دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیسا ہے یہ جیون کا سفر
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
میں1975 ء میں ایف ایس سی کے دوسرے سال کاطالب علم تھا۔اُس سال عید کے دوسرے دن میں بڑی بہن سے ملنے لاہور چلا گیاجو بوجوہ عید پر ہمارے پاس نہ آ سکی تھیں۔عسرت کے دن تھے۔ وہاں سے واپسی پر بس کا کرایہ ادا کر نے کے بعد میری جیب میں فقط پانچ روپے بقایابچے تھے۔لاہور سے جہلم پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی ۔گائوں جانے والی آخری بس جا چکی تھی مجبوراً رات جہلم میںگزارنی پڑی۔ پانچ روپے اس میں خرچ ہو گئے۔ صبح بغیر کچھ کھائے پیئے خالی جیب گائوں جانی والی بسوں کے اڈے پر پہنچا۔ آدھے گھنٹے بعد جانے والی بس میںاس ارادے سے سوار ہو گیاکہ اگر کنڈکٹر نے کرایہ مانگا تو اگلے دن دینے کا کہہ دوں گا۔ سفر کے دوران کنڈکٹر دو تین دفعہ میری سیٹ کے پاس سے گزرا لیکن اس نے کرایہ نہیںمانگا۔ میں اپنے گائوں کے سٹاپ پر اتر گیا۔دوسرے دن شہر کے کالج سے واپسی پر گائوں تک پھراُسی بس پر سفر کیا۔ ان دنوں طالب علموں سے بس والے کرایہ نہیں لیتے تھے۔جب کنڈکٹر میری سیٹ کی طرف آیا تو میں نے دو روپے نکال کر اسے دئیے کہ یہ کل کا کرایہ ہے۔ اس نے کرایہ نہیں لیا اور کہنے لگا۔ بائو جی کل کا حساب کتاب ختم ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعدوہ مسافروں کو ٹکٹ دے کرمیرے پاس آ بیٹھا۔اس کا نام بشیرتھا،کہنے لگا ۔ بائو جی ! کل مجھے پتہ تھا کہ آپ کی جیب خالی ہے ،یہ چلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد بشیرسے میری جان پہچان ہو گئی ۔ کالج سے واپسی پر اس کی بس پرسفر کے دوران اس سے سلام دعا رہنے لگی۔دو سال بعدکالج سے فارغ ہونے کے فوراً بعد مجھے بینک میں نوکری مل گئی تو میں عملی زندگی میں مصروف ہو گیا۔

آج اتنے سالوں بعدبشیر اپنے بیٹے کی نوکری کے لئے درخواست لیے میرے سامنے بیٹھا تھا۔مجھے بینک میں ریجنل چیف تعینات ہوئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے ۔بشیر سے درخواست لے کرمیں نے اپنے سیکرٹری کو دی اور اسے بچے کا آپریشن ہیڈ سے انٹرویو کروانے کو کہا۔اس کابیٹا کامرس گریجویٹ تھا اور کافی ہوشیار لگ رہا تھا۔ہمارے آپریشن ہیڈ بہت سخت تھے ، لیکن وہ انٹرویو میں پاس ہو گیا توہم نے اس کا کیس ہیڈ آفس کی منظوری کے لیے بھیج دیا۔اگلے پندرہ بیس دنوں میں اس کا بیٹا بینک میں ایڈہاک افسربھرتی ہو گیا۔ بیٹے کی تعیناتی کی خوشی میں وہ مٹھائی لے کر میرے دفتر میں آیا تو بڑا ممنون تھا۔ اُس دن اتنا کام نہیں تھا ، میں بھی فارغ ہی تھا۔اسے اپنے پاس بٹھا لیا اوراس کے لیے چائے منگوائی ۔ اس سے پوچھا کہ آج کل وہ کیا کر رہا ہے۔جواب میںاس نے بتایا سرکار ! اب میں بس چلا رہا ہوں۔میں نے کرایہ نہ لینے والی بات اسے یاد کروائی تو وہ کہنے لگا ۔

"سرکار، بہت پرانی بات ہے۔ میں تواب بھول گیا ہوں۔ آپ اچھے آدمی ہیں۔ ابھی تک بات آپ کو یاد ہے۔" پھراُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگا ۔ آپ لوگ اچھے طالب علم تھے ، ہمارے ساتھ بسوں میں سفر کرتے ہوئے ہم سے تعاون کرتے تھے۔ ہماری عزت کرتے تھے۔ ہمیں کوئی حقیر نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا۔ سرکار ! اب وقت بدل گیا ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ بہت آ گیا ہے۔اخلاقی قدریں بدل گئی ہیں۔ ہمیں معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔میںآپ کا شکرگزار ہوں ۔ آپ نے میرے بیٹے کو ملازمت دلائی ہے۔میں نے اسے کہا کہ شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رزق تو اللہ تعالی دیتا ہے، لوگ وسیلہ بنتے ہیں۔اگر آپ کا بیٹا بینک کے معیار پر نہ اترتا تو ہم اسے کبھی نہیں رکھتے۔اب بھی اگر وہ محنت کرے گا تو دو تین سال بعد وہ بینک میں مستقل ہو جائے گا۔ مجھے لگ رہاتھا بشیر نے بھی میری طرح اپنی زندگی بہت مشکل میں گزاری ہے۔سوچا اس کی زندگی کے بارے میں کچھ جانوں۔ یہ خیال آتے ہی میں نے بشیر سے پوچھا۔ اچھا یہ تو بتائو کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے۔

"سرکار ! ہم کیا اورہماری زندگی کا کیا ہے۔ ہم غریب محنت کش لوگ ہیں۔ اپنی توساری زندگی محنت مزدوری کرتے ہوئے گزر ی ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ زیادہ گزر گئی ہے اور اب تھوڑی باقی رہ گئی ہے۔ "
"پھر بھی کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتائو۔" میں نے اس سے پھر کہا۔ "سر کار ! میں دیہات کا رہنے والا ایک عام سا آدمی ہوں۔ نہر اپر جہلم کے کنارے ہمارا گائوں ہے۔میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھاجب میرے والد کا انتقال ہو گیاتھا۔میں گھر میں سب سے بڑا تھا۔غربت کا زمانہ تھا۔پہلے ہی مشکل سے گزر اوقات ہو رہی تھی۔والد کی وفات کے بعد گزارہ اورزیادہ مشکل ہو گیا تھا۔ گائوں کے ایک راجہ صاحب کا اپنا ٹرک تھا جسے وہ خود ہی چلاتے تھے ۔وہ والد کی تعزیت کے لیے ہمارے گھرآئے تو والدہ نے ان سے میرے لئے کوئی کام سیکھنے کے حوالہ سے بات کی۔پڑھائی تو اب مشکل نظر آ رہی تھی ۔پندرہ دن بعد راجہ صاحب جب گائوں آئے تو جاتے ہوئے اماں سے بات کر کے مجھے اپنے ساتھ شہر لے گئے۔لاری اڈے کے نزدیک ایک ورکشاپ میں مجھے گاڑیوں کا کام سیکھنے پر لگا دیا۔ ورکشاپ کا مالک تھا تو بڑا کاریگر، لیکن نشہ کرتا تھا۔ ورکشاپ میں میرے علاوہ دو اور لڑکے بھی کام کرتے تھے۔ میں سب سے چھوٹا تھا اور نیا بھی، اس لئے سارا دن میری شامت آئی رہتی تھی ۔

"چھوٹے پانی لائو ، فلاں نمبر کی چابی دو، فلاں چیز لا کر دو۔گاڑی کا ٹائر کھولو۔ورکشاپ کا مالک چھوٹی چھوٹی باتوں پرپٹائی کر دیتا تھا۔ میں چھوٹا تھا،کبھی ایسا کام نہیں کیا تھا۔گھر کی بہت یاد آتی تھی لیکن کیا کرتا۔اڈے میں بچوں کو رنگ برنگے کپڑے پہنے ماں باپ کے ساتھ سفر کرتے دیکھتا تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی اور میں سوچتا میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہے۔ سرکار ! ایسے میں میرے دل میں دکھ بھر جاتا اور میں رونے لگتالیکن میرا رونا کون دیکھتا۔ خود ہی چپ ہو کر ورکشاپ واپس آ کر کام پر لگ جاتا۔ رات کو میں ورکشاپ کے اندر ہی سو جاتا تھا۔میرے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا۔ تیل اور گریس لگنے سے اس کا رنگ بدل گیا تھا۔ غسل خانہ اور ٹوائلٹ برائے نام سے تھے ۔اتنے گندے کہ اندر جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔بیس پچیس دن بعد راجہ صاحب کا ادھر سے گز ر ہوا۔ میرا پتہ کرنے ورکشاپ آئے تو میری حالت دیکھ کر ورکشاپ کے مالک پر بہت غصہ ہوئے۔مجھے وہاں سے اپنے ساتھ لے کر بازار گئے۔نئے کپڑے لے کر دئیے۔ ایک حمام میں لے گئے جہاں نہا کر میں نے کپڑے بدلے ، پرانے وہیں چھوڑ دئیے۔اس دن سے راجہ صاحب نے کنڈکٹر کے ہیلپر کے طور پر اپنے ٹرک پر مجھے بھی ساتھ رکھ لیا۔ اب مہینے میں ایک چکر گائوں کا لگ جاتا تھا۔ میں سیانا ہو گیا تھا۔ ٹرک پر میرا کام ٹرک کی صفائی کرنا،سامان چڑھانا اور اتارنا تھا۔سفر کے دوران رات کو جہاں ٹرک کھڑا کرتے ،میں ٹرک کے اوپر بنے ہوئے کیبن پر بستر بچھا کر سو جاتاتھا۔کھانا پینا ٹرک کے ذمہ تھا۔ہفتہ میں دو تین روپے خرچے کے لئے بھی مل جاتے جو میں سنبھال کر رکھتا اور گائوں واپس آتے ہوئے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کچھ لے جاتا تھا۔ تنخواہ گو کہ بہت ہی قلیل تھی وہ اماں جی کو مل جاتی تھی۔

تین چارسال میں نے راجہ صاحب کے ساتھ ٹرک پر گزار دئیے۔ وہ ایک یتیم اور گائوں کا بچہ سمجھ کر میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دن ہم نے ٹرک وزیر آباد اڈے پر کھڑا کیا۔شام کو کھانا کھانے کے بعد راجہ صاحب بے ہوش ہو گئے۔ ان کو ہسپتال لے گئے تو پتہ چلا کہ خون میں شکر کی زیادتی اور ادویات استعمال نہ کرنے کی وجہ سے وجہ سے ان کی نظر بند ہو گئی ہے۔بیماری کے دوران ہی انھوں نے ٹرک بیچ دیا اور مستقل گائوں آ گئے ۔میں بے روز گار ہو گیا۔ ایک ماہ گھر پر پڑا رہا تو اندازہ ہوا کہ کام کئے بغیر گھر چلنا بہت ہی مشکل ہے۔ ایک دن میں شہر گیا۔ہمارے پڑوسی گائوں کا ایک آدمی نہر والی سڑک پر میرپور سے جہلم جانے والی بس چلاتا تھا۔ اسے میرے حالات پتہ تھے۔ اس نے مجھے اپنی بس پرہیلپر رکھ لیا۔ دو ماہ بعد اس کا کنڈکٹر دوبئی چلا گیا تو اس نے مجھے کنڈکٹر رکھ لیا۔ بس کی اندر باہر سے صفائی، سواریوں کو بس میں سوار کرانا، ان کا سامان اتارنا چڑھانا ، ٹکٹ دینا، شام کو سارا حساب بنا کر گاڑی کے مالکان کو دینامیری ڈیوٹی میں شامل تھا۔ گو کہ کنڈکٹر کی تنخواہ کم تھی لیکن اب مجھے کمیشن بھی مل جاتا تھا۔جس روز دیہاڑی اچھی لگ جاتی ،کمیشن بھی اچھا مل جاتاجس سے حالات کچھ سدھرنے شروع ہو گئے تھے۔ ہماری بس صبح جہلم سے روانہ ہو کر سرائے عالم گیررکتی اور پھر نہراپر جہلم والی سڑک کے ذریعے میرپور کے لئے روانہ ہوتی اور شام کومیرپور سے واپس جہلم پہنچ جاتی ۔بس اڈے پر کھڑی کرتے اور گرمیوں میں بس کی چھت اور سردیوں میں بس کے اندر سو جاتا۔میں صبح سویرے اٹھ جاتا۔ بس کی اندر باہر سے صفائی کرتا۔ پھر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کرتا۔میرے کپڑے ہمیشہ صاف ستھرے ہوتے تھے۔ مقررہ وقت پر بس سٹینڈ پر گاڑی لگواتا۔ جہلم سے چل کر ہم دو گھنٹے میں میرپور پہنچتے اور پھر ایک گھنٹا وہاں ریسٹ کرنے کے بعد دوبارہ جہلم کے لیے روانہ ہو جاتے۔

اُن دنوں میرپور میں بسوں کا کوئی باقاعدہ اڈا نہیں بناہواتھا۔موجودہ قائد اعظم سٹیڈیم کی جگہ ایک چٹیل میدان تھا جس کے ایک کونے پر جہلم، کوٹلی اور بھمبر جانے والی بسیں کھڑی ہوتی تھیں۔ جہلم میں بھی ناز سنیما کے پاس پل کے ساتھ تنگ سی جگہ پر میرپور جانے والی بسوں کا اڈا ہوتا تھا۔ بس ڈرائیور وںاور کنڈکٹروں کی اپنی ہی ایک دنیا تھی۔پندرہ دن بعد میں گائوں کا چکر لگا لیتا تھا۔آہستہ آہستہ میں نے بس چلانی سیکھ لی تھی۔تین چار سال بعد میں بس ڈرائیور بن گیا۔ اب پچھلے بیس پچیس سال سے میں بس چلا رہا ہوں۔ سرکار ! اپنی ساری عمر اسی کاروبار میں ملازمت کرتے گزر گئی ہے لیکن اس کام میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ دنیا کے لیے ہم جاہل اور گنوار ڈرائیور ہی رہیں گے۔میری شادی ماموں کی بیٹی سے ہوگئی تھی۔دوبیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ سرکار ! میں خود تو نہیں پڑھ سکا لیکن اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی ہے۔ بڑا بیٹا دوبئی میں ہے۔دونوںبیٹیوں کو چودہ جماعتیں پڑھائی ہیں، اب ان کی شادیاںہو گئی ہے۔اب زمانہ بدل گیا ہے۔ نئی ٹرانسپورٹ آنے کی وجہ سے بسوں کی آمدنی بھی بہت کم ہو گئی ہے۔ بس گزارہ ہو رہا ہے۔بڑے بیٹے نے بہت دفعہ بس ڈرائیور کی نوکری چھوڑ دینے کو کہا ہے۔ چھوٹے بیٹے کو آ پ کے وسیلہ سے بینک میں نوکری مل گئی ہے۔ اب بیوی بھی کہتی ہے کہ نوکری چھوڑ دولیکن سرکار میں بیکار نہیں بیٹھ سکتا۔ میرے پاس کچھ مہمان آجانے پر وہ میرا ایک بار پھرشکریہ ادا کر کے چلا گیاتو میں سوچنے لگا ۔" ہمارا معاشرہ انسانیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ آدمی کے کام کی نوعیت کو دیکھ کر اس کی عزت کرتا اور اہمیت دیتا ہے ۔ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے والوں کی بھی ایک اہمیت ہے۔اسلام تو ہمیں برابری کا درس دیتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کرتے ہیں۔


واپس کریں