امریکی سرپرستی میں بھارتی حکومت کی مجرمانہ سرگرمیاں
سید مجاہد علی
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ’چند واقعات امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں کر سکتے‘ ۔ انہوں نے یہ دعویٰ برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ واضح رہے امریکی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ایک سکھ رہنما کے قتل کی سازش کو ناکام بنایا تھا۔ نریندر مودی کا بیان اسی تناظر میں سامنے آیا ہے۔انٹرویو میں نریندر مودی نے کہا کہ اگر کوئی ’بھارت کے ساتھ کسی واقعے سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرے گا تو بھارتی حکام لازمی طور پر اس کی تحقیقات کریں گے‘ ۔ ان کہنا تھا کہ بھارت کو بعض انتہا پسند گروہوں کی بیرونِ ملک سرگرمیوں پر شدید خدشات ہیں۔ یہ عناصر آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں دھمکیاں دیتے ہیں اور لوگوں کو تشدد کے واقعات پر اکساتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت حاصل ہے جو ان کے بقول ایک مستحکم شراکت داری کی واضح نشانی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کا یہ انٹرویو اس امریکی تشویش کو کم کرنے کی کوشش ہے جو بھارت کی طرف سے کینیڈا اور امریکہ میں سکھ رہنماؤں پر حملوں کے الزامات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے ستمبر کے دوران الزام لگایا تھا کہ ممکنہ طور پر ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی سفارت کار ملوث ہیں۔ البتہ اس بیان کے بعد بھارت نے نہ صرف کینیڈا کے الزامات کو مسترد کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ سفارتی دوری پیدا کرتے ہوئے کینیڈا کے شہریوں کو ویزا جاری کرنے کی سہولت کم کرنے اور نئی دہلی میں کنیڈین سفارتی عملہ کم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ امریکہ نے اگرچہ کینیڈا کے موقف کی حمایت میں تشویش کا اظہار کیا تھا اور یہ معلومات بھی سامنے آئی تھیں کینیڈا نے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے حوالے سے جو شواہد حاصل کیے ہیں، اس میں اسے امریکی ایجنسیوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔
جسٹس ٹروڈو نے ستمبر کے شروع میں نئی دہلی میں جی 20 کے اجلاس میں شرکت کے دوران میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سکھ رہنما کے قتل کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا لیکن نہ صرف نریندر مودی نے اس معاملہ پر غور کرنے سے انکار کیا بلکہ کینیڈین وزیر اعظم کے ساتھ سفارتی سرد مہری کا سلوک اختیار کر کے شدید ناراضی ظاہر کی گئی۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے تعاون سے انکار کے بعد جسٹس ٹروڈو نے اسی ماہ کے آخر میں کینیڈین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ’ہم ایسی قابل اعتبار معلومات پر کام کر رہے ہیں جن کے مطابق ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی حکومت ملوث ہے‘ ۔ کینیڈا نے اس معاملہ میں ایک بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم بھی دیا تھا۔ خالصتان تحریک کے حامی ہردیپ سنگھ نجر کو پراسرار طور سے جون کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کینیڈا کے الزام پر بھارت کا رویہ جارحانہ رہا تھا۔ البتہ گزشتہ ماہ کے دوران میں امریکی محکمہ انصاف نے کہا تھا کہ امریکہ میں ایک 52 سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے جو کہ بھارت کے ایک سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر نیویارک میں سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ گرپتونت سنگھ پنوں بھی خالصتان تحریک کے حامی ہیں۔ امریکی حکام کے خیال میں پنوں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی میں بھارتی حکومت کا ایک اہلکار ملوث ہے۔
کینیڈا کے برعکس امریکی حکام کے الزامات پر بھارتی حکومت نے خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی تاہم تھوڑی ہی مدت میں کینیڈا میں ایک سکھ لیڈر کے قتل اور امریکہ میں ایک سکھ رہنما کو قتل کرنے کی سازش کا الزام سامنے آنے کے بعد بھارت کی سفارتی ساکھ اور انسانی حقوق کے بارے میں پوزیشن متاثر ہوئی تھی۔ انہی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ کے مذہبی آزادی کے نگران ادارے نے ایک بار پھر صدر جو بائیڈن کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکی مذہبی آزادی کے قانون کے تحت بھارت کو ’خاص تشویش کا حامل ملک‘ قرار دے۔ یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے نام سے کام کرنے والے حکومتی کمیشن نے کہا تھا کہ ’بھارتی حکومت کی جانب سے بیرونِ ملک سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو خاموش کرانے کی حالیہ کوششیں مذہبی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہیں‘ ۔ بیان میں امریکی محکمہ خارجہ سے درخواست کی گئی تھی کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خلاف منظم، مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بھارت کو ایک خاص تشویش والا ملک قرار دیا جائے۔ دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا تھا کہ ’کینیڈا میں سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی حکومت کے مبینہ کردار اور امریکہ میں ایک سکھ کارکن گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش شدید پریشان کن ہے‘ ۔
واضح رہے اس سے پہلے بھی یو ایس سی آئی آر ایف بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ اور پرتشدد کارروائیوں کے الزام میں امریکی وزارت خارجہ سے بھارت کو ’انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست‘ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم امریکی وزارت خارجہ خود اپنی ہی حکومت کے قائم شدہ ادارے کی سفارش قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے کیوں کہ امریکہ، چین کے خلاف حصار بندی اور عالمی گروہ بندی میں بھارت کی مدد و تعاون کا خواہاں رہتا ہے۔ اب بھارتی وزیر اعظم نے برطانوی اخبار کو انٹرویو میں بھارتی ریاست کی طرف سے بیرون ملک سرگرم بعض عناصر کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کو ایک ’معمولی‘ کارروائی قرار دینے کا طریقہ اختیار کیا ہے، جس کا دو ملکوں کے تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا۔ اس رویہ سے انسانی حقوق کے بارے میں بھارت کا مسخ شدہ چہرہ تو سامنے آتا ہی ہے لیکن دنیا بھر میں انسانی حقوق کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور خود کو آزادی و جمہوریت کا علمبردار بتانے والے امریکہ کی اصلیت بھی سب کے سامنے آئی ہے۔
نریندر مودی کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ان کی حکومت بیرون ملک مقیم اپنے ناراض شہریوں کو ’سزا‘ دینے کے لئے خواہ کوئی بھی طریقہ اختیار کرے، پھر بھی امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ تاہم اس کی وجہ وہ نہیں ہے جو نریندر مودی بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے اور امریکہ کے ساتھ اس کی دوستی ان ہی اصولوں پر استوار ہے۔ اس کی حقیقی وجہ امریکی حکومت کی سفاکی اور ملکی مفاد کے لیے انسانی حقوق نظر انداز کرنے کی حکمت عملی ہے۔ اس کا سب سنگین مظاہر غزہ پر اسرائیلی بمباری کی صورت میں گزشتہ اڑھائی ماہ کے دوران میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسرائیل نے ایک حملہ کے جواب میں پچیس لاکھ آبادی کے ایک مختصر سے علاقے کو جہنم کا نمونہ بنا دیا۔ بیس ہزار کے لگ بھگ شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اور اسرائیلی فوج دیدہ دانستہ ہسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ لیکن شہری ہلاکتوں پر ٹسوے بہانے کے باوجود امریکی حکومت انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیل کی اس انسان دشمنی کو ’دفاع‘ کا نام دے کر نہ صرف اسرائیل کو بمباری کرنے کی اجازت دے رہی ہے بلکہ اسے مسلسل اسلحہ و بارود فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ اس کے ہمنوا خواہ اس ظلم کے لیے کوئی تاویل تلاش کریں لیکن تا ریخ میں انہیں ایک ایسے ملک کا بے دریغ ساتھ دینے والا لکھا جائے گا جس نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے واضح مقصد سے نہتے شہریوں کو بربریت کا نشانہ بنایا۔
امریکہ یا بھارت اگر کسی جمہوری اصول کو مانتے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 153 ممالک کی منظور کردہ قرارداد اور دنیا بھر میں لاکھوں شہریوں کی طرف سے جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو جمہوری پیغام سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔ امریکہ کی ہٹ دھرمی ہی کی وجہ سے سلامتی کونسل ابھی تک غزہ میں جنگ جوئی کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں کر سکی۔ اب نریندر مودی اسی امریکی ’انسانیت و قانون پسندی‘ کا حوالہ دے کر یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ کر رہے ہیں کہ ’اگر بھارت کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا تو بھارتی حکام اس کی تحقیقات کریں گے‘ ۔ حالانکہ کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کا قتل اور امریکہ میں ایک دوسرے لیڈر کو قتل کرنے کی کوشش تحقیقات سے ماورا معاملہ ہے۔ کوئی سر کاری اہلکار یا سفارت کار اپنی حکومت کی واضح ہدایات کے بغیر کینیڈا یا امریکہ جیسے دوست ممالک میں وہاں کے شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔ یہ اقدام نریندر مودی حکومت کے حکم اور خوشنودی کے لیے کیا گیا تھا۔
بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں حتی کہ امریکہ کے مذہبی آزادی کے نگران ادارے نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن جو بائیڈن کی حکومت جیسے اپنے سیاسی، سفارتی، معاشی اور اسٹریٹیجک مفادات کے لیے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ایک حرف زبان پر نہیں لاتی، ویسے ہی اسے بھارتی حکومت کی انتہاپسندی، اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ رویے اور اب بیرون ملک دوسرے ملکوں کے شہریوں کو ہلاک کرنے یا ایسے جرم میں ملوث ہونے کی صورت حال دکھائی نہیں دیتی۔ سامنے آنے والی خبروں کو خوبصورت سفارتی زبان میں بیان کر کے بھارت کو ’بری الذمہ‘ قرار دینے کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل سے بھارت کا مکروہ چہرہ تو شفاف نہیں ہو سکے لیکن امریکہ کی انسان دوستی کے بارے میں نت نئے سوالات ضرور سامنے آئیں گے۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں