سید مجاہد علی
صدر مملکت، وزیر اعظم اور آرمی چیف نے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر یکساں طور سے ملکی دفاع کے راسخ عزم کا اظہار کیا ہے اور مادر وطن کے لئے قربانیوں دینے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سانحہ 9 مئی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ’حال ہی میں بعض عناصر نے عوام اور فوج کے رشتے پر وار کرنے کی مذموم کوشش کی۔ افواج پاکستان نے بحیثیت ایک قومی ادارہ نہایت تحمل اور سمجھ داری سے اسے ناکام بنایا‘ ۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی اپنے بیان اور میڈیا سے گفتگو میں شہدا کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’پاکستان کی خوشحالی اور سالمیت کے خلاف ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پوری قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے‘ ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے ناپاک عزائم ہیں جنہیں ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم کو خاص طور سے اصرار کرنا پڑتا ہے۔ اور ملکی فوج اور قوم کے درمیان استوار رشتے کو کیوں اور کیسے خطرہ لاحق ہوا جسے آرمی چیف کے بقول ’افواج پاکستان نے تحمل اور سمجھداری سے ناکام بنایا‘ ۔
اہم مواقع پر دیے گئے بیانات اور کی جانے والی تقاریر کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہوتی ہے کہ یہ جذباتی بیانیہ پر استوار ہوتی ہیں اور دلیل و حجت کے ساتھ نقطہ نظر واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ البتہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک و قوم کو آگے بڑھنے کے لئے اپنے وجود کا جواز فراہم کرنے کے علاوہ اس کے استحکام و مضبوطی کے لئے مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی استحکام کا بیانیہ محض شہدا کی قربانیوں کا ذکر کر کے بلند بانگ وعدے کرنے یا نعرے لگانے سے مضبوط نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ہمہ وقت حقائق کا جائزہ لینے اور غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے، ان کی درستی کے لئے کام کرنے ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ان بیانات کو بنیاد مان لیا جائے کہ فوج اور قوم کے درمیان رشتہ کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور قوم پوری قوت سے دفاع وطن کے لئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جن کے خلاف کامیابی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اور جن ناپاک عزائم کا وزیر اعظم ذکر کر رہے ہیں، وہ کیا ہیں۔ ہمارے لیڈر اگر محض اشاروں میں جذباتی باتیں کرنے کی بجائے ٹھوس حقائق کی نشاندہی کرسکیں تو مشکلات میں گھری قوم بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر سکتی ہے کہ ہمارے حکمران کن خطرات کا ذکر کر رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے اس کے ہر فرد کو ہمہ وقت افواج پاکستان کے گن گاتے رہنا چاہیے۔ بصورت دیگر ملکی حالات کے تناظر میں موقع بے موقع جاری ہونے والے ایسے بیانات کو اول تو قومی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی علامت سمجھا جاسکتا ہے۔ دوئم یہ قیاس پختہ ہو سکتا ہے کہ کچھ ایسے پہلو ضرور ہیں جن سے قوم کے بے خبر رکھا جا رہا لیکن قومی مفادات کے حصول کے لئے اس وقت اصولی اختلاف سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ سوئم یہ تاثر قوی ہو گا کہ درحقیقت ایسے بیانات کا مقصد سیاسی اشرافیہ اور اسٹبلشمنٹ کے تعلق کو مضبوط کرنا ہے تاکہ ملک کے غریب عوام کی اکثریت کو مسلسل بنیادی حقوق و سہولتوں سے محروم رکھا جا سکے۔
یوم دفاع پاکستان کے موقع پر قومی استحکام کی باتیں سنتے ہوئے ملکی آئین اور اس کے تحت نظام حکمرانی کے بارے میں سوالات سامنے آنا بھی فطری ہے۔ ان میں بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا کوئی بھی ملک آئین میں وضع کی گئی حدود پامال کرتے ہوئے استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے اور کیا ایسے قومی یک جہتی کا عظیم مقصد حاصل کرنا ممکن ہو سکتا ہے؟ آئین درحقیقت ایک ایسے دستاویز یا اصولوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے تمام طبقات اور اداروں کو باہم مربوط کر کے ایک ایسا نظام وضع کرنے کا کام کرتا ہے جس میں کسی کے بنیادی حقوق تلف نہ ہوں اور کوئی اپنے مقررہ دائرہ کار سے باہر نکل کر دوسرے فرد یا ادارے کے حق یا اختیار کو پامال نہ کرے۔ اسی آئینی طریقے سے پاکستان استحکام بھی حاصل کر سکتا ہے اور اسی فریم ورک کے اندر کام کر کے ہی قومی خوشحالی اور سماجی و سیاسی مسائل سے نکلنے کا راستہ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم اور آرمی چیف نے چونکہ قومی استحکام اور فوج و عوام کے رشتے کی خاص طور سے بات کی ہے تو پوچھنا چاہیے کہ اگر ملک میں آئین نافذ ہے اور تمام ادارے اس کی حدود میں کام کر رہے ہیں اور کسی فرد، گروہ یا ادارے کے حقوق مجروح نہیں ہو رہے تو تسلسل سے قومی استحکام کے لئے خطرے کی بات کیوں کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے تو غیر واضح ناپاک عزائم کا ذکر کر کے کسی بھی قسم کی کوئی دلیل یا جواز فراہم نہیں کیا۔ اس لئے ان کی باتوں کو فوجی قیادت کے ساتھ اظہار عقیدت و نیاز مندی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ انوار الحق کاکڑ کسی میرٹ کے بغیر اچانک نگران وزیر اعظم بنائے گئے تھے جس کے بارے میں پاکستانی عوام میں شبہات پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ اب حالات چونکہ نگران سیٹ اپ کی مقررہ آئینی مدت کو نظرانداز کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو وزیر اعظم کے گرمجوش بیانات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا کہ وہ فوجی قیادت کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی منتخب وزیر اعظم سے زیادہ وفاداری کا ثبوت دیں گے۔ اس لئے ان کے دور اقتدار میں توسیع سے سب کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یعنی نگران حکومت آئین کی مرضی و منشا کے بغیر اقتدار میں رہ سکتی ہے اور افواج پاکستان کسی آئینی اختیار کے بغیر معیشت و سیاست کے امور طے کرنے میں سرگرم عمل ہو سکتی ہیں۔ ان دونوں کی ساز باز سے عدلیہ کو مسلسل دفاعی لائن پر دھکیلا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں پرویز الہیٰ کی رہائی اور گرفتاری کی صورت میں دیکھنے میں آیا ہے۔
البتہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا بیان ٹھوس اور واضح ہے۔ انہوں نے حال ہی میں بعض عناصر کی طرف سے فوج اور عوام کے رشتے پر وار کی بات کی ہے۔ یہ 9 مئی کو عمران خان کی پہلی گرفتاری کے موقع پر تحریک انصاف کے احتجاج کی طرف اشارہ ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم ایک بیان میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ 9 مئی کا احتجاج فوج کے خلاف بغاوت تھی اور اس کا ہدف جنرل عاصم منیر اور ان کے رفقا تھے۔ عوام کو جو خبریں فراہم کی گئی ہیں، ان میں تو کسی سازش یا بغاوت کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔ بلکہ یہی بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے ناراض مظاہرین نے بعض فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کیے جو ناقابل قبول رد عمل تھا۔ اسی لیے آرمی ایکٹ کو فعال کرتے ہوئے ایک سو کے لگ بھگ شہریوں کو فوج کی حراست میں دیا گیا تھا۔ اگر یہ احتجاج کسی سازش یا فوج کے خلاف بغاوت کا شاخسانہ تھا تو اسے خفیہ رکھنے کی بجائے اس وقت کی حکومت اور فوج کو اس کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تھا تاکہ عوام شبہات اور بے یقینی میں مبتلا ہونے کی بجائے صاف طور سے دیکھ سکتے کہ کون ان کا دشمن ہے اور کون ان سے وفاداری کا عہد نبھا رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں البتہ سرکاری پوزیشن یہ ہے کہ تحریک انصاف نے فوج میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی لیکن فوج نے ’سمجھداری و تحمل‘ سے اس اشتعال انگیزی کو ناکام بنا دیا۔
اس کے برعکس عام طور سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ 9 مئی سے ملک میں بنیادی حقوق کی صورت حال خراب ہوئی ہے۔ ایک خاص سیاسی پارٹی کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے لیڈروں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور جو یہ بات نہیں مانے، انہیں پرویز الہیٰ یا شاہ محمود قریشی کی طرح نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔ حتی کی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہراساں کرنے کے لئے تمام تر ریاستی طاقت اور ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے ہیں۔ انہیں ایک مقدمے میں سزا دی گئی۔ یہ سزا معطل ہونے کے باوجود انہیں جیل میں بند رکھا گیا اور بعض حلقوں کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ اب وہ طویل عرصے تک آزاد زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ صورت حال کی یہ تفہیم جنرل عاصم منیر کے اس بیان کی عکاسی نہیں کرتی کہ فوج نے ’تحمل و سمجھداری‘ سے صورت حال کو سنبھال لیا۔ درحقیقت سرکاری پوزیشن اور عملی صورت حال میں تضاد ہی کی وجہ سے پریشانی اور بحران کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ اگر سرکاری طور پر فوج کے خلاف سازش یا شرارت کی تفصیلات عام کردی جاتیں تو ان چہروں کو شناخت کرنا آسان ہوجاتا جو ذاتی سیاسی مفادات کے لئے قوم اور اس کے اداروں کے درمیان افتراق پیدا کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ اور حکمرانوں کو بار بار غیر واضح بیانات سے قومی استحکام کی یقین دہانی نہ کروانا پڑتی۔
عمران خان اور تحریک انصاف کو قومی اداروں کی سرپرستی کے سبب ہی عروج نصیب ہوا تھا۔ اب کوئی اس حقیقت کو نہیں چھپاتا کہ ’عمران پراجیکٹ‘ فوجی قیادت کی توقعات و پرجوش عزائم کا پرتو تھا۔ عمران خان ’ایک پیج‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے۔ البتہ اس کے بعد رونما ہونے والے حالات کو چونکہ مسلسل قومی راز کی حیثیت حاصل ہے، اس لئے ہر گروہ من پسند باتوں کو ’اصل کہانی‘ بنا کر سنانا چاہتا ہے۔ سانحہ 9 مئی ’عمران پراجیکٹ‘ کی ناکامی کا نقطہ عروج تھا۔ جب فوج کے کھڑے کیے ہوئے ایک گروہ نے خود اسی ادارے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جو اس کا موالی و سرپرست تھا۔فوجی قیادت اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے تو اس خفت میں ملکی آئینی انتظام کو برباد کرنے کی بجائے بہتر ہوتا کہ فوج اپنی غلطیوں کا جائزہ لیتی۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ ان فوجی لیڈروں کا کسی بھی طریقے سے احتساب کیا جائے جو ملک میں حکومت کے جمہوری و آئینی انتظام کو ناکام بنا کر خود اپنی مرضی کے سیاسی عناصر کو مسلط کرنے میں ملوث رہے تھے۔ اسی طرح فوج اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکتی ہے اور یہ اصول بھی واضح ہو سکتا ہے کہ غیر آئینی طریقوں سے سیاسی مقاصد کا حصول قومی استحکام پیدا کرنے کا باعث نہیں بن سکتا۔
موجودہ صورت حال میں ہر طبقہ پریشان ہے۔ عوام مہنگائی اور سیاسی و معاشی بحران سے، تاجر و صنعت کار بے یقینی اور غیر واضح صورت حال سے، سیاسی جماعتیں بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی سے، عدالتیں اپنے احکامات کی خلاف ورزی سے۔ اور فوج کی پریشانی یہ ہے کہ وہ کیسے ملک پر اپنی بالادستی قائم رکھ سکے اور اسے بدستور عوام اور فوج کے رشتے کا نام دیا جائے۔ البتہ تاریخ سے حاصل تجربہ اور زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ غیر آئینی طریقوں کی بجائے آئینی راستہ اختیار کیا جائے۔ اس عمل میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے سب اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کریں۔ غلطیوں کو بوجھ بنانے کی بجائے مستقبل میں بہتر رویہ اختیار کرنے کا جواز بنالیا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب سب ادارے آئین کی طے کردہ حدود کا احترام کریں۔ اور عوام کو وہ تمام حقوق واپس کیے جائیں جن سے انہیں کئی عشروں سے محروم کیا گیا ہے۔ یعنی عوام کا حق حکمرانی انہیں واپس کیا جائے۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں