دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کی حقیقی آزادی کا دھڑن تختہ
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان میں فوج گزشتہ 70 برسوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اقتدار میں رہی ہے۔ یہ سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے کہ فوج کا حکمرانی میں کوئی لینا دینا نہ رہے۔ ایسا نہیں ہو گا‘ ۔ بی بی سی اردو کوایک انٹرویو میں ان زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا اب بھی ان کی پارٹی کا نعرہ ’حقیقی آزادی‘ ہی ہو گا یا وہ ’غلامی میں آزادی‘ کے نئے سلوگن کے ساتھ میدان سیاست میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس انٹرویو میں ایک بار پھر عمران خان سانحہ 9 مئی کی مذمت کرنے میں ناکام رہے اور دعویٰ کیا کہ ان کی گرفتاری کے بعد یہ رد عمل آنا ہی تھا۔ ایک قومی سیاسی لیڈر کا یہ بیان شرمناک مغالطوں کی بنیاد پر استوار ہے۔ اس کے باوجود وہ نہایت ڈھٹائی سے خود کو ہی ملکی مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اب یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ عمران خان مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ ملک کا بنیادی مسئلہ ہی اس وقت عمران خان کی خود پسندی اور غیر سیاسی طرز عمل ہے۔

ملکی اسٹبلشمنٹ عسکری اداروں پر مشتمل ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والا ہر شخص اپنی فوج سے محبت کرتا ہے۔ موجودہ علاقائی اور عالمی تناظر میں سرحدوں کی حفاظت کے لئے فوج کی ضرورت و اہمیت سے بھی آگاہ ہے۔ یوں بھی اگر سیاسی حوالے سے فوج کے حجم یا عسکری مصارف میں کمی پر غور کیا جائے تو بھی اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہو سکتا کہ فوج کو دشمن قرار دے کر ملکی عسکری تنصیبات پر حملے کیے جائیں۔ یہ تنصیبات کوئی فوجی افسر اپنے مصارف سے تعمیر نہیں کرتا بلکہ یہ قوم کا سرمایہ ہے، جس کی حفاظت میں اس ملک کا بچہ بچہ شریک ہے۔

عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کبھی تشدد کا پیغام نہیں دیا، اس لئے ان پر 9 مئی کے سانحہ کی ذمہ داری عائد نہیں کی جا سکتی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین باتوں کو ملا کر اور اس سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ 9 مئی کو ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے حوالے سے بھی ان کی یہی کوشش رہی ہے کہ اصل موضوع کو نظر انداز کر کے غیر ضروری باتوں سے خود کو سرخرو کیا جائے۔ ابھی تک کسی ادارے نے براہ راست عمران خان پر 9 مئی کے واقعات اور تشدد کا الزام عائد نہیں کیا ہے لیکن اگر وہ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں براہ راست مطعون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اسے چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق سمجھا جائے گا۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے سیاسی احتجاج کرنے کے لئے عسکری مراکز کا رخ کیا اور ایک خاص مہم کے تحت مختلف اہم مقامات پر تباہ کاری کی گئی۔ اس حوالے سے ہونے والی کارروائی، ان عناصر کے خلاف کی جا رہی ہے جو اس موقع پر موجود تھے اور جلاؤ گھیراؤ میں براہ راست ملوث تھے یا مختلف ذرائع سے ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ اس حوالے سے مختلف سطح پر تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے اور ملکی نظام پر تمام تر بداعتمادی کے باوجود کسی حد تک امید کی جا سکتی ہے کہ حقیقی واقعات کی کوئی واضح تصویر سامنے لانے کے لئے مناسب معلومات سامنے آ سکیں گی۔

ان واقعات میں ملوث سب لوگوں کا تعلق تحریک انصاف سے ہے جبکہ عمران خان ان لوگوں کو اپنی جماعت کا رکن ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ ماضی کی طرح اپنی غلطیوں کو دوسروں کی ذمہ داری بتانے کا طریقہ اختیار کر کے اب بھی یہی موقف اختیار کیا جائے کہ اس روز عسکری تنصیبات پر حملے تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران خان کے حامیوں نے نہیں کیے تھے بلکہ یہ ان کے مخالفین کی سازش تھی۔ یا وہ بالواسطہ طور سے انٹیلی جنس اداروں کو 9 مئی کے سانحہ کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ اب وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’انہوں نے ماضی میں اپنے حامیوں سے کوئی ایسی بات نہیں کی جس کا نتیجہ نو مئی جیسے واقعات کی شکل میں سامنے آتا‘ ۔اگر عمران خان کے اس دعوے کو درست مان لیا جائے تو وہ خود ہی بتائیں کہ اگر انہوں نے اپنے ورکر کو تشدد پر آمادہ نہیں کیا اور ان کا کارکن تباہ کاری میں ملوث بھی نہیں تھا اور وہ خود فوج کا بے پناہ احترام کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس قومی سانحہ کی مذمت نہیں کی۔ اگر یہ ان کے سیاسی دشمنوں کی کارستانی تھی، پھر تو انہیں آگے بڑھ کر سب سے پہلے ان واقعات کی مذمت کرنی چاہیے تھی اور فوج کو ایسے ثبوت فراہم کرنے چاہئیں تھے جن سے ثابت ہوجاتا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بجائے دوسری سیاسی پارٹیوں کے حامیوں نے انہیں بدنام کرنے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔اس کی بجائے وہ ابھی تک حکومت اور عسکری اداروں سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ انہیں ثبوت دکھائے جائیں اور اگر ان میں تحریک انصاف کے کچھ کارکن ملوث ہوئے تو وہ خود انہیں حکام کے حوالے کر دیں گے۔ حالانکہ تحریک انصاف کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے ثبوت تو عمران خان کو سامنے لانے چاہئیں۔ ان کا تو یہ دعویٰ بھی رہا ہے کہ ان کے ہاتھ لمبے ہیں اور وہ اندر کی ہر خبر سے آگاہ رہتے ہیں۔

اس ضمنی بحث سے قطع نظر بی بی سی کے انٹرویو میں بنیادی بات عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ ملک پر اسٹبلشمنٹ کی حکومت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ایک تو یہ بیان مایوس کن حد تک ملکی آئینی نظام سے لاتعلقی کا اعلان ہے۔ کیا بزعم خویش ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عوام جس پارٹی کو چاہیں ووٹ دے کر کامیاب کروائیں لیکن حکومت پر قبضہ تو بہر حال فوج کا رہے گا؟ ملکی سیاسی معاملات کے بارے میں ہونے والے مباحث اس قسم کی قیاس آرائیوں اور اندازوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ان میں سب سے مدلل اور ٹھوس رائے محقق و تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے 2007 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ملٹری انک میں دی گئی تھی۔ انہوں نے قومی معیشت میں پاکستانی فوج کی حصہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے اندازہ قائم کیا تھا کہ جب تک پاک فوج کا ملکی معیشت میں بھاری اسٹیک موجود رہے گا، وہ سیاسی معاملات سے لاتعلق نہیں ہو سکتی کیوں کہ معاشی مفادات کے تحفظ کے لئے سیاسی اثر و رسوخ بے حد ضروری ہے۔

اس پس منظر میں عمران خان کے بیان کو دو حوالوں سے جانچا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں آئینی انتظام کے تحت کوئی نظام کام نہیں کرتا بلکہ فوج کی حکومت ہے تو ان کی سیاسی مہم جوئی کا مقصد کیا ہے؟ اگر حکومتی اختیار فوج ہی کے ہاتھ میں رہنا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وزیر اعظم کا نام شہباز شریف ہو یا عمران خان؟ قومی مباحث میں اسی صورت حال کی وجہ سے یہ گفتگو کی جاتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا سیاسی اختیار کم کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو میثاق جمہوریت قسم کے کسی معاہدے پر راضی ہونا چاہیے اور فوج کے مقابلے میں ذاتی ہوس اقتدار کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے مل بیٹھ کر کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیے کہ ملک میں عوامی حکمرانی کا خواب پورا ہو سکے۔ لیکن ہر دور میں سیاست دانوں نے اپنے سیاسی فائدے کے لئے فوج کے ہاتھ مضبوط کیے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا ضروری سمجھا۔

عمران خان اگر سیاسی ’جد و جہد‘ کے موجودہ مرحلہ پر اس نتیجہ تک پہنچ ہی گئے ہیں کہ ملک پر فوج ہی کی حکومت رہے گی تو وہ اپنی ’دیانت و صداقت‘ کے نام پر یہ بھی بتا دیں کہ 2011 میں لاہور ریلی سے لے کر اسلام آباد کے دھرنے سے ہوتے ہوئے 2018 کے انتخابات جیتنے اور ساڑھے تین سال حکومت کرنے تک وہ کسی کی انگلی پکڑ کر کامیابیاں سمیٹ رہے تھے۔ اب وہ ان کامیابیوں کو فوج کا احسان کہیں گے یا بدستور اپنی بائیس تئیس سالہ سیاسی جد و جہد کا حصہ کہیں گے؟ اس کے ساتھ ہی انہیں اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ اگر وہ ملکی آئین کے تحت عوام کے ووٹوں سے ہی اقتدار لینا چاہتے ہیں تو وہ مسلسل فوجی قیادت سے بات چیت و مفاہمت کی درخواست کیوں کرتے ہیں؟ وہ تو خود ہی کہہ رہے ہیں کہ فوج ملکی سیاسی اختیار پر ناجائز طور سے قابض ہے؟ کیا اب ان کی لڑائی سیاست پر فوج کے قبضہ کے خلاف ہے یا وہ ’چوروں لٹیروں‘ کو نیچا دکھانے کے لئے عوام کے آئینی حقوق پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ بس کسی طرح فوج ان کی غلطیوں کو معاف کر کے ایک موقع اور دے دے۔

ملکی سیاسی اختیار پر غیر منتخب اداروں کا تسلط واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن اگر گزشتہ ایک سال کے حالات پر ہی نگاہ ڈالی جائے تو اس معاملہ میں عوامی حاکمیت کے تصور کو سب سے زیادہ نقصان عمران خان نے ہی پہنچایا ہے۔ اور وہ اس غلطی کو تسلیم کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہیں۔ وہ اپنے اقتدار کے لئے سابق آرمی چیف کو مزید توسیع دینے پر راضی تھے اور موجودہ آرمی چیف سے ان کی شرائط پر ’راضی نامہ‘ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اسٹبلشمنٹ کے سیاسی تسلط پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں کیوں کہ اسٹبلشمنٹ اب انہیں اثاثہ کی بجائے بوجھ سمجھنے لگی ہے۔عمران خان جس روز یہ جان لیں گے کہ انہیں فوج کی بجائے سیاست دانوں سے مکالمہ کرنا چاہیے اور آئینی انتظام مستحکم کرنے کے لئے غیر منتخب عناصر کا آلہ کار بننے سے تائب ہونا چاہیے، اسی دن انہیں معلوم ہو گا کہ ان کی سیاست نہ تو نظریاتی ہے اور نہ ہی انہوں نے ملک کے اصلاح احوال میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ سیاسی جاہ پسندی کے لئے گزشتہ چودہ پندرہ ماہ کے دوران ملک میں بحران و انتشار کے حالات پیدا کر کے معیشت کو تباہ اور عوام کو بدحال کیا ہے۔
واپس کریں