سید مجاہد علی
آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ معاہدہ نہیں ہوتا تو ملک میں مہنگائی بڑھے گی اور ڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔ اس لئے سیاسی ہراسانی کے باوجود تحریک انصاف نے انتخابات تک اس معاہدے کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت نئے معاہدے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرے گی۔اس سے پہلے آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان ایستر پیریز نے بتایا تھا کہ ’پاکستان میں اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے نمائندوں سے ملاقاتوں کا مقصد قرض پروگرام کی پالیسیوں پر عمل کی یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔ انتخابات سے قبل پروگرام کے مقاصد کے حصول کے لئے حمایت حاصل کر رہے ہیں‘ ۔ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ 12 جولائی کو نئے اسٹینڈبائی ارینجمنٹ معاہدے پر غور کرے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان تین ارب ڈالر کا اسٹاف لیول کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پا یا تھا۔
تحریک انصاف کی طرف سے اسٹینڈ بائی معاہدے کی تائید کے بعد کم از کم پاکستان کی حد تک آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بارے میں کوئی ابہام موجود نہیں رہا۔ ملک کی تمام اہم سیاسی قوتوں نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے معاشی امور دیکھنے والی ٹیم کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں اس پروگرام پر اعانت کا یقین دلایا گیا تھا۔ آج تحریک انصاف کی طرف سے مثبت رد عمل کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ 12 جولائی کو آئی ایم ایف کا بورڈ اب اس معاہدے کی توثیق کردے گا جس کے بعد 9 ماہ پر محیط 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی پروگرام کے مطابق پاکستان کو پہلی قسط ملنے کی امید ہے۔آئی ایم ایف نے کسی حکومت کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے کے لئے تمام اہم سیاسی پارٹیوں سے تائید حاصل کرنے کی ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ملک میں انتخاب ہونے والے ہیں اور انتخابات کے بعد نئی حکومت اقتدار سنبھالے گی، اس لئے تمام اہم سیاسی پارٹیوں سے اس معاہدے کی تائید حاصل کرنا ضروری سمجھا گیا۔ تاہم یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کی حد تک یہ طرز عمل ایک نئی روایت کے مصداق ہے۔ کوئی بھی برسر اقتدار حکومت پورے پاکستان کی طرف سے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کر کے کسی نتیجہ پر پہنچتی ہے۔ مستقبل میں آنے والی تمام حکومتیں ان معاہدوں کی پابند سمجھی جاتی ہیں۔ اس صورت میں جب کوئی عالمی ادارہ قرض کے ایک معاہدے کے لئے تمام بڑی پارٹیوں سے ملاقات کا اہتمام کرتا ہے تو وہ درحقیقت ملک کے حکومتی انتظام پر بے اعتباری کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اسے کسی ملک کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک منفی اور قابل افسوس روایت ہے جسے پاکستانی حکومت کو بدتر معاشی حالات کی وجہ سے مجبوری کے عالم میں قبول کرنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی اور وزیر خزانہ کو قومی اسمبلی میں بتانا چاہیے تھا کہ وہ کیوں نئے عبوری مالی پروگرام کے بارے میں آئی ایم ایف کو سیاسی پارٹیوں سے ملاقات کی اجازت دینے پر مجبور ہوئے۔ پاکستانی عوام کو حق حاصل ہے کہ ملکی معیشت اور اس حوالے سے پاکستانی حکومت کی مجبوریوں کے بارے میں انہیں تفصیلات بتائی جائیں۔
اس کی بجائے یہ اعلان آئی ایم ایف کے مقامی دفتر کی طرف سے جاری ہوا اور اس دوران آئی ایم ایف کا وفد پیپلز پارٹی سے ملاقات کرچکا تھا۔ آج تحریک انصاف سے ملاقات سے پہلے یہ خبر سامنے آئی۔ عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کے وفد نے ایک گھنٹہ پر محیط ملاقات میں اسٹینڈ بائی پروگرام کی تائید کا اعلان کیا۔ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی تو حکومت کا حصہ ہے۔ اس کی حمایت کے بغیر قومی اسمبلی سے ترمیمی بجٹ منظور نہیں ہو سکتا تھا۔ ان بجٹ ترامیم میں آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے لئے محاصل بڑھانے کے علاوہ دیگر اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ اس پس منظر میں آئی ایم ایف کا پیپلز پارٹی سے ملنا درحقیقت ’کاغذی کارروائی‘ کے مترادف ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ آئی ایم ایف کے نمائندے تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں سے مل رہے ہیں حالانکہ درحقیقت آئی ایم ایف اپوزیشن میں بیٹھی تحریک انصاف کی رائے جاننا ضروری سمجھتا تھا۔ تحریک انصاف چونکہ نہ قومی اسمبلی کا حصہ ہے اور نہ ہی وہ کسی سطح پر سیاسی مکالمہ میں شامل ہے۔ اس لئے شاید آئی ایم ایف نے نئے معاہدے کو یقینی بنانے کے لئے اس کے لیڈر سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا۔ اور حکومت کو یہ شرط تسلیم کرنا پڑی۔
اب یہ نہ جانے کس نابغہ کی اختراع تھی کہ تحریک انصاف سے ملاقات کو عمومی کارروائی بتانے کے لئے آئی ایم ایف سے کہا جائے کہ وہ تینوں بڑی پارٹیوں سے مشاورت کر لے۔ اس طرح حکومت کو شرمندگی سے بچانے کا اہتمام کیا گیا ہو۔ حالانکہ مالی اقدامات کی حد تک قرض دینے والے کسی ادارے کی شرائط ماننا ایک علیحدہ معاملہ ہے لیکن اس کی تائید کے لئے سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں سے براہ راست ملاقات کی اجازت دینا، درحقیقت کسی ملک کی خودمختاری پر مفاہمت کے مصداق ہے۔ آئی ایم ایف کو اس بات کی رعایت نہیں دی جا سکتی کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی رائے حاصل کرنا جمہوری طریقہ ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ اسے پہلے پاکستان کی فوجی حکومتوں کو بھی قرض فراہم کرتا رہا ہے۔ ایسے کسی موقع پر تو اس نے کبھی سیاسی پارٹیوں سے ملاقات کر کے ان کی تائید حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
اس پس منظر میں وزیراعظم کے کوآرڈی نیٹر برائے معیشت و توانائی بلال اظہر کیانی کی اس دلیل سے اتفاق کرنا بھی مشکل ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت چونکہ معاہدہ کرنے کے بعد اس سے منحرف ہو گئی تھی، اس لئے اب نئے معاہدے کے بارے میں اس کی رائے حاصل کرنا ضروری تھا تاکہ عمران خان ایک بار پھر اس معاملہ پر سیاست نہ شروع کر دیں۔ یہ بات تو حکومت کو آئی ایم ایف سے اس وقت کہنی چاہیے تھی جب اس نے معاہدہ کی شرائط میں تحریک انصاف کی تائید کا ’مطالبہ‘ کیا تھا۔ یا تو حکومت خود یہ اہتمام کرتی کی وہ براہ راست تحریک انصاف سے نئے اسٹینڈ بائی معاہدے کی حمایت حاصل کر لیتی یا پھر آئی ایم ایف کو باور کروایا جاتا کہ تحریک انصاف تو سیاسی شعبدے بازی کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے اس معاہدے سے منحرف ہوئی تھی جس پر اس کی حکومت نے ہی اتفاق کیا تھا۔ اب اپوزیشن پارٹی کے طور پر اس کی بات کا اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ ناگوار شرط تسلیم کر کے ملکی خود مختاری کے بارے میں بعض ناخوشگوار سوالات کو جنم دیا ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو آئی ایم ایف نے تحریک انصاف کے مالی معاونین سے ملنا کافی نہیں سمجھا بلکہ یہ ملاقات براہ راست عمران خان کے ساتھ زمان پارک میں کی گئی ہے۔ البتہ دیگر معاونین ورچوئل طریقے سے اس بات چیت میں شامل تھے۔ تاہم یہ طے ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد عمران خان کے منہ سے سننا چاہتا تھا کہ انہیں نئے معاہدے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس طرح جو سلوک موجودہ حکومت کی اتھارٹی کے ساتھ کیا گیا ہے، وہی سلوک تحریک انصاف کی تمام قیادت کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے۔ عمران خان شاید اسے اپنی سیاسی کامیابی سمجھ رہے ہوں لیکن درحقیقت ایک عالمی ادارے کے طرزعمل نے ان پر یہ واضح کیا ہے کہ عالمی ادارے بھی تحریک انصاف کو فرد واحد کی مرضی کا تابع ہی سمجھتے ہیں۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ عمران خان کے سوا تحریک انصاف کا کوئی لیڈر کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے بارے میں یہ تاثر ملک میں ابتر جمہوری ثقافت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس ساری صورت حال میں یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ جو کام پاکستانی قیادت کو باہم مشاورت اور مواصلت سے سرانجام دینا چاہیے تھا، اسے ایک عالمی مالیاتی ادارے نے پورا کیا ہے۔ اگر اس طرز عمل سے ملکی وقار داؤ پر لگا ہے تو عمران خان یا تحریک انصاف اسے صرف شہباز حکومت یا پی ڈی ایم کی ناکامی قرار دے کر خوشی نہیں منا سکتے کیوں کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر بداعتمادی کی یہ فضا پیدا کرنے میں انہوں نے خود بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر سیاسی لیڈر سیاسی معاملات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہ کرتے اور اختلافات کے باوجود مواصلت و مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تاکہ قومی معاملات اور ضرورتوں پر کسی نہ کسی اتفاق رائے کا اہتمام ہو سکتا تو شاید پاکستان کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں