دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حنا جمشید کا ناول ”ہری یوپیا“ معدوم تمدنی تہذیب کی باز آفرینی
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
” ہری یوپیا“ ممتاز محقق، افسانہ نگار اور کالم نگار حنا جمشید کا نیا ناول ہے، جو قدیم تہذیب و تمدن کے تاریخی شہر ہڑپہ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ تنقیدی مباحث، تاریخ اور ادب کے حوالہ سے ان کی تصانیف ”عالمگیریت، ثقافت اور ادب“ ، ”کلام غالب کی دو مستند شرحیں“ اور حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ان کی کتاب ”کلیلہ و دمنہ“ کے علاوہ حنا جمشید کے تحقیقی مقالات اور افسانے مختلف رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ وہ خود درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ان کا تعلق بھی تاریخی اہمیت اور اسرار و رموز کی اسی دھرتی سے ہے۔ 359 صفحات پر مشتمل ناول ”ہری یوپیا“ بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔ کتاب کی تیاری ترتیب اور چھپائی میں ان کا اپنا ایک منفرد انداز ہے۔ ممتاز مصور آفتاب ظفر نے سندھ کی قدیم تہذیب کے تاریخی پس منظر میں ناول کا بہت ہی خوبصورت سرورق بنایا ہے۔

ہڑپہ (ہری یوپیا) ایک قدیم شہر تھا جس کے کھنڈرات موجودہ پنجاب کے شہر ساہیوال کے نزدیک دریافت ہوئے ہیں۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز یہ شہر کچھ اندازوں کے مطابق 3300 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح تک آباد تھا۔ شہر کی اس وقت کی آبادی چالیس ہزار نفوس کے قریب تھی۔ یہ شہر اس لئے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس شہر اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں رہنے والے لوگ ترقی یافتہ لوگ تھے۔ وہ بڑی منظم اور منصوبہ بندی کے تحت زندگی گزارتے تھے۔ ان کے شہر میں عوام کی ضروریات کے مطابق ترتیب دی ہوئی گلیاں، کوچے، پینے کے پانی اور سیوریج کے نظام بہت عمدہ تھے۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے تاجر و زراعت پیشہ تھے جبکہ ہنر مند افراد کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس وقت بھی وہ تعمیرات میں پکی اینٹوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔

اس تاریخی شہر کے آخری سالوں کے پس منظر میں یہ ناول لکھا گیا ہے۔ ہڑپہ کے ان بیابان اور ویران کھنڈرات میں ماضی کے بہت سے اسرار و رموز چھپے ہوئے ہیں۔ حنا جمشید نے اس شہر کی تاریخ اور طرز زندگی پر تحقیق کر کے ان اسرار کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ اچھے مصنف خصوصاً ً تاریخ لکھنے والوں کے و صف کا پتہ ان کی تحریر میں بیان کیے گئے واقعات کی منظر نگاری سے چلتا ہے۔ جو منظر وہ تحریر کرتے ہیں اس کی ایک ایک جزو میں قاری اتنا محو ہو جائے اور اسے محسوس ہو کہ جیسے وہ سارے واقعات اس کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔

ایسی ہی منظر نگاری ہمیں ہری یوپیا میں نظر آتی ہے۔ ہری یوپیا، اس کے گرد و نواح کی بستیوں خصوصاً ً کالی بنگن اور اس علاقے کے ماضی کی قدیم تہذیب و تمدن و رہن سہن کو بیان کرتا ہے۔ قبل مسیح کے اس دور کی روز مرہ کی بول چال اور رہن سہن کو بیان کرتے ہوئے ناول میں ہندی اور سنسکرت زبان کے الفاظ کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے جو اس خطے میں بولی جانے والی زبانیں تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پروہتوں، کاہنوں اور مذہبی راہنماؤں کی حکومت میں بہت زیادہ عمل دخل ہوتا تھا۔ بلکہ معبدوں اور مندروں میں دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے والے ان پروہتوں اور مذہبی راہنماؤں کو اس دور میں ملک کا بے انتہا طاقتور افراد کا درجہ حاصل تھا۔ ناول میں مختلف کرداروں کے نام بھی اسی دور، مذہب اور بولی جانے والی زبان کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں۔

عورتوں کو اپنے بناؤ سنگھار، سجنے سنورنے اور زیور پہننے کا شوق زمانہ قدیم میں بھی اتنا ہی تھا، جتنا آج ہے۔ اس زمانے کا بناؤ سنگھار کتنا سادہ اور قدرتی اشیا پر مشتمل ہوتا تھا، اس کے متعلق حنا جمشید لکھتی ہیں، اس دور میں عورتوں کے استعمال کے زیورات میں پکی ہوئی مٹی سے بنے ہوئے موتی، سیپوں اور ہاتھی دانت کے ہار، آنکھوں کی سیاہی، گیروے رنگ کا ہونٹ رنگنے کا سفوف اور پتھر کے بنے ہوئے بٹن شامل ہوتے تھے۔ حنا جمشید نے ناول کا تانا بانا ہری یوپیا شہر کے پس منظر میں سدھیوا، ابھایا، سمارا، کو میل، دیشم اور ایک خوبرو نوجوان موہن اور سانولی سلونی الہڑ دوشیزہ گانیکا کے کرداروں کے اردگرد بڑی خوبصورتی سے بنا ہے۔ انھوں محلاتی سازشیں، معبد وں کے اسرار و رموز اور مقدس دیوتاؤں کی پوجا کی رسومات، ہری یوپیا شہر کے بازار، محلوں اور شہری زندگی کو بڑی خوبصورتی سے ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔

پردہ کھلتا ہے تو آپ کو ہری یوپیا کے شہر کا بیرونی منظر نظر آتا ہے۔ شہر کے گرد فصیل بنی ہے۔ شہر کے اندر داخل ہونے کا ایک ہی دروازہ ہے۔ مضبوط لکڑی سے بنا ہوا یہ بلند و بالا منقش اور خوبصورت دروازہ سر شام ہی بند کر دیا جاتا ہے۔ دور دور سے خشکی اور ایراوتی کے مقدس پانیوں میں کشتیوں پر سفر کر کے شہر تک شام کے بعد پہنچنے والوں کو شہر میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر رات شہر سے باہر کسی سرائے میں گزارنا پڑتی تھی۔ شہر میں داخلے کے لیے دروازے کے محافظوں کو رشوت بھی دینا پڑتی تھی۔ گویا اس دنیا میں رشوت کا لین دین چھ سات ہزار سال سے بھی پرانا ہے۔

قدیم زمانے میں دنیا میں شہر ہمیشہ دریا کے کنارے پر بسائے جاتے تھے۔ آج بھی برصغیر کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں زیادہ تر شہر دریا کے کنارے آباد ہیں۔ پانی زندگی کا ایک اہم ترین جزو تھا اور اب بھی ہے، جس کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔ زمانہ قدیم میں لمبے سفر دریاؤں اور سمندر کے ذریعے طے ہوتے تھے۔ پانی کو مقدس سمجھ کر دریاؤں کی پوجا کی جاتی تھی۔ پانی میں سفر کرنے والی کشتیوں کے ملاح عموماً ً بڑے جفاکش، محنتی اور طاقت ور ہوتے تھے۔

سفر میں وقت گزاری کے لیے وہ گیت گاتے تھے۔ ان کے گیت اسرار و رموز سے بھرپور، ہمت کا درس دینے والے اور کسی حد تک پرسوز بھی ہوتے تھے۔ ہری یوپیا میں سدھیوا کا کردار بھی ایسے ہی ملاح کا ہے، جو ادھیڑ عمر کا ہونے کے باوجود بہت باہمت ہے، ایراوتی کے مقدس پانیوں میں سفر کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ اس کا جوان بیٹا گم ہو گیا ہے۔ اکیلا رہ جانے کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اب بھی وہ لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ شفقت کرتا ہے۔اس کے دل میں لالچ نہیں ہے۔ بیٹے کی جدائی میں وہ بڑے پرسوز جدائی کے گیت گاتا ہے۔ ناول میں سدھیوا کا کردار پڑھ کر مجھے وہ پنجابی ملاح یاد آ گیا۔ روایت کے مطابق جس کا جوان بیٹا چھلا گم ہو گیا تھا۔ مسافروں کو دریا پار چھوڑتے وقت کشتی چلاتے ہوئے وہ بیٹے کو یاد کر کے پرسوز آواز میں گیت گاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم جنھیں سب سے زیادہ چاہتے ہیں انھیں کھو دیتے ہیں۔ چھلا آج بھی پنجابی میں گائی جانے والی ایک مقبول صنف ہے۔ چھلا بیٹوں کی جدائی پر گایا جاتا ہے کیونکہ ”جدائی سنسار کا المناک گیت ہے۔ “

ابھایا کا کردار بھی ایک منفرد خصوصیات کا مالک ہے۔ ایک بہترین سنگتراش، مٹی کے برتن اور پتھر سے زیورات اور مورتیاں بنانے کا ماہر ہے۔ بڑے دل گردے والا، کاروبار کے رموز سے واقف، لوگوں کی مدد کرنے کے جذبے سے سرشار ناول کی ہروئین گانیکا کا آخر تک ساتھ دینے والا ایسا مخلص انسان جو دوسروں کو زندگی کی حفاظت کرنے میں اپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔ ایسے بہت سے کردار اب بھی ہمارے آس پاس نظر آتے ہیں، جو چلے بھی جائیں تو ہم انھیں بھولتے نہیں ہیں۔ سنسار سے جانے والے من سے کبھی نہیں جاتے وہ یہیں ہمارے پاس ہی کہیں ہوتے ہیں۔موہن ایک جوان ہمت اور مردانہ وجاہت کا حامل نوجوان ہے۔ گانیکا بھی ہر حال میں ہمت نہ ہارنے والی بڑی باہمت، نسوانی حسن سے بھرپور دوشیزہ ہے۔ جس کے بارے میں حنا جمشید لکھتی ہیں۔ ”ناری پر زیور پھبتے ہیں جب وہ جوانی کی دہلیز الانگے اور وہ تو ابھی اس سرکش ندی پر تیرتی کچی گھاگر ہے۔ “ اسی طرح دیشم بھی سدھیوا ملاح کا گم شدہ بیٹا ہے، عزم و ہمت کی ایک مثال جو دوسروں کو بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیتا ہے۔ دنیا میں بہت سی تہذیبوں نے بڑے عروج دیکھے ہیں لیکن آج ان کا نام و نشان تک اس دنیا میں باقی نہیں رہا۔

قدرت کا ایک اپنا قانون ہے۔ بہت سی نئی بستیاں بستی ہیں، وہیں بہت سی بستیاں اجڑ بھی جاتی ہیں جس کا سبب کہیں پانی کی کمی کی وجہ سے قحط اور خشک سالی اور کہیں پانی کی زیادتی کی وجہ سے سیلاب جبکہ کہیں زلزلے اور دوسری آفات بنتی ہیں۔ جو پانی زندگی کا سبب بنتا ہے وہی زندگی مٹانے کی وجہ بھی بنتا ہے اور اسی پانی کا سیلاب ہری یوپیا کی تباہی کا سبب بنا اور اس علاقے کی تہذیب صفحہ ہستی سے مٹ گئی جس کے آثار کئی ہزار سال بعد 1926 میں دریافت ہوئے۔

ممتاز مصنف عرفان جاوید ہری یوپیا کا احاطہ بڑے خوبصورت الفاظ میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”اس تخلیق کو ایراوتی، سرسوتی، قدیم پانیوں اور امرت جل نے سیراب کیا ہے۔ اس کے پنکھی، مور، پکھی واس، موتی، منکے، ہاتھی دانت کے ہار، سرمہ دانیاں، ابرق، کانسی اور تانبے کے بٹن، ہاتھ سے زنگی سوتی چادریں، آوے میں پکی پختہ اینٹیں، دھاتی مورنیاں، بیل، گینڈے، شیر، مچھلی والی مہریں، مٹی کے گھگھو گھوڑے، معبد، پروہت، مقدس گیت، سنگیت، خاک اڑاتے رتھ، شیش ناگ اور مقامی گنھے کردار حنا جمشید نے اپنے تخلیق کردہ سنسار کی بساتھ پر بچھائے ہیں ایستادہ کیے ہیں اور متحرک کر دیے ہیں“ ۔ مجھے تو بہت عرصہ بعد ایک اچھا تاریخی ناول پڑھنے کو ملا ہے جو میں نے ایک ہی نشست میں بیٹھ کر پڑھ لیا تھا۔ میں ادب پڑھنے والوں خصوصاً ہڑپا کی قدیم تہذیب اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش کروں گا کہ انھیں یہ ناول ضرور ضرور پڑھنا چاہیے۔
واپس کریں