دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
برطانیہ کے پوئیس محل میں مور کی سرگوشیاں
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
کالج کے چار پرانے ساتھی برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اکٹھے ہوئے تو ویلز میں واقع پوئیس محل دیکھنے کا پروگرام بن گیا۔ دو گھنٹے کا سفر طے کر کے ہم بارہ بجے محل پہنچ گئے۔ ٹکٹ خرید کر ہم محل کے اندر پہنچے کہ نیشنل ٹرسٹ نے برطانیہ میں سب محلوں کو اندر سے دیکھنے پر ٹکٹ لگایا ہوا ہے۔ پوئیس محل کیا ہے یہ تو نوادرات کا ایک خزانہ ہے جہاں برطانوی راج میں ساری دنیا سے لُوٹ کر لائی جانے والی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ محل کی دیواروں پر مہاگنی لکڑی پر نقاشی کر کے آویزاں کی گئی ہے۔ڈرائنگ روم قیمتی لکڑی کے بنے ہوئے دیدہ زیب فرنیچر سے مزین ہے جب کہ ڈائننگ روم میں مہنگے ترین سنگ مرمر گرینائٹ سے بنا ہوا کھانے کا میز اور ساگوان کی قیمتی لکڑی سے بنی کرسیاں رکھی ہیں۔ کھڑکیاں اس وقت کے مہنگے اور دیدہ زیب پردوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ محل کی سجاوٹ میں قیمتی اشیا کا استعمال اور نوادرات دیکھ کر پتہ چلتاہے کہ برطانوی نوابوں کے کیا ٹھاٹ باٹھ ہوا کرتے تھے۔

محل کی پہلی منزل پر راہداریوں میں قدیم یونانی بادشاہوں کے سفید سنگ مرمر کے بنے ہوئے نایاب ترین مجسمے ساگوان سے بنے میزوں پر سجے ہوئے ہیں۔ قدیم چینی کے بنے ہوئے کھانے کے برتن اور قیمتی دھاتوں سے بنے ہوئے نوادرات رکھے ہیں۔ خواب گاہوں میں جہازی سائزوں کے پرتعیش پلنگ رکھے ہیں جن پر ریشمی اور کمخواب کے بستر بچھے ہوئے ہیں جو دیکھنے والے کو بتاتے ہیں کہ ہم نوابوں کے استعمال میں رہے ہیں۔ خواب گاہوں کی دیواریں ہاتھ سے بنے ہوئے خوبصورت تصویروں والے قالینوں سے سجی ہیں۔ ہم نے دو گھنٹے اپنی حیرت زدہ آنکھوں سے ان نوادرات کو سے دیکھا۔

ہماری معلومات کے برعکس ہندوستان سے لائی ہوئی کوئی نادر شے ہمیں یہاں نظر نہیں آئی۔ ہم محل سے باہر نکل کر بائیں جانب واقع پائیں باغ سے ملحقہ اونچے چبوترے پر کھڑے ہو کر محل کے بڑے باغ کا نظارہ کرنے لگے۔ اچانک میری نظر ایک مور پر پڑی جو ایک دیوار پر بیٹھا تھا۔ سبز اور نیلے رنگے کے خوبصورت پر اوڑھے مور کسی اور دنیا کی مخلوق لگ رہا تھا۔ میں اس کے قریب بیٹھ کر تصویر بنوانے لگا۔ مجھے اپنے قریب دیکھ کر وہ اپنی زبان میں کچھ بولا۔نثار خواجہ نے مجھے کہا۔ ”شاہ جی! لگتا ہے، مور آپ سے کچھ کہہ رہا ہے۔ “ میں نثار خواجہ کی بات سن کر مور کے تھوڑا اور قریب ہوا تو مور پھر آہستہ سے بولا۔ مجھے یہ یوں لگا جیسے اس نے میرا نام پکارا ہے۔ اب مجھے اس کی زبان سمجھ آ نے لگی۔ وہ پھر کہنے لگا ، ” ٹیپو سلطان کی چیزیں جو تم دیکھنے آئے، اس جگہ تو تم گئے ہی نہیں ہو“ ۔ میں بہت حیران ہوا کہ اسے کیسے پتہ کہ ہم کیا دیکھنے آئے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو یہاں سے دوسری طرف شاید ایک اور عجائب خانہ ہے، وہاں چلتے ہیں۔

مور پھر سرگوشی کے انداز میں ہم سے مخاطب ہوا۔”محل کے دروازے کے دائیں جانب والے حصے میں وہ نوادرات رکھے ہیں جو تم لوگ دیکھنے آئے ہو۔“ وہ پھر ہلکی سرگوشی میں گویا ہوا۔” ادھر جانے سے پہلے میں تمھیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ وہ سن لو پھر چلے جانا۔“ہم سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اب اس کی ساری باتیں ہماری سمجھ میں آ رہی تھیں۔وہ آہستہ آہستہ بولنے لگا۔” تاج برطانیہ کے دنیا بھر میں کارندے ساری دنیا سے قیمتی اور نادر اشیاء چھین کر، چوری کر کے یا پھر ہیرا پھیری سے کم داموں میں خرید کر اپنے ملک میں لا کر ان نوابوں اور جاگیرداروں کو بیچتے تھے جو انھیں اپنے محلات کی زینت بناتے تھے۔ لارڈ رابرٹ کلائیو بنگال کا پہلا گورنر تھا۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنگال میں حکومت بنانے کی بنیاد رکھی۔ 18 ویں صدی میں برطانوی راج نے برصغیر پاک و ہند کے قیمتی قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے رابرٹ کلائیو کے ذریعے اپنی دولت اور فوجوں کو استعمال کیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے اسے برطانوی راج میں شامل کر لیا۔

لارڈ رابرٹ کلائیو نے ہندوستان سے لوٹ مار کر کے اکٹھی کی ہوئی دولت میں سے ایک لاکھ پاؤنڈ سے سرے کاؤنٹی میں ایک جاگیر بنائی۔ میسور کا حکمران ٹیپو سلطان ہندوستان پر برطانیہ کے مکمل تسلط کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ رابرٹ کلائیو کا بیٹا ایڈورڈ کلائیو مدراس کا گورنر بنا تو اس نے ٹیپو سلطان کے وزیر کو اپنے ساتھ ملا کر میسور پر حملہ کر دیا۔ سلطان ٹیپو کے وزیر میر صادق نے ان سے غداری کی اور سلطان ٹیپو اور اس کے سپاہ سالار کو دھوکے سے انگریزوں کے ہاتھوں قتل کرا دیا۔ایڈورڈ کلائیو نے سلطان ٹیپو کے محل سے سارا خزانہ لوٹ لیا۔ خزانے میں ہیرے جواہرات، ٹیپو سلطان کی رائفلیں، تلواریں، خیمہ، پوشاکیں، حرم کی خواتین کے کپڑے، کھانے کے برتن سمیت سب نوادرات لوٹ لیے اور جہاز میں بھر کر برطانیہ لے آئے۔ اب ٹیپو سلطان کی تلواریں، بندوقیں اور دیگر جنگی سامان برطانیہ کے مختلف عجائب گھروں اور محلوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ “

مور نے اپنی بات مکمل کی تو ہماری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔”تین بجنے والے ہیں۔ تم لوگ جاؤ! ساڑھے تین بجے عجائب گھرمیں داخلہ بند ہو جائے گا۔“ یہ کہہ کو مور نے ایک اونچی اڑان بھری اور نیچے باغ میں چلا گیا۔ہم جلدی سے عجائب گھر میں داخل ہو گئے۔ دوسری منزل پر دو کمروں میں برصغیر پاک و ہند سے لوٹ کے لائے گئے قیمتی نوادرات دیوار گیر شیشے کی الماریوں میں بند ہیں۔ آپ ان نوادرات کو ہاتھ نہیں لگا سکتے اور نہ ہی ان کی تصویر کھینچ سکتے ہیں۔ میں نے سیکورٹی پر معمور ایک خاتون سے بات کی۔ اسے بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں، ٹورسٹ ہوں، اس محل پر ایک فیچر لکھنا ہے۔ مجھے فوٹو لینے کی اجازت چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ اس عجائب گھر میں رکھی ہوئی کسی چیز کی فوٹو لینا منع ہے۔

کیوں کہ نوادرات مختلف لوگوں کی ملکیت ہیں اور پالیسی کے تحت ان کی اجازت کے بغیر ان کا فوٹو نہیں لے سکتے۔ عجائب گھر میں سلطان ٹیپو کی تلواریں، خنجر، رائفلیں، اس کی زرہ بکتر، پوشاکیں، میدان جنگ میں نسب خیمہ، سونے سے بنا ہوا شیر کے منہ والا خنجر کا دستہ، کھانے کے برتنوں کے علاوہ مہاراجہ پرتاب سنگھ کے استعمال کی کچھ اشیاء، ہاتھ سے سونے کے پانی سے بنائی گئی سلطان ٹیپو کی تصویریں، مہاتما بدھ کا قدیم مجسمہ، ہندؤوں کی مختلف دیوہوں اور دیوتاؤں کی مقدس مورتیاں، بنگال کے نواب سراج الدولہ کی پالکی اور بہت سے دوسرے نوادرات شامل ہیں۔ ان نوادرات کے ساتھ ہاتھ سے لکھے ہوئے ٹیگ لگے ہوئے ہیں۔ جو بہت قریب سے ہی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ہم ان نوادرات میں اتنے کھو گئے تھے کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور پانچ بج گئے۔ سیکورٹی والوں نے ہم سے عجائب خالی کرنے کی گزارش کی توہم بوجھل قدموں سے باہر نکل آئے۔

ہفتہ وار چھٹی اور موسم انتہائی خوشگوار ہونے کی وجہ سے محل میں بہت زیادہ رش تھا۔ زیادہ تر سیاح انگریز تھے۔ برطانیہ میں ایسی بہت سی جگہوں کی سیر کے دوران میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ہماری پاکستانی کمیونٹی بہت کم ان جگہوں کو دیکھنے آتی ہے۔ بہت سے افراد اپنے خاندان اور بچوں کے ہمراہ آئے تھے۔ محل کے اندر دو اچھے ریستوران ہیں لیکن مہنگے ہیں اور حلال بھی دستیاب نہیں ہے۔ ایک سوینئر شاپ ہے۔ محل کے ایک کونے میں مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتہائی صاف ستھرے ٹائلٹس بنے ہوئے ہیں۔ محل کے صحن میں سیاحوں کے بیٹھنے کے لیے لکڑی کے بینچ اور کرسیاں میز رکھے ہوئے ہیں۔

محل میں داخلے کا وقت گیارہ بجے سے لے کر ساڑھے چار بجے تک ہے۔ پانچ بجے محل بند ہو جاتا ہے۔ محل میں داخلے کے لیے پندرہ پاؤنڈ کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے جب کہ گاڑیوں کی پارکنگ فری ہے۔ ویلز برطانیہ کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ ویلش پول نامی چھوٹا سا خوبصورت قصبہ ہے، جس کے ایک کنارے پر چھوٹی سی پہاڑی پر پوئس کیسل بنا ہوا ہے۔ پاک و ہند کی طرح برطانیہ میں بھی زیادہ قلعے اور محل پہاڑیوں پر بنے ہوئے ہیں۔ محل سے نکل کر گاڑی تک پہنچنے کے لیے ایک میل کا فاصلہ ہو نے بوجھل قدموں سے طے کیا۔ عجائب گھر میں ٹیپو سلطان کی اشیا دیکھ کر واپسی پر گاڑی میں بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ اگر حکمران اگر عیاشیوں میں نہ پڑتے اور اپنے لوگ غداری کر کے انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو شاید دنیا کا نقشہ اب کچھ اور ہوتا۔

واپس کریں