دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"گزرے دن " ڈاکٹر حسن مظہر کی ڈائری کے اوراق
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
ہمارے بہت سے ادیب اور شاعر دوستوں کا تعلق طب کے شعبہ سے ہے۔جتنی اعلی اور انتہائی مہارت وہ اپنے میڈیکل کے شعبہ میں رکھتے ہیں اس سے اچھے وہ ادیب ہیں اوربہت اچھی شاعری بھی کرتے ہیں۔ان کے خیالات کا کینوس بہت وسیع اور ان کی سوچ بڑی منفرد اور ان کا ذوق انتہائی اعلی ہوتا ہے۔ برطانیہ سے واپسی پر جب عزیزم گگن شاہد نے "گزرے دن " بک کارنر جہلم پرمیرے حوالہ کی تھی تو میرا خیال تھا کہ یہ ڈاکٹرحسن مظہر کی خود نوشت یا سوانح حیات ہو گی ۔لیکن جب پڑھنی شروع کی تودیکھا کہ کتاب کے ابتدا میں ڈاکٹر صاحب نے خود ہی وضاحت کر دی ہے کہ یہ خود نوشت نہیں ہے بلکہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں ان کے نائیجیریامیں قیام کے دوران ان کی لکھی گئی روزانہ کی ڈائری کے اوراق ہیں ۔

وفاقی جمہوری نائیجیریامغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ یہ بحر اوقیانوس کے شمال میں ساحل اور جنوب میں خلیج گنی کے درمیان 923769 مربع کلومیٹر پر واقع ہے جو23 کروڑ کی آبادی کے ساتھ افریقہ کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ملک میں مسلمان اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ نائیجیریہ1884 ء برطانوی نو آبادی بنا تھا جس کو1960 ء میں برطانوی تسلط سے آزادی ملی۔ڈاکٹر حسن مظہر نے اپنی جوانی کے دو خوبصورت سال اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ملازمت میںاس نئے آزاد ہونے والے ملک میں گزارے۔ یونیسیف نے مشرق وسطی ،مشرق بعید ،افریقہ اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں بیماری، بھوک اور افلاس ختم کرانے میں بہت کام کیا تھا۔نائیجیریا میں ڈاکٹر صاحب کا بنیادی کام وہاں برص اور جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کا علاج کرنا تھاجو یونیسیف کے ادارے کا دنیا میںجذام اور برص کے مرض پر قابوپانے کا ایک بڑا منصوبہ تھا ۔

ڈاکٹر صاحب میں کالج کے زمانے سے ہی ادیبوں والے جراثیم موجود تھے۔کالج کے دور سے ہی ان کا اٹھنا بیٹھنا ادیبوں اور شاعروں کی سجائی ہوئی ادبی محفلوں میں ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹر حسن مظہر نے نوجوانی سے ہی ڈائری لکھنا شروع کر دی تھی۔ ڈائری لکھنے والے روزمرہ کے واقعات کو مختصر فقروں میں لکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور چھوٹی سی جگہ پر اختصار نویسی سے بہت کچھ لکھ لیتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اپنے مرحوم والد گرامی کی ڈائریاں پڑھ کر ہوا۔ وہ بھی روزانہ ڈائری عکھنے کے عادی تھے۔ انھوں نے اپنے آخری ایام تک اپنی سب ڈائریاں بڑی سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں، جو اب ہمارے پاس ان کاسب سے قیمتی ترین ورثہ ہے۔
"گزرے دن "ڈاکٹرصاحب کے نائیجیریا میں قیام کے دو سالوں جولائی 1967 ء سے لے کر مئی 1968 ء تک کے قیام میں اپنی ڈائری پر لکھے گئے روزنامچہ کی تفصیل پر مشتمل ہے۔وہاں اپنے قیام کے دوران انھوں نے افریقی تہذیب و معاشرت کا بڑی بارک بینی سے مشاہدہ کیا اور اپنے ان مشاہدات کو اپنے الفاظ میں اپنی ڈائری میںتحریر کرتے رہے۔ اپنی ڈیوٹی اور مریضوں کے علاج کی تفصیل اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیل پڑھ کر میری نظروں میں ڈاکٹرحسن مظہر کی شخصیت کی قدر ایک ادیب سے زیادہ بحیثیت ایک انسان کے طور بہت بڑھ گئی ۔نامسائد حالات اور بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی کے باوجود افریقہ کے نیم خواندہ اور غریب لوگوں کی خدمت کے علاوہ برص اور جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال کا جذبہ دیکھ کر میں ان کامعترف ہو گیا۔آج ڈاکٹر صاحبان میں انسانیت کی خدمت کا وہ جذبہ اب عنقا ہو گیا ہے۔

کتاب کے مطالعہ کے دوران جو تحریریں مجھے اچھی لگیں وہ میں اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ افریقہ میں مرد و خواتین کا اپنے اوپری جسم کا کھلا رکھنا ان کی تہذیب ہے۔زمین کا شت کرنے والے کی ہے جو بھی کاشت کر لے کے نظام کے تحت وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔یہاں والوں کا پھل اور ترکاری چھیلنے کا طریقہ ہم سے مختلف ہے ; ہم چھیلتے ہیں تو چھری یا چاقو کا رخ ہماری طرف ہوتا ہے ،یہاں والوں کا خود سے دور۔غلاموں کی تجارت کے معاہدے کے لیے مقامی بادشاہ کو بندرگاہ میں کھڑے جہاز پر بلانا اور اس کا انکار اس وقت کی ملکی قیادت کی خودداری کا غماز ہے۔کتابیں پڑھنے سے آپ کو کتاب میں بہت سی اچھی باتیں اور اقوال زریں مل جاتے ہیں جن پراگرآپ اپنی زندگی میں عمل کریں تو بہتری آ سکتی ہے۔ایسی ہی بہت سی اچھی باتیں آپ کو اس کتاب میں ملتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن سٹی کائونسل میں ایک جلسے میں نائیجیرین مقرر نے کہا" کوڑھی قابل نفرت ہیں اور انھیں شہر سے دور رکھنا چاہیے "
تو انھوںنے فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر کہاکہ قابل نفرت چیز " کوڑھ "ہے نہ کہ "کوڑھی"۔ایک اور واقعہ جس میں جذام کے ایک مریض کو ہسپتال کی عمارت کے ایک کمرے میںفرش پر بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے خود اس کی مرہم پٹی کی اور اس کو ہسپتال کے بستر پر لٹایا ،جس کے بعد ہسپتال کا سارا عملہ اس مریض کے قریب آیا اور اس کاعلاج کرنے لگا۔یہ واقعہ پڑھ کر بہت اچھا لگا ۔ انسانیت کی خدمت کا یہ کتنا بڑا فریضہ ہے جو ڈاکٹر صاحب نے خود انجام دے کر ایک مثال قائم کی۔اسی طرح ان کے بیان کیے گئے واقعات میں یونیسیف کی نرسوں کی مریضوں کے لیے اپنی زندگی دائو پر لگانا اورصفائی کا کام کرنے والے لوگوں کو حفظان صحت کے اصولوں کواچھی طرح سختی سے چیک کرناخدمت کے جذبے کے بغیر ناممکن ہے ،اب تو یہ جذبہ بھی خواب و خیال ہو گیا ہے۔نائجیریا میں فوج کے سول حکومت کا تختہ الٹنے پر ان کا مختصر تبصرہ اپنے ملک کے تناظر میں بہت برمحل لگتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں " اچانک مسلط کی جانے والی حکومتیں اسی طرح آتی ہیں اور سوسائٹی کو عرصہ دراز کے لیے متزلزل کر جاتی ہیں "۔

تعلیم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ جدید تعلیم کی روشنی اپنے ساتھ وہ فضا لاتی ہے جس میں ایک انسان دوسروں کے حقوق پہچاننے لگتا ہے،صحت کے اصولوں کو اپناتا ہے اور قومی تنگ نظری کو گو نہ بھی چھوڑے مگر اسے برا ضرور سمجھنے لگتا ہے۔ مختلف قومیں امن سے ایک ساتھ رہنے کا گر سیکھ جاتی ہیں جیسے یورپ میں دیکھا گیا ہے۔ وہ اپنی ڈائری میں روزانہ رات کو دیکھے گئے خواب کی تفصیل بھی نوٹ کرتے رہے ہیں۔ اپنی زوجہ محترمہ کے بیان کیے ہوئے کچھ خواب بھی احاطہ تحریر میں لائے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے وہ خوابوں کی دنیا اور ان کی تعبیروں کا کافی ادراک رکھتے ہیں۔اپنے پورے دن کی کارگزاری، ہسپتال میں گزرے ہوئے لمحات اور سفرکے دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیل، عرب اسرائیل کی جنگ کے باتیں اور خبریں اور اس کابراعظم افریقہ پر اثر ،فوجی حکومت کی سختیاں،خانہ جنگی اور باغیوں سے لڑائی ،چھوٹے شہروں میں رہنے والوںکے معمولات، مشکلات اور ان کا حل، اپنے ملک اور دوسرے ممالک کے ملازمین سے ملاقاتوں کی تفصیل بھی وہ اپنی ڈائری میں لکھتے رہے ہیں۔نائیجیریا جیسے افریقی ملک میں اردو فلموں کا سنیما میں مل جانا ایک بڑی سوغات تھی جس سے انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

ڈاکٹر اولودھے میڈیکل ہیلتھ آفیسر جیسے افسران اب کم ہی ملتے ہیں جو اپنے جونیئر کا بینک اکائونٹ کھلوا کر انھیں بچت کی ترغیب دیتا تھا جس کی بنا پر وہ ملازمین اس بچت سے اپنا ذاتی مکان بنا لیتے تھے۔بیرون ممالک میں تارکین وطن عیدیں کیسے مناتے ہیں،عیدوں پر اپنا وطن کیوں یاد آتا ہے۔پاکستانی فارن سروس والے افسربیرون ملک اپنے لوگوں سے کیسے ملتے ہیں، پردیس میں کیسے عیدیں اپنے لوگوں سے مل کر اور اکٹھا کھانا کھانے میں گزر جاتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پردیس میں بننے والی رفاقتیں ہمیشة قائم رہتی ہیںاور دیرپا ثابت ہوتی ہیں۔ فروری 1968میں سفر کے دوران اُن سردار جی کا واقعہ بھی انھوں نے بڑے دلچسپ پیراہے میں بیان کیا ہے جو پینے پلانے کے ساتھ موسیقی کے بھی دلداداہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک نوکریوں کا ایک فائدہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہاں بیویاں کھانا پکانا سیکھ جاتی ہیں۔ نائیجیریا چھوڑ کر اعلی تعلیم کے لیے ایڈنبرا جانے پر ان کو یہاں سے اپنی جمع پونجی کی ترسیل میں جو مشکلات آئی وہ بھی انھوں نے آخری باب میں بیان کی ہیں۔ ان کے لکھنے کی انداز اتنا دلچسپ ہے کہ قاری اس میں کھو سا جاتا ہے۔ منظر نگاری ایسی ہے کہ پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ آپ کے سامنے رونما ہو رہا ہے۔

ایک ایسا قابل اور اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر جسے بیرون ممالک میں بے شمار ملازمت کے مواقع ملے ہوں اور وہ پھر بھی خداداد مملکت پاکستان کو اپنا مسکن بنائے تو ایسے انسان کی ہمیں دل سے عزت کرنی چا ہیے۔ 487 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بک کارنر جہلم نے چھاپی ہے ۔ اس میں غلطیوں کااحتمال نہ ہونے کے برابر ہوگا اور مجھے تو کوئی ایسی نظر نہیں آئی۔ خوبصورت یادوں اور واقعات پر مشتمل یہ ایسی کتاب ہے جس سے ہمیں انسانیت کی خدمت ، نامسائد حالات میں محنت اور لگن سے کام کرنے کی ہمت اور جدو جہد کا درس ملتا ہے۔

واپس کریں