دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملک کا موجودہ سیاسی منظر نامہ اور اس کا پس منظر
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
اسٹیبلشمنٹ اگر اتنا ہی احسان کرے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہی ان طالع آزماوں کو لگام ڈالے جو ایک حصے کے نیوٹرل ہو جانے سے اتفاق کرتے دکھای نہیں دیتے, اور یہ کردار اسی طرح ان گندے کرداروں کی سرپرستی اورمدد جاری رکھے ہوے دکھای دے رہے ہیں, جیسے وہ ماضی میں کیا کرتے تھے , اس سرپرستی کا ثبوت ماضی میں اشاروں پر بار بار پارٹیاں بدلنے والے اور خود کو فخریہ اور اعلانیہ طور پر کسی گیٹ کی پیداوار بتانے والے ازلی فصلی بٹیروں کی حالیہ استقامت اور اس کے بلند و بانگ اعلانات ہیں , قوم ان عناصر اور ان کی استقامت کی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہے , اگر ان کو کہیں سے اشارہ اور سرپرستی حاصل نہ ہوتی, تو یہ کب کے کسی اور کھیت کی طرف پرواز کر چکے ہوتے ۔ اس صورت میں دوسرے حصے کا نیوٹرل ہو جانا بھی کچھ کارگر ثابت نہیں ہو رہا ۔ اس صورتحال میں ملک کے حالات تیزی سے طواف الملوکی اور انارکی کی طرف جاتے دکھای دے رہے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ موجودہ حکومت , کھل کر ان عناصر جن کا یہ مزموم غیر قانونی و غیر آینی کردار کسی سے بھی پوشیدہ نہیں , کے اصل چہرے عوام کے سامنے لاتی, تاکہ عوام کسی غلط فہمی کا شکار ہونے کے بجاے ان کو اچھی طرح سے پہچان لیتے , لیکن الٹا اس وقت عمران نیازی صاحب فوج , عدلیہ , الیکشن کمیشن سے لیکر ان کا مواخزہ کرنے کی بات تک کرنے والے ہر ادارے اور شخصیت پر حملہ آور ہو رہے ہیں , بلکہ ان کو فوج کے اپنے آینی مینڈیٹ کے مطابق سیاست میں نیوٹرل رہنے تک پر اعتراض ہے ,جس کا وہ ان کے لیے توہین آمیز مثالوں کی صورت میں اپنی تقاریر میں کھلے عام زکر کرتے ہیں , دوسری طرف وہ واضع اور کھلی غلط بیانی کرتے ہوے عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو دباو میں لانے کے لیے باقادہ ایک منظم مہم چھیڑے ہوے ہیں , اور بدقسمتی سے اس ناجاز دباو کے اثرات ان اداروں پر پڑتے دکھای بھی دے رہے ہیں ۔
نواز شریف صاحب نے بھی اپنے دور حکومت میں یہی غلطی کی تھی جو موجودہ حکومت پھر سے دھراتی دکھای دے رہی ہے , اور وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے تھے کہ استقامت دکھانے کا بھی کوی مناسب وقت ہواکرتا ہے , اور بعد از وقت دکھای گی استقامت بھی اتنی کارگر نہیں رہتی , جب وہ ان کی سازشوں اور ماوراے قانون و آین اقدامات پر خاموش رہتے ہوے ان کی طرف سے ناجاز شراط مانتے چلے گے, اور الٹا ان عناصر کے مطالبات پر اپنے مخلص ساتھیوں کی قربانی دیتے رہے , حتی کہ نوبت ان کی زات تک آن پہنچی, اور وہ پہلیمعزول پھر جیل اور پھر جلا وطنی کا شکار ہوے , وہ اسی وقت ان عناصر کو کھلے عام عوام کے سامنے ایکسپوز کرتے ہوے اپنے قانونی اختیارات کے مطابق ان کی معزولی اور ان کے خلاف قانونی کاروای اور مواخزے کا اعلان ہی کر دیتے, تو وہ عناصر جس قانون کی ناجاز طور پر آڑ لیتے رہے , وہ آڑ ان سے چھن جاتی , اور پھر وہ جو کچھ بھی کرتے وہ واضع طور پر قانون شکنی اور آین شکنی سمجھا جاتا , اب بھی حالات ان سازشوں کی وجہ سیحسب سابق اسی طرف جاتے دکھای دے رہے ہیں اور اس صورت میں پاکستان کے جمہوری نظام بلکہ خدانخواستہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے اور ان سازشی عناصر کی کامیابی کی صورت میں یہاں بھی مصر ہی کی طرح کا نظام آ جانے کا اندیشہ ہے ۔ جس کے لیے اسلامی صدارتی نظام کے نام کے تحت عرصہ سے لابنگ کی جا رہی ہے اور کہیں یہ منصوبہ تیار پڑا ہواہے , تاکہ اپنے مطلق اقتدار کو اپنی منشا کے مطابق طول دیا جا سکے, اور مخالفت میں یا جمہوری حقوق کے حصول کے لیے اٹھنے والی ہر مخالفانہ آواز کو ظلم و جبر سے خاموش کر دیا جائے ۔
یہ عمران نیازی صاحب جو بار بار اپنے تیں چین کے تعزیری نظام کی مثالیں دیتے ہیں, اس کے پس منظر میں یہی خواہش یا حسرت کارفرما ہے کہ وہ بغیر کسی قانونی کاروای اور شنوای کے مخالفین کو اپنے الزامات پر زبانی حکم سے ہی اپنی پسند کی عبرتناک سزایں دے کر راستے سے ہٹا سکیں , جبکہ دوسری طرف وہ اپنے بارے میں کسی معیاری قانونی کاروای تک کو ماننے پر تیار نظر نہیں آتے , اور اپنی تقاریر میں خود پر عاد کردہ الزامات کا غلط اور گمراہ کن انداز میں قبل از وقت زکر کر کے ان الزامات اور متوقع قانونی کاروای کا اثر زال کرنے کی کوشش کرتے ہیں , جیسے انہوں نے کچھ عرصہ قبل اپنی تقریر میں فرح گجر صاحبہ کے خلاف متوقع کاروای کا قبل از وقت زکر کر کے ان پر عاد ہونے والے امکانی الزامات کا اثر زال کرنے کی کوشش کی , اور اس کے فوری بعد ان محترمہ کو سرکاری مدد سے پولیس کی نگرانی میں ایک چارٹرڈ طیارے میں دبی روانہ کر دیا گیا , جہاں وہ اب تک مقیم ہیں , عمران نیازی صاحب یہ تمام مہم انتہای ہوشیاری سے چلاے ہوے ہیں, اور اپنے ہی آرگناز کیے ہوے ماحول میں باقادہ سیٹ لگا کر اپنے ایسے انٹرویوز صحافی کے روپ میں بٹھاے اداکاروں کے زریعے فلم بند کرواتے ہیں , جن میں سوال تک ان کے حسب منشا اور ان کے پراپگنڈے کو تقویت دینے والے ہوتے ہیں , نیازی صاحب نے اپنے دور حکومت میں آزاد پریس اور میڈیا کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ ادوار آمریت کی سنسر شپ سے بھی بدتر رہا , اور آزاد پالیسی اختیار کرنے والے صحافیوں کو جبری طور پر بیروزگار کروانے سے لیکر ان پر جسمانی طور پر حملے بھی کرواے جاتے رہے , اس پس منظر کے ساتھ ان سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی, کہ وہ کسی باقادہ صحافی کو آزادانہ طور پر انٹریو لینے کا موقع دیں گے ,وہ بدستور فلمی سیٹ لگا کر , اپنے زاتی سٹوڈیو میں بہترین لاٹنگ اور مددگار تنخواہ دار اور وظیفہ خوار سٹاف کے ساتھ خود ساختہ انٹرویوز پرفارم کرتے رہیں گے , تاکہ عوام کی راے عامہ کو گمراہ کرنے کی مسلسل کوششیں بدستور جاری رکھی جائیں ۔
دوسری طرف موجودہ حکومت ناقابل فہم وجوہات کی بنا پر عمران نیازی صاحب کے تقریبا چار سالہ دور حکومت میں کی گی کرپشن اور بدعنوانی کے بڑے بڑے واقعات سامنے لانے اور ان پر کاروای کرنے کے بجاے چھوٹے اور غیر اہم قسم کے الزامات پر اکتفا کرتی نظر آ رہی ہے , یہ تقریبا ایک سو چالیس ارب کی لاگت کے بی آر ٹی پشاور کی دوبارہ تحقیقات کروانے , گرینڈ حیات ٹاورز میں اربوں کی مالیت کے دو فلیٹس کی ملکیت اور زراع ادایگی پر سوال کرنے , پنڈورہ لیکس میں چار زمان پارک کے پتہ پر رجسٹرڈ آف شور کمپنیوں کی اصل ملکیت معلوم کرنے , اپنی آمدنی سے زاد اثاثہ جات بنانے , اپنے رشتہ داروں کے اثاثوں میں حیرت انگیز اضافوں پر سوال کرنے , محترمہ علیمہ خان صاحبہ کی ایک کھرب سے زاد کی بیرونی جایداد اور اثاثہ جات کے زریعہ پر سوال کرنے , بنی گالا کی زمین کو قانونی بنانے کے سلسلے میں یونین کونسل کے پیش کردہ جعلی لیٹر کے معاملہ کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ اورمختلف زراع سے بیرونی ممالک میں بھاری رقومات کی وصولی اور ڈمپنگ پر سوال کرنے کے بجاے ان کا مقابلہ فیصل آبادی جگتوں , کھوکھلی دھمکیوں اور کم مالیت کے غیر اہم معاملات کو اٹھا کر کرنے کی کوشش کرتی دکھای دے رہی ہے , اور اس طرز عمل سے تحریک انصاف کو عوامی راے عامہ کو اس معاملے میں گمراہ کرنے کا موقع مل رہا ہے , اور یہ نیم دلی موجودہ حکومت کے لیے بہت شدید سیاسی نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔



واپس کریں