سید مجاہد علی
بھارت میں چھے ہفتوں پر محیط انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد انتخابی نتائج جمع کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے چار جون کو نتائج کے اعلان کی توقع ہے۔ البتہ اس سے پہلے ہی سامنے آنے والے ایگزٹ پولز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔بھارت میں ایگزٹ پول کی روایت صحت مند نہیں ہے کیوں کہ یہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تیار ہوتے ہیں۔ البتہ عام تاثر یہی ہے کہ نریندر مودی کا سیاسی اتحاد این ڈی اے تیسری بار واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نریندر مودی انتخاب سے دو دن پہلے کنیا کماری کے ایک آشرم میں جمعرات 30 مئی سے ہفتہ یکم جون ’مراقبہ‘ میں چلے گئے تھے۔ اپوزیشن لیڈر اسے سیاسی ہتھکنڈا اور ضعیف العقیدہ لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اسی لئے مودی کے اس اچانک اقدام کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت بھی کی گئی ہے۔ البتہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نریندر مودی کی اس ’عبادت گزاری‘ کے خلاف کوئی اعتراض قابل اعتنا سمجھا جائے گا۔ اس دوران میں سیاسی تبصرہ نگاروں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ بھارت میں کوئی ڈپٹی وزیراعظم نہیں ہے تو ایسے میں حکومتی معاملات کی نگرانی کون کر رہا ہے۔ اصولی طور سے سینئر وزیر راج ناتھ سنگھ کو امور حکومت کا ذمہ دار ہونا چاہیے تھا لیکن اس بارے میں کوئی باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا۔
ان ضمنی اعتراضات کے علاوہ سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ نریندر مودی اور ان کے قریبی حکومتی رفقا نے کئی ہفتے تک تیز انتخابی مہم چلائی اور اس دوران میں سرکاری وسائل استعمال کیے گئے۔ لیکن اس تنقید کو یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ وزیراعظم کے طور پر مودی کی سکیورٹی ریاست کی ذمہ داری تھی۔ تاہم بی جے پی یا بھارتی حکومت نے اس پہلو پر کوئی وضاحت نہیں کی کہ انتخابی مہم جوئی پر وقت صرف کرتے ہوئے امور حکومت کی سیاسی نگرانی کا کیا انتظام تھا۔ البتہ نریندر مودی کے طرز سیاست نے ایسا یک طرفہ جذباتی ماحول پیدا کیا ہے کہ اس اصولی سوال کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔
دنیا کے متعدد مقبول لیڈروں کی طرح نریندر مودی نے بھی بھارت میں ایسی فضا پیدا کر رکھی ہے کہ وہ غلط کریں یا درست، میڈیا یا عوام کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا۔ طویل مدت تک اقتدار میں رہنے کے دوران میں مودی نے میڈیا آؤٹ لیٹس کو ایسے سرمایہ داروں گروپوں کی تحویل میں دینے کا اہتمام کیا جو بی جے پی کے حامی ہیں۔ یوں مین اسٹریم میڈیا کو عام طور سے مودی کا بھونپو یا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھارتی میڈیا نے اپوزیشن کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے میں بہت زیادہ کوریج نہیں دی۔ تاہم یہ ماننا بھی ضروری ہے نریندر مودی لوگوں کے ساتھ مواصلت کی خصوصی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ وہ اپنے بیانات یا تقریروں میں اکثر ایسے نکات سامنے لاتے ہیں جنہیں کسی بھی نیوز ایڈیٹر کے لیے نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا پر بالواسطہ سرکاری کنٹرول کے علاوہ مودی میڈیا کو استعمال کرنے کا ہنر اپنے مخالفین سے بدرجہا بہتر جانتے ہیں۔ اکثر مخالف لیڈر ان کے طرز سیاست کی نقل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے مودی کے لیے کوئی چیلنج سامنے نہیں آ پاتا۔
اس بار بی جے پی کا نعرہ اور ہدف لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے چار سو سیٹیں جیتنا تھا۔ اسی لئے انتخابی مہم کا آغاز ’اب کی بار چار سو کے پار‘ رہا ہے۔ نریندر مودی نے جو فلسفہ سیاست متعارف کروایا ہے، اس کے مکمل نفاذ کے لیے انہیں آئینی تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔ اس بار اپنی مقبولیت، ملک میں معاشی استحکام و ترقی اور ہندو انتہا پسندانہ جذبات بھڑکا کر مودی اور ان کے حلیف کسی بھی طرح چار سو سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ اس اکثریت کے ساتھ ملکی آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے جو سیکولر ہے اور تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ البتہ نریندر مودی اس کے برعکس ہندوستان کو ہندوؤں کا دیش مانتے ہیں اور آئینی تبدیلی کے ذریعے بھارت کو ہندو دیش بنانا چاہتے ہیں۔ یہ اگرچہ مذہب کا وہی تصور ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کا آئین اسلامی بنایا گیا ہے۔ اس میں گو کہ مذہبی اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے اور ان کی حفاظت کا دعوی کیا گیا ہے لیکن جب ریاست کا آئین ایک خاص عقیدہ کے لوگوں کو بہتر اور فائق قرار دے تو تمام تر ضمانتوں کے باوجود اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔
اسی لئے بھارت میں کانگرس پارٹی کی سربراہی میں بننے والے سیاسی اتحاد ’انڈیا‘ نے ریاست کی سیکولر حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا اور مودی کے ارادوں کو بھارت کے مستقبل کے لیے خطرناک اور مہلک قرار دیا۔ بھارتی مسلمان بھی سیکولر ریاست کے حامی ہیں اور اسے مذہبی آزادی کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولر ریاست کا مطالبہ کرنے والوں کو لبرل اور اسلام دشمن قرار دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے ہاں حیرت انگیز طور پر سیکولر کا ترجمہ دہریت کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سیکولرازم کوئی عقیدہ نہیں بلکہ سیاسی نظریہ ہے جس میں سب عقائد کو مساوی مواقع و حقوق حاصل ہوتے ُ ہیں۔انتخابی مہم کے آغاز میں نریندر مودی نے اپنے سابقہ دو ادوار کی کامیابیوں اور معاشی ترقی کے علاوہ دنیا میں بھارت کی سفارتی و اسٹریٹیجک حیثیت کو نمایاں کر کے ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی وہ اس طریقے کو ترک کر کے مسلم دشمنی اور ہندو برتری کے سیاسی نعرے کی بنیاد پر اپنی اپیل میں اضافہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے کانگرس پارٹی اور راہول گاندھی پر الزام لگایا کہ وہ ریاستی وسائل مسلمان اقلیت کو دے دیں گے جو بچے پیدا کر کے بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت تبدیل کر سکتے ہیں۔ حالانکہ بھارت میں ہندو اور مسلمان آبادی کے تناسب میں فرق کی موجودہ صورت حال میں یہ عملی طور سے ممکن نہیں ہے۔ بھارت میں پیدائش کے اعداد و شمار کے جائزوں سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کے ہاں پیدائش کی شرح ہندوؤں سے زیادہ ہے۔
لیکن سیاسی نعرے بازی کا یہی کمزور پہلو ہے کہ انہیں سچ ماننے والے حقائق کا علم نہیں رکھتے اور انہیں ماننا بھی نہیں چاہتے۔ اسی لیے ایسی سیاسی مہم جوئی سے کسی معاشرہ میں ایسے انتہاپسندانہ رجحانات عام ہونے لگتے ہیں جو رواداری اور باہمی احترام کے اصولوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ پاکستان اس صورت حال کا سامنا کرتا رہا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ اب بھارت کو اگر سیاسی مہم جوئی کے مقصد سے اسی طرف دھکیلا جائے گا تو وہاں بھی انہی مشکلات کا سامنا ہو گا۔بھارتی انتخابات کے بعد رائے عامہ کے تمام جائزوں میں بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تین ساڑھے تین سو نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ حکومت بنانے کے لیے 273 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ نریندر مودی پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد تیسری بار اکثریت حاصل کر کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ تاہم اگر وہ چار سو سیٹوں کا ہدف حاصل نہ کرسکے تو بھارت کو ہندو توا کے خواب کے مطابق ہندو دیش بنانے کا خواب پورا نہیں کرسکیں گے۔ 2019 میں بی جے پی کو 303 سیٹیں ملی تھیں تاہم اس کے الائنس این ڈی اے کو 352 نشستیں حاصل ہوئی تھی۔ اس بار اگر بی جے پی اس حد کو عبور نہیں کر سکتی تو یہ اس کی سیاسی ہزیمت کا باعث ہوگی۔ اور اگر نریندر مودی لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اسے ان کی شکست ہی مانا جائے گا خواہ وہ کسی چھوٹی پارٹی کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔
کانگرس اور اس کے اتحاد انڈیا نے اگر چہ اس بار اکثریت حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے۔ البتہ بی جے پی کی پارلیمانی قوت میں کمی کو مخالف سیاسی اتحاد کی کامیابی ہی سمجھا جائے گا۔ لوک سبھا میں مضبوط اپوزیشن بھارتی جنتا پارٹی اور نریندر مودی کے انتہاپسندانہ اور بنیادی حقوق کے خلاف متعدد اقدامات کے خلاف موثر آواز اٹھا سکے گی۔ نریندر مودی نے انتخابات سے پہلے اپنی مقبولیت کا ایسا بھرم قائم کیا ہوا تھا کہ اس معیار سے کم تر کوئی بھی پارلیمانی پوزیشن ان کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔ مضبوط اپوزیشن ان کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ طاقت سے سوال اٹھا سکے گی۔ تاہم اس کا اندازہ ایک دو روز میں بھارتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی ہو گا کہ وہاں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔مودی کی کامیابی سے بھارت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں تسلسل جاری رہے گا۔ تاہم پاکستان کے حوالے سے دیکھنا ہو گا کہ نئی مدت کے لیے کامیاب ہو کر نریندر مودی اپنے اہم ترین ہمسایہ ملک کے ساتھ کیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ عام خیال کے مطابق تو ایک بار پھر وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہیں پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں جمی ہوئی برف پگھل سکے۔ اسلام آباد کے پالیسی ساز بھی بھارتی انتخابات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملکوں میں انتخابات کی گہما گہمی ختم ہونے کے بعد باہمی مواصلت و مصالحت کا راستہ ہموار کیا جائے گا۔
بھارت اگرچہ معاشی و سفارتی لحاظ سے پاکستان سے بہت آگے ہے لیکن عوام کو بنیادی سہولتیں دینے اور عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے اسے بھی سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ساتھ تنازعہ بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ دونوں دارالحکومتوں میں اقتدار پر قابض لوگوں کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے۔ حیرت انگیز طور پر جو سچائی سیاست دان ماننے سے انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں، پاکستان اور بھارت کے عوام اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔مودی کی تیسری بار کامیابی اگر خطے میں پائیدار امن اور باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے اقدام کر سکی تو تاریخ میں ان کا نام ایک متوازن اور معاملہ فہم لیڈر کے طور پر لکھا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر انہوں نے انتخابی جذباتی نعروں کی بنیاد پر ہی پاکستان کو کمزور سمجھ کر اشتعال میں اضافہ کیا تو ان کی انتہا پسندی بھارت کے سماجی اور سیاسی مستقبل کے علاوہ ان کی اپنی سیاسی وراثت کے لیے خوش آئند نہیں ہوگی۔
بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں