دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نینا عادل کے ناول مقدس گناہ پر ایک نظر
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
اردو ادب میں ناول نگاری کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔1869ء میں لکھے گئے مولوی نذیر احمد کے ناول "مراةالعروس "کو اردو کا پہلا مستند ناول خیال کی جاتا ہے لیکن کچھ محققین کی نظر میں مولوی کریم الدین کے ناول " خط تقدیر " کو اردو میں لکھا جانے والا پہلا ناول سمجھا جاتا ہے جو 1862ء میں لکھا گیاتھا۔ بعض نقادوں کی نظر میں یہ دونوں حقیقی ناول نہیں بلکہ تمثیلی کہانیاں ہیں ، ان کے خیال میں یہ تمثیلی کام دراصل ناول نگاری کی طرف پہلا قدم ہے ۔ انیسوی صدی عیسوی میں لکھے جانے والے مرزا ہادی رسوا کے ناول " امرائو جان ادا "کو اردو ادب کاپہلا سچا ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔

روزنامہ ڈان کی مورخہ11جنوری 2021 ء کی اشاعت میں چھپے ایک مضمون میں رئوف پاریکھ ناول نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ " خط تقدیر "نے ناول اور داستان یا پرانی طرز کی کہانیوں کے درمیان ایک پُل کا کام کیا ہے۔ گو کہ اس کا شمار اردو ادب کے بہترین ناولوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اردو ادب کے پہلے ناول کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مراة العروس، فسانہ آزاد، امرائوجان ادا،ٹیڑی لکیر،لندن کی ایک حسین رات جیسے ناول اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد لکھے جانے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ آگ کا دریا، خداکی بستی، ایک چادر میلی سی،اداس نسلیں، راجہ گدھ کا شمار اردو ادب کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ پچھلی دو دَہائیوں میں چھپنے والے ناولوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے لیکن مجھے ان میں محمد حمید شاہد کا ناول "مٹی آدم کھاتی ہے "،اوریونس جاوید کا ناول"کنجری کا پل" بہت پسند آئے۔ اپنے طالب علمی کے دور میں ہمیں جب ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تو اس وقت لائبریری میں زیادہ ترنسیم حجازی، رضیہ بٹ،بشری رحمن جیسے مصنفین کے ناول ہی پڑھنے کو ملتے تھے۔سب رنگ اور عالمی ڈائجسٹ کی وساطت سے انگریزی ادب اور دوسری زبانوں کے تراجم پڑھنے شروع کیے تو ذہن انگریزی کے کلاسیک ناول اور امریکن فکشن پڑھنے پر مائل ہوا ۔برطانیہ کے کلاسیک ناول زرامشکل زبان میں ہیں لیکن امریکہ والے بڑی آسان اور روزمر ہ بولی جانے والی زبان میں لکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سادہ اور آسان زبان میں لکھی ہوئی کہانیاں اور ناول قاری کو فورا اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

نینا عادل کا پہلے تعارف نہیں تھا اسی لیے جب ان کالکھا ہوا ناول " مقدس گناہ "ایک دوست نے خرید کر بھیجا تو دورِحاضر کی کچھ خواتین ناول نگاروں کا ناول سمجھ کر ریک میں رکھ دیا کہ اس میں بھی گھریلو خواتین کے روایتی خاندانی جھگڑوں اور ساس بہو کی کہانیاں ہوں گی۔ چند دن پہلے ایسے ہی اس ناول کی ورق گردانی کرنا شروع کی تو پہلا صفحہ پڑھ کر میں یہ سمجھا کہ شاید حنا جمشید کے ناول ہری یوپیا کی طرح یہ بھی ایک تاریخی ناول ہوگا لیکن اگلے چند صفحے پڑھنے کے بعد کہانی کی گرہیں کھُلنا شروع ہو گئیں۔ اس کے بعد جوں جوں ناول پڑھتا گیاکہانی میں دلچسپی بھی بڑھتی گئی اور میں نے ایک ہی نشست میں بیٹھ کر سارا ناول پڑھ ڈالا۔ 344 صفحات پر محیط یہ ناول سنگ میل پبلشر لاہور نے چھاپا ہے۔ بڑا سادہ سا لیکن خوبصورت سرورق ہے ، جس میں سیاہ رنگ نمایاں ہے۔بیٹیوں کو اپنی ماں سے پیار تو ہوتا ہی ہے لیکن وہ اپنی نانی سے بھی بہت زیادہ پیار کرتی ہیں۔ نینا عادل نے بھی ان دونوں ہستیوں سے اپنے پیار کا اظہار اس ناول کا انتساب ان کے نام کر کے کیا ہے۔ کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں، جیسے ہی آپ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو اس کا انجام آپ کو سمجھ آجاتا ہے، لیکن نینا عادل نے ناول کی کہانی میں قاری کی دلچسپی کو آ خر تک برقرار رکھا ہے۔

پاکستان کاعروس البلاد کہلانے والے کراچی شہر کے پسِ منظر میں لکھے گئے اس ناول میں پچھلے کئی سالوں سے ہونے والی سیاسی افراتفری، فرقہ واریت ، نسلی تشدد سے دو چار اور انتشار کے دہانے پر کھڑے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ناول کی کہانی کا تانا بانا بُنا گیا ہے ۔ نینا عادل لکھتی ہیں کہ سب خرابیوں کے باوجود اب بھی اس شہر میں کچھ فنکارانہ اور انسان دوستی کے حامل افراد بستے ہیں جوموسیقی، رقص ،مصوری اور شاعری سے پیار کرتے ہیں اور تعلیم کے میدان میں ایمانداری سے کام کرتے ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار مہوش ہے جسے دیا بھی کہا جاتا ہے۔وہ آرکنو فوبیا میں مبتلا ہے ۔ آرکنو یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے چھ ٹانگوں والی مکڑی۔ آرکنو فوبیا میںمبتلا فرد کو مکڑیوں اور اسی طرح کے زیادہ ٹانگوں والے کیڑوں سے شدید خوف آتا ہے۔یہ مخصوص خوف کے زمرے میں آتا ہے اور اہم پریشانی کا سبب بنتا ہے جس سے اس میں مبتلا فرد کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ خوف اِس میں مبتلا فرد کی زندگی کے معیار پربری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ بچپن میں ماں یا باپ کے پیار سے محروم بچے اکثر ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس ناول کی مرکزی کردار کبھی انتہائی کمزور اور کبھی انتہائی طاقتور نظر آنے والی ،انتہائی حساس دل کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھی مصورہ بھی ہے۔ ایسے کرداروالدین کی محبت نہ ملنے پر دوسرے مشاغل میں اپنی دلچسپی مرکوزکر کے اپنے اصل غم کو بُھلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ناول کی کہانی نفسیاتی بیماری میں مبتلا خاتون کی شادی، علیحدگی ،قریبی خاندانی رشتوںمیں پیار محبت،دھوکہ دہی اور شہر کے وگرگوں حالات کی وجہ سے انسانی جانوں کے ضیا ع پر محیط ہے۔

خواتین کے لکھے جانے والے ناولوں کی کہانیوں سے مقدس گناہ کا پلاٹ بالکل مختلف ہے۔ لگتا ہے نینا عادل نے نفسیاتی بیماریوں کی مکمل چھان بین کے بعد اس کردار کو اپنی کہانی میں شامل کیا ہے جس سے قاری کی دلچسپی اور ہمدردیاں اس کردار سے کہانی کے آغاز سے آخر تک برقرار رہتی ہیں۔ خاندانی تنازعات ، سٹڈی سرکل کے بہانے تنظیم سازی کے معاملات ، سیاست کی چیرہ دستیوں اور شہر کی گلیوں میں ہونے والے جرائم پر نینا عادل نے بڑی اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے۔دائود جیسے کردار ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہیں۔ ایسے کردار عورت کو صرف جنس کے حوالے سے دیکھتے ہیں ،انھیں نفیس و نازک جذبات اور احساسات کا ادراک نہیں ہوتا۔عورت سے ان کا تعلق فقط جنسی فعل تک محدود ہوتا ہے۔ اسی طرح نبیل جیسے کردار بھی ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو اپنے ہی خاندان کی لڑکیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے اور اپنی تسکین کے لیے رشتوں کی پرواہ بھی نہیں کرتے کیونکہ اُن کے نزدیک رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ وجاہت جیسے مثبت کردار بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم نے کراچی کی بد امنی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ 90 کی دہائی میں بد امنی کے اس دور سے میں حالات سے تنگ آ کر شہرسے بہت سارے ہنر مندنوجوان رزق اور بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ برطانیہ اور یورپ گئے ۔ محنت اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آپ کو وہاں مستقل بنیادوں پر سیٹل کر لیا۔ وجاہت بھی ان میں سے ایک ایسا ہی لڑکا نظر آتا ہے۔

قوت گویائی سے محروم نیلو ہر جگہ مہوش کا ساتھ دیتی ہے ۔ سب کی باتیں سنتی ہے، اپنے جذبات کا اظہار اپنی زبان سے نہیں کر سکتی لیکن اس کے جذبات کو کوئی نہیں سمجھتا اور نہ اس کا خیال کوئی نہیں کرتا۔ اس نے اپنے آپ کو اکیڈمی کی مصروفیات میں گم کر لیاہوا ہے۔ اس کے اندر جذبات کا سمندر موجزن ہے جس کا اظہاروہ نہیں کرتی۔ جب وہ کسی کا شریک سفر بنتی ہے تب بھی وہ اپنے خول میں بند رہتی ہے۔ لیکن جب وہ کھلی تو کیا خوب کھلی ۔اسے نینا عادل نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔" سمٹی سمٹائی ہر وقت کمپیوٹر کی سکرین میں گم رہنے والی کَسی ہوئی گٹھڑی جیسی لڑکی جب کھلی تو ریشم کے تھان کی مانند کھلتی چلی گئی۔" ایسا ہی ایک کردارمیں نے اصل زندگی میں دیکھا تھا جس نے زندگی اپنے بہن بھائیوں کا مستقبل بنانے سنوارنے میں گزار دی لیکن اس کی اپنی شادی نہیں ہو سکی اور وہ تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

چار نسلوں پر محیط ہوئے ناول کا پلاٹ مختلف جہتوں کو لے کر کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ کراچی شہر کے حالات، مخصوص لسانی جماعت کی دہشت، بھتہ خوری ، موبائل فون چھیننے کی وارداتیں، اغوا برائے تاوان، دھونس جبر اور دبائو کی سیاست ، قتل جیسے سیکڑوں واقعات نے کراچی شہر کا حسن بگاڑ کر رکھ دیا۔حکمر انوں کی ان حالات سے چشم پوشی اور راست اقدام نہ اُٹھانا شہر کو تباہ کرتا رہا۔ ان سب واقعات کو پسِ منظر میں رکھ کر کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کہانی کا المناک انجام اکثر قارئین کو بددل کر دیتا ہے لیکن مقدس گناہ میں دیا اور نیلو جیسے کرداروں کا مثبت انجام قاری کو خوش کر دے گا۔

ناول میں انگریزی زبان کے الفاظ اور فقروں کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا ہے جن کو آسانی سے اردو کے قالب میں ڈھالا جا سکتا تھا۔ برطانیہ،یورپ یا امریکہ میں بسنے والے ناول کے کرداروںکی زبان سے ایسے فقرے ان کے کردار کے مطابق استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔لیکن انگریزی زبان کے ایسے الفاظ اور فقروں کا اردو میں ترجمہ متعلقہ صفحے کے حاشیہ پر یا کتاب کے آخر میں لکھ دیا جاتا تو بہتوں کا بھلا ہو سکتا تھا۔ناول کے آخری رنگ میں بنگال کی موسیقی پر بنگالی زبان میں لکھے گئے ایک پہرے کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے ۔/70 80 کی دَہائی میں بہت سی خاتون افسانہ اور ناول نگارخواتین کا ڈائجسٹوں کی کہانیوں میںاپنی قابلیت جتانے کے لیے اردو میں انگریزی الفاظ کی بھرپور آمیزش کر کے لکھتی رہی ہیں۔

مقدس گناہ پر بہت سے علمی و ادبی شخصیات نے لکھا ہو گا جو میری نظر سے نہیں گزرالیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے شعبہ اردو کے پروفیسر خالد جاوید نے "مقدس گناہ "کے دیباچہ میں کیا خوب لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نینا عادل کا یہ تخلیقی بیانیہ ناقابل یقین حد تک ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ میں اس شہکار ناول کو جدید کلاسیک کا درجہ دینے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہوں۔ نیناعادل ایک بلند پایہ شاعرہ تو ہیں ہی لیکن ان کی علمیت اور ذہانت ناول کی صنف یا تخلیقی نثر میں بھی خود کو دریافت کرتے رہنے کی ایک نئی منزل ثابت ہوئی ہے۔مقدس گناہ ایسی تحریر نہیں جسے پڑھ کر بھلایا جا سکے۔ نینا عادل نے مقدس گناہ میں اول کی روایت سے ہٹ کر برمحل خوبصورت نظمیں اور نہایت ہی عمدہ اشعار شامل کیے ہیں ۔ وہ صاحب دیوان شاعرہ بھی ہیں ۔یہ اشعار اور نظمیں ان کی اپنی شاعری سے انتخاب ہے، جو اُن کے ذوق کی آئینہ دار ہیں۔
جب تلک اک گلاب زادی کی خوشبوئیں مہربان رہیں تب تک
برگ و گل سب گواہ ہیں کیونکر ان نگاہوں کا باغ روشن تھا
گلاب زادی کے لیے لکھی ہوئی نظم کا انتخاب بھی انتہائی عمدہ ہے۔
مشام ِجاں !
گھنے پیڑوں کے سائے میں
تو وہ خوشبو کی گٹھری ہے
قصیدہ جس کا گل بوٹے بصد انداز پڑھتے ہیں
حسد کرتے ہیں جس سے گل بدن
گلاب زادی اورحسن اور عشق کے لطیف جذبوں کو بیان کرتی یہ انتہائی خوبصورت نظم بھی ان کی اپنی شاعری سے لی گئی ہے ۔شمیم حنفی نینا عادل کی شاعری اور نثر کے بارے میںلکھتے ہیں " نینا عادل کی نظم ونثرکو اردو ادب میں نہایت خوش گوار اور گراں قدراضافہ تصور کرتا ہوں۔

نیناعادل نے اپنے ناول کو مختلف رنگوں (بابوں) میں تقسیم کیا ہے۔ ہر رنگ کے آغاز سے پہلے فارسی کا ایک خوبصورت شعر لکھا ہے۔ فارسی زبان اب سکولوں کالجوں میں پڑھائی تک محدود ہو گئی ہے کیوں کہ فارسی زبان کے قدر دان اس مملکتِ خدادمیں اب کم ہی رہ گئے ہیں۔ ہمارے آبائی علاقہ کھڑی کے شعرہ آفاق پنجابی شاعر میاں محمد بخش اپنے بچپن میں عبدالرحمن جامی کا فارسی کلام اپنی مدھر آواز میں اس انداز سے پڑھتے تھے کہ مدرسہ کے پاس سے گزرتے افراد سننے کے لیے ٹھہر جاتے تھے۔فارسی زبان کے بہت سے الفاظ اردو زبان میں مستعمل ہیں اورروز مرہ کی بول چال میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اردو کے اشعار اور نظم کی طرح نینا عادل کا فارسی کلام کا انتخاب بھی بہت خوب ہے اس کی داد نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔اگر ان اشعار کا اردو ترجمہ بھی ساتھ دے دیا جاتا تو میرے جیسے بہت سے افراد کا بھلا ہو جاتا اور پڑھنے کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا۔دو تین رنگوں سے فارسی اشعار بمعہ اردر ترجمہ اپنے قارئین کی نذر۔(فارسی کلام کا اردو ترجمہ بشکریہ نینا عادل)
قدر مجموعہ گل مرغِ سحر داند و بس
کہ نہ ہو کو ورقی خواند معانی دانست
(پھولوں کی شرح و قدردانی صبح کا پرندہ (بلبل) ہی کر سکتا ہے یہ نہیں کہ ورق گردانی کرنے والا ہر شخص حرف و معنی کی گرہ کھول سکے)
بار ہا گفتہ ام و بارِ دِگر می گویم
کہ من دلشدہ این رہ نہ بہ بخود می پویم
( میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ میں دلِ گم شدہ اس راستہ پر از خود نہیں چل رہا ہوں )
عَنقا شکار کَس نشود دام باز چیں
کانجا ہمیشہ باد بہ دست است، دام را
(عنقا( ایک خیالی افسانوی پرندہ ) شکار نہیں ہو سکتا گا دام کھینچ لے کیوں کہ دام(جال) بچھانے والے کے ہاتھ میں بجز ہوا کے کچھ نہیں آتا)

ناول میں ایک دو جگہوں پر مجھے نفسانی خواہشات کی تکمیل کی اشتہا انگیزی نظر آئی جو تھوڑا سا چھبی ،ہو سکتا کہ ایسا کردار کی نفسیاتی مناسبت سے درست ہولیکن ہمارے ہاں خواتین کہانی نگار عموماً ایسا لکھنے سے پرہیز کرتی ہیں البتہ عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم کی تحریروں میں ایسا کچھ اکثر پڑھنے کو ملتا ہے۔ میرے خیال میں نینا عادل نے اپنے اس ناول میں اس مملکت خدادا کے ارباب بست و کشادکے لیے ایک چُبتا ہوا سوال چھوڑا ہے کہ مملکت خدادا د اپنے شہریوں کوکب ایسا تحفظ اور انصاف مہیا کرے گی کہ شہری اپناملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں ۔آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟



واپس کریں