دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قرار داد مقاصد یا منزل سے بھٹکنے کا آغاز
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
گزشتہ دنوں پاکستان کے دو ہیوی ویٹ صحافیوں وجاہت مسعود اور مجیب الرحمان شامی نے اپنے کالموں کے ذریعے 13 مارچ 1949 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے منظور ہونے والی ’قرار داد مقاصد‘ پر مکالمہ کیا ہے۔ پاکستانی سماج میں تحقیق اور تاریخ کو درست تناظر میں پرکھنے کی علمی روایت نہیں ڈالی جا سکی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی جد و جہد اور ملک قائم ہونے کے بعد ہونے والی محلاتی سازشوں کو پرکھنے کا کام محققین اور طالب علموں کو نہیں سونپا جا سکا۔پاکستان کی قیادت کرنے والوں نے ’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ‘ کے نام سے ایک پرچہ ترکیب استعمال تھما کر واضح کر دیا کہ جو بھی سوچنا، دیکھنا یا پرکھنا ہے، اسی عینک سے دیکھا جائے۔ اس سے باہر نکلتی ہوئی کوئی رائے قابل قبول نہیں ہوگی اور ایسی رائے کا اظہار کرنے والا قابل گردن زدنی قرار دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ہمارے ماضی قریب کے واقعات کو ترتیب دیتے ہوئے انہیں حقائق کی بجائے ’جذبات اور نظریات‘ کے تناظر میں جانچنے کا رواج عام ہوا۔ ایک خاص سوچ سے علیحدہ کسی رائے یا واقعاتی شہادت کو ماننے اور اسے تاریخ کی تعلیم میں جگہ دینے کو گناہ عظیم بنا دیا گیا۔ تعلیمی اداروں اور محققین پر عائد انہیں پابندیوں کا شاخسانہ ہے کہ اب ملکی تاریخ اور پاکستان بنانے والوں کے سیاسی عزائم کے بارے میں جاننے کا کوئی معتبر اور ٹھوس معیار موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے یہ مباحث اخباری کالموں یا ٹاک شوز کا موضوع بنتے ہیں جو اس قسم کے تجزیہ کے لیے قطعی غیر موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ وجاہت مسعود اور مجیب الرحمان شامی کے مکالمے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کیسے وجود میں آیا، اس کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ مارچ 1940 میں قرار داد مقاصد منظور ہونے سے پہلے کے سیاسی جوڑ توڑ اور اس کے بعد واقعات کی ترتیب و تفہیم کے بارے میں جو مواد دستیاب ہے، وہ انفرادی تصنیفات، انٹرویوز، بیانات، کالم و مضامین پر مشتمل ہے۔ حالانکہ پاکستان بننے کے ستر پچھتر سال بعد یہ کام محققین اور درسگاہوں کے حوالے ہونا چاہیے تھا تاکہ آنے والی نسلوں تک تاریخ کا درست شعور پہنچ سکتا۔ اور کم از کم ان واقعات و سانحات کا درست ادراک عام ہوجاتا جن کے شاہدین شاید چند برس پہلے تک بقید حیات تھے۔ البتہ یہ آسان اور ضروری کام بوجوہ سرانجام نہیں پا سکا۔ اسی لیے ہمارے جید دانشوروں اور کالم نگار اپنی اپنی تفہیم کے مطابق اپنے قارئین کی تربیت کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر تاریخ مرتب کرنے کے کلاسیکل اور مسلمہ طریقوں کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو شاید اخباری کالموں میں ایسے ادھورے اور نامکمل مباحث کی ضرورت محسوس نہ کی جاتی۔

اس جملہ معترضہ سے قطع نظر اگر 13 مارچ کو لکھے گئے وجاہت مسعود کے کالم ’تالاب گدلا ہو گیا ہے‘ کے پیغام کو سمجھا جائے تو ان کا مقدمہ سادہ اور قابل فہم ہے۔ کالم کے عنوان سے ہی واضح ہے کہ لکھنے والے کو اس بات کا دکھ ہے کہ حقائق و واقعات مسخ کیے گئے ہیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت تاریخی حقائق سے بے خبر ہے۔ انہوں نے اس غم کا اظہار کیا کہ ’قومی ریاست کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بہت سے لسانی، مذہبی، نسلی اور ثقافتی گروہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک عمرانی معاہدے میں مشترکہ مفادات اور حقوق کی بنیاد پر مساوی حیثیت سے ایک جغرافیائی منطقہ مرتب کرتے ہیں۔ قرارداد مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی‘ ۔ اس کالم میں وجاہت مسعود نے حامد علی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’13 مارچ 1949 کو منظور کی جانے والی قرار داد مقاصد کی منظوری کے وقت کل ملا کے 31 ارکان اسمبلی موجود تھے۔ 21 مسلم اور 10 غیر مسلم۔ تمام مسلم ارکان نے قرارداد کی تائید کی اور سب غیر مسلم ارکان نے اختلاف کیا‘ ۔ وکی پیڈیا میں درج معلومات کے مطابق 26 جولائی 1947 کو گزٹ آف انڈیا میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا نوٹی فیکیشن جاری ہوا۔ اس وقت اس کے 69 ارکان تھے۔ بعد میں ان کی تعداد 79 کردی گئی جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ گویا قرار داد مقاصد منظور کرنے والے اکیس ارکان دستور ساز اسمبلی کی کل تعداد کا ایک چوتھائی تھا۔ لیکن اس دستاویز کے متن میں درج ’احکامات‘ کے ذریعے پاکستان میں آنے والی نسلوں کی قسمت کا فیصلہ رقم کر دیا گیا۔

قرارداد مقاصد کے ذریعے پاکستان کے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہوئے درحقیقت حکمرانوں کے ہاتھ میں ایک ایسی چھڑی پکڑا دی گئی جس کے ذریعے انہوں نے آنے والی دہائیوں میں قوم کو ہانکنے کا کام لیا۔ مجیب الرحمان شامی کا فرمان ہے کہ ملک میں جمہوریت، مساوات اور سب کے احترام کا خواب اس قرارداد کی وجہ سے منتشر نہیں ہوا بلکہ ’ہمارا المیہ قراردادِ مقاصد کی منظوری نہیں، اس کی نامنظوری ہے۔ ہم نے اسے کتابِ آئین کا حصہ تو بنا ڈالا لیکن عملاً اس کو نامنظور کر دیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کرنے میں لگے رہے‘ ۔ شامی اور ان کے ہم خیال کبھی اس حقیقت کو نہیں مانتے کہ جب کسی ملک کے بنیاد میں عدم مساوات کا بیج ڈال دیا جائے، جب یہ ایک دستاویز کے ذریعے ایک عقیدے کے ماننے والوں کو دوسروں پر فضیلت عطا کردی جائے اور کہہ دیا جائے کہ دوسروں کا حق شہریت صرف اس لیے قبول کیا جائے گا کیوں کہ ہم اسلام کو ماننے والے ہیں تو یک جہتی و بہتری کیسے ممکن ہوگی۔ قرارداد پاکستان کا نکتہ نمبر ملاحظہ ہو 2 : ’چوں کہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا‘ ۔ گویا ہم مساوات کے عالمگیر اور متفقہ اصول کو بھی اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہمیں اسلام سے اس کی گواہی لاکر نہیں دی جائے گی۔ مسلمانوں کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی کسی گواہی پر کبھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ ریاست اور حکومت بیک وقت اس کی روک تھام میں ناکام ہیں۔

یہ ظلم قرارداد مقاصد کو قومی شناخت کی بنیاد بنانے پر اصرار کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ مجیب الرحمان شامی ایسے سیاسی لائحہ عمل کے ان عواقب کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ سیاسی رویوں میں اسی سختی کی وجہ سے بعض ایسے مکروہات قومی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں جن سے کسی بھی سطح پر نمٹنا ممکن نہیں رہا۔ توہین مذہب کے قوانین کے تحت سرز ہونے والی نا انصافیوں کی درجنوں مثالوں کے باوجود پارلیمنٹ میں ان قوانین میں ترمیم کی بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ 17 مارچ کے کالم میں مجیب الرحمان شامی کا ارشاد ہے کہ ’قراردادِ مقاصد قرآن کا حصہ ہے، نہ اس کے الفاظ الہامی ہیں۔ یہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے‘ ۔ لیکن اسی مضمون میں چند سطور کے بعد ہی ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ ’قرارداد مقاصد کے کسی لفظ یا حرف تو کیا شوشے کو تبدیل کرنے کی کسی کو جرات ہوئی، نہ کسی نے اِس بارے میں کوئی مطالبہ کیا‘ ۔ جب کسی سیاسی دستاویز کے متن کو اس قدر مقدس بنا دیا جائے کہ اس کا شوشہ تبدیل کرنے کی بات بھی ’گستاخی‘ شمار ہو تو اسے سیاسی ایجنڈا مانا جائے یا استبداد عام کرنے کا پیغام؟

2009 میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونی کیشن نے اوسلو یونیورسٹی کالج کے مالی تعاون سے ایک میڈیا سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس میں ناروے و پاکستان کے علاوہ انڈونیشیا و بنگلہ دیش کے نمائندے بھی شریک تھے۔ سیمنار کے اختتامی اجلاس کا موضوع اقلیتوں کے حقوق و حفاظت کے بارے میں تھا۔ پینل میں مجیب الرحمان شامی اور سجاد میر بھی شامل تھے۔ ابتدائی کلمات میں شامی صاحب کا اصرار تھا کہ پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے، اس لیے ہمارے ہاں اقلیتوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ملک میں آباد غیر مسلموں کو دوسرے شہریوں سے بھی زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ راقم الحروف نے ان سے عرض کی کہ کیا وہ اس موقف کی تائید میں کوئی دلیل دے سکتے ہیں کیوں کہ حقیقی صورت حال تو یہ ہے کہ 1971 میں ملک کی اکثریت اپنے ان ہی اسلامی بھائیوں کے جبر سے تنگ آ کر علیحدہ ملک قائم کرچکی تھی۔ سوال ہے کہ جن لوگوں نے مشرقی پاکستانیوں کو حقوق دینے کی بجائے ملک دو لخت کروا لیا، وہ کیسے اپنی اقلیتوں کو خوش رکھنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اس سوال پر کوئی علمی مباحثہ تو نہ ہوسکا تاہم ایسا ہنگامہ کھڑا ہوا کہ اجلاس کی نظامت کرنے والے ڈاکٹر مغیث شیخ نے اجلاس ختم کر کے لنچ پر جانے کی دعوت دی۔ شامی صاحب البتہ لنچ تو کیا اس رات مندوبین کے اعزاز میں دیے گئے ڈنر میں بھی شریک نہیں ہوئے تاکہ ان سے پاکستان میں اقلیتوں کی سہانی صورت حال کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکتیں۔

قرارداد مقاصد نے پاکستانی مسلمانوں کو وہی کھوکھلا اظہار تفخر عطا کیا ہے جس کا مظاہرہ مجیب الرحمان شامی نے پندرہ سال پہلے پنجاب یونیورسٹی میں کیا تھا لیکن اپنی جغرافیائی حدود میں موجود اقلیتوں کو تحفظ، مساوی حق اور یہ اطمینان عطا نہیں کیا کہ وہ کسی دوسرے عقیدے پر عمل کرنے کے باوجود اس دھرتی کے مکین ہیں اور ان کا یہ حق چھینا نہیں جاسکتا۔ بہتر ہو گا کہ 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے خطاب میں محمد علی جناح نے نئی ریاست کے لئے جن چند بنیادی اصولوں کا اعلان کیا تھا، وہ انہی کے الفاظ میں دہرا لیا جائے :
’ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا رنگ کیسا ہے، ذات کیا ہے اور آپ کسی عقیدہ کے پیروکار ہیں، اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ریاست کے شہری کے طور پر آپ کے حقوق و ذمہ داریاں یکساں ہیں۔ یہ مقصد حاصل کر لیا گیا تو کوئی پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اب آپ ایک آزاد مملکت کے باشندے ہیں۔ اس ملک میں آپ مساجد یا جو بھی آپ کی عبادت گاہ ہے، میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، عقیدے یا ذات سے ہو لیکن اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں۔ ذات پات یا عقیدے کی بنیاد پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ سفر کا آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں۔ ہمیں یہ آئیڈیل صورت اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وقت کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں کیوں کہ یہ ہر فرد کا انفرادی عقیدہ ہے۔ لیکن سیاسی معنوں میں، سب اس ملک کے شہری ہوں گے‘ ۔

نوٹ کرنا چاہیے کہ جس قرارداد مقاصد کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پچھتر سال میں کوئی اس کا ایک شوشہ تبدیل کرنے کی جرات نہیں کر سکا، اسی اسمبلی کے پہلے صدر نے دستور ساز اسمبلی کے سامنے نئے ملک کا آئین بنانے کے لیے کون سے اصول اہم قرار دیے تھے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرارداد مقاصد محمد علی جناح کے انتقال کے ٹھیک 6 ماہ بعد منظور کی گئی۔ اس کے متن میں دستور ساز اسمبلی کے مرحوم صدر اور نئی ریاست میں شہریوں کے حقوق سے متعلق ان کے خیالات شامل کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ قرارداد مقاصد منظور کروانے والوں کا کہنا تھا کہ آئین سازی کے لیے بنیادی اصولوں پر اتفاق کرنا ضروری ہے۔ یہ قرار داد وہی مقاصد بیان کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی لیکن اس قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستان نیشنل کانگریس پارٹی کے رکن پریم ہری برما نے کہا تھا کہ ’ہمیں کسی قرارداد کی ضرورت نہیں۔ مساوات، سماجی انصاف اور جمہوریت کے تین ابدی اصولوں کی بنیاد پر ہمیں اپنا دستور بنا لینا چاہیے۔ مذہب اور سیاست کو باہم خلط ملط کرنا نامناسب ہو گا‘ ۔ انہوں نے کہا کہ ’قائد اعظم نے بھی یہی اصول ورثے میں چھوڑے ہیں‘ ۔

مجیب الرحمان شامی نے ’قراردادِ مقاصد پر غصہ‘ کے نام سے ارزاں کیے ہوئے کالم میں وجاہت مسعود سے شکوہ کیا ہے کہ انہوں نے لیاقت علی خان اور شبیر عثمانی کا احترام روا نہیں رکھا۔ لیکن قرارداد مقاصد منظور کروانے والوں اور اسے کسی مقدس دستاویز کی طرح قوم پر مسلط رکھنے والوں نے تو آج تک بانی پاکستان کی امیدوں و خواہشات کا احترام کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ جناح نے پاکستان کی کامیابی کے لئے مساوات اور باہمی احترام کی جو بنیاد شرط پیش کی تھی، قوم نے اس سے انحراف کی کتنی بڑی قیمت ادا کر رہی ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں