دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عبداللہ گل اور ”جہاد کونسل“ کی پریس کانفرنس
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
جنرل (ر) حمید گل مرحوم کے صاحب زادے محترم عبداللہ گل کی زیر سرپرستی ”جہاد کونسل“ کی پریس کانفرنس ایک لمحہ فکریہ ہے، اور یہ ظاہر کرتی ہے، کہ ان آزمودہ کار اور جانے پہچانے عناصر سے پریس کانفرنس کروانا بالواسطہ طور پر محترم عمران خان نیازی کی مدد ہے، جو دوسری طرح سے کرنے کی کوشش جا رہی ہے، کیونکہ پاکستان کے عام آدمی کے سامنے ان جہاد کونسل والے عناصر کی حقیقت پوری طرح آشکار ہے۔ لہذا اب اگر یہ اس طرح پریس کانفرنس کر کے ”کسی کی“ مخالفت کریں گے، امریکہ کو دھمکیاں دیں گے، سڑکوں پر چیلینج دینے کی بات کریں گے، تو ان کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کے پیش نظر یہ جس طرف جائیں گے، پاکستان کے عوام کی اکثریت زیادہ گہرائی سے سوچے بغیر دوسری طرف جائے گی، اور دوسری طرف عمران نیازی کو بٹھایا گیا ہے۔

ماضی قریب میں محترم عمران خان نیازی کی طرف سے تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی کھلی حمایت سے پاکستان کی سول سوسائٹی اور باشعور حلقے ان کے ان خیالات کے بارے میں شدید تحفظات اور رد عمل ظاہر کرنے لگے تھے، لہذا ان پر اس الزام اور اس کے تاثر کو زائل کرنے کے مقصد سے ان کے ”خلاف مشہور زمانہ جہاد کونسل” سے پریس کانفرنس کروا کر عمران نیازی کے خلاف طالبان کی حمایت پر عوام میں پیدا ہونے والے ردعمل کو روکنے اور توازن قائم کرنے کے لیے“اس” طرف بھی ویسے ہی عناصر کو لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے ۔یاد رہے کہ یہ وہی “جہاد کونسل” ہے جس کو فیٹف کی طرف سے پاکستان کو گرے اور پھر بلیک لسٹ میں رکھ دیے جانے کے خطرے کی وجہ سے منظر سے ہٹا لیا گیا تھا، اب ان کو دوبارہ سے “جھاڑ پونچھ” کر سامنے لا بٹھایا گیا ہے، قابل غور ہے کہ اب کی بار انہوں نے نہ بھارت کے خلاف کشمیر میں جہاد لڑنے کا ذکر کیا ہے۔ نہ ہی افغانستان کے خلاف کسی جنگ کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے پاکستان کی ہی ایک سیاسی پارٹی تحریک انصاف کے خلاف اور مقابلے میں سڑکوں پر نکلنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

گویا اب جو بھی ”جہاد“ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہ پاکستان کے ہی اندر اور اس کی سڑکوں، چوراہوں پر ہی کیا جائے گا، گویا معاملہ ایکسپوز ہو جانے کے بعد محترم عمران خان نیازی کی مدد کا کام ”ٹی ٹی پی“ کے بجائے اب دوسری طرح سے یہ ”رزم و بزم چشیدہ و آزمودہ“ حضرات کریں گے، سادہ ترین الفاظ میں مطلب اور منصوبہ یہی ہے، کہ ان نام نہاد جہاد کونسل والوں کی مخالفت اور رد عمل میں عام پاکستانی عوام منطقی طور پر یہی سمجھیں گے کہ عمران نیازی واقعی روشن خیالی کی علامت اور پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے، اسی لیے یہ محب الوطن عناصر اس کے ”خلاف“ باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

یہ ایک انتہائی گہری اور خطرناک چال ہے، جس کا مقصد انتہائی چالاکی سے عوام کو ہانکا کر کے ان جہاد کونسل والے عناصر کے مخالف سمت لے جانے پر مجبور کر دینا ہے، گویا اس پردہ زنگاری کے دونوں طرف وہی معشوق پوشیدہ و براجمان ہے۔ جہاد کونسل کی یہ پریس کانفرنس اگر کسی کو فائدہ پہنچائے گی تو وہ عمران نیازی ہوں گے۔ جن کی تیاری، استواری اور حمایت پر مرحوم جنرل حمید گل سے لے کر اب تک بہت کچھ داؤ پر لگایا جا چکا ہے، اور پاکستان کے عوام کی کمزور یادداشت کا سہارا لیتے ہوئے ان ہی جنرل حمید گل مرحوم کے ”برین چائلڈ“ کی بظاہر مخالفت کے لیے، ان ہی جنرل (ر) حمید گل مرحوم کے ”سویلین“ ولی عہد محترم عبداللہ گل اپنے مرحوم والد محترم کے دیرینہ و آزمودہ اثاثے ”جہاد کونسل“ کو لے کر میدان میں دکھائی دے رہے ہیں۔

یہاں اگر ہم یہ بھی یقین کر لیں کہ یہ سب خلوص نیت سے کیا جا رہا ہے تب اس ”مخلصانہ، احمقانہ یا معصومانہ“ انداز فکر اور اس کی صلاحیتوں پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، جو ماضی میں بار بار ناکام ہو جانے بلکہ نقصان پہنچانے والے تجربے کو بالکل اسی طرح ان ہی اجزا کے ساتھ دہرا کر معجزانہ طور پر کسی نئے بہتر نتیجے کی توقع رکھے ہوئے ہیں۔ یادش بخیر جنرل حمید گل مرحوم کا انداز فکر اور لائف ریکارڈ اسی قسم کے منصوبوں سے مزین رہا، جن میں مقصد بظاہر کچھ ہوتا لیکن درپردہ فائدہ کوئی اور اٹھاتا، مرحوم کے ”سٹریٹیجک ڈیپتھ“ کے مشہور زمانہ منصوبے جسے اب مضحکہ خیز حد تک متروک حیثیت حاصل ہو چکی ہے، سے لے کر افغان مجاہدین کی فیلڈ میں موجود طاقت کی آپریشن جلال آباد میں تباہی تک، اور رئیر سپلائی کی اوجڑی کیمپ میں تباہی تک سب شاندار منصوبے جہاد کے نام پر اور امریکہ کے مفاد میں موصوف کی طرف سے ہی سرانجام دیے گئے تھے، جن کا فخریہ کریڈٹ بھی لیا جاتا رہا۔

تب ہی سے اب تک خصوصی مواقع پر خصوصی دعوت ناموں پر مدعو کئیے گئے ”مسلم جہادی امہ“ کے ان قابل قدر اکابرین کے ایسے اجتماع اور پریس کانفرنسز ہر اہم موقع پر معجزانہ طور پر نمودار ہو کر قوم کی رہنمائی کا اہم ترین فریضہ سرانجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا بقول اقبال ”کیا کسی کو، پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے“ یہاں حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے لیے عموماً اور مسلم لیگ (ن) کے لیے خصوصاً لمحہ فکریہ ہے، کہ تحریک انصاف کا سیاسی میدان میں سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کی بنیادی ذمہ داری تو ان ہی کی ہے، جو یہ اپنے تئیں لڑنے کی کوشش کرتے دکھائی بھی دے رہے ہیں لیکن یہاں ان کو ہم خیال عناصر جو ماضی میں برسر عمل ”سابقہ“ قیادت کے مشہور زمانہ ”باجوہ ڈاکٹرائن“ کے بازوئے شمشیر زن اور مدد گار تھے، کا سامنا درپیش ہے، جو روایتی ”گل محمد“ کی طرح اپنی سابق پوزیشن پر ہی براجمان اور قائم دکھائی دیتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ ان کے بھی اس ”استقلال“ کی پس پردہ وجوہات ہوں گی، ورنہ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا ہے کہ ایک صاحب بغل میں تحریر شدہ فیصلوں کی فائل دبائے ان ہی مقدس ایوانوں کے عقبی دروازوں سے آتے جاتے دکھائی دیا کرتے تھے، اور بلا چوں چرا تعمیل ہوا کرتی تھی، اب وہ زمانے بھی نہیں رہے جب ”عشق بے خطر آتش نمرود“ میں کود پڑا کرتا تھا، لہذا حالات جیسے بھی ہوں ان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنا اور اس کشمکش کو سیاست کے تابع رکھنا بھی بنیادی طور پر حکمران اتحاد کی ہی ذمہ داری اور فریضہ ہے۔

دوسری طرف یہ منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے کہ شاید امریکہ نے اپنے سفیر کے ذریعے ڈار صاحب کو ”موسم کی خرابی کے بہانے“ دورہ امریکہ سے منع کر دیا ہے، لہذا اب ہمارے سیکریٹری لیول کے افسران آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے تشریف لے جا رہے ہیں، سفارت کاری کی ایک اپنی دنیا اور ایک اپنی زبان ہوا کرتی ہے لہذا یہاں واضح پیغامات کے بجائے بالواسطہ اور اقدامات کے ذریعے پیغام کاری کی جاتی ہے، لہذا زلمے خلیل زاد جیسے سینئیر اور اہم ترین امریکی اہلکار کے پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات کے بارے میں دھمکی آمیز غیر پارلیمانی بیانات، جن کی امریکی حکومت نے رسمی تردید بھی کی، لیکن امریکی حکومت کا حالیہ رویہ یہ بتاتا ہے کہ اس معاملے میں بھی ”درحقیقت“ پرنالہ وہیں ہے، جس کا واشگاف اظہار زلمے خلیل زاد اور چند دیگر امریکی سینیٹرز کر چکے ہیں۔ ان پیچیدہ اور گھمبیر حالات میں محب الوطن سیاسی اور غیر سیاسی طاقتوں کو مکمل شعور اور بیداری کے ساتھ حالیہ معاملات اور واقعات کے پس منظر، اور نتائج سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مستفید ہونے والوں، اور پس پردہ منتظر عناصر کے اصل عزائم پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

واپس کریں