دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نوبل امن انعام 2022 : انسانیت کا پرچار یا سیاسی ایجنڈا
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
نوبل امن کمیٹی کی طرف سے ایک روسی اور یوکرینی تنظیم کے علاوہ بیلا روس میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایلیس بیالاتسکی کو 2022 کا امن انعام دینے کا اعلان سامنے آنے کے فوری بعد ہی یہ شبہات سامنے آنے لگے ہیں کہ کیا یہ انعام یوکرین پر حملہ کی وجہ سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو سخت پیغام ہے؟ نوبل کمیٹی کی سربراہ بیرت رائیس آندرسن نے اس شبہ کو مسترد کیا ہے۔ تاہم محض یہ کہنے سے کہ نوبل کمیٹی کا تازہ فیصلہ کسی ایک ملک کی بجائے ایک اصول کی پاسداری کے لئے کیا گیا ہے، شبہات اور سیاسی تنازعہ کو ختم نہیں کرے گا۔نوبل امن کمیٹی نارویجئن پارلیمنٹ کے نامزد کیے گئے ارکان پر مشتمل ہوتی ہے تاہم اس کمیٹی کا ہمیشہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ خود مختاری سے کام کرتی ہے اور اس کا حکومت کی پالیسی یا نارویجئن حکمت عملی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ امن انعام کے لئے سامنے آنے والے امیدواروں کی فہرست پر غور کرنے کے بعد گزرے ہوئے سال کے دوران امن کے لئے کام کرنے والے شخص یا تنظیم کو اس انعام کا مستحق قرار دیا جاتا ہے۔ کمیٹی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اس کی ساری کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور وہ کسی سیاسی جماعت یا حکومت سے اپنے فیصلے کے لئے نہ تو معاونت لیتی ہے اور نہ ہی رہنمائی کی طلب گار ہوتی ہے۔ کمیٹی الفریڈ نوبل کی وصیت کو ہی اپنا رہنما اصول قرار دیتی ہے جنہوں نے نوبل امن انعام کے لئے وصیت میں لکھا تھا کہ یہ انعام گزرے ہوئے سال کے دوران جنگ ختم کرنے اور امن قائم کرنے والے شخص کو دیا جائے گا۔ اس وصیت کا مقصد درحقیقت دنیا میں جنگ کے امکانات کو روکنا اور امن کو فروغ دینا تھا۔

تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران نارویجین نوبل کمیٹی نے متعدد ایسے فیصلے کیے ہیں جن کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ خاص طور سے جب امن کی وضاحت و صراحت کرتے ہوئے کمیٹی نے ماحولیات کے لئے کام کو بھی قیام امن کی کوششوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس پر متعدد عناصر کی طرف سے نکتہ چینی ہوئی اور اب بھی بہت سے لوگ ایسے فیصلوں کو الفریڈ نوبل کی خواہشات کے برعکس قرار دیتے ہیں۔ تاہم نوبل الفریڈ کی وصیت کے بارے میں فیصلہ کرنا اب نوبل کمیٹی کے ہاتھ میں ہی ہے کیوں کہ الفریڈ نوبل تو قبر سے نکل نہیں آ پائیں گے اور نہ ہی یہ بتائیں گے کہ درحقیقت وہ کیا چاہتے تھے۔ نارویجئن نوبل کمیٹی نے بعض ایسے فیصلے بھی کیے ہیں جنہیں متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ 2009 کا امن انعام اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کو دینے کا فیصلہ ایسے ہی متنازعہ فیصلوں میں شمار ہوتا ہے۔ باراک اوباما کو یہ انعام دیا گیا تو اس وقت امریکہ، افغانستان اور عراق میں جنگ جوئی میں مصروف تھا۔ حالانکہ امن انعام دینے کی بنیادی شرط جنگ کو فروغ دینے کی بجائے امن کو فروغ دینا اور جنگ ختم کرنے میں کردار ادا کرنا ہے۔ اس وقت صدر باراک اوباما نہ صرف دو جنگوں کی سربراہی کر رہے تھے بلکہ دنیا کے متعدد ممالک میں امریکی فوجی اڈے بھی ان کی ہدایات کے مطابق ہی کام کر رہے تھے۔ ان فوجی اڈوں کا مقصد بھی امن پھیلانے کی بجائے امریکی مفادات کے لئے جنگ شروع کرنا ہے۔

امن انعام کے غیر سیاسی ہونے کی بات اس حد تو مانی جا سکتی ہے کہ نارویجئن پارلیمنٹ یا حکومت کمیٹی کو کوئی مشورہ نہیں دیتی اور نہ ہی کسی فیصلہ پر مجبور کر سکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نارویجئن کمیٹی میں جن لوگوں کو رکن کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے، ان میں سے اکثریت سیاسی طور سے کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ رہے ہوتے ہیں اور ان کی سیاسی سوچ اور نظریات پوشیدہ نہیں ہوتے۔ یہ قیاس کر لینا ممکن نہیں ہے کہ یہ لوگ نوبل کمیٹی کے رکن کے طور پر عالمگیریت کے نقطہ نظر سے اپنے سیاسی نظریات کو فراموش کر دیں گے۔ اس طرح بالواسطہ ہی سہی نوبل کمیٹی کا فیصلہ سیاسی ہی ہوتا ہے اور ہر سال جب امن انعام کا اعلان کیا جاتا ہے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ کون سے عالمی سیاسی عوامل کی وجہ سے نوبل کمیٹی اس فیصلہ تک پہنچی ہوگی۔

اس تمام تر پس منظر کے باوجود نارویجئن حکومت نے ہمیشہ نوبل کمیٹی کے فیصلہ کی تعریف کی ہے اور اس کے فیصلوں کو سرکاری طور سے سراہا جاتا رہا ہے۔ ایسی ہی صورت حال 2010 میں بھی دیکھنے میں آئی تھی حالانکہ چینی رد عمل کی وجہ سے ناروے کو شدید سفارتی و تجارتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2010 کا نوبل امن انعام چینی حکومت کے خلاف جد و جہد کرنے والے دانشور لیو ژبایو کو دیا گیا تھا۔ اس انعام کی وجہ سے چین کے ساتھ ناروے کے تعلقات کو شدید دھچکہ لگا تھا جنہیں بحال ہونے میں کئی برس صرف ہوئے تھے۔ چین نے اس فیصلہ پر شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ ژبایو کو اوسلو آنے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا بلکہ وہ مسلسل قید ہی میں رہے اور دوران حراست ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ اس کے علاوہ چین نے ناروے کی مصنوعات درآمد کرنے پر پابندی بھی عائد کی جس کی وجہ سے نارویجئن سالمن کی چین کو برآمد خاص طور سے متاثر ہوئی تھی۔

یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ سال رواں کا انعام روسی مفادات کے خلاف کام کرنے والی دو تنظیموں اور ایک فرد کو دینے پر ماسکو کیا طرز عمل اختیار کرے گا۔ یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا بیلا روس کی ماسکو نواز سخت گیر حکومت ایلیس بیالاتسکی کو رہا کرے گی اور انہیں دسمبر میں اوسلو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ یا صدر پوتن کی حکومت کالعدم قرار دی گئی تنظیم میموریل کو دوبارہ کام کرنے کی اجازت دیں گے اور اس کے مقید کارکنوں کو رہا کیا جائے گا۔ تاہم سفارتی طور سے روس اسے مغرب کا پروپیگنڈا اور امن کے فروغ کی بجائے جنگ کو ایندھن فراہم کرنے کا سبب قرار دے گا۔ جن تنظیموں اور شخص کو سول سوسائٹی مضبوط کرنے اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے پر اعزاز سے نوازا گیا ہے، ان کے بارے میں روس اور بیلا روس کی قیادت و عوام کی رائے یقیناً مختلف ہے۔ کیوں کہ حالت جنگ میں جو عناصر کسی حکومتی حکمت عملی کے خلاف سرگرم ہوتے ہیں، انہیں عام طور سے ریاست کا دشمن اور قومی مفادات کا باغی کہا جاتا ہے۔

تاہم نوبل کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’2022 کا امن انعام ایک شخص اور دو تنظیموں کو دیا جا رہا ہے۔ یہ سب اپنے اپنے ملک میں سول سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور طاقت کے ناجائز استعمال کو دستاویز کرنے کے لئے غیرمعمولی کوششیں کی ہیں۔ یہ سب امن و جمہوریت میں سول سوسائٹی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں‘ ۔ سال رواں کا انعام بیلا روس کے ایلیس بیالاتسکی، روس میں انسانی حقوق کی تنظیم میموریل اور یوکرین کے ہیومن رائٹس سنٹر برائے شہری حقوق کو دیا گیا ہے۔اسی اعلامیہ میں ان وجوہات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ سے ان تنظیموں کو انعام کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ نوبل کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایلیس بیالاتسکی 80 کی دہائی میں جمہوریت کی تحریک شروع کرنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ملک میں جمہوریت بحال کروانے کے لئے زندگی وقف کی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے 1996 میں ویاسنا نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ یہ تنظیم ملک میں نافذ کیے گئے متنازعہ آئینی ترامیم کے خلاف قائم ہوئی تھی جن کے تحت ملک کے صدر کو آمرانہ اختیارات دیے گئے اور ملک بھر میں وسیع مظاہرے شروع ہوئے۔ اس تنظیم نے ہراساں کیے جانے والے اور مقید کارکنوں اور ان کے خاندانوں کی امداد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ویاسنا بعد میں انسانی حقوق کی ایک ایسی اہم اور بڑی تنظیم بن گئی جس نے ضمیر کے قیدیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حکمرانوں کے مظالم کے بارے میں شواہد جمع کیے۔ بیالاتسکی کو 2011 سے 2014 کے دوران قید رکھا گیا اور وہ اب بھی 2020 سے حراست میں ہیں۔ انہیں حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج منظم کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ایلیس بیالاتسکی نے ساری زندگی کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

نوبل کمیٹی کا کہنا ہے کہ روسی تنظیم میموریل کو سابقہ سویت یونین میں انسانی حقوق کی جد و جہد کرنے والے کارکنوں نے 1987 میں قائم کیا تھا۔ اس تنظیم کا مقصد تھا کہ کمیونسٹ دور میں تشدد و جبر کا نشانہ بننے والوں کو فراموش نہ کیا جائے۔ نوبل امن انعام یافتہ آندرے سخاروف اور انسانی حقوق کی ایڈووکیٹ سویلتانا گنوشکینا اس کے بانیوں میں شامل تھے۔ یہ تنظیم اس نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی کہ ماضی کے جرائم کی نشاندہی مستقبل میں ایسے ہی جرائم سے محفوظ رہنے کے لئے اہم ہے۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد میموریل روس میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا گروپ بن گیا۔ سٹالن دور کے مظلومین کے لئے سنٹر بنانے کے علاوہ اس گروپ نے روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد جمع کرنے کا کام کیا۔ تنظیم قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ اس تنظیم کے ارکان کو سرکاری جبر اور ظلم و ستم کا سامنا رہا ہے۔ دسمبر 2021 میں حکام نے میموریل کو جبری طور سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے تحت چلنے والا دستاویزی مرکز بند کر دیا گیا۔ تاہم اس تنظیم سے وابستہ ارکان نے جد و جہد ختم نہیں کی۔ سرکاری پابندی کے موقع پر میموریل کے چیئرمین یان راچنسکی نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی اپنا کام بند نہیں کرے گا‘ ۔

یوکرین سنٹر برائے سول لبرٹیز کا قیام 2007 میں کیف میں عمل میں آیا تھا۔ سنٹر کا مقصد یوکرینی سول سوسائٹی کو مضبوط کرنا اور حکام کو پوری طرح سے جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ فروری 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد اس سنٹر نے یوکرینی سول آبادی کے خلاف روس کے جنگی جرائم کا سراغ لگانے اور اس کے شواہد جمع کرنے کا کام کیا ہے۔ عالمی معاونین کے ساتھ مل کر یہ سنٹر جنگ کے دوران شہریوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرتا ہے۔نوبل کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’ایلیس بیالاتسکی، میموریل اور یوکرین سنٹر فار سول لبرٹیز کو سال رواں کا امن انعام دے کر نارویجئن نوبل کمیٹی انسانی حقوق، جمہوریت اور ہمسایہ ممالک، روس، بیلا روس اور یوکرین کے درمیان بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندہ رہنے کے لئے کام کرنے والے تین اہم چیمپئینز کو اعزاز دینا چاہتی ہے۔ ان لوگوں نے جہد مسلسل سے انسانی اقدار، قانون اور عسکریت پسندی کے خلاف کام کر کے الفریڈ نوبل کے امن کے ویژن اور اقوام عالم میں بھائی چارے کے اصول کا پرچار کیا ہے۔ آج دنیا کو اس اصول پر عمل کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے‘ ۔

دنیا میں امن اور انسانی حقوق کی بحالی کے لئے کام کی ضرورت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم نوبل کمیٹی نے ایک تنازعہ میں بر اہ راست فریق بننے والی تنظیموں اور فرد کو امن انعام دے کر ایک بار پھر نوبل امن انعام کے بارے میں شکوک و شبہات کو ہوا دی ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی نوٹ کیا جائے گا کہ نوبل کمیٹی صرف انہی ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال سے پریشان ہوتی ہے جن سے مغربی ممالک کے مفادات براہ راست متصادم ہوتے ہیں۔ اسے بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور اس کے خلاف سول سوسائٹی کی جد و جہد دکھائی نہیں دی اور نہ ہی فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف متحرک گروہوں کو اعزاز دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

(بشکریہ کاروان ناروے)
واپس کریں