستے داموں خوراک کی بنیادی اشیاء کی فراہمی , سرکاری تعلیمی اداروں میں یونیورسٹی کے درجے تک کی معیاری تعلیم , رسل رساٸل کی بہترین سرکاری سہولیات جن میں شہروں کے لٸیے اربن ٹرانسپورٹ , شہروں کے درمیان اور بین الاضلاعی اسفار کے لٸیے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کا بہترین نظام ,طویل سفر اور اشیاء کی نقل و حمل کے لٸیے کے لٸیے پاکستان ریلوے اور اندرون ملک اور بیرون ملک سفر کے لٸیے” پی آٸی اے” جیسی مثالی اوربہترین سروس جو سرکاری سرپرستی اور انتظام کے تحت کام کر رہی تھی , یاد ہے ۔ سرکاری ہاوسنگ کا شعبہ مختلف شہروں میں عوام کو رہاٸش کی فراہمی کے لٸیے انتہاٸی بہترین ,تمام سہولتوں کے ساتھ انتہاٸی سستے داموں عوام کی قوت خرید کو مدنظر رکھتے ہوے ہاوسنگ سکیمز کی تیاری اور الاٹمنٹ کا کام کر رہا تھا ۔ اس زمانے میں ان سہولیات اور ان کا بہتر ہوتا ہوا معیار دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد کی مشکلات پر قابو پا کر بہت جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگے گا ۔

لیکن دوسری طرف ایک ” کھیل “ اور بھی جاری تھا جس میں انتہاٸی اعلیٰ درجے کی فنکارانہ مہارت سے رچی سازش کے زریعے پاکستان کی سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹایا گیا , ایک پراسرار فضاٸی حادثے میں پاکستان کے سینٸیر ترین اور آٸندہ آرمی چیف بننے والے جنرل افتخار اور چند دوسرے سینٸیر افسران کی ہلاکت کے واقعے سے میدان میں حسبِ منشاء ری پوزیشننگ کی گٸی , اور ایوب خان کو آگے لایا گیا , اور ملک کا اقتدار سیاسی قیادت سے چھین کر کمزور سول نوکر شاہی کے حوالے کر دیا گیا , ان کی سرپرستی سے کچھ عرصہ تک پاکستان میں اقتدار کے لٸیے ” میوزیکل چٸیر “ قسم کا کھیل کھلایا جاتا رہا ,اور پھر” مناسب وقت ” آنے پر ان کمزور اور عوامی حمایت سے محروم بیوروکریٹس کو ہٹا کر اس وقت کی عسکری قیادت نے ایوب خان کی قیادت میں براہ راست اقتدار پر قبضہ کر لیا -

آج ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں توواضع طور پر ایسا دکھاٸی دیتا ہے, کہ قیام پاکستان کے فوری بعد سے بیرونی طاقتوں برطانیہ اور امریکہ نے اپنے سابقہ قریبی تعلق اور ” رشتے “ کی بنیاد پر کچھ اداروں کی پس پردہ مدد اور حوصلہ افزاٸی کے زریعے پاکستان کے اقتدار کا میدان اپنے مفادات کے مطابق ترتیب دیا , اور پاکستان کے اقتدار کو اپنے کنٹرول سے باہر والی سیاسی قیادت سے بتدریج چھین کر ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا , اس ضمن میں لیاقت علی خان اور حسین شہید سہروردی کے پاے کے لیڈرز کو جنہوں نے تحریک پاکستان کی تحریک کی قیادت میں قاٸد اعظم کے شانہ بشانہ کام کیا , ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا , اس عمل میں سازش کُنندگان کوحاصل بیرونی طاقتوں کی سرپرستی کے شواہد بھی واضع ہیں ۔

ان تمام سازشوں اور جوڑ توڑ کے بعد اکتوبر 1958 میں جب ایوب خان نے براہ راست اقتدار سنبھالا تو اس کے بعد جو سلسلہ اور تعلق پوشیدہ تھا, وہ رفتہ رفتہ منظر عام پر آنا شروع ہو گیا ، امریکہ ہی کی ہدایت بلکہ حکم پربھارت کے ساتھ اس کے مفادات کے مطابق " سندھ طاس معاہدہ " کیا گیا جس میں تین جنوبی دریا, راوی ، ستلج اور بیاس مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دئیے گئے اور تین شمالی دریاوں چناب ، جہلم اور سندھ پر پاکستان کا مشروط اور محدود حق طے کیا گیا ساتھ ہی پاکستان کے حصے میں آنے والے ان تینوں دریاوں پر بھارت کا " حق استعمال " بھی تسلیم کیا گیا ، جبکہ بھارت کے حصے میں آنے والے تین جنوبی دریاوں پر بھارت کا مکمل حق تسلیم کرتے ہوے ان پر پاکستان کے " حق استعمال " سے دستبرداری قبول کی گئی ۔

اسی دور کا ایک تاریخ ساز واقعہ پاکستان کا روس کے خلاف تشکیل دئیے گئے امریکی فوجی اتحاد سیٹو کا حصہ بن جانے کا فیصلہ تھا ، جو واضع طور پر پاکستان کے خلاف روس کی کسی " امکانی جارحیت " کے خلاف امریکی مدد پر مشتمل تھا , لیکن اس معاہدے میں واضع طور پر تحریر کر دیا گیا کہ دی جانے والی امریکی عسکری امداد کسی بھی طرح بھارت کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکے گی ، بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے اسی معائدے کو بہانہ بنا کر کشمیر میں راے شماری کے اپنے ہی وعدے پر عمل سے صاف انکار کر دیا ۔ اسی معاٸدے کی وجہ سے انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے ہم پر , کٸیے گٸے معاٸدے اور امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کے وعدے کو وجہ بتا کہ ہمیں اسلحہ اور اس کے فاضل پرزوں اور ایمونیشن کی سپلاٸی روک دی تھی ۔ اسی دور میں پاکستان میں نظریاتی محاز پربھی سرمایہ دارانہ نظرٸیے کے مقابل ترقی پسندانہ اشتراکی نظریہ پر کڑی ضرب لگاٸی گٸی , اس دور میں سوشلزم کا نظریہ ایک ناقابل معافی جرم تصور کیا جانے لگا , اور اس نظرٸیے پر یقین رکھنے والی قیادت کو صرف ان کے نظرٸیے کی پاداش میں چن چن کر جیلوں میں ڈالا گیا , کٸی ایک کو ازیت گاہوں میں تشدد کر کے ہلاک تک کر دیا گیا , پاکستان میں ترقی پسند پارٹی کے لیڈر اعلی تعلیم یافتہ حسن ناصر کو شاہی قلعے میں تشدد سے ہلاک کر دیا گیا , یہ بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت کے نظریات کی جنگ تھی جس میں پاکستان کی اسلامی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کی حمایت ہمیشہ کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی طرف رہی , سوشلزم اور مساوات انسانی کی بات کرنا یا نظریہ رکھنا ناقابل معافی جرم قرار دے دیا گیا , اس تمام نظریاتی کشمکش کے پس منظر میں امریکی مدد , سرپرستی اور حمایت مکمل طور پر پاکستان کے اقتدار پر قابض آمر ایوب خان کو حاصل رہی ۔

پاکستان کی ریاست اور سیاست میں اس بالواسطہ امریکی نفوذ نے بتدریج اپنے سرمایہ دارانہ نظرئیے کے تحت حکومتی سرپرستی کے تحت عوامی فلاحی نظام پر کڑی ضرب لگائی اور بتدریج پاکستان کی اقتصادیات پر چند سرمایہ دار خاندانوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جانے لگا ، اسی لئیے صدر ایوب کے طویل دور حکومت میں پاکستان کی معیشت اور سرماے کا ارتکاز بتدریج سرکاری شعبے کے ہاتھوں سے نکل کر " بتیس " خاندانوں کے ہاتھوں میں آ گیا ، اس بنیادی تبدیلی کو عوام کے مفاد میں بتانے کے لئیے میڈیا کے ذریعے ایک منظم مہم چلائی گئی ، جس میں عوامی بنیادی ضروریات اور خدمات کی فراہمی کے حکومت پاکستان کے وعدے اور اقدامات کو ملکی معیشت کے لئیے تباہ کن بتایا جانے لگا ، اس پراپگنڈہ کی اُڑاٸی ہوٸی دھول میں کوٸی یہ نہ دیکھ سکا کہ پاکستان کے تقریباً ہمساے میں روس نے کس طرح ریاستی زمہ داری میں ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس نے ان کو علم وترقی کی اس معراج پر پہنچا دیا کہ وہ ہر شعبے میں امریکہ کی برابری کرنےلگا بلکہ بعض شعبوں میں اسے کہیں پیچھے چھوڑ دیا ۔ لیکن ہمارے ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت میں ہمارے دینی طبقات اور مکاتیب فکر زاتی ملکیت کے تقّدس کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام اور آمریت کے مددگار کا کردار ادا کرتے رہے ۔

آج ہم جس مقام پر پہنچ چکے ہیں یہ اسی ” نظریاتی “ تسلسل کا منطقی نتیجہ اور شاخسانہ ہے , جس نے رفتہ رفتہ ہمیں تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے , موجودہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ۔ اس وقت مشکل میں صرف عوام ہیں جو اپنے بچوں کو ہلاک کرنے اور خود کشی تک پہنچ چکے ہیں , جو ”آٸی ایم ایف“ کا قرض عوام کی مشکلات کم نہیں کر سکتا اس کو نہ لینا ہی زیادہ فاٸدہ مند ہو گا ۔حکومت کروڑوں ڈالرز ایسی اشیاء پر خرچ کر رہی ہے جو صرف امراء کے استعمال میں آتی ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایسی درآمدی اشیاء پر محدود پابندی لگانے کی کوشش کی لیکن آٸی ایم ایف نے یہ پابندیاں فوری طور پرختم کرنے کی شرط عاٸد کر دی , گویا انہوں نے ہمیں ایسے اقدامات بھی نہیں کرنے دینے , جو ہمیں اس کیفیت سے نکلنے میں تھوڑی سی بھی مدد کرتے ہوں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تمام اشیاء کی برآمد پر مکمل پابندی لگا دی جاے اور اپنانظام اس طرح ترتیب دیاجاے, کہ اپنے ملک میں پیدا ہونے والی اشیاء کو ہی استعمال کیا جاے , جو کچھ ہم خود بنا سکتے ہیں ان اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی عاٸد کی جانی چاہٸیے ۔

زوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں قیام میں لاے گٸے اداروں ہیوی مکینیکل کمپلیکس , اور ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کو دوبارہ جدید بنیادوں پر فعال کیا جانا چاہٸیے , سٹیل مل ایک اثاثہ ہے , پوری دنیا میں کوٸی بھی سٹیل مل نقصان میں نہیں جا رہی سواے ہماری اس سٹیل مل کے , اس مِل میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کٸیے گٸے تمام فالتو ملازمین کی بھاری تعداد کو گولڈن شیک ہینڈ دے کر فارغ کیا جانا چاہٸیے , اور سٹیل مل کو جدید کاری اور بحالی کے لٸیے کم از کم دس سال تک کے لٸیے روس کے حوالے کر دیا جانا چاہٸیے , ہمارا ہمسایہ برادر ملک ایران شدید ترین پابندیوں کے باوجود بھی انتہاٸی معیاری پراسیسڈ فوڈ آٸٹم تیار کر رہا ہے , جو سمگل ہو کر انتہاٸی سستے داموں ہمارے ملک میں بھی دستیاب ہیں , ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے , پھلوں , ڈیری مصنوعات اور پراسیسڈ زرعی مصنوعات ,لاٸیو سٹاک فارمنگ کی منظم ملکی پیداوار کے زریعے پاکستان کے عوام کو سستی اور معیاری اشیاء خوردونوش ملک کی ہی پیداوار سے تیار کر کے مہیا کی جا سکتی ہیں , خوردنی تیل ملکی زرعی پیداوار مثلاً سرسوں اور کینولہ وغیرہ کی ملکی پیداوار میں اضافے کے زریعے اندرون ملک تیار اور عوام کو فراہم کیا جانا چاہیٸے , تیل ایران سے سستے داموں درآمد کیا جا سکتا ہے , افغانستان کی طرف سمگلنگ کا مکمل خاتمہ کیا جانا چاہٸیے _

لیکن ہمارے مقتدر یہ سب کبھی نہیں کریں گے , تقریباً سب بڑے سیاسی خاندان اور ان کے لواحقین خود سرمایہ دار اور کارخانہ دار ہیں , یہ عوام کے ٹیکسز سے قاٸم کٸیے ہوے کارخانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پہلے انتظامی طور پر اوورلوڈ کرتے ہیں , بدانتظامی کا شکار بناتے ہیں پھر ان کو خسارے کا شکار کر کے پراٸیویٹاٸزیشن کے بہانے خود براہ راست یا بالواستہ طور پر خرید لیتے ہیں , اور پھر معجزانہ طور پر یہی ادارے شاندار کارکردگی دکھانے لگتے ہیں لیکن اس پر بھی یہ مراعات یافتہ طبقہ ٹیکس چوری کرتا ہے , کارٹل بنا کر مصنوعات میں مصنوعی اضافے کوبرقرار بھی رکھتے ہیں اور اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں , دوسری طرف حکومت میں بھی باری باری یہی چہرے اور خاندان قابض رہتے ہیں لہزا تمام پالیسیاں ایسی بناٸی جاتی ہیں جن سے ان درندہ صفت سرمایہ داروں کی مراعات اور ناجاٸز منافع کا تحفظ اور ان میں اضافہ ہوتا رہے , اس وقت ہماری بڑی صنعتوں اور کارخانوں پر ان ہی سیاسی سرمایہ دار اورجاگیر دارخاندانوں کی اجارہ داری ہے , عوام ان کے لٸیے ” لاٸیو سٹاک “ یعنی زندہ زخیرہ ہیں , جن کو ہر طرح سے لُوٹ کر نچوڑ کر ان کے خون سے اپنے چہروں کی سرخی کااہتمام کیا جاتا ہے ۔ اپنے زاتی مفادات کے تحفظ کے لٸیے انہوں نے امریکی اور عالمی سرمایہ کار اداروں کی ہمیں کمزور , مجبور اور بالاخر تباہ کرنے کی پالیسیوں پر چلنا ہے , اور ان کی ہدایت اور حکم پر اپنے ہی ہاتھوں اپنے ملک کا گلہ گھونٹتے چلے جانا ہے ۔

ملک کی قیادت اور انتظام جب تک ان موجودہ خونی جونکوں کے ہاتھ میں رہے گی عوام اسی طرح مشکلات کا شکار اور زلیل و خوار رہیں گے , افلاطون نے ڈھاٸی ہزار سال پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ اقوام ناکامی اور تباہی کا شکار بن جاتی ہیں جن کی قیادت سرمایہ دار یا عسکری شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے ہاتھ ہوتی ہے , افلاطون اس کی وجوہات بھی بتاتا ہے کہ ان طبقات کے برسراقتدار رہنے سے کوٸی ملک کیسے تباہ وبرباد ہوتا ہے , کوٸی بھی سرمایہ دار ہو اس کے لٸیے سب سے مقدم اس کا سرمایہ ہواکرتا ہے , اور ملک و قوم کے مفادات اس کے لٸیے ضمنی حیثیت رکھتے ہیں , لہزا وہ اپنے سرماے اور اثاثہ جات کے تحفظ کے لٸیے ملک کے مفادات داو پر لگا دیتا ہے اسی طرح عسکری شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنی بنیادی تربیت کے تحت ہر کسی کو صرف دو طریقے سے دیکھنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ان کے لٸیے کوٸی یا ان کا دوست ہوتا ہے یا ان کا دشمن , اپنی غیر لچکدار اور محدود زھنیت کی وجہ سے ان کی سوچ کی حدود بہت محدود ہوا کرتی ہیں , ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے اب انحطاط اور بِگاڑ کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ ان دونوں طبقات میں فرق کرنا مشکل ہو چکا ہے , یہ دونوں طبقے ایک جیسے ہو چکے ہیں , جن میں قدرِ مشترک سرمایہ اور زاتی مفادات ہیں ۔

موجودہ حالات میں یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا , لہزا اس ہلاکت خیز نظام کو ہی جاری رکھنے کے علاوہ اور کوٸی چارہ نہیں ,یہ بات کرنے اور پھیلانے والے وہ لوگ ہیں جن کے معاشی مفادات اندرون ملک اور بیرون ملک محفوظ ہیں , یا عوام میں سے ایسے جاہل روایت پسند جو ہر مصیبت اور ہر ظلم و استحصال کو ” لوح محفوظ ” پر لکھا ہوا سمجھ اور بتا کر بدستور اس صورتحال کے سامنے جھک جانے اور اس صورتحال کے ساتھ سمجھوتہ کر لینے کو ہی واحد ممکن راستہ سمجھتے اور بتاتے ہیں ۔ ان کے پاس تمام انسانی آلام و مصاٸب کا مداوا اور حل صرف ”بعد از موت“ ہے لہزا ان کے مطابق صبر سے خود بخود حالات بدلنے یا اپنی موت کا انتظار کرنے کے سوا اور کوٸی چارہ نہیں ۔ جب تک ہم اپنے ملکی اور عوامی مفاد میں پالیسیاں تشکیل نہیں دیں گے عوام اسی طرح اپنے بچوں کو ہلاک کر کے خود کشیاں کرتے رہیں گے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ہم کبھی بھوکے نہیں مر سکتے لیکن ہر شعبے میں پالیسی ساز پوزیشنز پرایسے بِکے ہوے مفاد پرست افراد بٹھاے گٸے ہیں, جن کے تمام زاتی مالی مفادات بیرونی ممالک میں ہیں ۔ ان حالات میں موجودہ نظام کا تسلسل اور اس پر اصرار قومی خودکشی کے علاوہ کچھ نہیں ۔
واپس کریں