دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اعتماد کے بغیر اتحادی حکومت
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کل رات گئے مرکز میں حکومت سازی پر اتفاق کر لیا ہے۔ اسلام آباد کے زرداری ہاؤس میں منعقد پریس کانفرنس میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا کہ اتحادی پارٹیوں کے پاس ایوان میں اکثریت موجود ہے۔ اس لیے ملک کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری ہوں گے۔قومی اسمبلی میں کسی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور پاکستان میں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان اشتراک و تعاون کی تاریخ بھی کچھ سہانی نہیں لیکن انتخابی نتائج سے واضح تھا کہ ملک میں نئی حکومت کے قیام کے لیے تین میں سے دو پارٹیوں کو مل کر چلنا ہو گا۔ یا تو وہ مخلوط حکومت قائم کریں یا پھر کسی ایک پارٹی کی اقلیتی حکومت کو اعتماد کا ووٹ دے دیا جائے۔ تحریک انصاف کو ’آزاد‘ ارکان کی صورت میں قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور اسی پارٹی کو درحقیقت حکومت سازی کے عمل میں قیادت بھی کرنی چاہیے تھی۔ لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران میں یہی دیکھا گیا کہ تحریک انصاف دھاندلی کا شور مچانے اور ’سنی اتحاد کونسل‘ جیسی کسی پارٹی کے ساتھ مل کر مخصوص نشستوں کا کوٹہ لینے کی کوشش کرنے میں زیادہ مصروف تھی لیکن حکومت سازی کے معاملہ میں اس نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔

اس دوران میں البتہ عمران خان کا یہ دو ٹوک اعلان بھی سامنے آ چکا تھا کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ کسی صورت اتحاد نہیں کرے گی۔ البتہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیاسی تعاون کی کوشش کی جائے گی۔ حتی کہ جب جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابی نتائج مسترد کیے تو تحریک انصاف کا وفد فوری طور سے ملاقات کے لیے جا پہنچا تھا۔ گو کہ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کو اس وقت قومی اسمبلی میں صرف چار نشستیں ہی حاصل ہوئی ہیں۔ اسی لیے یہ ملاقات اظہار یکجہتی اور دھاندلی کے خلاف مل کر جد و جہد کرنے کے رسمی اعلان سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

وزارت عظمی کے امید وار اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کل رات پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ ہماری خواہش تھی کہ تحریک انصاف چونکہ قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے، اس لیے وہ حکومت بنا لیتی۔ البتہ پی ٹی آئی نے کسی بھی جماعت سے بات چیت کی کوشش نہیں کی اور ان کے پاس اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں 169 ارکان کی حمایت بھی موجود نہیں ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کے پاس اب نمبر پورے ہیں۔ شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ اگر تحریک انصاف اپنی اکثریت ثابت کر دیتی تو ہم اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار تھے۔ ہمیں خوشی ہوتی کہ وہ حکومت چلاتے لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔

تاہم شہباز شریف کا یہ بیان سیاسی مبالغہ سے خالی نہیں ہے۔ 8 فروری کو انتخابات منعقد ہونے کے ایک ہی روز بعد مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ نواز شریف نے ایک اجلاس میں اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے، اپنی پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی قرار دیا تھا۔ انہوں نے اسی تقریر میں شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کر کے حکومت سازی کی تیاری کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔ اس تقریر میں نواز شریف نے یہ اعتراف نہیں کیا تھا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو اکثریت حاصل ہوئی ہے لہذا حکومت بنانا، ان کا پہلا حق ہے۔ نہ ہی انہوں نے شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسی وقت سے یہ واضح تھا کہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی نے ضرور اس دوران میں اپنے آپشنز کھلے رکھے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک سے زیادہ مواقع پر اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ تحریک انصاف نے سیاسی بات چیت سے گریز کیا تھا، اس لیے پیپلز پارٹی کے پاس مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

اس پس منظر میں شہباز شریف کا یہ بیان مکمل طور سے درست نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) یہ انتظار کرتی رہی کہ تحریک انصاف اپنے نمبر پورے کر لے۔ ایک صحت مند سیاسی ماحول میں تو مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی کی کوششیں کرنے کی بجائے کھل کر یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوئی ہے، اس لئے حکومت بنانا ان کا پہلا حق ہے۔ ایسا اعلان دیکھنے میں نہیں آیا۔ تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنا ایک قانونی فیصلہ تھا۔ البتہ انتخاب میں شاندار کامیابی تحریک انصاف کی سیاسی طاقت کا نمونہ تھا۔ اس لیے ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں کو پی ٹی آئی کو ملنے والی سیاسی پذیرائی کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ نواز شریف نے اگرچہ اپنی ابتدائی تقریر میں سب کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی بات کی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اشتراک سے حکومت بنانے کا عندیہ دے کر اس پارٹی کے مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے کا اہتمام بھی کیا جسے انتخاب میں سے سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں ملی ہیں۔

تحریک انصاف موثر سیاسی حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے بانی چیئرمین سمیت تمام اعلیٰ قیادت اس وقت جیلوں میں بند ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں گزشتہ چند ماہ سے یہ ماحول بنایا گیا تھا کہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو ہی حکومت ملنے والی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کی طرف سے دھاندلی کا جو الزام عائد کیا جا رہا ہے، اس میں اس تاثر کا عمل دخل بھی ہے کہ قبل از وقت ایک پارٹی کو ’پسندیدہ‘ کے طور پر لانچ کیا جاتا رہا اور انتخابات کے بعد بھی سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی پارٹی کے بارے میں مسلسل شبہ کا ماحول موجود رہا۔ تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کو کسی صورت اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ ان باتوں میں کوئی صداقت نہ بھی ہو لیکن اس کے باوجود تسلسل سے اس قیاس کو عام کرنے کا نقصان بہر حال پی ٹی آئی ہی کو ہوا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے عناصر اس تاثر کو مضبوط کر کے پارٹی کو ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ قوت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کرتے رہے لیکن عملی طور سے پارٹی کو اس کا سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے دس بارہ روز کی تگ و دو کے بعد جس حکومتی انتظام پر اتفاق کیا ہے، اس میں دو کمزوریاں فوری طور سے محسوس کی جا سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ تمام تر دباؤ کے باوجود پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی ہے۔ البتہ اس نے صدارت، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے گورنر اور سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ مانگ لیا ہے۔ گو کہ یہ اشارے دیے جا رہے ہیں کہ آصف زرداری کے صدر بننے کے بعد پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ میں شامل ہو جائے گی۔ البتہ فی الوقت حکومت بنانے اور اس کے فیصلوں کی ساری ذمہ داری بہر حال مسلم لیگ (ن) ہی کو اٹھانا پڑے گی۔ اگرچہ ایم کیو ایم کابینہ کا حصہ ہوگی لیکن وہ سیاسی پارٹی کے طور پر نہ حکومتی فیصلوں کی سیاسی اونر شپ قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوگی اور نہ ہی ایسا چاہے گی۔

نئے حکومتی اتحاد جسے پی ڈی ایم۔ 2 کا نام بھی دیا جا رہا ہے، کی دوسری کمزوری کسی متفقہ لائحہ عمل کی غیر موجودگی ہے۔ یعنی انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں جو کھینچا تانی ہوتی رہی ہے، وہ صرف عہدوں کی تقسیم کے سوال پر تھی۔ اس میں یہ معاملہ زیر غور نہیں تھا کہ ملک کے معاشی، سیاسی اور سفارتی بحران پر قابو پانے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ حالانکہ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں مخلوط حکومت قائم کرنے کے لیے جو مذاکرات ہوتے ہیں، ان میں ایسے بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جاتا ہے جن کی بنیاد پر حکومت فیصلے کرے اور ملک کی سمت کا تعین ہو۔ تاکہ حکومت قائم ہونے کے بعد پالیسی اختلافات پر حکومت ٹوٹنے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے ماضی کے تلخ تجربات اور ملک کو درپیش مسائل کے باوجود ایسا کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے بلکہ عہدوں کی بندر بانٹ کا معاملہ سب سے اہم رہا ہے۔

اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہو گا کہ اختلاف کی صورت میں کوئی بھی پارٹی شہباز شریف کی اقلیتی حکومت سے علیحدہ ہو سکے گی یا اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گی۔ ملک میں ایک بار پھر اپریل 2022 کا تجربہ دہرایا جاسکتا ہے جب تحریک انصاف کی اتحادی پارٹیوں نے حکومت سے علیحدہ ہو کر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹ دیا تھا۔ موجودہ حالات میں شہباز شریف کی قیادت میں بننے والی ایسی کمزور حکومت جس کی حمایت کرنے والی پارٹیاں ہی کھل کر اس پر مکمل اعتماد کا اظہار کرنے سے ہچکچا رہی ہیں، مشکل فیصلے کرنے اور مالیاتی اداروں کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ بدستور یہ اندیشہ رہے گا کہ اتحاد میں کوئی پارٹی ناراض ہو کر تحریک انصاف کو عدم اعتماد لانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

ماضی قریب کے تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ تین بڑی سیاسی پارٹیوں کو باہمی اشتراک عمل سے اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرنے کا موقع میسر آیا تھا لیکن ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے یہ موقع گنوا دیا ہے۔ وقت تبدیل ہونے کے ساتھ اگر تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو شہباز شریف کی حکومت کا انجام بھی عمران خان کی حکومت جیسا ہو سکتا ہے۔ ملکی فوج اس وقت ایک مضبوط حکومت کی خواہاں ہے تاکہ موجودہ مالی بحران سے نکلا جا سکے اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا ہو سکے۔ یہی سہارا شہباز شریف حکومت کو قوت فراہم کرے گا۔ لیکن اس میں صرف یہی قباحت ہے کہ انتخابی عمل کے ذریعے جمہوری قیادت کو فیصلہ سازی کے قابل بنانے کی جو خواہش کی گئی تھی، وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی ذمہ داری سو فیصد ملک کی تمام بڑی پارٹیوں کو قبول کرنا پڑے گی۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں