دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انگریزی کی کلاسک ناول نگار برونٹے سسٹرز کے گاؤں میں ایک خوبصورت دوپہر
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
معاشرہ اور اس کا ماحول ہماری شخصیت پر گہرے اثر کرتب کرتا ہے۔ دوستوں کی محفلوں میں ان کی دلچسپیوں کی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح جب آپ کسی ادیب سے ملیں گے تو پھر اس محفل میں ادب اور کتابوں کی باتیں ہوں گی۔ یعقوب نظامی برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں مقیم ادیب اور مترجم ہیں، بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے روشناسی ان کے مرحوم بھائی اور ہمارے دوست درویش منش وکیل ایوب صابر کے توسط سے ہوئی تھی۔ برطانیہ جیسے مصروف ملک میں اگر آپ نے کسی سے ملنا ہو تو اس سے پہلے ملاقات کا وقت طے کرنا پڑتا ہے۔

بریڈ فورڈ میں قیام کے دوران پچھلے منگل کو صبح فون پر یعقوب نظامی سے جب میں نے ملاقات کا وقت مانگا تو انہوں نے جواب دیا میں فارغ ہوں، آپ ابھی میرے گھر آ جائیے۔ اپنے میزبان اور پرانے ساتھی خالد مسعود کے ہمراہ ساڑھے دس بجے جب ان کے گھر پہنچے تو انھوں نے بڑی خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا۔ گھر کے پیچھے نو تعمیر شدہ کمرے (کنزرویٹری روم یعنی شیشے کے کمرے) میں بٹھایا، جہاں سے ملحقہ گولف کورس کے علاوہ بریڈ فورڈ کے مضافات کا خوبصورت نظارہ آنکھوں کے سامنے تھا۔کتابوں کا تبادلہ ہوا اور ابھی چائے پر ادب کے حوالہ سے بات شروع ہوئی تھی کہ انھوں نے ہماری دن کی مصروفیات دریافت کیں اور تجویز دی کہ گھر میں بیٹھ کر باتیں کرنے کی بجائے انگریزی ادب میں کلاسک ناول نگار بہنوں ”برونٹے سسٹرز“ کے گاؤں ہاورتھ چلتے ہیں۔ باتیں بھی کریں گے اور برونٹے خاندان کے آبائی گاؤں کی سیر بھی کریں گے۔ ہم نے فوراً چائے پی اور ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں ہاورتھ کی طرف روانہ ہوئے۔

ہاورتھ نامی گاؤں بریڈ فورڈ کے نواح میں کیتھلی کے علاقہ میں واقع ہے۔ بریڈ فورڈ 3 میں یعقوب نظامی کے گھر سے یہ گاؤں تیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ ہم ٹریفک کی وجہ سے چالیس منٹ میں ہاورتھ پہنچے۔ دو سو سال گزر جانے کے باوجود یہ گاؤں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ گاڑی سڑک پر کھڑی کر کے دو تین گلیوں سے گھوم کر ہم سینٹ مائیکل اینڈ آل اینجلز چرچ میں پہنچ گئے۔ اس چرچ میں ناول نگار بہنوں کے والد پیٹرک برونٹے پادری تھا۔چرچ آف انگلینڈ کے تابع یہ گرجا گھر چودھویں صدی میں بنا تھا اور آج بھی اسی جگہ اسی عمارت میں اپنی اصلی حالت میں قائم ہے۔ چرچ سے ملحقہ برونٹے خاندان کا قبرستان ہے۔ قبرستان میں اٹھارہویں صدی کی قبریں ابھی تک موجود ہیں۔ اس زمانے میں دیہات میں قبروں کا پکا کرنے، ان پر نقش و نگار بنانے اور ان پر کتبے لگانے کا رواج تھا۔ ہمیں بہت سی ایسی قبریں وہاں نظر آئیں۔ چرچ کے بالکل سامنے اس سے وابستہ اس سکول کی عمارت ہے جہاں ان بہنوں نے تعلیم حاصل کی۔یہ سکول بھی اندرونی تدوین کے باوجود اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ سکول سے دو تین سو گز کے فاصلے پر برونٹے خاندان کا گھر بھی موجود ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی توسیع کر کے اسے اب میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں پر برونٹے خاندان کی ذاتی استعمال میں رہنے والی اشیا رکھی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے اس دن میوزیم بند تھا اس لئے ہم اندر جا کر ان بہنوں کی ذاتی اشیا دیکھنے سے محروم رہے۔ البتہ چرچ کے دروازے کھلے تھے۔

گیارہویں صدی کے بعد انگلینڈ میں بنے گرجا گھروں کی طرز تعمیر محرابوں اور اونچی مضبوط دیواروں پر مبنی ایک جیسی نظر آتی ہے۔ پتھر کے فرش کے ساتھ مہنگی اور مضبوط لکڑی پر نقش و نگار کے ساتھ رنگین شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ چرچ کے اندر گزارا اور وہاں پر نصب مختلف اشیا کا بغور معائنہ کیا۔ ساتھ ساتھ ان کی تفصیل اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے رہے۔ چرچ سے نکل کر ہم ہاورتھ گاؤں کے مختصر سے بازار میں پہنچے۔ اٹھارہویں صدی کی بنی پتھر لگی گلیاں اسی طرح قائم ہیں۔ اس زمانے کی بنی ہوئی پرانی دکانیں بھی آج تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ چھوٹے سے بازار میں کتابوں کی تین چار دکانیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ایک ایسی دکان جہاں سے وہ اپنا سامان خریدتے تھے اس کے باہر ہم نے تصویریں بھی اتروائیں۔ گاؤں کی واحد پتھروں سے بنی سڑک پر چلتے ہوئے اچانک ایسے لگا کہ ابھی کسی گلی سے شارلٹ برونٹے یا ایملی برونٹے نکل کر سامنے آ جائے گی اور ہمیں وہاں دیکھ کر حیران ہو جائے گی کہ یہ ہم کہاں سے اس کا گاؤں دیکھنے آ گئے ہیں۔اٹھارہویں صدی میں شارلٹ برونٹے، ایملی برونٹے اور اینی برونٹے کا ہاورتھ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں تینوں بہنیں اپنے خاندان کے ہمراہ بڑی عسرت کی زندگی گزار رہی تھی۔ شہر سے دور بنیادی سہولتوں سے محروم اس پسماندہ دیہات میں زندگی کتنی کٹھن ہو گی اس کا تصور کر کے روح ایک دم جھنجھنا اٹھی۔ دو گھنٹے گاؤں میں گزارنے کے بعد ہم واپس بریڈ فورڈ کی طرف روانہ ہوئے۔

پیٹرک برونٹے اور ماریہ برونٹے انیسویں صدی کا ایک ادبی خاندان تھا جو بریڈ فورڈ کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاؤں تھورنٹن میں آباد تھا۔ پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت ان کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بچے پیدا ہوئے۔ پیٹرک برونٹے ہاورتھ میں واقع چرچ آف انگلینڈ کے تابع سینٹ مائیکل اینڈ آل اینجلز نامی اس گرجا گھر سے وابستہ ہوئے تو یہ خاندان ہاورتھ منتقل ہو گیا۔ عسرت کا زمانہ تھا، ناکافی طبی سہولتوں کی وجہ سے دو بڑی بیٹیاں کم عمری میں فوت ہو گئیں۔1821 ء میں بچوں کی والدہ ماریہ برونٹے کا بھی کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ بچے ابھی بہت چھوٹے تھے ان کے والد پیٹرک برونٹے مشکلات کا شکار ہو گئے۔ انھوں نے بیوی کی بہن کی مدد سے بچوں کو پالا۔ والدہ کے انتقال کے بعد بڑی بہن شارلٹ برونٹے چھوٹی عمر میں ہی اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائی کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ پیٹرک برونٹے کی تینوں چھوٹی بیٹیوں شارلٹ برونٹے، ایملی برونٹے اور اینی برونٹے نے شاعری اور ناول نگاری میں بہت نام کمایا۔ان کے تحریر کردہ ناول جین آئر، وودھرنگ ہائٹس اور دی ٹیلنٹ آف وائلڈ فیل ہال کو انگریزی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہوا۔ اپنی تحریروں کی وجہ سے یہ بہنیں ساری دنیا میں جانی جانے لگیں اسی لئے دو سو سال گزرنے کے باوجود ہاورتھ گاؤں کو برطانوی حکومت نے ابھی تک اپنی اصلی حالت میں برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس گاؤں کو دیکھنے آتے ہیں۔

شارلٹ برونٹے 1816 ء میں پیدا ہوئیں اور 1855 ء میں اڑتیس سال کی جواں عمری میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایک استاد تھیں جنہوں نے دو سو نظموں کے علاوہ جین آئر (Jane Eyre) جیسا شہرہ آفاق ناول تحریر کیا جسے انگریزی ادب میں ایک کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ ماں کے انتقال کے بعد اس نے اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائی کا بہت خیال رکھا۔ ان کو ماں کے علاوہ چھوٹی بہنوں کی موت کے صدمے سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ایملی برونٹے بھی بریڈ فورڈ کے نواح میں واقع چھوٹے سے گاؤں تھورنٹن کی مارکیٹ سٹریٹ میں 1818 ء میں پیدا ہوئیں۔ بچپن میں وہ بہت شرمیلی اور چھوئی موئی سی تھیں۔ والدہ کے دنیا سے جلدی رخصت ہونے کی وجہ سے بچپن میں ہی اسے کتابوں میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ روایتی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اس نے بائرن، شیلے اور سر والٹر سکاٹ کو بھی دلچسپی سے پڑھا۔ ان کے تحریر کردہ ناول ”وودھرنگ ہائٹس“ ( Wuthering Heights) کو انگریزی ادب میں ایک کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ وہ بڑی نازک سی گڑیا جیسی تھیں جو موسم اور حالات کی سختیاں نہ سہ سکیں اور 1848 ء میں تیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

اینی برونٹے 1820 ء میں پیدا ہوئیں۔ چرچ آف انگلینڈ کے ایک غریب آئرش پادری کی بیٹی اور اپنی بہنوں شارلٹ، ایملی اور بھائی بران ویل میں سب میں چھوٹی تھیں۔ گھر میں ادبی ماحول ہونے کی وجہ سے وہ بھی اپنی بڑی بہنوں کی طرح شاعرہ اور ناول نگار بنیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ ہاورتھ میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارا۔ چھ سال تک گورننس کے طور پر کام کیا۔ 1846 میں بہنوں کے ساتھ شراکت میں ان کی نظموں کا مجموعہ شائع ہوا اور اس کے بعد ان کے دو ناول شائع ہوئے۔ ان کے ناول دی ٹیلنٹ آف وائلڈ فیل ہال (The Tenant of Wildfell Hall) کو بھی انگریزی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ وہ 29 سال کی عمر میں 1849 ء میں انتقال کر گئیں۔

برونٹے خاندان ہاورتھ نامی اس چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والا ایک علمی اور ادبی گھرانا تھا۔ تینوں بہنیں شاعر اور ناول نگار تھیں جب کہ بھائی بھی ایک بہترین مصور اور مصنف تھے۔ اس خاندان کی بدقسمتی کہ اس کے زیادہ تر افراد جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ انیسویں صدی میں ایک چھوٹے سے پسماندہ گاؤں میں غربت اور عسرت کی زندگی بسر کرنے والی تینوں بہنوں نے انگریزی ادب میں اتنے شاہکار ناول تصنیف کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ادب کی تخلیق بڑی جگہوں پر رہنے والوں کی میراث نہیں ہے بلکہ چھوٹی جگہوں پر رہنے والے بھی بڑا ادب تخلیق کر سکتے ہیں۔

واپس کریں