دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اکیلا نواز شریف کچھ نہیں کر سکتا!
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز اور پنجاب نون لیگ کے صدر رانا ثنا اللہ نے نواز شریف کو ملکی مسائل کا واحد حل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے واپس آتے ہی ملک سے مہنگائی، بیروزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ پارٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھنے اور لوگوں کو ایک بار پھر اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس قسم کے نعرے ضروری ہوں لیکن یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اکیلا نواز شریف یا کوئی بھی فرد تن تنہا پاکستان کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ گونا گوں مسائل کو مل جل کر اور اجتماعی کاوشوں سے ہی حل کرنے کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

نواز شریف عدالت سے سزا پانے کے بعد چار ہفتے کے لیے طبی معائنے کروانے لندن گئے تھے لیکن اب وہ چار سال بعد واپس آنے کا عزم کر رہے ہیں۔ اس دوران ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور قومی سطح پر پایا جانے والا انتشار و بے چینی بڑھی ہے جو مسائل کی بنیاد ہے۔ اس میں کمی کرنے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ ہر سیاسی پارٹی، لیڈر اور گروہ نے اپنے اپنے طور پر اس میں اضافہ کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ ملک سے چار سال تک غائب رہنے والے نواز شریف کے بارے میں یہ دعویٰ انوکھا اور صریحاً دھوکہ دہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہی ایک لیڈر ملکی مسائل حل کرے گا۔ اشیائے صرف کی قیمتیں پانچ چھے سال پہلے والی سطح پر واپس لے آئے گا اور ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حالانکہ ان مسائل کا سامنا خواہ کسی بھی ملک کو ہو، انہیں حل کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اور منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاسی لیڈروں نے ایسا ماحول ہی پیدا نہیں ہونے دیا کہ اہم مسائل قومی ایجنڈے پر ترجیح حاصل کر پاتے۔

یوں بھی نواز شریف شدید بیماری کی حالت میں ملک سے گئے تھے۔ اس وقت یہی عذر تراشا گیا تھا کہ انہیں جس تکلیف کا سامنا ہے، اس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ بجائے خود یہ عذر ہی مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے خلاف فرد جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے کے علاوہ تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن ملک میں کوئی ایسا طبی نظام استوار نہیں کرسکے کہ کسی شدید بیمار شخص کو علاج بہم پہنچایا جا سکے۔ یوں بھی ملک کے سیاسی لیڈروں کے علاوہ باقی ماندہ 25 کروڑ لوگ ملک میں ہی اپنی بیماریوں کا علاج کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومت کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو یکساں طبی سہولت فراہم کرسکے۔ یعنی اگر کسی شہری کو اپنے مرض کا پاکستان میں علاج میسر نہیں ہے تو حکومت اس کے علاج کی ذمہ دار ہو خواہ اس کے لیے کسی مریض کو بیرون ملک ہی کیوں نہ بھیجنا پڑے۔ اگر پاکستان میں ایسا نظام موجود نہیں ہے اور سیاسی لیڈر کثیر وسائل کی وجہ سے معمولی میڈیکل چیک اپ کے لیے بھی بیرون ملک سفر کا ارادہ کرلیتے ہیں تو انہیں عوام کو اس صورت حال کا جواب دینا چاہیے۔ وہ ووٹ لے کر اقتدار تک پہنچتے ہیں اور پھر ناکامیوں کی ذمہ داری دوسری سیاسی پارٹیوں یا اداروں پر ڈالتے ہوئے خود کو بے قصور ثابت کرنے پر زور بیان صرف کرنے لگتے ہیں۔

نواز شریف کو اصولی طور سے اپنے علاج اور طبی معائنے کے بعد وطن واپس آجانا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے مسلسل لندن ہی رہنے کو ترجیح دی۔ حتی کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں متعدد جماعتوں کے اتحاد نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کروا کے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوا دیا جو 16 ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس ساری مدت میں نواز شریف نہ تو ملک واپس آئے اور نہ ہی انہوں نے سیاست ترک کرنے کا عندیہ دیا۔ بلکہ گاہے بگاہے ان کے سیاسی عزائم کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ اور اب کچھ عرصہ سے انہیں چوتھی بار وزیر اعظم بنوانے کی بات کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اگر نواز شریف پاکستان میں رہتے یا عدالتی اجازت کے مطابق چند ہفتے کے بعد واپس آ جاتے اور متعلقہ عدالتی فورمز پر اپنے خلاف قائم کیے گئے مقدمات میں چارہ جوئی کرتے تو اب تک کسی نہ کسی عدالت سے انہیں انصاف ضرور مل چکا ہوتا۔ اب یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 2017 میں عسکری و عدالتی لیڈروں کی ملی بھگت سے تیار ہونے والی سازش کی وجہ سے ان کی حکومت بھی ختم کی گئی اور انہیں سزا بھی دلوائی گئی۔ تاہم جب کوئی لیڈر ایسی نا انصافی کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے راہ فرار حاصل کرتا ہے تو اسے اس کی کمزوری ہی سمجھا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) متوقع انتخابات سے پہلے نواز شریف کی واپسی کے لیے سرگرم ہے۔ اس کا خیال ہے کہ نواز شریف ایک تو پارٹی میں پائی جانے والی دھڑے بندی پر قابو پالیں گے، دوسرے ان کی پبلک اپیل کی وجہ سے عوام ایک بار پھر پارٹی کی طرف متوجہ ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) جنوری 2024 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لے گی۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں یہ اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔

نواز شریف نے دو ہفتے قبل لاہور میں پارٹی کارکنوں کے ایک اجلاس سے ویڈیو خطاب میں بعض سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا کیوں کہ ان کے مطابق یہ لوگ 2017 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف سازش میں ملوث تھے تاکہ عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا جا سکے۔ پھر 2018 کے انتخابات میں دھاندلی سے تحریک انصاف کو کامیابی دلوا کر یہ ’مقصد‘ حاصل کر لیا گیا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان عناصر کو نشان عبرت بنائے بغیر ملک ترقی کا سفر شروع نہیں کر سکتا۔ اس بیان کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو پارٹی کو انتخابات میں مزاحمت کی علامت بنا کر پیش کیا جائے تاکہ عوام کی ہمدردی و توجہ حاصل ہو سکے۔ دوسرے اسٹبلشمنٹ کو واضح پیغام دیا جائے کہ آئندہ کسی سیاسی کامیابی کی صورت میں نواز شریف کوئی مفاہمت نہیں کرے گا بلکہ تمام حکومتی اختیارات منتخب وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوں گے تاکہ وہ عوامی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔

موجودہ حالات میں یہ پیغام واضح کرنا بے حد ضروری تھا۔ ابھی سے یہ طے ہونا چاہیے کہ ایک تو متوقع انتخابات شفاف ہوں گے اور کسی سطح پر ان میں مداخلت کی کوشش نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ انتخابات کے نتیجے میں جو پارٹی بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو، اسے چیلنج نہیں کیا جائے گا اور عسکری قیادت اپنے آئینی کردار سے تجاوز نہیں کرے گی۔ اس بیان کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) اس پیغام کو باقی سیاسی لیڈروں تک بھی پہنچاتی اور باہمی سیاسی اختلافات سے قطع نظر سب سیاسی پارٹیوں میں ان دو نکات پر اتفاق رائے پیدا کیا جاتا۔ کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوگی اور اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو قومی فیصلے کرنے میں مکمل اختیار حاصل ہو گا۔ اس کے برعکس نواز شریف کے بیان پر دوسری سیاسی پارٹیوں کی پریشانی سے پہلے خود پارٹی کے صدر شہباز شریف سکتے میں آ گئے اور بھائی کو سمجھانے بجھانے کے لیے لندن روانہ ہو گئے حالانکہ وہ محض اڑتالیس گھنٹے پہلے ہی لاہور واپس پہنچے تھے۔

شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کا ایک طاقت ور دھڑا سمجھتا ہے کہ اس وقت منتخب حکومت کے لیے اختیارات کی بات کرنا ’اشتعال انگیزی‘ ہوگی۔ اس کی بجائے پارٹی کو عسکری قیادت کے ساتھ افہام تفہیم کے ذریعے انتخابات میں شریک ہونا چاہیے اور کچھ ویسے ہی انتظام کے تحت انتخاب جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے جو 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیاب کروانے کے لیے دیکھنے میں آیا تھا۔ شہباز شریف فوج کے تابعدار کے طور پر اقتدار حاصل کرنے کے دیرینہ وکیل رہے ہیں۔ بطور وزیر اعظم سولہ ماہ کے دوران انہوں نے اپنے اس ’سیاسی نظریہ‘ پر پوری طرح عمل کیا۔ اپنی حکومت کے دور میں آرمی چیف کی تابعداری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ سانحہ 9 مئی کو عذر بنا کر ایسی قانون سازی کی گئی جس سے انسانی حقوق کی صورت حال، آزادی اظہار اور شہری آزادیاں محدود ہوئیں اور ریاستی اداروں کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں سیاسی معاملات پر عسکری قیادت کی گرفت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ اب سب اہم معاشی و سیاسی فیصلوں میں عسکری قیادت کو برتر حصہ دار کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ صورت حال ملک میں جمہوری نظام کے لیے شدید خطرہ ہے لیکن شہباز شریف کا گروہ اسی طریقے کو اپنی کامیابی اور اقتدار سے چمٹے رہنے کا راستہ سمجھتا ہے۔

یہ ناقابل فہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی حکمت عملی میں تضاد کی اس صورت حال میں نواز شریف اگر وطن واپس ابھی جاتے ہیں تو وہ کیسے کوئی ایسی سیاسی پوزیشن حاصل کرسکیں گے کہ اپنی ’بصیرت‘ کے مطابق مستقبل کی طرف ملک کی رہنمائی کرسکیں۔ گزشتہ چند روز کی کھینچا تانی کے بعد البتہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ نواز شریف جرنیلوں کے احتساب کی بات نہیں کریں گے۔ یعنی اس اصول پر اصرار نہیں کریں گے کہ انتخابات جیتنے والی پارٹی کو فیصلے کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہو۔ بلکہ مسلم لیگ (ن) اگر اکثریت حاصل کر بھی لے تو حکومت میں آ کر بھی فوج کی ’بی ٹیم‘ کے طور پر کام کرے گی۔

اس پس منظر میں مریم نواز کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ’21 اکتوبر کو مہنگائی، بیروزگاری اور دہشتگردی کا خاتمہ کرنے والا اور پاکستان کے سینے پر لگے زخموں پر مرہم رکھنے والا نواز شریف واپس آ رہا ہے۔ اسے نکالنے والے عبرت کا نشان بن گئے ہیں۔ جس کو نکالا گیا، پاکستانی عوام اس کا استقبال کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ نواز شریف پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر واپس آ رہا ہے۔ ان کی واپسی پاکستان میں امید، ترقی و امن کی واپسی ہے۔ نواز شریف کو نکال کر گھروں کی روشنی اور عوام کا مستقبل چھین لیا گیا تھا‘ ۔ مریم نواز کی یہ للکار تو خود ان کی پارٹی کی حکمت عملی سے ہی میل نہیں کھاتی جو اقتدار حال کرنے کے لیے ہر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ رویہ تو پاکستانی عوام سے جمہوری حکومت کے قیام اور اپنی امیدوں کے مطابق لیڈر چننے کا حق واپس لینے کا سبب بنے گا۔ اس میں اکیلا نواز شریف امید کی کون سی شمع روشن کرے گا؟

(بشکریہ کاروان ناروے)

واپس کریں