دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان فوج کی آڑ میں جمہوری نظام پر حملہ آور ہیں !
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے قاتلانہ حملہ کے ایک روز بعد ہی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لانگ مارچ ملتوی کرنے اور احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پریس کانفرنس خطرناک حد تک اشتعال انگیز اور افسوسناک حد تک غیر ذمہ دارانہ تھی۔ اسے نہ تو قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی حکومت اور قومی اداروں سیاسی مقاصد کے لئے کی جانے والی الزام تراشی کو خاموشی سے برداشت کرنا چاہئے۔ خاص طور سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس نے ابھی تک عمران خان کے جھوٹ، اشتعال اور لاقانونیت کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل انہیں ریلیف فراہم کرنے کیاہے۔عمران خان نے اس پریس کانفرنس میں پرانی جھوٹی کہانیوں میں نیا جھوٹ ملا کر ایسا بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ کوئی ایسی انہونی رونما ہوجائے کہ یا تو عمران خان کو آسانی سے اقتدار حاصل ہوجائے یا ملک کے مسائل میں مسلسل اضافہ کیا جائے اور مسلح افواج کو اشتعال دلاکر کسی غیر معمولی اقدام پر مجبور کردیا جائے۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان نہ انتخاب چاہتے ہیں اور نہ ہی شفاف جمہوری نظام ان کی ضرورت یا ترجیح ہے بلکہ وہ کسی بھی قیمت پر ملک میں انارکی پیدا کرکے ایک ایسا فاشسٹ نظام مسلط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جس میں وہ خود تن تنہا تمام اختیارات کا منبع و محور ہوں۔ آئینی طریقہ کے مطابق صرف عسکری ادارے ہی ان کے تابع فرمان نہ ہوں بلکہ عدالتیں بھی عمران خان کی مرضی کے مطابق فیصلے لکھیں، نیب بھی انہی کی مرضی و خواہش کے مطابق کام کرے اور الیکشن کمیشن بھی ہر اس جھوٹ پر سچ کی مہر لگانے پر آمادہ و تیار رہے جو عمران خان کے زبان سے ادا ہوجائے۔

قاتلانہ حملہ کے محض ایک روز بعد شوکت خانم ہسپتال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے گمراہ کن سیاسی خیالات، واقعات کی مسخ شدہ تصویر اور خواہشات کی بنیاد پر الزام تراشی کا جو رویہ اختیار کیا ہے ، ملک سے محبت کرنے والا کوئی شخص اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتا۔ ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا ہے کہ عمران خان کی جد و جہد نہ تو اسٹبلشمنٹ کی سیاسی انجینئرنگ کے خلاف ہے اور نہ ہی وہ عوام کی بہبود کے لئے کوئی ایسا معاشی و سماجی پروگرام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لئے وہ عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ اپنے شدید حامیوں کے ایک گروہ کے جس جوش و خروش کو عوام کی طرف سے برپا کیا گیا انقلاب قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان کے دوسرے لانگ مارچ کی ناکام کوشش کے بعد انہیں خود اس جھوٹے بھرم سے باہر نکل آنا چاہئے تھا ۔ لیکن وہ ایک نئے جھوٹ کے ساتھ اپنی مقبولیت کے غبارے میں نئی ہوا بھر کے مسلسل ملک کو تباہی کی طرف دھکیلتے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی طرح ان کے سیاسی مخالفین کو اقتدار سے علیحدہ کیا جاسکے۔ عمران خان کی سیاسی تحریک ، ناکام لانگ مارچ اور قاتلانہ حملہ کے بعد مزید جھوٹ بولنے پر اصرار سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نہ تو انہیں عوام سے دلچسپی ہے اور نہ ہی وہ کسی اصول کو مانتے ہیں۔، وہ تخریبی ذہن کے انارکسٹ ہیں جس نے مٹھی بھر لوگوں کو اپنا ہر جھوٹ ماننے پر آمادہ کرلیا ہے تاکہ وہ اپنا تخریبی ایجنڈا نافذ کرسکیں۔

’اصول پرست‘ عمران خان کو زخمی ہونے کے بعد شوکت خانم ہسپتال لایا گیا تھا جہاں ان کا علاج کیا جارہا ہے۔ عام فہم میں تو شوکت خانم ایک کینسر ہسپتال ہے جسے عوام کے عطیات اور مختلف حکومتی ادوار میں فراہم کئے گئے وسائل سے قائم کیا گیا ہے۔ یہ ہسپتال نہ تو عام مریضوں کے علاج کے لئے بنایا گیا ہے اور نہ ہی اس ہسپتال کو کسی حادثہ کا شکار ہونے والے شخص کا علاج کرنے کے لئے ’ ٹروما سنٹر‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عمران خان کو زخمی حالت میں شوکت خانم میں کیوں لایا گیا؟ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عمران خان نے یہ ہسپتال قائم کرنے میں گراں قدر خدمات سرانجام دی تھیں اور موجودہ انتظامیہ اس ’احسان‘ کا بدلہ چکانے کے لئے ہر موقع پر عمران خان کا علاج کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔ یا اس کی یہ وجہ ہے کہ شوکت خانم کے بورڈ پر عمران خان کا کنٹرول ہے اور اس میں ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کو جمع کیا گیا ہے، اس لئے وہ کینسر کے مریضوں کے لئے بنائے گئے ہسپتال میں فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد بھی عمران خان کو سہولت فراہم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ طریقہ کسی اصول پسندی اور انتظامی ضابطہ کے مطابق درست نہیں ہے۔ شوکت خانم جو سہولت اس ملک کے ہر شہری کو فراہم نہیں کرسکتا ، اسے وہی سہولت بطور خاص عمران خان کو فراہم کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔

عمران خان جھوٹ کو اصول اور اخلاقیات کا معیار بنائے ہوئے ہیں، اس لئے ان سے تو ان سوالوں کا جواب لینے کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن حکومت وقت اور ملکی عدالتی نظام پر ضرور یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے انتظامی معاملات کو شفاف طریقے سے چلانے کا اہتمام کریں۔ شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز میں تقرریوں کا حق صرف عمران خان کو حاصل نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ استحقاق حکومت وقت کو منتقل ہونا چاہئے کیوں کہ اس ادارے کی تعمیر میں عام لوگوں کے عطیات، صدقات و خیرات کے روپے لگے ہوئے ہیں یا حکومت کی طرف سے اسے مختلف صورتوں میں وسائل فراہم ہوتے رہے ہیں۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ پبلک وسائل سے قائم ایک ادارے کو ایک فرد کی ضرورت و خواہش کے مطابق چلایا جارہا ہے تو اس کی روک تھام کا اہتمام بھی ہونا چاہئے۔

بدنصیبی سے شوکت خانم ہسپتال میں عمران خان کے علاج کے معاملہ کو موضوع بحث بنانا اس لئے بھی اہم تھا کہ عمران خان مسلسل جھوٹ و فریب سے قومی معاملات کو الجھانے، سیاست کو بدنام کرنے، اداروں کو غیر مستحکم کرنے اور افراد کے خلاف ہتک آمیز مہم جوئی میں مصروف ہیں۔ ان کے شدید حامی اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں سمجھتے اور عمران خان کی ہر بات کو پتھر پر لکیر کی طرح درست مانتے ہیں۔ ایسے حامیوں کو اندازہ ہونا چاہئے کہ ان کا چہیتا صرف بیرونی سربراہان سے ملنے والے قیمتی تحائف فروخت کرکے کروڑوں روپے جیب میں ڈالنے ہی کو اپنا حق نہیں سمجھتا بلکہ وہ ذکوۃ، صدقہ و خیرات سے چلنے والے ایک ایسے ادارے کو استعمال کرنا بھی اپنا استحقاق سمجھتا ہے جہاں عام پاکستانی شہریوں کو سرطان کے لئے علاج کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔ کیا عمران خان کو احساس ہے کہ شوکت خانم کے جو وسائل اور ڈاکٹروں کی جو صلاحیت و وقت زخمی عمران خان کا علاج کرنے اور انہیں سیاسی سرگرمی کے لئے موقع و سہولت فراہم کرنے پر صرف ہوئے، انہیں کینسر کے کتنے مریضوں کی جان بچانے کے لئے صرف کیا جاسکتا تھا؟

عمران خان اپنی ذات کے اسیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نہ تو اپنے سوا کوئی سچا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی وہ ذاتی مفاد، طمع و حرص کو قومی مفاد کے تابع رکھنے پر تیار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدم اعتماد کے بعد ایک سفارتی مراسلہ کی بنیاد پر سازش کا ایک ایسا جھوٹ گھڑا گیا جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی ۔ اور پوری قوم کو اس جھوٹ کو سچ ماننے پر مجبور کردیا گیا۔ اب خود پر ہونے والے ایک حملہ کوگزشتہ جمعہ کو شروع ہونے والے ناکام لانگ مارچ سے جان چھڑانے کا عذر بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور ملک میں فتنہ و فساد جاری رکھنے کے لئے ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام تراشی کی جارہی ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ ملک میں ازالہ حیثیت عرفی کے قوانین کمزور اور غیر مؤثر ہیں اور ان کا تواتر سے بولا گیا جھوٹ بہت سے لوگوں کو سچ معلوم ہونے لگتا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی سیاسی دکان چمکائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے حریص اور بد خواہ لیڈر کا اصل چہرہ سامنے لانا اور ان کی حقیقت بتانا ملک و قوم کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان اگر جھوٹ بولتے ہیں تو اسے غلط بیانی کی بجائے جھوٹ کہا جائے، اگر وہ بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی خیراتی ادارے کے وسائل کو اپنی ذات پر صرف کرتے ہیں تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے، انہیں بد طینت ہی کہا جائے ، اگر وہ اپنے سیاسی مفاد کے لئے معمول کے سفارتی مراسلہ کو امریکی سازش کہتے ہیں تو اسے عمران خان کی سازش سمجھا اور لکھا جائے کیوں کہ یہ سازش کسی ایک فرد کے نہیں پوری قوم کے مفادات کے خلاف کی جارہی ہے۔

عمران خان کی طرف سے انتخابات کا مطالبہ بھی جھوٹ اور ڈھونگ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیوں کہ اگر وہ واقعی انتخابات میں دلچسپی رکھتے تو وہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کی راہ ہموار کرسکتے تھے لیکن انہوں نے تو قومی اسمبلی سے استعفے بھی سیاسی ڈھونگ کے طور پر دیے تھے اور اب تک وہ واپسی کا ’آپشن‘ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ قوم سے کئے جانے والے اس فریب کو محض جمہوریت اور عوامی مقبولیت جیسے نعروں کی بنیاد پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ وہ اپنے طرز عمل سے ملک میں ایسا طوفان پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے سب کچھ تباہ ہوجائے یا اقتدار ان کے حوالے کردیا جائے۔ تحریک انصاف کا ساڑھے تین سالہ دور اقتدار اس بات کی گواہی ہے کہ اگر عمران خان کے فتنہ فساد کو روکنے کے لئے کسی طرح اقتدار ان کے حوالے کر بھی دیا جائے تو وہ اپنی نااہلی و بدانتظامی سے ملک کو تباہ کرنے کا کام پورا کردیں گے۔

سیاست میں تشدد کو مسترد کرنے کے نقطہ نظر سے کسی بھی سیاسی لیڈر پر حملہ ناقابل قبول ہے اور اس کی مذمت ضروری ہے لیکن کسی مجرمانہ فعل کا نشانہ بننے والے شخص یا پارٹی کو ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔ عمران خان حب الوطنی اور عوام دوستی کا کلمہ پڑھتے ہوئے نہ صرف ملک کے لئے ایک تباہ کن پیغام کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں بلکہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ملک و قوم پر کوئی بھی دہشت مسلط کرنے پر آمادہ و تیار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس وقت فوج کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ وہ فوج کی سیاست میں مداخلت سے نالاں ہیں بلکہ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر فوج واقعی ’غیر جانبدار‘ رہی اور اگر موجودہ انتظام کامیاب رہا تو کہیں ملک واقعی جمہوری راستے پر گامزن نہ ہوجائے۔ اسی لئے وہ فوج کو بدنام کرکے کسی بھی طرح موجودہ حکومت کو ناکام کرنا چاہتے ہیں حتی کہ وہ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اگر فوج مارشل لا لگاتی ہے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔عمران خان کے اس بیان کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کا خمیر غیر سیاسی اور طرز عمل غیر جمہوری ہے۔ انہیں فوج کے ’ونڈر بوائے‘ کے طور 2018 میں اقتدار سونپا گیا تھا۔ ملکی معیشت کی تباہی اور سفارتی محاذ پر شدید ناکامی کے بعد اس ہائیبرڈ تجربہ سے تائب ہوکر فوج نے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پاکستانی جمہوریت کے لئے اچھی مگر عمران خان کے لئے بری خبر ہے۔ اب عمران خان کسی بھی طرح فوج کو سیاست میں واپس گھسیٹنا چاہتے ہیں ۔ اسی ایک نکاتی ایجنڈے کی وجہ سے وہ فوجی اداروں اور افسروں پر حملہ آور ہیں۔ عمران خان کی یہ حکمت عملی ملک میں عوامی حکمرانی کے خواب کو منتشر کرنے کا پیغام بن چکی ہے۔

بشکریہ کاروان ناروے
واپس کریں