دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسحاق ڈار کا ’پلان بی‘ کیا ہے؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان نے بجٹ میں آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں، اب عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدہ میں کوئی چیز مانع نہیں۔ البتہ پوری قوم دیکھ سکتی ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ حتی کہ گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ کے بعد منعقد کی گئی کانفرنس میں بھی آئی ایم ایف کے حوالے سے کوئی مثبت یا امید افزا بات نہیں کی۔ ایسے میں شہباز شریف کے اعلانات قومی شرمندگی کی علامت بن چکے ہیں۔

حیرت ہے کہ شہباز شریف نے تمام عمر سیاست میں گزارنے کے باوجود اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے باوصف ابھی تک یہ ہنر نہیں سیکھا کہ کسی ذمہ دار عہدے پر فائز شخص کو صرف وہی بات منہ سے نکالنی چاہیے جو طے ہو چکی ہو یا جس کی تکمیل میں کوئی شائبہ نہ ہو۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی سے وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود شہباز شریف اس صفت سے محروم ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے انہوں نے گفتگو کی اور وہ غلط ثابت ہوئی۔ یہی حال ملک کے وزیر خزانہ کا ہے۔ وہ بھی آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے حوالے سے متعدد بار اعلان کرچکے ہیں کہ چند روز میں معاہدہ طے پا جائے گا جس کے بعد آئی ایم ایف بورڈ پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زائد رقم جاری کردے گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ جو مالی معاہدہ زیر غور ہے اس کی میعاد اس ماہ کے آخر میں ختم ہو جائے گی۔ یہ معاہدہ 2019 میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران طے پایا تھا اور حکومت پاکستان نے بعض شرائط پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن سیاسی بحران کی وجہ سے عمران خان کی حکومت ان مالی اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہی اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تعطل کا شکار ہو گیا۔ مفتاح اسماعیل نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ایک طرف عالمی فنڈ کے ساتھ کامیاب بات چیت کی اور اسے یقین دلایا کہ سیاسی نعرے بازی کے لئے تحریک انصاف کی حکومت نے جو غلطیاں کی تھیں، نئی حکومت انہیں دہرانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سخت مالی اقدامات کرتے ہوئے غیر مقبول سیاسی فیصلے کیے۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا اور مفتاح اسماعیل مسلم لیگ (ن) کے بعض عناصر کی آنکھ کا کانٹا بن گئے۔ ان لوگوں میں مریم نواز جیسے با اثر لیڈر بھی شامل تھے۔ لہذا چھ ماہ کی مختصر مدت میں ہی ان سے وزارت واپس لے کر اسحاق ڈار کے حوالے کردی گئی جو لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے بارے غیر ذمہ دارانہ اور عامیانہ باتیں کرنا شروع کردی تھیں۔ اس کے بعد کیے جانے والے تمام اقدامات کا مقصد سیاسی مقبولیت کو سہارا دینا تھا۔ حالانکہ شدید مالی بحران کے شکار ملک کو سیاسی وزیر خزانہ کی بجائے اس عہدہ پر ایک پروفیشنل اور سنجیدہ مزاج شخص کی ضرورت تھی۔ تاہم نواز شریف اپنے اس قریبی عزیز اور سیاسی ساتھی کے سوا کسی کی مالی مشاورت پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ خود تو پاکستان سے دور لندن میں بیٹھے ہیں لیکن پاکستان میں عمران خان کی مقبولیت کا سامنا کرنے کے لئے انہوں نے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنوا کر پاکستان بھیجا تاکہ وہ کسی جادو کی چھڑی سے ملکی معیشت میں تیزی پیدا کر کے پاکستانی عوام کو حیران کر دیں اور مسلم لیگ (ن) آسانی سے انتخابات جیت جائے۔ لوگوں نے دیکھ لیا کی معیشت جادو کی چھڑی یا تند و تیز بیانات سے نہیں ٹھوس اور ہوشمندانہ اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔

اسی سیاسی امنگ نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ملکی معیشت کو مسلسل بے یقینی اور بحران میں مبتلا رکھا ہے۔ یوں تو سیاسی بحران، عدالتوں کے ساتھ معاملات، اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی ملکی معاشی صورت حال پر اثرانداز ہو رہے تھے لیکن اس پریشانی میں ضروری تھا کہ ملک میں وزارت خزانہ کا انتظام ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہو جو سوجھ بوجھ سے کام لے سکے اور تمام حالات کا جائزہ لے کر مناسب اور ٹھوس فیصلے کرسکے۔ آئی ایم ایف کے بارے میں جتنی بھی سیاسی بیان بازی کرلی جائے لیکن کسی بھی ملک کو قرض دیتے ہوئے وہ جن اصلاحات پر اصرار کرتا ہے، اس کا مقصد اس ملک کی معیشت کو متوازن کرنا ہوتا ہے۔ یعنی حکومت اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرنے کی عادت اپنائے اور فضول مصارف بند کیے جائیں۔ اسحاق ڈار یہ دونوں کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کے طور پر انہیں میڈیا پر دعوے کرنے کی بجائے معاشی شعبہ کے ہیجان کو کم کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس کے برعکس انہوں نے اپنی باتوں اور اقدامات سے اس ہیجان میں اضافہ کیا اور آئی ایم ایف تک یہی پیغام پہنچایا گیا کہ پاکستان میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ فروری سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مالی پروگرام کا نواں جائزہ رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خزانہ مسلسل اعلان کرتے رہے ہیں کہ اب تمام معاملات طے پا چکے ہیں، اب آئی ایم ایف سے اگلی قسط ریلیز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن یہ قسط پاکستانی خزانے میں منتقل نہیں ہو سکی۔ اب بھی شہباز شریف تو لاہور میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی گئی ہیں، اب معاہدہ مکمل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نواں جائزہ تو شاید مکمل ہو جائے اور پاکستان کو ایک ارب ڈالر مل جائیں لیکن اس پروگرام کا دسواں اور گیارہواں جائزہ مکمل نہیں ہو سکے گا۔ یعنی موجودہ آئی ایم ایف پروگرام جس کی مجموعی مالیت ساڑھے چھ ارب ڈالر تھی، اس میں پاکستان کو صرف پانچ ارب ڈالر ہی مل سکیں گے۔ یہ بھی اسی صورت میں اگر آئی ایم ایف حکومت پاکستان کے بجٹ اقدامات کو تسلیم کر کے نویں جائزے کے مطابق پاکستان کو ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی رقم جاری کردے۔

بجٹ میں ترقیاتی اخراجات، سبسڈی کی مدات اور دفاعی مصارف میں اضافہ کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے متعدد معیشت دان اس بارے میں شبہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف شاید موجودہ پروگرام کے باقی ماندہ وسائل فراہم کرنے پر آمادہ نہ ہو حالانکہ وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس میں آئی ایم ایف سے اڑھائی ارب ڈالر ملنے کے ’زبانی وعدہ‘ پر اصرار کرچکے ہیں۔ وزیر اعظم یہ سمجھنے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ مالی معاملات میں کوئی معاہدہ زبانی یقین دہانیوں کی بجائے دستاویزی شواہد اور ٹھوس اقدامات کی بنیاد پر طے پاتا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو ادائیگیوں کے معاملہ میں مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن وہ اس کا کوئی حل بتانے کی بجائے بچگانہ اور لایعنی باتیں کر کے عوام کو سیاسی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ایک طرف وہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام نامکمل رہنے کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ نئے معاہدہ کے لئے نئی منتخب حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کر سکتی ہے۔ گویا موجودہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے مسائل کا بوجھ آنے والی حکومت کی طرف موڑنا چاہتی ہے اور خود ایک مہنگے اور عدم توازن کا شکار بجٹ کا سیاسی فائدہ اٹھا کر سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ یہ ایک ناقص اور ناقابل قبول مالی پالیسی ہے۔ کسی بھی معیشت کی منڈیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ جب وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کی باتوں میں تال میل نہیں ہو گا اور جب ایک اہم عالمی مالیاتی ادارہ مسلسل پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہو گا تو مارکیٹ کی بے یقینی میں اضافہ ہو گا۔ یہ صورت حال پاکستانی عوام کی معیشت، مہنگائی اور ملک کے معاشی بحران کے لئے تشویشناک ہے۔ البتہ حکومت اور وزیر خزانہ اسے ماننے پر آمادہ نہیں ہیں حالانکہ ماہرین کے نزدیک یہ نوشتہ دیوار ہے۔

یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ کر سکا تو اس کے لئے ڈیفالٹ سے بچنا ممکن نہیں رہے گا۔ قومی خزانہ کی صورت حال دیکھی جائے تو ملک کے پاس چند ہفتوں کی درآمدات کے لئے ڈالر موجود ہیں جبکہ غیر ملکی قرضوں کی مد میں چند ماہ کے اندر دس ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ حکومت انہیں کہاں سے حاصل کرے گی۔ آئی ایم ایف معاہدہ نہیں ہوتا تو متعدد عالمی ادارے اور ممالک بھی زیادہ سخاوت کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اس مسئلہ کا حل اسحاق ڈار نے کسی نام نہاد ’پلان بی‘ کو بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان قرضوں کو ری شیڈول کروانے کے لئے کام کرے گا لیکن وہ اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا شافی جواب دینے سے قاصر رہے ہیں۔ پیرس کلب کے دس ارب ڈالر کو ری شیڈول کرنے کو اسحاق ڈار نے خود ہی غیر ضروری اور قومی حمیت کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس کے بعد عرب ممالک اور چین ہی بچتے ہیں۔ اگر قرضے ری شیڈول ہو بھی جائیں تو بھی ان پر سود تو بہر حال ادا کرنا ہی ہو گا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ اس بوجھ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے اپنے پلان بی کی کوئی خاص تفصیلات نہیں بتائیں۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصطلاح اسحاق ڈار کا سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کی سیاسی کامیابی کے لئے جان بوجھ کر یا انجانے میں ملکی معیشت کو داؤ پر لگانے کا سبب بن رہے ہیں۔ حیرت ہے مسلم لیگ (ن) جیسی پڑی پارٹی اور پاکستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں اسحاق ڈار کے سوا ملکی معیشت سنبھالنے والا کوئی ماہر معیشت میسر نہیں ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں