دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عالمی سطح پر بھارت کی مشکلات
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسند لیڈر ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت کا معاملہ اب صرف بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تنازعہ کا باعث ہی نہیں رہا بلکہ دنیا کے بیشتر دارالحکومتوں میں نئی دہلی کے طرز عمل کے بارے میں طرز عمل پر تشویش و حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں شروع سے ہی اس معاملہ میں کینیڈا کے ساتھ تحقیقات میں شامل تھیں۔ اب امریکہ نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت ان تحقیقات پر سوال اٹھانے کی بجائے، تعاون کرے تاکہ وقوعہ کی درست تصویر سامنے آ سکے۔

اس بات کا امکان تو نہیں ہے کہ بھارت اس امریکی یا کینیڈین درخواست کو قبول کر لے گا اور تحقیقات میں مناسب تعاون کرے گا تاکہ حقائق کی تہ تک پہنچا جا سکے۔ بھارت میں اگلے سال کے دوران انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اگر اس سوال پر کینیڈا کے سامنے کمزوری دکھاتے ہیں تو ’مہان بھارت کے مہان لیڈر‘ کا بت پاش پاش ہو جائے گا۔ ایک دوسرے ملک میں ایک غیر ملکی شہری کی ہلاکت میں ملوث ہونے کے الزامات مودی کی سیاست کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ فی الوقت بھارت کا رویہ جارحانہ ہے اور وہ بدستور کینیڈا کے الزامات کو بے بنیاد اور لغو قرار دے رہا ہے۔ کینیڈا کی طرف سے بھارت میں اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کا مشورہ سامنے آتے ہی بھارتی وزارت خارجہ نے بھی اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے اور کینیڈا میں اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ بعض علاقوں میں جانے سے گریز کریں کیوں کہ بھارت دشمن عناصر انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ کینیڈا نے اپنے شہریوں کو خاص طور سے مقبوضہ کشمیر جانے سے منع کیا تھا۔

اس تنازعہ پر وزیر اعظم نریندر مودی کو فی الوقت ملکی سیاسی میدان میں بھی کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگرس کے ترجمان نے ’قومی یکجہتی‘ کے نام پر ایک بیان میں بھارتی موقف کی حمایت کی ہے اور کینیڈا کے الزامات کو بے بنیاد کہا ہے۔ کانگرس کے ایک سینئر پارلیمنٹیرین ابھیشک منو سنگھوی نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’کینیڈین وزیر اعظم ٹروڈو کی طرف سے ایک سکھ دہشت گرد ہردیپ سنگھ کی حمایت شرمناک حرکت ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کینیڈین حکومت خالصتان کے ہمدردوں کے ساتھ ایک ہی پیج پر ہے‘ ۔ تاہم بھارتی حکومت، اپوزیشن اور میڈیا کی گرمجوش مزاحمت کے باوجود عالمی سطح پر یہ معاملہ ایک سنجیدہ صورت اختیار کر رہا ہے جس سے امن و جمہوریت کا علم بردار ہونے کے بھارتی امیج کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں و ہفتوں میں یہ معاملہ بدستور خبروں کی زینت بنا رہے گا اور اگر کینیڈا کی طرف سے کچھ ٹھوس شواہد عام کر دیے گئے تو بھارتی حکومت کے لئے نہ صرف عالمی سطح پر اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا بلکہ داخلی طور سے بھی بھارتی حکومت کی حکمت عملی اور دہشت گرد ہتھکنڈوں کے بارے میں سوالات سامنے آئیں گے۔ اس حوالے سے خاص طور سے امریکہ کا رول نہایت اہم ہو گا جو کینیڈا کا ہمسایہ ملک ہے اور اس معاملہ میں اسے شروع سے ہی ملوث کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کے ترجمانوں نے کینیڈا کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے بھارت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

واائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کر بی نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کینیڈین سرزمین پر ایک سکھ علیحدگی پسند لیڈر کی ہلاکت کے معاملہ پر اوٹاوا کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ ان تحقیقات میں تعاون کرے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ شفاف تحقیقات سے ہی اس معاملہ کے تمام حقائق سامنے آ سکیں گے۔ انہوں نے کینیڈا کے الزامات کو نہایت سنگین قرار دیا۔ اس دوران ایک امریکی ترجمان نے ان خبروں کو مسترد کیا ہے کہ اس معاملہ پر امریکہ نے کینیڈا کی سرزنش کی ہے۔ ترجمان نے واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن بھارت کو چین کے مدمقابل لانے کے لیے پرجوش طریقے سے کام کر رہے تھے۔ لیکن کینیڈا کے اس الزام کے بعد کہ بھارتی اہلکار ایک سکھ علیحدگی پسند کینیڈین شہری کی ہلاکت میں ملوث ہوسکتے ہیں، معاملات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ بھارت ایک ارب چالیس کروڑ آبادی پر مشتمل ایک بڑا ملک ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھی ہے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر کے علاوہ ملک میں اقلیتوں کی صورت حال اور انتہاپسند ہندو گروہوں کے جرائم کی روشنی میں یہ دعویٰ صرف اس حد تک درست ہے کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن انسانی جان کی حفاظت، بنیادی حقوق کے تحفظ اور آزادی اظہار کے حوالے سے اس کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہی ہوتا ہے جہاں آمرانہ طرز حکومت میں بنیادی حقوق کو فرد واحد کے اختیارات کے لئے سلب کیا جاتا ہے۔ نریندر مودی نے ہندو انتہاپسندی کو فروغ دے کر اس کی بنیاد پر اپنا سیاسی کیرئیر استوار کرنے کے لیے اس صورت حال کو ابتر کیا ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کو بات کرنے کا موقع نہیں ملتا، ملکی میڈیا کو سرکار دوست سرمایہ داروں کے ذریعے کنٹرول کر لیا گیا ہے اور بیشتر صورتوں میں اقلیتوں کے خلاف الزامات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ تاہم اب معاملہ بھارت کے اندر یا کسی ایشیائی ملک میں کوئی غیر قانونی حرکت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کینیڈا جیسے مہذب اور امن پسند ملک میں ایک کینیڈین شہری کی ہلاکت کا ہے۔ وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے پارلیمنٹ سے خطاب میں یہ واضح کیا ہے کہ اس واقع میں بھارت کے ملوث ہونے کے قابل اعتماد شواہد ملے ہیں۔ کسی ذمہ دار ملک کا وزیر اعظم بھارت جیسے بڑے ملک کے خلاف کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ایسا سنگین الزام نہیں لگا سکتا۔ اسی لیے امریکہ بھی بھارت کے ساتھ دوستی کی شدید خواہش کے باوجود کینیڈا کے موقف کو مسترد نہیں کر سکتا۔ بلکہ ابتدائی طور پر جو اشارے سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق اگر یہ اسکینڈل بڑا ہوتا ہے اور ہردیپ سنگھ نجر کو ہلاک کرنے والوں کے کوائف منظر عام پر آتے ہیں تو بھارت کے ساتھ امریکہ کا ہنی مون فوری طور سے شدید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔

بھارتی حجم اور معاشی اہمیت سے قطع نظر امریکہ بنیادی انسانی حقوق اور کسی دوسرے ملک کی خود مختاری پر حملہ کے اس سنگین واقعہ کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ تنازعہ بھارت کو کتنا مہنگا پڑے گا۔ کسی حد تک اس کا تعلق بھارتی حکومت کی سیاسی و سفارتی حکمت عملی سے ہو گا۔ اسے فوری طور سے کینیڈا پر جوابی حملے کرنے اور مقتول ہردیپ سنگھ نجر کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے یک طرفہ سخت گیر رویہ اختیار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ دلیل اس لحاظ سے بھی بے وزن ہے کہ اگر بھارتی موقف کے مطابق یہ مان بھی لیا جائے کہ ہردیپ سنگھ نجر دہشت گرد اور مفرور تھا تو بھی کیا کسی ملک کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں وہاں کی شہریت کے حامل شخص کو محض اس لئے قتل کروا دے کہ اس کی نظر میں وہ مجرم تھا۔ عالمی رائے اور ممالک اس موقف کو قبول نہیں کریں گے۔ خاص طور سے کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے لیے اس بارے میں بھارت کی طرف داری ممکن نہیں ہوگی کیوں کہ ان ملکوں میں سکھ کافی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور وہ اپنا حلقہ اثر بھی رکھتے ہیں۔ سکھوں کی عالمی تنظیمیں اس معاملہ کو مانیٹر کر رہی ہیں۔ ورلڈ سکھ آرگنائزیشن کے ترجمان مخبیر سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بھارت کے شہری ضرور کینیڈین وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو کے الزام سے حیران ہوں گے لیکن سکھوں کے لیے یہ کوئی حیران کن خبر نہیں تھی‘ ۔

اکتوبر 2018 میں سعودی حکومت کے ناقد ایک سعودی امریکی صحافی جمال خشوگی کو سعودی انٹیلی جنس کے ایجنٹوں نے استنبول کے قونصل خانہ میں قتل کر دیا تھا۔ شروع میں سعودی حکومت نے اس الزام کو مسترد کیا لیکن جب براہ راست ولی عہد محمد بن سلمان پر اس کا الزام عائد ہوا تو ریاض کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی تھی اور یہ تسلیم کرنا پڑا تھا کہ اس کے ایجنٹوں نے ایک ناجائز کام کیا تھا۔ سعودی حکومت نے اس واقعہ میں ’ملوث‘ متعدد افراد کو مختلف سزائیں بھی دی تھیں لیکن طویل عرصہ تک امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے باوجود سعودی عرب کے لئے اس بحران سے نکلنا آسان نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت پر کسی تیسرے ملک میں ایک کینیڈین شہری کو ہلاک کرنے کا الزام نہیں ہے۔ بلکہ یہ جرم کینیڈا کی سرزمین پر سرزد ہوا ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کو اپنے حجم و آبادی کے باوجود ابھی تک سعودی عرب جیسی سفارتی اور معاشی بالادستی بھی حاصل نہیں ہے۔ سعودی عرب اپنے کثیر وسائل کی وجہ سے امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے خصوصی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ بھارت کو ابھی یہ مقام حاصل کرنے میں دیر لگے گی۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے محتاط انداز میں بھارت کے ساتھ حساب برابر کرنے کی کوشش کی ہے اور بلاول بھٹو زرداری کے جارحانہ بیان سے قطع نظر معتدل رویہ اختیار کیا ہے جو موجودہ حالات میں مناسب اور متوازن ہے۔ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کو ہلاک کرنا بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس حرکت سے ایک ذمہ دار ملک کے طور پر بھارت کا کردار مشکوک ہوا ہے۔ سیکرٹری خارجہ سائرس قاضی نے نیویارک میں اس معاملہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو کینیڈا کے الزامات پر حیرت نہیں ہوئی۔ دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ وہ جس ملک کو ذمہ دار حلیف سمجھ رہی ہے، اس کا کردار کیا ہے۔ اگر دنیا کا کوئی ملک بھارت کو صحیح طریقے سے سمجھتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اور پاکستان ہی بہت حوالوں سے وہ واحد ملک ہے جو بھارت سے خوفزدہ نہیں ہے‘ ۔

دوسری طرف نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے نیویارک کے ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ کرتارپور راہداری کھولنے سمیت پاکستان نے بھارت کے ساتھ امن و دوستی کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ البتہ بھارت نے منفی انداز میں ان کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان، بھارت کے ساتھ پرامن اور باہمی تعاون پر مبنی ہمسایہ تعلقات کا خواہشمند ہے‘ ۔ یوں پاکستان نے عالمی سطح پر شدید سفارتی دباؤ کا سامنا کرنے والے بھارت کو یہ باور کروایا ہے کہ پاکستان اس کا ہمسایہ ملک ہے اور اس کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ موجودہ بحران میں بھارت اگر پاکستان کے جذبہ خیر سگالی کی قدر کرے تو اس کی سفارتی مشکلات میں کمی کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں