دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اور رضا ربانی کا انتباہ
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ الیکشن کمیشن کب انتخابات کروائے گا۔ اب پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر 90 دن میں انتخابات نہ کروائے گئے تو فیڈریشن خطرے میں ہوگی اور اس کی تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوگی۔ حیرت ہے کہ انتہائی تجربہ کار پارلیمنٹیرین، سیاست دان اور قانون دان ایک ایسی صورت حال کی ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے پیدا کرنے میں دیگر پارٹیوں کے علاوہ خود ان کی پارٹی پیپلز پارٹی بھی شراکت دار رہی ہے۔

رضا ربانی کو الیکشن کمیشن پر انگلی اٹھانے سے پہلے خود اس حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے جس کا حصہ ان کی پارٹی بھی رہی ہے اور جس نے آئینی تقاضے اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات منعقد نہیں ہونے دیے۔ رضا ربانی خود اس صورت حال کے چشم دید گواہ رہے ہیں کہ ان دونوں صوبوں میں قائم ہونے والی نگران حکومتیں آئینی مدت پوری ہونے کے باوجود اب تک ملک کے نصف سے زائد حصے پر کسی قانونی و آئینی اختیار کے بغیر حکومت کر رہی ہیں۔ اگر سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا نوٹس نہیں لیا تو رضا ربانی سمیت دیگر پارلیمنٹیرینز نے بھی اس غیر آئینی اور غیر جمہوری روایت کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ رضا ربانی جیسے با اصول سیاست دان کے علم میں ہونا چاہیے تھا کہ ملک میں اگر غیر آئینی روایت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تو مستقبل میں انہیں تسلسل حاصل ہو گا۔ اب قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد عام انتخابات کے حوالے سے ویسی ہی افسوسناک صورت حال کا سامنا ہے۔

یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات نہ ہونے پر وفاق خطرے میں پڑ جائے گا۔ رضا ربانی کو اپنے بیان میں اس پہلو کی وضاحت کرنی چاہیے تھی تاکہ الیکشن کمیشن کے علاوہ عوام الناس کو بھی علم ہوجاتا کہ ایسے کون سے حالات رونما ہونے والے ہیں جن کے سبب وفاق خطرے میں پڑ سکتا ہے یعنی ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہو سکتا ہے۔ غیر واضح بات کر کے تو رضا ربانی جیسا اصول پسند سیاست دان درحقیقت ان طاقت ور عناصر کو مزید قوت فراہم کرنے کا سبب بنے گا جو جمہوریت سے گریز اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے معاملات چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اب اگر انہیں یہ باور کروا دیا گیا کہ 90 دن میں انتخابات نہ ہونے کی صورت میں وفاق ’خطرے‘ میں پڑ جائے گا تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس ’وفاق‘ کو بچانے کے لئے کون کون سے جابرانہ و آمرانہ ہتھکنڈے اختیار نہیں کریں گے۔ کسی بھی جمہوریت پسند رکن پارلیمنٹ کو ایسی کمزور دلیل کے ساتھ انتخابات کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے جو درحقیقت ملک میں ہر طرف سے دباؤ کا شکار جمہوریت کے لئے مزید مشکلات کا سبب بن جائے۔

یہ بھی غیر واضح ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی، لاپتہ افراد کے گمبھیر اور سنگین مسئلہ کی موجودگی اور میڈیا پر بدترین کنٹرول کی صورت حال اگر نام نہاد وفاق کو کمزور نہیں کر پائی تو ایک انتخاب میں چند ہفتے، ماہ یا حتی کہ سال کی تاخیر بھی کیسے اسی وفاق کے لئے خطرہ بن جائے گی؟ رضا ربانی کو ملک کے کس حصے میں کون سی ایسی عوامی سیاسی مہم دکھائی دے رہی ہے جو کسی آئینی تقاضے کے پورا نہ ہونے کی صورت میں منظم ہو کر میدان میں نکل آئے گی اور وفاق پر قابض عناصر کے خلاف ایسے عوامی احتجاج کا آغاز ہو گا جس کے نتیجہ میں کوئی ایک علاقہ علیحدہ ہونے کا قصد کر لے گا؟ رضا ربانی ان عوامل اور محرکات کا تفصیل سے ذکر کرتے تو سیاسیات کے طالب علموں کو مسئلہ سمجھنے اور ملکی امور پر تبصرہ و تجزیہ کرنے والوں کو غور کے نئے پہلو مل سکتے تھے۔

حقیقت تو مگر یہی ہے کہ ملک میں اس وقت کوئی سیاسی تحریک نہیں ہے۔ عوام کو قیادت فراہم کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے خود سیاسی مفادات کے منصوبے مکمل کرنے کے لئے ایسی کسی بھی تحریک کا گلا گھونٹا ہوا ہے۔ ملک کا کوئی سیاسی لیڈر اور کوئی بڑی سیاسی پارٹی اس وقت کسی خالص عوامی، جمہوری و آئینی پوزیشن کے لئے کوئی موقف اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے جس سے ان کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہو۔ عمران خان اور تحریک انصاف پر فوج کی سرپرستی میں حکومت کرنے کا الزام لگانے کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے آخر کن شرائط پر ملک میں حکومت کرنے کا قصد کیا تھا؟ دوسرے سیاست دانوں کی طرح رضا ربانی کو بھی اس سوال کا جواب دینا پڑے گا۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ وقتاً فوقتاً انہوں نے پارلیمنٹ میں جمہوری و آئینی حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے لیکن پارلیمنٹ میں تقریر یا واک آؤٹ کرنے سے کیا کوئی مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟ رضا ربانی خود ہی بتا دیں کہ ان کے احتجاج سے کون سے معاملہ میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے؟ وہ پھر بھی اسی نظام کا حصہ ہیں کیوں کہ انہوں نے اپنے مفادات اور اصول پرستی کے درمیان ایک ’مہذب‘ توازن قائم کیا ہوا ہے۔ بصورت دیگر وہ کیسے اس پارٹی یا پارلیمنٹ کا حصہ رہ سکتے ہیں جو ہر جمہوری روایت اور آئینی شرط کو نظر انداز کرتی رہی ہے؟

پارلیمنٹ میں آواز بلند کرنے سے پہلے سیاسی لیڈروں پر واجب ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے اندر ان غلط فیصلوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں جو درحقیقت جمہوری روایات کے برعکس ہوں۔ ان کی کوشش ہو کہ پارٹی میں فیصلہ سازی کے فورمز پر اس احتجاج کو رجسٹر کروایا جائے اور اس کے مطابق مناسب سیاسی فیصلے کیے جائیں۔ رضا ربانی اور ان کے ہمنواؤں نے اگر اس بارے میں اپنی پارٹی کی غلط کاری کے خلاف دیوار بننے کی کوشش کی ہوتی تو شاید اس وقت انہیں الیکشن کمیشن پر وفاق بچانے کی تمام ذمہ داری لادنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ سال ہا سال تک پیپلز پارٹی میں کام کرنے اور اس کے نتیجے میں متعدد بار پارلیمنٹ کا رکن رہنے کے باوجود کیا رضا ربانی بتا سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کس حد تک جمہوری و آئینی روایات کی امین ہے؟ اگر وہ اپنی ہی پارٹی کو صراط مستقیم پر لانے میں کامیاب نہیں ہوئے تو ان کا ایک بیان کیوں کر الیکشن کمیشن کو یک بیک آئین کا احترام کرنے اور نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کردے گا۔ البتہ ایسے بیان سے رضا ربانی کو جمہوریت پسند ہونے کا بھرم قائم رکھنے کا موقع ضرور مل جائے گا۔ کیا ایسے بھرم بنائے رکھنے سے اس ملک میں عوامی خواہشات و ضروریات کی تکمیل ہوگی؟

الیکشن کمیشن کو ضرور جلد از جلد اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ رضا ربانی کا یہ مطالبہ یا مشورہ تو جائز ہے کہ اسمبلی تحلیل ہوئے ایک ہفتہ گزرنے کو ہے لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ حتی کہ آج ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جب الیکشن کمیشن کے نمائندے سے انتخابات کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ اور چیف جسٹس کو مسکرا کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھنا پڑا کہ شاید ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ لیکن اسمبلی ٹوٹنے کے 90 دن کے اندر انتخاب کروانا اور نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کر کے انتخابات کروانا، دونوں ہی آئینی تقاضے ہیں۔ یہ مشکل بہر صورت موجود ہے کہ اگر الیکشن کمیشن مردم شماری کو نظر انداز کر کے انتخابات کا اعلان کرتا ہے تو شاید پیپلز پارٹی ہی سب سے پہلے احتجاج کرے گی اور اگر وہ مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کا اہتمام کرتا ہے تو وہ 90 دن میں انتخابات کروانے کی آئینی شرط پوری نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن کو سیاست دانوں نے ہی اس مشکل میں ڈالا ہے۔ اب انہی کی طرف سے الیکشن کمیشن کو وفاق میں خطرے کی دہائی دی جا رہی ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی توثیق کرنے والوں میں سندھ حکومت شامل تھی۔ پیپلز پارٹی کو اس وقت اس فیصلہ کے مضمرات کا ادراک ہونا چاہیے تھا یا پھر وہ جان بوجھ کر انتخابات کی تاخیر کے لئے میدان بھی ہموار کر رہی تھی اور اب مقررہ وقت پر انتخاب کروانے کا مطالبہ بھی اسی پارٹی کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی منتخب قیادت کو فیصلوں میں شریک ہونا چاہیے لیکن یہ محیر العقل وقوعہ بھی اس ملک کے عوام نے دیکھا ہے کہ دو صوبوں کے نامزد نام نہاد ’نگران‘ وزرائے اعلیٰ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے نمائندے بن کر اس اہم فیصلہ میں شریک ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے اس غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر جمہوری روایت پر بھی کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا۔ لیکن اب الیکشن کمیشن سے آئینی تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ ضرور کیا جا رہا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے متصادم آئینی تقاضوں کو پورا کر کے رضا ربانی جیسے جمہوریت پسندوں کو مطمئن کر سکے؟ الیکشن کمیشن پر البتہ یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کی طرح مسلسل بے یقینی پیدا کرنے سے گریز کرے اور فوری طور سے اپنی رائے اور آئینی پوزیشن عوام کے سامنے لائے۔ یا ملک کی سپریم کورٹ سے رجوع کر کے یہ فیصلہ لے کہ اسے مردم شماری کے مطابق حلقہ بندی کا انتظار کرنا چاہیے یا 90 دن کے اندر انتخابات کا فریضہ پورا کرنا چاہیے۔ موجودہ بے یقینی میں ملک کی اعلی عدالت ہی رہنمائی کر سکتی ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں