دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنی: علاقہ کھڑی کامثالی گاؤں
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
میرپور شہر سے جنوب کی طرف نو کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی اہمیت کا علاقہ کھڑی واقع ہے۔ اسی علاقہ میں میرپور شہر سے پچیس کلو میٹر دور نہر اپر جہلم کے بائیں کنارے سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ”بنی“ گاؤں آباد ہے۔ نہر اپر جہلم کو بنے ہوئے تو ابھی ایک سو دس سال ہوئے ہیں لیکن بنی نام کا یہ گاؤں اس سے دو صدیاں پہلے آباد ہوا تھا۔ ایک روایت کے مطابق 1145 ہجری بمطابق 1730 عیسوی کے آس پاس اس گاؤں کی بنیاد کر رکھی گئی تھی۔ اس وقت اس علاقہ میں راجہ کمال خان کی حکومت تھی جس کی عملداری میں کھوہار، سرائے عالم گیر، کریالہ اور کھڑی شامل تھے۔ راجہ کمال خان کی ریاست کا صدر مقام سموال تھا۔ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ دینِ اسلام کی تبلیغ کے لیے پنجاب سے ایک بزرگ سید دین محمد شاہ کشمیر گئے۔ کشمیر میں کچھ عرصہ قیام کے بعد واپسی پر علاقہ کھڑی میں ساہنگ کے مقام پر آپ نے قیام کیا۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ سید میر بسمل 1932 ء میں چھپنے والی اپنی کتاب ”نور اسلام، چشمہ ہدایت“ میں لکھتے ہیں۔ ”سید دین محمد شاہ کی ساہنگ میں جائے قیام سے تھوڑے فاصلے پر چودھری بنے خان نے موضع بنی آباد کیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر التجا کی کہ وہ گاؤں میں قیام پذیر ہوں۔ آپ نے چودھری بنے خان کی یہ التجا منظور کرلی اور موضع بنی میں سکونت اختیار کرلی۔ حضور کی برکت سے گاؤں جلد آباد ہو کر پُررونق ہو گیا۔“ یہ مغل بادشاہ عالمگیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت کے زوال کی شروعات کا زمانہ تھا۔ پنجاب میں افراتفری کا دور دورہ تھا۔ کھڑی کا علاقہ ان دنوں کشمیر کی بجائے پنجاب کا حصہ اور کھڑی کھڑیالی ریاست کی عمل داری میں تھا۔ 1846 عیسوی میں جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا سودا کیا تو ایبٹ آباد اور ہزارہ کے علاقہ کے بدلہ میں کھڑی کا علاقہ اپنی ریاست جموں وکشمیر میں شامل کروا لیا۔

اُن دنوں علاقہ کے دوسرے لوگوں کی طرح اس گاؤں کے لوگ بھی زراعت پیشہ تھے۔ جاٹ، راجپوت اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مندوں کے علاوہ سید دین محمد شاہ کی اولاد اس گاؤں میں آباد ہوئی۔ چند گھروں سے بسنے والی بستی آج علاقہ کا ایک بہت بڑا گاؤں ہے۔ پچھلی صدی کے آغاز میں نہر اپر جہلم کی کھدائی اور تعمیر کے دوران بہت سے لوگوں کو روزگار حاصل ہوا۔ مہاراجہ کے کارندے اور سموال میں بسنے والے مہاجن علاقہ کے لوگوں سے بیگار بھی لیتے تھے۔ اس کے علاوہ گاؤں کے لوگ پنجاب میں محنت مزدوری کرنے بھی جاتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل گاؤں کے چند لوگ کراچی بندرگاہ سے بحری جہازوں پر مزدوری کے لیے بھی جاتے تھے۔ گاؤں کی مسجد کے پیش امام جناب مولوی عبدالکریم نے خود راقم کو بتایا تھا کہ وہ کافی عرصہ ایک برطانوی بحری جہاز پر ملازم رہے اور اس دوران 1938 ء میں انھوں نے چند ماہ مانچسٹر میں قیام کیا لیکن سرد موسم، برفباری اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے وہ وہاں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ بندرگاہ واپس پہنچ کر ایک دوسرے جہاز میں ملازم ہوئے اور ایک سال کے سفر کے بعد میں ہندوستان واپس آ گئے۔

1932 ء میں چلنے والی عدم ادائیگی مالیہ تحریک میں گاؤں کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1947 ء میں تحریک آزادی کشمیر میں گاؤں کے لوگ شریک ہوئے اور میرپور شہر فتح کرنے والوں میں بھی بنی گاؤں کے لوگ ہراول دستہ میں موجود تھے۔ آزادی سے قبل گاؤں کے لوگ مہاراجہ کی ریاستی فوج کے علاوہ برطانوی راج کی فوج میں بھی ملازم ہوئے، جنھوں نے آزادی کے بعد اپنی فوج میں بھی ملازمت کا کافی وقت گزارا۔ سید عبدالرحمن شاہ نے قیام پاکستان سے کچھ سال پہلے برطانیہ کی فوج میں کمیشن حاصل کیا اور لیفٹیننٹ بھرتی ہوئے اور 1962 میں میجر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ بعد ازاں اپنے سینئر کرنل راجہ عدالت خان کے کہنے پر کچھ عرصہ منگلا ڈیم پراجیکٹ میں کام کیا پھر برطانیہ چلے گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی فضل الرحمن شاہ مہاراجہ کی پولیس میں ملازم تھے جو تقسیم کے وقت جموں میں ہی رہ گئے تھے۔ ان کے والد پیر سید شیر شاہ بڑے عبادت گزار بزرگ تھے۔ وہ گاؤں میں صحت و صفائی کے لیے بہت کام کرتے تھے۔

راجہ نور داد خان بڑے جہاں دیدہ انسان تھے۔ وقت کی نزاکت اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلائی۔ ان کے بڑے بیٹے صوبیدار راجہ الف خان فوج میں بھرتی ہوئے تو ان کی تقلید میں ان کے چھوٹے بھائی راجہ محمد سرور نے پاکستان بننے کے بعد فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ دونوں بھائیوں نے 1965 ء کی جنگ میں حصہ لیا۔ راجہ سرور خان لیفٹیننٹ کرنل ریٹائر ہوئے۔ ان کے بھائیوں راجہ محمد غزن، راجہ محمد سلیمان اور راجہ محمد ریاض نے اعلی تعلیم حاصل کی۔ بڑے دونوں بھائیوں نے کچھ عرصہ محکمہ تعلیم میں کام کیا۔ جبکہ چھوٹے بھائی راجہ محمد ریاض نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے۔ بعد ازاں تینوں بھائی ملازمت چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔ راجہ محمد سلیمان نے برطانیہ سے واپس آ کر صنعت کاری شروع کیا اور میرپور میں ایک آئل مل لگائی۔ وہ بہت عرصہ آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایگزیکٹو ممبر رہے۔ راجہ محمد ریاض نے 90 ء کی دہائی میں پنڈ دادن خان میں ایک فلور مل لگائی۔ وہ دو سال تک آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بھی رہے۔ کرنل سرور خان کے بیٹے میجر ندیم سرور نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کیا اور میجر کے رینک سے ازخود ریٹائرمنٹ لے کر برطانیہ چلے گئے۔

صوبیدار راجہ شادم خان ایک متحرک آدمی تھے۔ انھوں نے تحریک آزادی ِکشمیر میں حصہ لیا اور میرپور شہر فتح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں سے یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ گاؤں کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ ان کے دو بیٹے محمد اکرم خان اور محمد اعظم خان صوبیدار کی حیثیت سے فوج سے ریٹائر ہوئے۔ صوبیدار محمد اعظم خان، ان کے بھائی محمد انور خان اور ان کے بیٹے راجہ تنویر اعظم نے ملٹری کالج جہلم سے تعلیم حاصل کی۔ صوبیدار چوہدری پہلوان خان مہاراجہ کے دور میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور فوج سے ریٹائر ہو کر برطانیہ چلے گئے۔ گاؤں کے لوگ بہت محنتی، جفاکش اور بہادر تھے۔ گاؤں میں ان کی رکھوالی سے کبھی کوئی چوری چکاری نہیں ہوئی۔

چودھری فیروز خان محکمہ پولیس میں ملازم رہے بعد میں پولیس کی ملازمت چھوڑ کر اپنے بھائی چوہدری حاکم خان کے ساتھ مل کر اپنی زمینوں پر اینٹوں کا بھٹہ لگایا۔ بڑے سیانے، بردبار اور بول چال والے آدمی تھے۔ سیاست میں حصہ لیا تو پہلے گاؤں کے کونسلر بنے بعد میں ضلع کونسل کا الیکشن جیت کر ممبر ضلع کونسل بنے۔ زندگی نے وفا نہ کی۔ یکے بعد دیگرے دونوں بھائی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے بیٹے چودھری محمد زمان پولیس میں تھانیدار رہے۔ اپنی شاہانہ طبیعت کی وجہ سے نوکری کا رجحان نہیں تھا اس لئے انسپکٹر بن کر خود ریٹائرمنٹ لے لی۔ ان کے بھتیجے چوہدری عبدالرؤف بھی دو دفعہ یونین کونسل کے ممبر بنے۔ ان کے نواسے اشتیاق اعظم بھی ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور میرپور بار کے عہدے دار بھی ہیں۔ چوہدری حاکم خان کے بیٹے بیرسٹر محمود خان لندن میں امیگریشن کے انتہائی قابل اور مصروف وکیل ہیں۔ حال ہی میں اپنی سیاسی جماعت بنائی ہے، جس کی رکنیت سازی میں مصروف ہیں۔

راجہ رحمت خان بھی ریاست کی پولیس میں افسر تھے، ساٹھ کی دہائی میں ملازمت چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔ ان کے بھائی راجہ صادق خان فوج میں تھے وہ بھی فوج سے ریٹائر ہو کر برطانیہ چلے گئے۔ راجہ رحمت خان کے بیٹے راجہ سکندر خان نے 90 کی دہائی میں پاکستان میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران گاڑیوں کی درآمد کا بزنس شروع کیا۔ اس دوران وہ آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے۔ اب لندن میں سیاسی و سماجی طور پر بہت متحرک ہیں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم چلا رہے ہیں۔پیر مقبول احمد شاہ گاؤں کے ایک جہاں دیدہ بزرگ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کی کوششوں سے گاؤں میں پرائمری سکول قائم ہوا۔ 1958 میں گاؤں میں ڈاک خانہ کی برانچ بھی انھوں نے بنوائی تھی۔ وہ 1960 ء اور 1964 ء میں یونین کونسل سموال کے دو دفعہ بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوئے اور علاقہ میں تعمیر و ترقی کے بہت سے کام کروائے۔ وہ 1950ئمیں مسلم کانفرنس علاقہ کھڑی کے بانی صدر بھی رہے۔ ان کے بیٹے سید شبیر احمد کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ یونائیٹڈ بینک کے سینئر وائس پریزیڈنٹ اور اعلی انتظامی عہدے پر فائز رہے ہیں۔ پیر مقبول احمد شاہ کی پوتی ڈاکٹر سیدہ سدرہ حسن کو گاؤں کی پہلی ڈاکٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کے بھائی پیر عثمان غنی شاہ بڑے جری اور بہادر آدمی تھے۔ بہت اچھے کھلاڑی تھے اس وقت کے ہندو اور سکھ جوانوں پر اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ وہ 1943 میں برطانیہ کی فوج میں صوبیدار بنے تھے اور 1950 میں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد برطانیہ چلے گئے۔ پیر محمد دین شاہ بڑے اللہ والے بزرگ تھے۔ بڑے بردبار اور نیک صفت انسان تھے۔ ان کے بیٹے سید ہدایت اللہ شاہ بھی بڑے بزرگ تھے۔ ان کے چھوٹے دونوں بیٹے محمد قاضی شاہ اور سید محمد افضل شاہ بہت پہلے برطانیہ چلے گئے تھے۔ سید محمد آصف شاہ فوج میں بھرتی ہوئے ریٹائرمنٹ کے بعد ایم ڈی اے میں ملازمت اختیار کی۔ امجد محمود شاہ بھی ایم ڈی اے میں ملازم رہے۔

راجہ عدالت خان اور راجہ عنایت خان گاؤں کے نمبردار تھے۔ راجہ عدالت خان بڑے مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ خرابی صحت کے باوجود گاؤں کے کاموں کے لیے متحرک رہتے تھے۔ وہ دو دفعہ یونین کونسل کے ممبر رہے۔ ان کے بھتیجے محمد فاروق بی کام کر کے ضلعی اکاؤنٹس آفس میں اکاؤنٹس افسر بھرتی ہوئے۔ دھیمے مزاج کے بڑی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے زندگی نے وفا نہیں کی اور جوانی میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ راجہ سید محمد، راجہ غلام محمد اور راجہ محمد خان تین بھائی تھے۔ اس خاندان کے راجہ محمد یوسف برطانیہ چلے گئے تھے۔ وہاں سے واپس آ کر گاؤں کے کاموں میں متحرک رہے۔ راجہ گل نواز فوج میں ملازم ہوئے اور صوبیدار ریٹائر ہوئے۔ راجہ مروت خان گاؤں کی ایک سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ ان کے بیٹے برطانیہ کے شہر اولڈھم میں سٹی کونسل میں کونسلر منتخب ہوئے۔ نئی پود میں سے راجہ عبدالرحمن کے پوتے نے فوج میں کمیشن لیا تھا اور اب وہ پاک فوج میں میجر ہیں۔ راجہ شاہ محمد نے گاؤں سے باہر نئی بننے والی سڑک کے کنارے مکان تعمیر کروائے۔ راجہ محمد اسلم بھی گاؤں کی ایک سیاسی شخصیت تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے علاقہ کھڑی کے کنوینر رہے۔ بڑی متحرک شخصیت تھے۔ بنی کے نہر والے پل پر انھوں نے سب سے پہلے اپنا گھر تعمیر کروایا۔ راجہ فیروز خان ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کے ماہر تھے۔ راجہ عبداللہ چھوٹے قد کے مضبوط آدمی تھے۔ بیلوں کی بڑی شاندار جوڑی رکھتے تھے۔ میلوں اکھاڑوں میں ان کے بیلوں کی جوڑی شرکت کر کے انعام بھی جیتتی تھی۔

حافظ غلام سرور ہاشمی بڑے جیّد عالم و فاضل اور حافظ قرآن تھے، کراچی کے مدارس سے فارغ التحصیل تھے۔ 70 میں مسجد کی تعمیر نو کے بعد گاؤں میں جمعہ پڑھانے کی ابتدا انھوں نے کی۔ بڑی خوبصورت آواز تھی۔ ان کا جمعہ کا خطبہ بہت مدلل اور اثر انگیز وعظ پر مشتمل ہوتا تھا۔ برطانیہ میں شفٹ ہوئے تو وہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔منظور حسین ایڈوکیٹ نے 1952 میں امتحان پاس کر کے میرٹ کی بنیاد پر ملٹری کالج جہلم میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے بعد طبی وجہ سے فوج میں نہیں گئے۔ ستر میں ایل ایل بی پاس کر کے میرپور بارکونسل کے ممبر بنے اور وکالت کا آغاز کیا۔ ان کا شمار سپریم کورٹ بار کے سینئر وکلا میں ہوتا ہے۔میرپور بار کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔ حاجی پیراں دتہ نے برطانوی فوج میں ملازمت کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں میں وقت گزارا۔ وہ دبنگ لہجے میں بات چیت کرنے والی شخصیت کے مالک تھے، ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ چوہدری مختار حسین بھی پولیس میں نوکر رہے بعد ازاں ان کے بیٹے چودھری اللہ دتہ بھی پولیس انسپکٹر ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ ایک ماہر تفتیشی تھے۔ مہر فضل حسین گاؤں کے نمبردار تھے۔ دھان پان سے تھے لیکن بڑے دبنگ انداز میں بات کرتے تھے۔ گاؤں کی ایک اور متحرک شخصیت چودھری ملا خان تھے۔ انھوں نے زیادہ عرصہ کراچی ریس کورس کی ملازمت میں گزارا۔ 60 ء کی دہائی میں ہمارے علاقے کا جو آدمی بھی کراچی جاتا، وہ انھیں ضرور ملتا۔ وہ کچھ دن اسے اپنے پاس رکھتے اور کام پر لگوا دیتے۔ علاقہ کی کئی نامی گرامی شخصیات ان کی اس خدمت سے مستفید ہوئیں۔ چوہدری محمد فضل کا شمار بھی گاؤں کے تونگروں میں ہوتا تھا۔ چودھری سواری خان کے بیٹے منظور حسین نائب تحصیل دار ریٹائر ہوئے ہیں۔

گاؤں کے ایک ہونہار بیٹے محمد یسین نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے سول انجینئرنگ میں گریجویشن کیا۔ آزاد کشمیر حکومت میں ایگزیکٹو انجنیئر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ گاؤں کی دیگر قابل قدر شخصیات میں راجہ مہدی خان ان کے بیٹے راجہ سردار خان، راجہ پہلوان خان، راجہ فضل حسین، چودھری محمد افضل، چوہدری خادم حسین، راجہ حاکم خان اور ان کے بیٹے راجہ محمد نواز اور راجہ تاج خان، راجہ اللہ داد خان، چودھری محمد زمان اور چودھری محمد اکبر نمبردار شامل ہیں۔ راجہ طارق محمود انجم گاؤں کی مسجد کمیٹی کے صدر ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں گاؤں کے بہت سے جوان برطانیہ گئے تو پھر وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ اس وقت گاؤں کے دو سو سے زائد گھرانے برطانیہ کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔1970 ء میں گاؤں کی پرانی مسجد کو شہید کر کے اس کی ازسر نو تعمیر کی گئی۔ مسجد کی تعمیر کے لیے فنڈ گاؤں کے برطانیہ میں مقیم افراد نے مہیا کیے۔ ایک عالی شان جامع مسجد کی گئی جس میں جمعہ کی نماز کا آغاز کیا گیا۔ گاؤں کے کراچی میں مقیم حافظ علام سرور صاحب نے جمعہ کی امامت اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ مسجد کی مغرب کی دیوار کے ساتھ چار دکانیں تعمیر کی گئیں۔ صوبیدار راجہ الف خان نے کپڑوں اور جوتوں کی دکان بنائی۔ پیر مقبول شاہ نے اپنا مقبول عام دواخانہ بنایا۔ راجہ پہلوان خان اور ان کے بیٹے برکت علی نے کریانہ سٹور کھولا اور عبدالرزاق مغل نے سبزی کا کام شروع کیا۔ 2000 میں مسجد کی نئے سرے سے تعمیر اور تزئین کی گئی اور زر کثیر سے مسجد میں نمازیوں کے لیے بہتر سہولیات کا انتظام کیا گیا۔ گاؤں میں ایک لڑکیوں کا پرائمری سکول اور لڑکوں کے لئے مڈل سکول قائم ہے۔ 1958 میں پوسٹ آفس بنا تھا جس کا سب آفس چل رہا ہے۔ 1982 ء میں گاؤں کو ماڈل ویلج کا درجہ دیا گیا تھا۔ جس کے لیے نہر سے گاؤں تک پختہ سڑک کی تعمیر، گھروں میں ٹائلٹس کی فراہمی اور پکی گلیوں اور سیوریج کا انتظام بہتر کیا گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے مل کر پہلے ڈاک خانے کی عمارت تعمیر کی اور پھر اپنی مدد آپ کے تحت نہر سے گاؤں آنے والے راستہ میں بارشی نالے پر پچاس لاکھ کی لاگت سے پل تعمیر کیا۔ جس کے لئے فنڈ کی فراہمی برطانیہ میں مقیم گاؤں کے افراد نے کی اور فنڈ اکٹھا کرنے میں راجہ سردار خان، راجہ ذوالفقار علی اور چودھری محمد یونس نے اہم کردار ادا کیا۔

گاؤں میں مختلف برادریاں ہونے کے باوجود سب بڑے اتفاق و سلوک سے رہ رہے ہیں۔ چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے ہیں جنھیں مل بیٹھ کر طے کر لیا جاتا ہے لیکن کبھی کوئی فساد وغیرہ نہیں ہوا۔ ہاں البتہ مجھے گاؤں میں ایک کمی ضرور محسوس ہوتی ہے اور وہ ہے تعلیم کی کمی۔ ترقی کرنے کا پہلا زینہ میرے خیال میں تعلیم کا ہے۔ جو علاقے اور گاؤں تعلیم کے میدان میں آگے ہیں وہ ہر میدان میں ترقی کر رہے ہیں۔جب ہم ساٹھ ستر کی دہائی کے گاؤں کا موازنہ موجودہ وقت سے کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ترقی کی دوڑ میں ہمارا گاؤں پیچھے رہ گیا ہے۔ آج وقت کی اہم ضرورت ہے ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ گاؤں کے لوگوں سے میری یہ استدعا ہے کہ آئیے مل کر بیٹھیں اور گاؤں کو دو بارا ایک ماڈل گاؤں بنانے کی طرف سفر شروع کا آغاز کریں۔


واپس کریں