دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئین کے نام پر نیا انتشار پیدا کرنے کی احمقانہ کوشش
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
بیشتر مبصرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کا تعلق نومبر کے آخر میں ہونے والی ایک تقرری سے ہے۔ عمران خان کھل کر نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے مطالبے کرتے رہے ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں جنرل قمر جاوید جاجوہ سے تحریک انصاف کے درپردہ مذاکرات کی بیل بھی اسی لئے منڈھے نہیں چڑھ سکی کیوں کہ وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے کچھ وعدے حاصل کرنا چاہتے تھے۔جس ملک میں فوج کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ تمام تر سیاسی بحران، احتجاج، اشتعال اور ’مار دو یا مرجاؤ‘ کی کیفیت کی بنیاد بنا دیا گیا ہو ، اس ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں کوئی خوش آئیند توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ ان حالات میں سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ملک کے آئینی و رسمی صدر سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ پاک فوج کو ’نکیل ‘ ڈالنے کا اہتمام کریں کیوں کہ وہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں اور ملک کے سب سے بلند آئینی عہدہ پر فائز ہونے کے ناتے ان کا فرض ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے دائرہ عمل کی حدود کا تعین کریں اور ان فوجی افسروں کی سرزنش کا اہتمام کریں جنہوں نے پریس کانفرنس منعقدکرکے عمران خان کے بقول سیاسی معاملات پر گمراہ کن اور دروغ آمیز بیان جاری کرکے ایک غلط بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔

جھوٹ بولنے والے کی ایک ’ خوبی‘ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں کو جھوٹا اور غلط قرار دے کر اپنے دروغ گوئی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عمران خان کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے کے لئے بھی انہوں نے متعدد بے بنیاد اور غیر حقیقی وعدے کئے تھے لیکن ان کے بارے میں پھر بھی گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی بیانات تھے اور ایک سیاسی لیڈر کے طور پر ووٹروں کو رجوع کرنے اور ساتھ ملانے کے لئے انہوں نے کچھ مبالغہ اعلان کئے جو بعد میں پورے نہیں ہوسکے۔ یا یہ قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ لاکھوں نوکریاں اور مکانات فراہم کرنے کے وعدے پورے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات تھیں ۔ اس وبا سے دنیا بھر کی طرح پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہوئی تھی اور قومی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کے دور حکومت میں مزید ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں تو کیا ملنا تھیں، ملکی بیروزگاری کی شرح میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہونے لگا۔ نئے نوجوان نوکری کی تلاش میں میدان میں آتے رہے لیکن ملکی معیشت میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ ورکنگ فورس کی تعداد کے حساب سے روزگار کے مواقع فراہم کرسکتی۔ یہاں تک معاملہ سیاسی اور معاشی انتظام کا تھا۔ اس میں اندازے کی غلطی بھی ہوسکتی ہے اور منصوبہ بندی کی کمزوری کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں لیکن عمران خان کا اصل چہرہ اقتدار سے محرومی کے بعد سامنے آیا ہے۔

تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سے عمران خان نے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ حتی کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو پیش کش کی کہ وہ انہیں غیر معینہ مدت تک کے لئے آرمی چیف کے طور پر توسیع دے دیتے ہیں بشرطیکہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں ان کی مدد کریں اور چھوٹے سیاسی گروہوں کو تحریک انصاف کی اتحادی حکومت چھوڑنے سے منع کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال مارچ میں جنرل باجوہ کو یہ پیشکش کرنے سے پہلے وہ ان کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلافات اور ناراضی کی وجہ سے اپنی مرضی کا آرمی چیف لانے کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کی منصوبہ بندی بھی کرلی گئی تھی۔ عمران خان کی اسی منصوبہ بندی ہی نے درحقیقت اپوزیشن جماعتوں کو بھی مل بیٹھنے پر مجبور کیا تاکہ آرمی چیف کی غیر متوقع تبدیلی سے پہلے تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔ اپوزیشن کوئی ایسا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں تھی کہ عمران خان کسی ایسے جنرل کو فوج کا سربراہ بنادیں جو تحریک انصاف کا اقتدار میں بحال رکھنے کے لئے ہر قسم کی انتخابی دھاندلی کا اہتمام کرنے پر آمادہ ہو اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور اختلافی آوازوں کو دبانے کے لئے ریاستی ہتھکنڈے استعمال کرنے میں بھی عمران خان کا ممد و معاون ہو۔ عمران خان کا یہ منصوبہ اپوزیشن کے اتحاد اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ اس وقت عمران خان کا اصل غم یہی ہے کہ وہ تو ملک پر ایک دہائی تک حکومت کرنے اور اختیارات کو بلا شرکت غیرے اپنی ذات تک محدود کرنے کا اہتمام کررہے تھے لیکن عدم اعتماد کی وجہ سے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے غیر معینہ توسیع کی دلکش پیشکش مسترد کرکے عمران خان پر واضح کیا تھا کہ فوج سیاست میں مزید مداخلت پر تیار نہیں ہے۔ انہیں اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی سیاسی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہئے، فوج کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اس سے بعض عناصر کو ہانک کر تحریک انصاف کی حمایت پر آمادہ کرنے کی توقع نہ کی جائے۔ عمران خان کے لئے یہ بہت بڑا دھچکا تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ فوج کو جو غیر آئینی کام کرنے پر آمادہ نہیں کرسکے، اس کے لئے انہوں نے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کو آمادہ کرلیا۔ انہوں نے ایک غیر آئینی رولنگ کے ذریعے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ سے پہلے ہی مسترد کرکے اجلاس ملتوی کردیا ۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی توڑنے کی تجویز صدر کو بھجوائی جنہوں نے کسی تاخیر کے بغیر قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور نئے انتخابات منعقد کروانے کا صدارتی فرمان بھی جاری کردیا۔ وہ تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ساتھی ججوں کی مشاورت سے آئین کے ساتھ اس کھلواڑ کا نوٹس لینے کا فیصلہ کیا اور قاسم سوری ، عمران خان اور صدر عارف علوی کے غیر آئینی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا حکم دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت اس وقت تک ایوان میں اکثریت کھو چکی تھی۔

عمران خان نے آج تک آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے اس الزام کا جواب نہیں دیا کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت تک آرمی چیف بنانے کی پیش کش کی تھی لیکن انہوں نے یہ تجویز ماننے سے انکار کرتے ہوئے فوج کو ’غیر سیاسی‘ رکھنے پر اصرار کیا۔ لیکن اب اسی منہ سے عمران خان ایک ایسے صدر سے آئین کی حفاظت کا مطالبہ کررہے ہیں جو ایوان صدر میں تحریک انصاف کے کارکن کے طور پر خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ عارف علوی نے عمران خان کے ہوس اقتدار کا آلہ کار بنتے ہوئے قومی اسمبلی توڑنے کا غیر آئینی حکم جاری کیا۔ قومی اسمبلی میں آئینی طریقہ سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف سے عہدے کا حلف لینے سے انکار کیا اور اتحادی حکومت کے متعدد فیصلوں کی توثیق کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ بلکہ گزشتہ کچھ عرصہ سے وہ عمران خان کے ذاتی ایلچی بن کر فوج کے سربراہ کے ساتھ مفاہمت کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔ جب فوج نے عمران خان کے غیر آئینی اور ناجائز مطالبے ماننے سے انکار کیا تو عمران خان نے فوج پر حرف زنی شروع کردی جس کا تازہ ترین شاخسانہ یہ ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے ایک میجر جنرل کو خود پر حملہ کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

صدر کے نام خط میں عمران خان نے فوج کو کنٹرول کرنے اور اس کا ضابطہ کار بنانے کے لئے آئینی تقاضوں کی دہائی دی ہے لیکن وہ خود یہ نہیں بتا سکتے کہ انہوں نے ملک میں تبدیلی کے مشن میں کون سے قانونی اور آئینی طریقہ پر عمل کرنے کی کوشش کی؟ انہوں نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے کا اعلان کیا لیکن بطور ایم این اے تحریک انصاف کے ارکان تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے رہے حتی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ دہائی دینے بھی پہنچ گئے کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کو یہ استعفے قبول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ انتخابات کے مطالبے پرمسلسل ملک میں انتشار اور بے یقینی پیدا کئے ہوئے ہیں لیکن پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلیاں توڑ کر حکومت کو فوری انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبورنہیں کرتے۔ وزیر آباد سانحہ کے بعد انہوں نے ایک جرم کی تحقیق و تفتیش کے تمام قانونی اور مروجہ راستے مسدود کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے خود اور اس حملہ میں زخمی ہونے والے ان کے کسی ساتھی نے سرکاری ہسپتال سے میڈیکل چیک اپ کروانے اور قانونی میڈیکل رپورٹ تیار کرنے میں معاونت نہیں کی۔ حتی کہ ایک فوجی افسر پر الزام تراشی کرتے ہوئے درحقیقت خود ہی ایف آئی آر درج کروانے میں رکاوٹ ڈالی اور پھر وفاقی حکومت اور گورنر پنجاب پر اس کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایف آئی آر 4 دن کی تاخیر سے سپریم کورٹ کے حکم پر آج درج ہوسکی ہے۔ اس دوران نہ جانے کتنے قیمتی شواہد ضائع ہوچکے ہوں گے۔

عمران خان فوج سے اس لئے ناراض نہیں ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ ان کی پریشانی کا سبب یہ ہے کہ فوج دوبارہ انہیں اعانت کیوں فراہم نہیں کرتی تاکہ وہ اپنے حریصانہ اہداف حاصل کرسکیں۔ سیاسی مخالفین سے مکالمہ سے انکار اور قیاس کی بنیاد پر الزامات عائد کرکے ’چور لٹیرے‘ کے نعرے لگانا کسی جمہوریت پسند یا قانون کی حکمرانی چاہنے والے سیاسی لیڈر کا شعار نہیں ہوسکتا۔ حیرت ہے کہ ایسا لیڈر جو ایک مجرمانہ وقوعہ کی قانونی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے میں عار محسوس نہیں کرتا ، وہی ملک کے رسمی صدر کو آئین کے نام پر فوج کو ’احکامات‘ دینے کا تقاضہ کررہا ہے۔ عمران خان اگر فوج کو اس کے آئینی کردار تک محدود کرنے کے خواہش مندہیں تو وہ اپنی سیاسی لڑائی میں اسے حصہ دار کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ جب تک ملک میں عمران خان جیسے لیڈر موجود ہیں اور جب تک تمام سیاسی پارٹیاں ملک میں آئین کی بالادستی کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں ہوتیں توحصول اقتدار کے لئے فوج کے ساتھ سانجھے داری کا طریقہ ختم نہیں ہوسکتا۔ پونے چار سال تک فوج کا ہاتھ تھام کر حکومت کرنے والے عمران خان جب تک قوم سے اپنے اس گناہ کی معافی نہیں مانگتے ، آئین و جمہوریت یا عوام کے حق حکمرانی کے بارے میں ان کے کسی دعوے کو قابل یقین نہیں سمجھا جاسکتا۔

بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں