دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یعقوب نظامی کاسفرنامہ"دیکھ میرا کشمیر "
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد


یعقوب نظامی سے میرا غائبانہ تعارف برطانیہ میں مقیم میرے دوست عبدالحفیظ نے کرایا تھالیکن تین چار دفعہ برطانیہ بلکہ ان کے شہر بریڈفورڈ جانے کے باوجود ان سے بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔2015 ء میں ایک مربی نے ان کا سفرنامہ "پیغمبروں کی سرزمین"پڑھنے کو دیا۔ سفر نامہ پڑھ کر میں نے انھیں اس سفرنامے کے بارے میںایک خط لکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی جب تین دن بعد ایمیل میں ان کا مفصل جواب بھی موصول ہو گیا۔ یوں ان سے شناسائی ہوگئی لیکن ان سے ملاقات ان کے بڑے بھائی اور میرے بزرگ دوست ایوب صابر کی وفات پر ہوئی ۔
ان کی زیادہ تر کتب سفرناموں پر مشتمل ہیں۔ یعقوب نظامی ایک ایسے سیاح ہیں جنھوں نے آدھی سے زیادہ دنیا دیکھ رکھی ہے اور اپنے ان یادگار سفروں کو قلم بند بھی کیا ہے۔ میرے خیال میں وہ سیر کے دوران ان جگہوں سے جڑی اشیاء پر یقینا کچھ نوٹس وغیرہ لکھتے ہوں گے۔ اس سے قبل مجھے ان کے سفر نامے" پاکستان سے انگلستان تک " ، " پیغمبروں کی سرزمین" اور " مقدس سرزمین" پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔
ان کا حالیہ سفر نامہ " دیکھ میرا کشمیر" اپنے ملک کشمیر کی سیر کے متعلق ہے۔میرے اپنے خیال کے مطابق اس کتاب کا نام دیکھ میرا جموںو کشمیر ہونا چاہیے تھا ۔ اس سفر کا آغاز انھوں نے اپنی اہلیہ اور اپنے قریبی عزیزوں کے ساتھ کیا ۔ اس سفر کا انتظام، سفر میں ان کے ہم رقاب ان کے بھتیجے پروفیسر الیاس ایوب نے کیاتھااس لئے انھیں برطانیہ کی طرح سفر کی تیاریوں کے جھنجٹ میں نہیں پڑناپڑا ہو گا۔
میری اس سفرنامے میں دلچسپی اس لئے بھی زیادہ ہے کیوں کہ میں نے اپنی بینک کی ملازمت کے دوران اپنے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے اور اپنے سیاحتی شوق کو پورا کرنے کے لئے آزاد ریاست کا کونا کونا دیکھ رکھاہے۔مورخ اور ادیب ہمیشہ راستوں سے گزرتے ہوئے بڑی تنقیدی اور گہری نگاہ سے ہر چیز کو د یکھتے ہیں اور ان کا مشاہدہ عام سیاحوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔نظامی صاحب بھی اپنے سفر میں جس گائوںقصبے اور شہر سے گزرے ہیں، انھوں نے وہاں بسنے والے ادیبوں،شاعروں اور سیاست دانوں کا ذکر اس سفرنامے میںکیا ہے۔
میرپور شہر سے مشرق کی طرف نکلتے ساتھ ہی بینسی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے ۔اس علاقہ سے گزرتے ہوئے پیرگلی کے مقام پر وادی سماہنی کو دائیں جانب چھوڑتے ہوئے وہ چڑھوئی کے راستے کوٹلی پہنچے ۔راستے میں پیرگلی،کالاڈب اور چڑھوئی سے گزرتے ہوئے انھوں نے اس علاقہ کے رہن سہن ، زبان ، لباس، رسم و رواج اور یہاں رہنے والی شخصیات کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔چڑھوئی کے شاعرمیاں محمد زمان کی اس سفرنامے میں شامل سی حرفی کے یہ دو مصرعے یعقوب نظامی پر صادق آتے ہیں۔
ملک پنجاب میں پھِری چُکا، دِلی جھنگ لاہور ملتان تکیا
میرپور چھَڈ دریا واں تھی پار ہویا، جہلم مندرہ تے گوجر خان تکیا
کیتے سیر سمندری جہاز اُتے،اٹلی،روس تے چین جاپان تکیا
آزاد جموں و کشمیر کا کوئی گائوں ایسا نہیں ہے جہاں کا کوئی فرد انگلینڈ میں آباد نہ ہو۔ برطانیہ میںبطور مترجم بھی یعقوب نظامی کو بے شمارکشمیری افراد سے ملنے کا موقع ملا۔ انھوں نے ان افراد کے نام اور گائوںو قصبے سے تعلق کو بھی یاد رکھا اورجگہ کی مناسبت سے ان کا ذکر کتاب میں کیا ہے۔ جموں و کشمیر دنیا کا ایک خوبصورت ملک ہے جس کو جنت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔نظامی صاحب بھی کہتے ہیں کہ کشمیر سوٹزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس سفر نامے میںوہ کالاڈب،چڑھوئی سے ہوتے ہوئے ڈونگی کے راستے کوٹلی پہنچتے ہیں ۔کوٹلی ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔ اس شہر سے اپنے ذاتی تعلق اورشہر کی خوبصورتی کو بڑی تفصیل سے انھوں نے لکھا ہے۔ کوٹلی سے انھوں نے دریا پونچھ عبور کیا اورسرساوہ سے ہوتے ہوئے وہ تتہ پانی پہنچے۔ماضی میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کے بعد نظامی صاحب کا خاندان تتہ پانی میں قیام پذیر رہااور یہ ان کی جنم بھومی بھی ہے۔دریا پونچھ کے کنارے آبادقصبہ تتہ پانی کبھی ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔اس کا مفصل تعارف کراتے ہوئے وہ دریا کے دوسرے کنارے پر موجودگرم پانی کے چشمے اور نزدیکی پہاڑی میں موجود گندھک کے ذخیرے سے بھی وہ اپنے قاری کو آگاہ کرتے ہوئے اپنا سفرسیہڑا،منڈول ،مدارپور کی طرف جاری رکھتے ہیں جہاں سے گزر کر ان کا قافلہ ہجیرہ پہنچتا ہے۔ میں نے ان علاقوں کا اتنی بار سفر کیا ہے کہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں بھی نظامی صاحب کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔
ہر علاقے کا اپنا ادب ، رومانوی داستانیں اور اپنے لوک گیت ہوتے ہیں۔عام سیاح صرف علاقے کی خوبصورتی بیان کرتا ہے لیکن نظامی صاحب سیر کرتے ہوئے ان علاقوں کی لوک داستانوں اور ان سے جڑے لوک گیتوں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔راولاکوٹ کے نزدیک تولی پیر اور بنجوسہ دو خوبصورت ترین سیاحتی مقامات ہیں۔ تولی پیر کی پہاڑی پر واقع گھاس کے میدان میں ایک مقامی خاتون کی مدھر آواز میں پہاڑی لوک گیت سنا ، اسے یاد رکھا اور وہ خوبصورت گیت اپنے قارئین کی نذر بھی کیا ہے۔
درشی نے بَنے وِچ چارنیاں مال نی
پھٹے ماہڑے کپڑے تے کھُلے ماہڑے وال نی
ہوے اماں اپنڑیں تے تَکے ماہڑا حال نی
پونجھے ماہڑے اتھروں سنبھالے ماہڑے وال نی
(میں درشی کے جنگل میں مویشی چرا رہی ہوں ۔میرے کپڑے پھٹے ہیںاور میرے بال کھلے ہوئے ہیں۔ میری ماں پاس ہوتی تو وہ میرا یہ حال دیکھ کر میری مدد کرتی، میرے آنسو پونچھتی اور میرے بال سنوارتی۔)
بن جوسہ ،راولاکوٹ،باغ،لس ڈنہ،گنگا چوٹی، چکارسے گڑھی دوپٹہ اور پھر مظفر آباد۔ راولاکوٹ سے یہ ایک خوبصورت ترین علاقے کا سفر ہے جس میں مندرجہ بالا شہر اور قصبے آباد ہیں ۔ان علاقوں کی خوبصورتی کو انھوں نے اتنے خوبصورت الفاظ و انداز میں بیان کیا ہے کہ آپ پڑھتے ہوئے ان علاقوں کی سیر کے علاوہ ان سے جڑی ہر بات سے واقف ہو جاتے ہیں۔ ایک کامیاب سفر نامہ لکھنے والے کا یہ کمال ہے۔
مظفر آباد میں نیلم اور جہلم دو خوبصورت وادیاں ہیں۔وادی نیلم آزاد ریاست کی خوبصورت ترین وادی ہے جہاں کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس وادی میں دنیا کی خوبصورت ترین جھیلیں موجود ہیں۔یعقوب نظامی اور ان کے قافلے نے پہلے وادی نیلم کا سفر کیا۔ وادی میں ان کی ملاقاتیں بہت سے مقامی افراد سے ہوئیں جن سے جو معلومات انھیں ملیں وہ انہوں نے قارئین کے سپرد کر دیں۔ اس وادی کے بیچوں بیچ دریا نیلم بہتا ہے۔پہلے یہ دریا کشن گنگا تھا جسے آزادی کے بعد ہم نے مسلمان کر کے اس کا نام دریا نیلم رکھ لیا۔ مقامی افراد اس وادی کو پسماندہ رکھنے پر اپنی حکومت اور سیاست دانوں سے شاکی ہیں جس کا اظہار انھوں نے نظامی صاحب سے کیا۔ ٹیٹوال اور کیرن میں لائن آف کنٹرول کو دیکھ کر انھیں دیوار برلن یاد آئی ۔لائن آف کنٹرول کے اس پار مقبوصہ کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کا غم بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں " کشمیر ایک جنت ہے لیکن اس جنت کے باسی دوزخ کی مانند زندگی بسر کرتے ہیں۔سیاح مقامی باشندوں کو سر سبز پہاڑوں کے درمیان کام کرتے دیکھ کر انھیں خوش قسمت قرار دیتے ہیں ،لیکن انھیں معلوم نہیں کہ اس حسن کے پردے میں یہ لوگ کس قدر دکھی اور قفس میں بند جیسی زندگی بسر کرتے ہیں " ۔ ان کا رتی گلی جھیل پر مظلوم خاوند کا قصہ پڑھ کر مجھے اپنا چند سال پہلے کا ناران کا سفر یاد آ گیا۔ لیکن اس میں مظلوم خاتون تھیں جس پر ان کے شوہر غصہ کر رہے تھے۔یعقوب نظامی نے شاردہ کی قدیم ترین درسگاہ کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔
لیپا یا وادی جہلم جانے کے لیے مظفرآباد واپس آنا پڑتا ہے۔ دریا جہلم اس وادی میں بہتا ہے ، دومیل کے مقام پر دریا نیلم اس میں مل جاتا ہے۔ ہٹیاں بالااور گڑھی دوپٹہ اس وادی کے بڑے شہر ہیں۔ اسی وادی کے ذریعے مظفر آباد سے سری نگر تک چکوٹھی بارڈر سے مقبوضہ کشمیر جانے کا راستہ کبھی کھلا تھا۔ اب بند ہے۔ لیپا وادی میں سرخ چاول پیدا ہوتا ہے ۔وادی میں قیام کے دوران دیسی مرغ کے ساتھ سرخ چاول کھائے تو یعقوب نظامی نے لیکن سفر نامے میں ان کا تذکرہ پڑھ کر اس کا ذائقہ مجھے بھی محسوس ہواکیوں کہ اس وادی میں اپنے بینک کی برانچ کھولنے کے لئے ایک رات قیام میں ہمارے میزبان نے ہماری تواضع بھی سرخ چاول ،تندور کی سرخ آٹے کی روٹیوں اور دیسی مرغ سے کی تھی۔ان وادیوں میں سیاحوں کی آمدو رفت کی وجہ سے اب مقامی لوگوں نے گیسٹ ہائوس کی تعمیر شروع کر دی ہے جس سے سیاحت کے فروغ میں مدد ملے گی۔سیاح مظفر آباد آئے اور پیر چناسی نہ جائے یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔پروفیسر الیاس ایوب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مظفرآباد میں ان کے بہت سے چاہنے والے ہیں۔یہاں قیام کے دوران ان کی وساطت سے نظامی صاحب کی بہت سے احباب سے ملاقات ہوئی ۔ان کے اس سفر کا اختتام مری کے راستے میرپور واپس پہنچنے پر ہوا۔
یعقوب نظامی نے اپنے اس سفر نامے میں سعادت حسن منٹو کے افسانوں، منشی پریم چند کے سفر نامے اور
اساتذہ کے خوبصورت اشعار اور اپنے جاننے والوں کے بارے میںمعلومات کا بڑے برجستہ اندازمیں استعمال کیا ہے جس سے سفرنامے میں قارئین کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ سفرنامے کے آخری باب میں انھوں نے اپنے شہر میرپور شہر کی سڑکوں، گلیوں، کالجوں، سکولوں ہوٹلوں،ریستورانوں،کتابوں کی دوکانوں کی بڑے خوبصورت انداز میںتصویر کشی کی ہے جس سے قاری اپنے آپ کو شہر میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔پرانے میرپور شہر سے آبادی کے انخلا اور برطانیہ آباد ہونے کی تفصیل بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔میرپور شہر سے جُڑی اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انھوں نے اُس وقت شہر میں آباد اُن شہریوں کا ذکر بھی کیا ہے جو اب اِس دنیا میں نہیں رہے یا زمانے کے حوادث کا شکار ہو کر شہر چھوڑ گئے ہیں۔ اپنے اِس دورہ کے دوران انھوں نے جتنے بھی افراد جن میں وکلا، پروفیسر صاحبان ،ادیب ،شاعر اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کیںان کا مختصر احوال بھی کتاب کا حصہ بنایاہے۔ میرپور کے نواح میں واقع بستیوں کا ذکر بھی ان کے اس سفر نامے میں موجود ہے۔ریاست چبھال کے بھمبر اور سماہنی جیسے تاریخی شہرکی سیر کرتے ہوئے وہ بابا شادی شہیدکے مزار پر بھی گئے اور لوگوں کے اندھے اعتقاد کو اپنی آنکھوں کو بھی دیکھا۔
بنجوسہ جھیل کی دیدہ زیب تصویر سے مزین سرورق اور 360 صفحات پر محیط اس خوبصورت سفرنامے " دیکھ میرا کشمیر" کو الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور والوں نے شائع کیا ہے۔چمکدار کاغذ کے 12 صفحات پر اس سفر نامے کے دوران کھینچی گئی مصنف،ان کی اہلیہ اور سفر میں شامل دوسرے افراد کی چوبیس رنگین تصاویر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں جاننے والوں کو یہ سفرنامہ ضرور پڑھنا چاہیے۔

( یہ مضمون دیکھ میرا کشمیر کی تقریب رونمائی منعقدہ گورنمنٹ کالج میرپور میں پڑھا گیا۔)
واپس کریں