سید مجاہد علی
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث 103 افراد کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ان میں سے کتنے لوگوں کو کیا سزائیں دی گئی ہیں اور کتنے لوگوں کو بری کیا گیا ہے۔ 6 رکنی بنچ کی طرف سے یہ ہدایات فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے مقدمہ میں سماعت کے دوران دی گئی ہیں۔ البتہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیا شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانا جائز طریقہ ہے۔گزشتہ سال کے دوران میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بنچ نے اتفاق رائے سے فوجی عدالت میں شہریوں کے خلاف مقدمے چلانے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف فوجداری عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں۔ البتہ نظر ثانی کی اپیل پر غور کرتے ہوئے 13 دسمبر کو ایک 6 رکنی بنچ نے پانچ ایک کی اکثریت سے اس فیصلے کو جزوی طور سے معطل کر دیا تھا۔ اس فیصلہ کے مطابق فوجی عدالتیں کارروائی جاری رکھ سکتی ہیں لیکن سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ سامنے آنے تک ان فیصلوں کا اعلان نہیں کر سکتیں۔
سپریم کورٹ کے ابتدائی فیصلہ کے خلاف اپیلیں مرکز کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی نگران حکومتوں نے دائر کی تھیں۔ اس وقت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ ان اپیلوں کی سماعت کر رہا ہے۔ تاہم بعض درخواست دہندگان کی طرف سے مسلسل 9 رکنی بنچ بنانے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ جبکہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے نظر ثانی اپیل واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صوبائی کابینہ نے انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم عدالت نے انہیں بتایا کہ کہ صرف کابینہ کی قرارداد پر اپیلیں واپس نہیں کر سکتے۔ مناسب ہو گا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کی جائے۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور پر بھی 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے۔
ملک کے نظام انصاف و قانون اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو فوجی عدالتوں کو عام لوگوں کے خلاف جرائم کی سماعت کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ عام طور سے فوجی عدالتوں میں تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے شواہد اور دلائل کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور متعلقہ افراد کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ اسی مقصد سے حکومت نے سانحہ 9 مئی کے بعد بعض لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے قائم کیے جبکہ سینکڑوں دوسرے لوگوں کے خلاف الزامات عام عدالتوں میں سماعت کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران میں ابھی تک اس تخصیص کا کوئی عذر پیش نہیں کیا گیا۔ البتہ سپریم کورٹ میں ابتدائی سماعتوں کے دوران میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں زیادہ سخت سزائیں نہیں دیں گی بلکہ متعدد معاملات میں شاید ملزمان بری بھی ہوجائیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس معاملہ پر البتہ اٹارنی جنرل کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا تھا اور تمام مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلہ کے خلاف نگران حکومتوں کی اپیلوں کے دوران میں البتہ سپریم کورٹ کے ایک مختلف 6 رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی اجازت تو دے دی لیکن انہیں فیصلے جاری کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس بنچ کا بھی یہی خیال تھا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمات قائم کرنے کے اصول پر آئینی فیصلہ ہونے سے پہلے فوجی عدالتوں کا کوئی حکم نافذ نہیں ہونا چاہیے البتہ اس بنچ کے خیال میں فوجی عدالتیں اپنی کارروائی جاری رکھ سکتی ہیں۔ حکم کے اس حصے کو نگران حکومتوں کے لیے رعایت سمجھا گیا تھا جبکہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کا معاملہ بدستور التوا کا شکار ہے۔ اس دوران میں جسٹس سردار طارق مسعود کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے اب جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ایک نیا 6 رکنی بنچ نظر ثانی کی اپیلوں پر غور کر رہا ہے۔
فوجی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلہ کے خلاف اپیلیں نگران حکومتوں نے دائر کی تھیں جو اب موجود نہیں ہیں۔ ان کی جگہ منتخب ہو کر قائم ہونے والی حکومتوں نے اس کیس کی پیروی جاری رکھی ہوئی ہے۔ صرف خیبر پختون خوا کی حکومت نے اپنی درخواست واپس لینے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ اب اس صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور سانحہ 9 مئی میں زیادہ تر اسی پارٹی کے کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ درحقیقت 9 مئی کے واقعات ہی تحریک انصاف اور ملک کی اسٹبلشمنٹ کے درمیان شدید تناؤ اور براہ راست تصادم کا سبب بنے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اس روز احتجاج کے دوران میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور عسکری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ جعلی وقوعہ تھا جس میں تحریک انصاف کو پھنسایا گیا ہے۔ دوسری طرف عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ اس روز ایک سیاسی پارٹی نے عسکری تنصیبات کے علاوہ شہدا کی یادگاروں پر حملے کر کے درحقیقت فوج کے اندر رخنہ ڈالنے کی کوشش کی، جسے کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملہ پر ابھی تک کوئی متوازن راستہ تلاش نہیں کیا جا سکا جس کے اثرات ملکی سیاست پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
البتہ انتخابات کے بعد وفاق اور بلوچستان و پنجاب میں قائم ہونے والی حکومتیں اگر سپریم کورٹ میں نگران حکومتوں کی طرف سے دائر کی گئی اپیلیں واپس لے لیں تو سپریم کورٹ کا 23 اکتوبر 2023 کو جاری کیا ہوا حکم حتمی ہو جائے گا اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو سکتا ہے۔ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف کارروائی سے ملٹری اسٹبشلمنٹ کے بارے میں شبہات پیدا ہوئے ہیں اور منتخب حکومتوں کے سیاسی ایجنڈے کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسا فیصلہ کر کے موجودہ حکومتیں اس متنازع معاملہ کو ذاتی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اصولی موقف اختیار کر کے مروج نظام قانون کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں۔ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم حکومت تحریک انصاف کے ساتھ مفاہمت کے اشارے دیتی رہتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور عملی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ اگر اب حکومت فوجی عدالتوں کے سوال پر فریق بننے کی بجائے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ کو نافذ کروانے کی راہ ہموار کرے تو ایک طرف حکومت کی انسان دوستی اور اصول قانون کے احترام کا بول بالا ہو گا تو دوسری طرف حکومت، تحریک انصاف کو مفاہمت کا ٹھوس اشارہ بھی دے سکتی ہے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کو اس خیرسگالی کا جواب دینا پڑے گا۔
سانحہ 9 مئی کے بعد بعض لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے قائم کرنے کا فیصلہ درحقیقت خوف پیدا کرنے کے نقطہ نظر سے کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس تنازعہ میں فوج براہ راست فریق ہے اس لیے اپنے ’ملزموں‘ کے خلاف اسی کے افسروں کی سربراہی میں قائم عدالتوں سے سزائیں دلوانے سے نہ صرف انصاف کا خون ہو گا بلکہ فوج کی شہرت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کوئی بھی حکومت درحقیقت ملک کے نظام انصاف سے مایوسی کا بالواسطہ اعلان کرتی ہے۔ یہ رویہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ملک میں پہلے ہی فوجداری عدالتوں کے متوازی انسداد دہشت گردی عدالتیں قائم ہیں۔ یہ عدالتیں بھی یہ دعویٰ کرتے ہوئے ہی قائم کی گئی تھیں کہ فوجداری عدالتوں میں مقدموں کے فیصلے ہونے میں تاخیر ہوجاتی ہے لیکن انسداد دہشت گردی عدالتیں سرعت سے فیصلے کر کے دہشت گردوں کو سخت سزائیں دے سکیں گی تاکہ ملک میں امن و امان بحال ہو سکے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔ انسداد دہشت گردی عدالتیں بھی مقدمات کی سماعت میں کئی کئی سال استعمال کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان عدالتوں کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ البتہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد منظور کی گئی اکیسویں ترمیم کے تحت شہریوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ ہوا تھا تاکہ آرمی پبلک اسکول میں دہشت پھیلانے والوں کو جلد از جلد سزا دی جا سکے۔ لیکن حکومت اس وقت بھی یہ دیکھنے میں ناکام رہی تھی کہ ملک میں مروج نظام قانون سے ماورا کوئی بھی اقدام اصلاح کی بجائے خرابی ہی کا سبب بنتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت موثر قانون سازی اور نگرانی کے ذریعے ملک کے عدالتی نظام کو بہتر کرتی اور عدالتوں کو مقررہ مدت میں فیصلے کرنے کا پابند کیا جاتا۔ بلکہ عدالتوں میں تاخیر کا سبب ججوں کی سستی کی بجائے استغاثہ کی نا اہلی اور مقدموں کی مناسب تیاری میں ناکامی ہوتی ہے۔ یعنی حکومت کو خود اپنے انتظامی ڈھانچہ میں اصلاح کرنے، نا اہل لوگوں سے جان چھڑانے اور ملزمان کے خلاف موثر اور ٹھوس بنیادوں پر مقدمے قائم کرنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سانحہ 9 مئی اس وقت ملکی سیاست میں تنازعہ کی اہم ترین وجہ بنا ہوا ہے۔ حکومت بعض لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں سے فیصلے لے کر اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکتی۔ اس کا ایک مناسب حل تو یہی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے عدالتی تحقیقات کی تجویز مان لی جائے تاکہ اس روز ہونے والے واقعات کی تفصیلات عام لوگوں تک پہنچیں اور اس حوالے سے ہونے والے پروپیگنڈے سے نجات حاصل کی جا سکے۔ حکومت کے لیے اگر اس تجویز کو ماننا مشکل ہے تو اسے کم از کم فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات لے جانے کا طریقہ ترک کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ اس حوالے سے ایک واضح رائے دے چکی ہے۔ اب نظر ثانی اپیلوں کے ذریعے اس معاملہ کو طول دینے کی غیر ضروری کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مقدمہ بازی سے سیاسی خلیج میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور سرکاری وسائل بھی غیر ضروری طور سے صرف ہو رہے ہیں۔ جیسا کہ ایک درخواست گزار نے واضح کیا ہے کہ متعدد سرکاری محکمے اپنی اپیلوں کی پیروی کے لیے نجی وکلا کی خدمات حاصل کر رہے ہیں جن کی بھاری فیسیں سرکاری فنڈز میں سے پہی ادا ہوتی ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف ذاتی دلچسپی لے کر اس معاملہ میں فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ انہیں نوٹ کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے سوال پر قانونی کشمکش سے درحقیقت 9 مئی کے افسوسناک سانحات میں ملوث افراد کے بارے میں عوام میں ہمدردیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ حکومت کی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ حکومت کے پاس درحقیقت الزام ثابت کرنے کے شواہد موجود نہیں ہیں اس لیے فوجی عدالتوں کو ملوث کیا جا رہا ہے۔ حکومت فوجداری نظام میں مستعد و موثر استغاثہ کے ذریعے قصور واروں کو سزائیں دلا کر اس معاملہ میں اپنی پوزیشن صاف کر سکتی ہے۔
(بشکریہ کاروان ۔ ناروے)
واپس کریں