دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے دہانے پر
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
امریکہ کے ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بنوں میں رونما ہونے والے سانحہ اور ملک میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو ’تشویشناک‘ قرار دیا ہے جبکہ گزشتہ روز بنوں میں ہونے والے ایکشن کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ وزیر اعظم کے اس عزم کے بارے میں کسی شبہ کا اظہار مناسب نہیں ہے لیکن اہل پاکستان البتہ یہ تجربہ کر رہے ہیں کہ ملک ایک بار پھر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے اور سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔بنوں میں گرفتار شدہ دہشت گردوں کی بڑی تعداد محکمہ انسداد دہشت گردی کے تھانے میں زیر حراست تھی کہ ایک شخص نے سکیورٹی پر مامور ایک محافظ کا اسلحہ چھین کر تمام عملے کو یرغمال بنا لیا۔ 18 دسمبر کو شروع ہونے والے اس المناک ڈرامہ کا اختتام کل شام خصوصی فوجی یونٹ کی کارروائی سے ہوا۔ دو اڑھائی گھنٹے پر مشتمل اس ایکشن میں حکومتی اطلاعات کے مطابق 25 دہشت گردوں کو مار دیا گیا جبکہ مقابلے میں دو فوجی جوان بھی شہید ہوئے۔

اس المناک سانحہ کے اختتام پر وفاقی حکومت نے اسے خیبر پختون خوا حکومت کی ناکامی قرار دیا اور صوبائی حکومت اس کی تمام ذمہ داری سکیورٹی اداروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے۔ یہ صورت حال ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں عسکری گروہوں کی قوت اور حکومتی اداروں کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب حکومتیں اور ادارے اصل دشمن کو پہچاننے کی بجائے، کسی سانحہ کے بعد ذمہ داری سے گریز کے راستے تلاش کریں اور ایک دوسرے کے پیچھے منہ چھپانے کی کوشش کی جائے تو وزیر اعظم کا یہ اعلان زبانی دعوؤں سے زیادہ اہم نہیں رہتا کہ عسکریت پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ملک میں انتہا پسندی اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آہنگی، تعاون اور باہمی افہام و تفہیم کا ماحول موجود ہو جس میں کم از کم قومی سلامتی کے معاملہ پر فریقین اپنے تمام تر سیاسی، نظریاتی اور شخصی اختلافات سے قطع نظر مل کر مقابلہ کرنے کے لے دل و جان سے تیار ہوں۔ لیکن جب دہشت گردی کا ایک افسوسناک واقعہ رونما ہونے کے بعد سیاسی مخالفین پر اس کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی جائے اور وسیع المدت اور قابل عمل پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے تو عوام کیسے ایسی قیادت سے یہ امید لگائیں گے کہ ان کی رہنمائی اور سیادت میں ملک اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔

پاکستان میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف ملکی معیشت کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے اور دوسری طرف دہشت گرد گروہ منظم ہو کر ایک بار پھر کسی واضح مقصد کے بغیر معاشرے میں انارکی و بدامنی پیدا کرنے کے لئے سرگرم ہوچکے ہیں لیکن سیاسی لیڈر بہر صورت کسی بھی طرح اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے ہر اصول، قانون اور روایت کو پامال کرنے پر مصر ہیں۔ اس وقت لاہور ایسی چو مکھی کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں تحریک انصاف اور وفاقی حکومت اپنے اپنے طور پر ’آئین کی بالادستی اور قانون کے احترام‘ کا پرچم بلند کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ اب عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعرات کو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ گورنر ہاؤس کے باہر کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اداروں کو متنبہ کیا ہے کہ ’وہ اپنی حدود میں رہیں کیوں کہ اسمبلیاں توڑنا ہمارا قانونی حق ہے‘ ۔پنجاب کی سیاسی صورت حال پیچیدہ اور تشویشناک ہے تاہم ملک کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو یہ غور کرنا ہے کہ کیا اس سیاسی دنگل کے دوران کوئی ایسا پلیٹ فارم بھی باقی رہنے دیا گیا ہے جہاں سے قومی سلامتی، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملکی دفاع کے معاملہ پر اتفاق رائے کا مظاہرہ ہو سکے؟ پوری دنیا میں سیاسی اختلافات موجودہ ہوتے ہیں اور لیڈر ایک دوسرے کے لتے لیتے ہیں لیکن بعض امور پر وہ مل بیٹھ کر معاملات طے کرنے اور قومی مفاد کی حفاظت کو یقینی بھی بناتے ہیں۔

البتہ ’آہنی ہاتھوں‘ والا پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں لیڈر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں عالمی اداروں سے معاملات کے لئے قومی مفاہمت و یکسوئی کی ضرورت ہے لیکن درجہ حرارت بڑھا کر بحران کی کیفیت میں اضافہ اس مسئلہ سے نکلنے کا بہترین حل سمجھا جا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی حکومت اور اس کا سربراہ کسی غیر معمولی صورت حال کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا خواہ یہ معاملہ معاشی بحران سے نکلنے کا ہو یا عسکریت پسند عناصر اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لئے اقدام کی ضرورت ہو۔دہشت گردی سے جان چھڑانا ہر پاکستانی کا خواب ہے اور حکومت بلاشبہ اس عفریت کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں پر خلوص ہوگی۔ تاہم اسے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا موجودہ حالات میں وہ واقعی اس چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اگر شہباز شریف دیانت داری سے یہ سمجھتے ہوں کہ وہ یہ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو انہیں ایک سانحہ کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے زوردار بیان جاری کرنے کی بجائے عوام کو اس منصوبہ کے خد و خال بتانے چاہئیں جس پر عمل کر کے وہ پاکستان کو محفوظ اور پر امن ملک بنانے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے بنوں سانحہ کے تناظر میں ’اجتماعی سوچ اور نیشنل ایکشن پلان‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایسے کسی بھی منصوبہ کا آغاز قومی یک جہتی حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایسے قومی اتحاد کی علامت عام طور سے پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی قومی اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہونے سے انکار کر رہی ہے اور حکومت نصف کے لگ بھگ ارکان کی غیر موجودگی میں بھی انتخابات ٹالنے اور اسی ادھوری اسمبلی کے ساتھ آگے بڑھنے پر بضد ہے۔ جب قومی اتحاد کے اس سب سے بڑے مرکز میں ہی اتنی بڑی دراڑ موجود ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حکومت قومی یکسوئی اور اجتماعی سوچ کیسے فراہم کرے گی جسے شہباز شریف خود ہی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔اسی بیان میں وزیر اعظم نے قومی ایکشن پلان کا حوالہ بھی دیا ہے۔ یہ پلان 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردی حملہ کے بعد تیار کیا گیا تھا اور اسے اکیسویں آئینی ترمیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ اس ایکشن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ ان 8 برسوں میں اس پلان پر کس حد تک عمل کیا گیا اور وہ کون سی خامیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قومی ایکشن پلان کے دو اہم ترین پہلو تھے۔ایک: قومی و صوبائی سطح پر تمام انٹیلی جنس معلومات میں ہم آہنگی پیدا کرنا تاکہ دہشت گردوں کی گرفت کرتے ہوئے کسی قسم کے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہو۔ دوئم: دینی مدارس کے نصاب میں دوررس اصلاحات تاکہ یہ تعلیم نفرت و تقسیم اور فرقہ واریت کے فروغ کا سبب نہ بنے بلکہ قومی ہم آہنگی و ہم خیالی کا وسیع تر ماحول پیدا کیا جا سکے۔

اس دوران ملک پر پانچواں وزیر اعظم حکومت کر رہا ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بارے میں کوئی حوصلہ افزا رپورٹ دیکھنے میں نہیں آئی۔ قومی ایکشن پلان مذہبی منافرت ختم کرنے اور بین الانسانی معاملات میں عناد و تقسیم کی بجائے مفاہمت و بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس پلان میں خاص طور سے مدارس کا ذکر اس لئے کیا گیا تھا کیوں کہ امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران یہ نوٹس کیا گیا تھا کہ فرقہ وارانہ تقسیم و دشمنی کی وجہ سے انتہا پسندوں کو طاقت ور ہونے کا موقع ملتا ہے۔اگر ملک کی معروضی صورت حال پر غور کیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ مدارس اور دینی نصاب میں جو حالات تبدیل کرنے کا عزم کیا گیا تھا، وہ تو اب مدارس و مساجد سے بڑھ کر معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کرچکے ہیں۔ ملک کی تمام درس گاہیں، یونیورسٹیاں، تعلیمی نصاب اور قومی مکالمہ میں مفاہمت کی بجائے نفرت، ہم آہنگی کی بجائے دشمنی، عناد اور ضد کا عنصر غالب آ چکا ہے۔ سیاسی بیان بازی کو کفر و باطل کا میدان بنا لیا گیا ہے اور ملک کا شاید ہی کوئی گھر، گلی، محلہ یا طبقہ ایسا ہو جو اس تقسیم اور نفرت کا شکار نہ ہو چکا ہو۔ سوچنا چاہیے کہ اس نفرت کو سمیٹے بغیر وہ اجتماعی سوچ کیسے پیدا ہوگی جسے وزیر اعظم عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے اہم قرار دیتے ہیں۔

قومی سطح پر پیدا ہونے والی تقسیم ختم کیے بغیر یہ سوچ لینا کہ دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، خام خیالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جہاں تک اس معاملہ کی اسٹریٹیجک سطح کا تعلق ہے تو اس کے لئے پاکستان کو خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے تمام پہلوؤں کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کی جانے والی تمام غلطیوں کا اعتراف کر کے معاشرے کے تمام طبقوں اور اسٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جسے عالمی برادری کی تائید بھی حاصل ہو اور اس پر عمل کرنے سے ملکی وقار میں بھی اضافہ ہو۔ تاہم اس مقصد کے لئے پاکستان کے ترجمانوں کو نفرت کی زبان ترک کرنا پڑے گی خواہ یہ گفتگو بھارت جیسے دشمن ملک اور نریندر مودی جیسے انتہا پسند لیڈر کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو۔پاکستان نے نصف صدی سے زیادہ مدت تک عسکری ہتھکنڈے آزمائے ہیں اور نفرت کو فروغ دے کر ایک قومی پہچان بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس پہچان نے محرومیوں اور مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اگر قومی لیڈر واقعی حقیقی معنوں میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے زہر اگلنے والی زبانوں کو نرم رو کرنے کی ضرورت ہوگی۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں