دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فسطائیت اور لاقانونیت کی طرف بڑھتا ہوا پاکستان
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
ملک غیر معمولی بے یقینی کا شکار ہے لیکن اس بحران کا کوئی بھی کردار بظاہر پسپائی پر آمادہ نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت اور عدالتوں میں تصادم ایک نئی شکل اختیار کر رہا ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف براہ راست فوج سے ٹکرانے ہی کو حقیقی آزادی کا راستہ سمجھ رہی ہے۔ ایسے میں حکومتی اختیار، وزیر اعظم اور وزرا کے پرجوش بیانات تک محدود ہے۔ یا فوج کا شعبہ تعلقات عامہ وضاحتی بیان جاری کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو رہا ہے۔

حکومت کو عدالتوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ عمران خان کو ریلیف دینے کے لئے نئی عدالتی روایات قائم کی جا رہی ہیں اور قانون کی تشریح یوں ہو رہی ہے جس میں عمران خان وکٹری کا نشان بنا کر حکومت کو چڑانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کا جواب دینے کے لئے حکومتی اتحاد اب سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دے کر اپنی طاقت اور عوام کی ’خواہش‘ کا بھرپور اظہار کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ ایسے میں کسی کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے کہ حالات کے جبر کا شکار اس ملک کے حقیقی عوام کس حال میں ہیں۔ جیسے ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس روندی جاتی ہے، اسی طرح پاکستان میں اقتدار کے لئے بڑوں کی ہاتھا پائی میں مظلوم، بے بس اور لاچار عوام پر سب سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔

سیاسی وابستگی سے قطع نظر اس سچائی سے انکار کی کوئی صورت نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ تصادم میں ملکی عوام کی اکثریت محض تماشائی ہے۔ سب ان کے ’مفادات‘ کی لڑائی لڑ نے کے دعوے دار ہیں لیکن انہیں کی ضرورتیں سب سے زیادہ نظر انداز ہو رہی ہیں۔ یہ اشیائے صرف کی مہنگائی کا معاملہ ہو، ملکی معیشت کی تباہ حالی میں بیروزگاری کی صورت حال ہو، احتجاج اور جشن منانے یا سکیورٹی کے نام پر سڑکیں و راستے بند کرنا ہو یا پھر بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹیں ہوں، ان سے صرف وہی عام آدمی متاثر ہوتا ہے جس کے لمبے ہاتھ نظام کو موم کی ناک کی طرح مروڑ کر اپنا کام نکالنے کے قابل نہیں ہوتے۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس اکثریت میں ملک کے نناوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ شامل ہیں۔ ان میں عمران خان کے شیدائی بھی ہوں گے اور نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری یا مولانا فضل الرحمان کے حامی بھی۔ اگر ان کا تعلق اس طبقہ سے ہے جسے عام شہری کہا جاتا ہے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہی سب سے بڑے مظلوم اور لاتعلق ہیں۔ ملکی معیشت پر دباؤ اور سیاسی تصادم کی وجہ سے دن بدن زندگی اجیرن اور مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن جو رہنما یا ادارے اسے تبدیل کرنے کے ذمہ دار ہیں یا اس کے دعوے دار ہیں، وہ سب ہی اس وقت ایک ایسی چومکھی میں مصروف عمل ہیں، جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

بظاہر یہ لڑائی ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ، حقیقی آزادی یا قانون کی عمل داری کے لئے لڑی جا رہی ہے لیکن یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ چونکہ اس تصادم کے کوئی بنیادی قواعد و ضوابط طے نہیں ہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ طریقوں کو پامال کر کے نئے راستے کھوجنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس لئے اس ٹکراؤ میں جس معصوم کی قربانی کا سب سے زیادہ امکان ہے، اس کا نام جمہوریت یا عمران خان کی زبان میں ’حقیقی آزادی‘ ہی ہے۔ اس جھگڑے میں کوئی بھی سرخرو ہو، قوم کو جبر و فسطائیت کا ایک طویل سفر درپیش ہے۔ اس سے بچنے کا فی الوقت کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ سیاسی مقاصد کے لئے عسکری اداروں کو للکارنے کے بعد ان پر حملے کرنے سے ہونے والی توڑ پھوڑ میں تعمیر کا کوئی پہلو نمایاں نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اہل پاکستان کو اسی صورت حال کا سامنا ہے لیکن حکومت یا عمران خان اس اندیشے کو سمجھنے اور مل جل کر اس سے بچنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

دونوں فریقوں کو لگتا ہے کہ ان کی کامیابی کا راستہ دوسرے کو گرا کر ہی ہموار ہو سکتا ہے۔ اس خواہش میں البتہ وہ ایک دوسرے کو زیر تو نہیں کرسکیں گے لیکن ملکی اداروں کو اس حد تک کمزور اور کھوکھلا کر دیں گے کہ پھر گھٹنوں کے بل آئے ہوئے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں دہائیوں کا سفر درکار ہو گا۔ البتہ اس میں بھی یہ شرط ہے کہ اس لڑائی میں شدت پسندی کا کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہو جائے جو اس تقسیم کو گروہی، علاقائی یا مذہبی شکل میں تبدیل کردے۔ ابھی تو یہ لڑائی پنجاب میں سیاسی طاقت حاصل کرنے، فوج و عدلیہ کو زیر نگیں رکھنے اور اس طریقے سے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے تک محدود ہے۔ لیکن فریقین یہ فراموش کیے ہوئے ہیں کہ یہ ملک ایک وفاق پر مشتمل ہے جس میں تین دوسرے صوبے بھی شامل ہیں۔ ان تینوں صوبوں میں کم یا زیادہ محرومی کا احساس موجود ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں کسی بھی حکومت کے دور میں ان مسائل کا کوئی مناسب حل تلاش کرنے کی سنجیدہ اور قابل عمل کوشش نہیں ہوئی۔ اقتدار کی جنگ کو جب پنجاب کی سیاست تک محدود کیا جائے گا تو چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہو گا۔ یہ جنگ جتنی طویل ہوگی اور پنجاب پر اس کا فوکس جس حد تک بڑھے گا، اسی رفتار سے بلوچستان، خیبر پختون خوا اور سندھ میں یہ احساس قوی تر ہو گا کہ کیا وہ اس ملک کا حصہ نہیں ہیں اور کیا ان کی سیاسی و معاشی ضرورتیں پنجاب کی سیاست اور عوام سے کم تر ہیں۔ اس سوال کا جوب تو درکنار، موجودہ سرگرمی میں اس پر غور کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی۔

تحریک انصاف نے عمران خان کی مختصر گرفتاری کے دوران فوجی تنصیبات اور گھروں کو نشانے پر لیا۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر کو تباہ کرنے کے مناظر اس شدت پسندی کا سب سے نمایاں پہلو تھا۔ ان مناظر کو سیاسی فتح مان لینا اور ایک فوجی کمانڈر کے گھر سے چرائی ہوئی اشیا کی سوشل میڈیا پر نمائش سے ’حقیقی آزادی‘ کشید کرنا، خواب تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ علامات ملک کے واحد منظم، ٹھوس، طاقت ور اور با اثر ادارے کو بے بس ثابت کرنے کا اعلان ہے۔ عمران خان نے ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کی بجائے واضح کیا ہے کہ ایسا رد عمل تو آنا ہی تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر ایسا ہی رد عمل آئے گا۔ اپنے حامیوں کے اس مزاج کو تقویت دینے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران انہوں نے اپنی گرفتاری اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کی ذمہ داری آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر عائد کی۔ عمران خان اپنے دعوؤں کا جواز فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے حامی ان سے دلیل کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ عمران خان نے کہہ دیا تو ان کے کہے کو پتھر پر لکیر سمجھنے والوں کے لئے یہ ساری خرابی آرمی چیف نے ہی پیدا کی ہے۔ کیوں اور کیسے بے معنی اور غیر ضروری الفاظ ہیں۔

عمران خان نے جنرل عاصم منیر کی اس عہدے پر تقرری روکنے کے لئے اپنی پوری سیاسی قوت استعمال کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب وہ انہیں ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے اپنی پوری صلاحیت بروئے کار لا رہے ہیں۔ تو کیا دیوار سے لگے وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان صورت حال تبدیل کردے گا؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کے دو ہی ممکنہ حل ہیں۔ یا تو عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے اور فوج میں ایسی ’بغاوت‘ کو ممکن بنا سکیں گے جو جنرل عاصم منیر کو فارغ کر کے ایک بار پھر فوج کو عمران خان کی سیاسی حمایت پر متعین کرسکے۔ بظاہر یہ مشکل اور ناممکن لگتا ہے لیکن ایک طرف ملکی عدلیہ حب عمران میں مبتلا ہے۔ دوسری حکومت اور فوج تحمل و بردباری کے نام پر بیان دینے یا سازش ناکام بنانے اور جرنیلوں کے استعفوں کی تردید کرنا کافی سمجھ رہے ہیں۔ اس رویہ سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو کسی جواز کے بغیر خود کو ملک کی تقدیر تبدیل کرنے کا اہل سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

عمران خان اگر اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھلے وہ اقتدار میں آ جائیں لیکن ایسا کوئی انتظام جمہوری نہیں ہو گا اور نہ ہی سیاست سے اسٹبلشمنٹ کو بے دخل کرنے کا خواب پورا ہو سکے گا۔ داخلی انتشار کے نتیجے میں پاکستانی فوج کی قیادت سنبھالنے والے عناصر اپنے ادارے کی ساکھ بحال کرنے کے لئے سیاست اور سماج پر اپنا کنٹرول مستحکم کرنے کی نئی کوششوں کا آغاز کریں گے۔ عمران خان اس عمل میں ان کا دست و بازو ہوں گے۔ قوم 1971 کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں اس طریقے کا مشاہدہ کرچکی ہے۔ البتہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ عمران خان، ذوالفقار علی بھٹو کے انجام سے سبق سیکھیں گے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ 9 مئی کو پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب قرار دینے اور یہ اعلان کرنے تک اکتفا نہ کیا جائے کہ جو کام دشمن 75 سال میں نہیں کر سکا، وہ ملکی شرپسندوں نے ایک دن میں کر دیا۔ بلکہ اس روز قانون ہاتھ میں لے کر فوجی تنصیبات اور گھروں کو نشانہ بنانے والے تمام لوگوں اور ان کے پشت پناہوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ فی الوقت آئی ایس پی آر کے بیانات اور وزیر اعظم کی دھمکیاں ہی سننے میں آئی ہیں۔ عملی اقدام دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج عمران خان کو مثالی ریلیف دیتے ہوئے ان سے عاجزانہ درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ تشدد اور جلاؤ گھیراؤ سے اظہار لاتعلقی کریں۔ عمران خان نے اس درخواست کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو عمران خان کے خلاف حکومت کی زور زبردستی تو دکھائی دیتی ہے لیکن ابھی تک فساد برپا کرنے کے لئے تحریک انصاف کی حکمت عملی کو ملکی نظام کے لئے خطرہ نہیں سمجھا گیا۔ حالانکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اصرار ہے کہ وہ نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فوری انتخابات اور اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو حکومت دینے کا طریقہ عمران خان کی سیاسی مقبولیت ختم کرنے کا آسان ترین راستہ ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ کوئی بھی پارٹی حکومت میں آ کر عوام کی توقعات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے یہ راستہ اختیار کرنے کی بجائے اس مشکل سے نکلنے کے لئے پرانے کھلاڑیوں کے ذریعے ’جمہوری و آئینی‘ طریقہ اختیار کیا اور اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان نے جو مقبولیت حاصل ہے، وہ اسے انتخابات کے ذریعے کیش کروانا چاہتے ہیں۔ اصولی طور سے حکومت اور فوج کو انہیں یہ موقع دینا چاہیے۔ لیکن موجودہ تصادم میں یہ راستہ مسدود دکھائی دینے لگا ہے۔ غلط فیصلوں، ضد، ہٹ دھرمی اور سیاسی مکالمہ سے گریز کی صورت حال نے ملک کو تباہی کے ایک ایسے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس سے بچ نکلنے کی خواہش کے باوجود ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا گناہ عظیم سمجھا جا رہا ہے۔ یہی اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں