دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
منگلا ڈیم
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
دریا جہلم اب بھی نئے میرپور شہرکے مغرب میںبہہ رہا ہے۔قدیم تاریخی میرپور شہر1967ء میں منگلاڈیم بننے پر منگلا جھیل میں دریا جہلم کے پانی میں غرق ہو گیا تھا۔ میرپور سے چند کلومیٹر کی دوری پر دریا جہلم کے بائیں کنارے واقع منگلا ایک تاریخی اہمیت کامقام ہے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ یونانی بادشاہ الیگزینڈر 326 قبل مسیح میں منگلا کے مقام سے دریا جہلم عبور کر کے مہاراجہ پورس کی فوجوںپر حملہ آور ہوا تھا۔ منگلا کی سب سے اونچی پہاڑی پر منگلا دیوی جومہا راجہ پورس کی بیٹی بتائی جاتی ہے، کا مندر تھا۔اسی مقام پر صدیوں سے بنے منگلا قلعہ کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ریاست کھڑی کھڑیالی کا صدر مقام بھی عرصہ دراز تک اسی منگلا قلعہ میں قائم رہا۔پنجاب کے ضلع گجرات اور اس کے قریبی علاقہ کو سیراب کرنے کے لیے برطانوی راج میں بیسوی صدی کی پہلی دہائی میںنہر اپر جہلم بھی منگلا کے مقام سے نکالی گئی تھی۔اس لحاظ سے منگلا ایک قدیم تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے۔

نو زائیدہ پاکستان میںمعیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر تھا۔زراعت کی ترقی کے لئے آب پاشی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔مغربی پاکستان میں دریا ہونے کے باوجود ان کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت پاکستان نے زراعت میں آب پاشی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے دریائوں کے پانیوں کو ذخیرہ کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں1950 ء میں دریائوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا منصوبہ بنا ۔ 1951ء میں مغربی پاکستان کے محکمہ آب پاشی نے منگلا کے مقام پر دریاجہلم کے پانی کو روک کرذخیرہ کرنے کی پہلی سکیم تیار کی۔ اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے1952ء میں حکومت نے منگلا کے مقام پر ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا یاجس کے تحت ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔اس کمیٹی کا کام کسی اچھی بین الاقوامی فرم کی مشاورت سے منگلا کے مقام پر ڈیم تعمیر کرنے کامنصوبہ تیار کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک امریکن کمپنی ٹپٹن اینڈ ہل (Tiptan & Hill) کی خدمات حاصل کی گئیں جس نے اس جگہ کا تفصیلی معائنہ کر کے اور مقامی انجینئرز کی مشاورت سے 1954 ء میں اپنی سفارشات حکومت کو پیش کیں۔ انھوں نے اس مقام پر346 فٹ بلند ڈیم بنانے کی سفارش کی تھی۔ ڈیم میں مجموعی طور پر 41 لاکھ مکعب ایکڑ فٹ (4.1 MAF) پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔1957ء میں حکومت پاکستان نے منگلا ڈیم آرگنائزیشن قائم کی اورمنگلا ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کے لئے ایک برطانوی مشاورتی انجینئرنگ فرم بینی اینڈپارٹنرز لندن (Binnie & Charter London) کی خدمات حاصل کیں۔فرم نے منگلا کے مقام پر ڈیم بنانے کے پراجیکٹ پر ابتدائی کام شروع کیا۔اس مشاورتی فرم کی کور کمیٹی نے منگلا کے مقام پر 380 فٹ اونچا ڈیم بنانے کی سفارش کی جس میں 53 لاکھ 50 ہزارمکعب ایکڑ فٹ(5.35 MAF) پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھی گئی۔حکومت پاکستان نے1960ء میں منگلا ڈیم پراجیکٹ کو سندھ طاس میں شامل کر لیا گیا۔

آزادی ہند کے بعدہندوستان اور پاکستان میں دریائوں کے پانی کی تقسیم کا تنازعہ شروع ہوا توورلڈ بینک کی ثالثی میں مذاکرات شروع ہوئے ۔ کافی غوروخوض کے بعد دونوں ممالک میں پانی کی تقسیم پر اتفاق ہو گیااور 19 ستمبر1960ء کو کراچی میں دونوں ممالک میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے پا گیا جس کو سندھ طاس سمجھوتا کا نام دیا گیا۔ انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو، ورلڈ بینک کے مسٹرڈبلیو،اے،بی لف اور صدرِپاکستان جنرل محمد ایوب خان نے اس سمجھوتے پر دستخط کیے۔ سندھ طاس سمجھوتے کے تحت دریا جہلم، دریاچناب اور دریاسندھ کا پانی پاکستان کے حصہ میں آیا اور دریا راوی،دریا بیاس اوردریا ستلج کے پانیوں پر ہندوستان کا قبضہ ہو گیا۔

ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس سمجھوتا طے پاتے ہی حکومت پاکستان نے منگلا ڈیم تعمیر کرنے کی منظوری دے دی۔منگلا ڈیم کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات میں ورلڈ بینک کے قرضہ کے علاوہ امریکہ،برطانیہ،مغربی جرمنی، کینیڈا، اسٹریلیا،نیوزی لینڈ اوربھارت نے رقم فراہم کرنے کی حامی بھری تھی۔ڈیم کی تعمیر کے لیے بین الاقوامی ٹینڈر دینے اور نگرانی کے لیے ایک برطانوی فرم بینی اینڈپاٹنر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جون1961 میں منگلا ڈیم کی تعمیر کا بین الاقوامی ٹینڈر جاری ہو گیا۔ 15نومبر 1961 کوامریکن فرم ایٹکنسن (Atkinson) کی سربراہی میں آٹھ بین الاقوامی کمپنیوں کے کنسورشیم نے سب سے کم تعمیری اخراجات کا تخمینہ دے کریہ ٹینڈر حاصل کر لیا۔ کنسورشیم میں شامل کمپنیاں آسٹرینڈر کنسٹرکشن(Ostrander Construction)، والش کنسٹرکشن (Walesh Construction) ایس۔جے۔گروکر (SJGroker) ہنری(Henery)
ٹرپرسی جے لینگرفیلڈ(Triper CJ Langerfiled)،شکاگوبرج اینڈ آئرن(Chicogo Bridge & Iron) شامل تھیں۔ٹینڈر کی مالیت 35کروڑ 39 لاکھ 63ہزار 6 سو31 (UD$ 353,963,631)امریکن ڈالر تھی جس کی اُس وقت پاکستانی روپوں میں مالیت ایک ارب 68 کروڑ 55 لاکھ 34 ہزار 6سو52(Rs.1685,534,652) روپے تھی۔ساٹھ کی دہائی میںتعمیری لاگت کا دنیا کا ایک بہت بڑا ٹینڈر تھا ۔ویکیپیڈیہ کے مطابق منگلا ڈیم کی تعمیر پر کل لاگت ایک ارب سینتالیس کروڑتیس لاکھ امریکن ڈالر(UD$ 1.473 Billion) آئی جس کی مالیت اس وقت پاکستانی روپوں میں 15 ارب 58کروڑ 70لاکھ روپے(Pak Rs.15.587 Billion ) تھی ۔ منگلا ڈیم میں پانی کو روکنے کے لئے بنیادی طور پر سات کروڑ ساٹھ لاکھ مکعب گز پشتوں کی تعمیر ہونا تھی۔جس میں سکھیاں ڈائیک ایک کروڑ تیس لاکھ مکعب گز ،مرکزی سپل وے دو کروڑ ستر لاکھ مکعب گز، ایمرجنسی اخراج کے لئے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ مکعب گز، بنگ کینال ایک کروڑ ایک لاکھ مکعب گز اور جڑی کس ڈیم تین کروڑ چالیس لاکھ مکعب گز تھا ۔ پانچ سرنگوں سے سالانہ چھ کروڑ پچاس لاکھ مربع گز پانی کے اخراج کی گنجائش رکھی گئی تھی۔منگلا ڈیم مٹی اور پتھروں سے بننے والا اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کے لئے دنیا کاسب سے بڑا ڈیم تھا۔

امریکی، برطانوی اور یورپین کمپنیاں دنیا میں جہاں بھی کام کرتی ہیں اپنے کارندوں کی رہائش اور کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے پر خصوصی توجہ دیتی ہیں تا کہ وہ اطمینان سے اپنا کام کر سکیں۔منگلا ڈیم تعمیر کے کام کی نگرانی اور کام کرنے والی کمپنی اور کنسورشیم کے چیف ایگزیکٹو اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ امریکہ سے سولہ ہزار کلومیٹر کی دوری پر امریکن اور یورپین انجینئرز اور ان کے خاندان کی رہائش کے لئے دریا جہلم کے دائیں کنارے پر برل گائوں کے مقام پر سب سے پہلے رہائشی کالونی کی تعمیر شروع ہوئی۔ امریکن اوریورپین انجینئرز اور ان کے خاندانوں کے لیے 375 رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ اکیلے افراد کے لئے105کمروں پر مشتمل پانچ کوارٹرز تعمیر کیے گئے۔برطانوی کمپنی بینی اینڈپارٹنر کے منتظمین ،انجینئرز اور ان کے خاندانوں کے لیے مزید88 رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ان رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے 90 لاکھ اینٹیں استعمال ہوئیں جو نزدیکی بھٹوں پر تیار کی گئی تھیں۔ ان رہائشی مکانات میں استعمال کے لئے معیاری اور پائیدار فرنیچر مقامی مارکیٹ میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یورپ سے درامد کرنا پڑا۔ ڈنمارک کی ایک کمپنی کو فرنیچر فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ڈیم پر کام کرنے والے یورپین اور امریکی انجینئرز کے بچوں کی معیاری تعلیم کے لئے ایک عالمی معیار کی درسگاہ منگلا انٹرنیشنل سکول کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں پڑھانے کے لیے امریکہ اور یورپ سے اساتذہ کی بھرتی گئی۔ لوگوں کی صحت اور طبی امداد کے لئے 86 بستروں کا ایک جدید ترین ہسپتال بنایا گیا۔ کھیل کے میدان، جم خانہ اور بائولنگ کلب کے علاوہ بلیرڈ کلب اورسومنگ پول بنائے گئے۔خوراک اور دیگر سامان کی خریداری کے لیے برل میں سپر مارکیٹ اور پولٹری فارم بنایا گیا۔غرض کہ برل کے مقام پر ایک نیا شہر بسایا گیا۔ نو تعمیرشدہ گھروں میں موسم کی سختیوں اورگرمی سے بچائو کے لئے امریکن کمپنی ڈائیکن کی ذیلی کمپنی امانہ سے 2500 ائرکنڈیشنڈ خریدے گئے۔ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے اس کمپنی سے معائدہ کیا گیا۔ برل میں بسنے والے انجنیئرز اور ان کے خاندانوں کی حفاظت کے لیے ایک ریٹائرڈ امریکن شیرف کی خدمات حاصل کی گئیں، جس نے مقامی سابق فوجیوں کو لے کر ایک سیکورٹی کمپنی کھڑی کر لی۔منگلا ڈیم میں کھدائی اور تعمیر کے لیے استعمال ہونے والی بھاری مشینری ، کرینیں،ٹرک ،پک اپ اور لینڈرور گاڑیاںامریکہ اور برطانیہ سے درامد کی گئیں، جو بحری جہاز سے کراچی بندرگاہ تک پہنچیں ،پھر کراچی سے یہ سارا سامان بذریعہ ریل گاڑی منگلا پراجیکٹ تک پہنچایا گیا۔اس کے لیے دینہ ریلوے سٹیشن سے منگلا وئیرہائوس تک نئی ریلوے لائن بچھائی گئی۔ منگلا میں رہائش پذیر خاندانوں کی نقل و حمل اور بیرون ممالک روانگی کے لیے منگلا پراجیکٹ سے چند میل دور ایک عارضی ہوائی اڈا تعمیر کیا گیا۔اس وقت تک ملک میں واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا کراچی میںتھا۔امریکہ اور برطانیہ سے کراچی پہنچنے والے خاندانوں کو چھوٹے طیارے کے ذریعہ منگلا ائیرپورٹ پر پہنچایا جاتا جہاں سے وہ منگلا اپنے گھروں تک پراجیکٹ کی گاڑیوں میں چلے جاتے۔ "

مشہور امریکن رسالے ٹائم میںیکم دسمبر1967ء کو منگلا ڈیم پر ایک مضمون چھپا جس میں لکھا تھا۔"کبھی منگلا مہاراجوں کا فوجی گڑھ تھاجہاں اب دو ارب ڈالر کی لاگت سے دنیا کے سب سے بڑے آب پاشی کے منصوبے کی تکمیل ہو رہی ہے، جس سے 3 کروڑ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی اور سند ھ طاس میں بسنے والے 5 کروڑ لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ فرانسسکو کی گائے ایف اٹکنسن کمپنی کی سربراہی میںکنسورشیم چھ سال سے کم مدت میں 510ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کر کے ساٹھ لاکھ ڈالر بونس لینے کی تیاری میں ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت سے پچاس میل مشرق میں ایک گرم اور گردآلود میدان میں 2500 امریکی اور یورپین کارکنوں کی رہائش کے لیے ایک مکمل ائرکنڈیشنڈ قصبہ بسایا گیا ہے۔ 18 ہزار سے زیادہ مقامی افراد کو تعمیراتی کام کی تربیت دے کر منصوبہ میں کام پر لگایا گیا ہے۔"

منگلا ڈیم پراجیکٹ پر دن رات کام ہوا۔چھ سال کی مقررہ مدت سے ایک سال پہلے اٹکنسن کمپنی کے کنسورشیم نے ڈیم کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا۔5 جولائی 1967 ء کو بجلی پیدا کرنے والے پہلے یونٹ نے کام شروع کر دیا اور اس کے بارہ دن بعد17 جولائی 1967 ء کو دوسرے دو یونٹ نے بھی کام کرنا شروع کر دیا جس پر ڈیم اور پاور ہائوس مقامی انجنیئرز کے حوالہ کر دیا گیا ۔23 نومبر1967ء ایک خوبصورت اور روشن دن تھا جس دن منگلا ڈیم کا افتتاح ہوا۔افتتاحی تقریب میں صدر پاکستان جنرل ایوب خان ، امریکن سفیر اور ان کی اہلیہ،اٹکنسن کمپنی کے سربراہ اور ان کی اہلیہ کے علاوہ اور کنسورشیم میں شامل سب کمپنیوںکے سربراہان بھی موجود تھے۔ ڈیم کی تعمیر میں مالی مدد کرنے والے سب ممالک کے سفیر بھی اس شاندار تقریب میں شریک تھے۔اس موقع پر منگلا قلعہ کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔انڈیا سمیت ڈیم کی تعمیر میں مالی امداد دینے والے سب ملکوں کے جھنڈے تقریب میں لہرائے گئے تھے۔بجلی کی پیداوار کے لیے منگلا ہائیڈل پاور سٹیشن پر چار یونٹ لگائے گئے جن کی پیدوارفی یونٹ 100 میگا واٹ تھی ،یونٹ نمبر 5 اور6 نے 1974ء میں کام شرو ع کیا جبکہ یونٹ نمبر7 اور8 اس کے چند سال بعد 1981ء میں لگائے گئے۔1994ء میں یونٹ نمبر9 اور 10کی تنصیب سے منگلا پاورر سٹیشن کی بجلی کی پیداواری استعداد1000 میگا واٹ تک پہنچ گئی۔

منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ۔
منگلا ڈیم کی تعمیر کے تیس سال بعد ہی سلہٹ جمع ہونے کی وجہ سے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 7.25 ارب مکعب میٹر (5.88 ملین ایکڑ فٹ)سے کم ہو کر 5.77 ارب مکعب میٹر (4.674 ملین ایکڑ فٹ)رہ گئی تھی۔ منگلاڈیم سے سلہٹ صاف کر کے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانا ڈیم کی نئے سرے سے تعمیر سے بھی بڑا کام تھا۔ اس لئے منگلاڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانے کی خاطر ڈیم کو اونچا کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ابتدائی منصوبہ کے مطابق ڈیم کی اپ ریزنگ پر خرچہ کا تخمینہ کل 65 ارب کا تھا جس میں30 ارب منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کو دئیے جانے والے معاوضے کی رقم بھی شامل تھی۔ یہ منصوبہ 2004 ء میں پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا۔ بد قسمتی سے ملک کے سیاسی حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوا۔۔ اس منصوبے پر کام 2004ء میں کام شروع ہوا اور 2009 ء تک 101.384 ارب کی لاگت سے ڈیم کے پشتوں کو اونچا کرنے کا کام ، اسپل وے اور اس سے منسلک کام مکمل کر لئے گئے۔اس منصوبہ کی تکمیل سے ڈیم کی اونچائی تیس فٹ مزید بڑھ کر کل 482 فٹ ہو گئی ،جس سے ڈیم میں پانی کی سطح 1204سے بلند کر1242 فٹ ہو گئی۔اپ ریزنگ کی وجہ سے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش5.56 ارب مکعب میٹر سے بڑھ کر 9.12 ارب مکعب میٹر ہو گئی ۔ڈیم میں پانی کا ذخیرہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو گا جو اس سال کے آخرتک ایک ہزار سے بڑھ کر 1340 میگاواٹ تک ہو جائے گی۔ منگلا ڈیم کے اس توسیعی منصوبے سے میرپور شہر اور ڈیم کے نزدیک بسنے والے پچاس سے زیادہ دیہات زیرآب آئے جہاں رہنے والے پچاس ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ زیر آب آ نے والے افراد کی آباد کاری کے لئے نیو میرپور سٹی، اسلام گڑھ،چکسواری ، ڈڈیال اور سیاکھ میںچھوٹے چھوٹے قصبوں کی تعمیرتوسیعی منصوبہ کا حصہ تھی ۔اس کے علاوہ یہاں رہنے والے افراد کی سہولت کے لئے دریا جہلم پر ڈڈیال میں دھان گلی کے مقام پرپل، میرپور بائی پاس روڈ، نہر اپر جہلم پر پل اور میرپور اور اسلام گڑھ کے درمیان ڈیم پر پل بنانے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔

منگلا ڈیم سے آبادی کا انخلااگرچہ منگلا ڈیم کے منصوبے پر کام 1950ء کے ابتدائی سالوں میں شروع ہو گیا تھا لیکن اسے حتمی شکل60 کی دہائی کے ابتدائی سالوںمیں دی گئی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے میرپور کا تاریخی شہر اور اس کے نواح میں آباد سیکڑوں دیہات کومنگلا جھیل کے پانیوں میںڈوبناتھے۔۔ ایک ہنستابستا قدیمی شہر اور اس سے ملحقہ دیہاتوں کے میں بسنے والے ہزاروں خاندان کو اپنے آبائو اداد کی قبریں اور اپناگھر بار اور زمینیں چھوڑ کر نئی جگہ پر آباد ہونا تھا۔ایسے میں میرپور کے لوگوں میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے خلاف جذبات ابھرنا ایک معمول کی بات تھی۔اس لئے علاقہ میں ڈیم کی تعمیر کے خلاف تحریک سر اُٹھانے لگی۔1955 ء میں آغا عاشق حسین کی سربراہی میں پہلی منگلا ڈیم مخالف تحریک چلی جس میں علاقہ کے لوگ شریک ہوئے ۔ اس دوران برطانیہ میں بھی تارکین وطن نے ڈیم کی تعمیر کے خلاف مظاہرے کیے۔میرپور کے نواحی گائوں چک ہریام میں 12دسمبر 1960 ء کو اس وقت کے صدر ریاست خورشید حسن خورشید کی موجودگی میں بہت بڑا احتجاجی جلسہ ہوا۔ حکومت نے فوج طلب کر لی اور تحریک میں شریک تمام سیاستدانوں، وکلا اور دیگر اہم افراد کو گرفتار کر کے دلائی کیمپ پہنچا دیا۔

عام طور پرایک تاثر پایا جاتا ہے کہ میرپور کے لوگوں کومنگلا ڈیم سے انخلا کے بدلے میں حکومت پاکستان نے برطانیہ آباد کرایا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کیوں کہ پاکستان بننے سے قبل ہی میرپور سے کراچی اور بمبئی کی بندرگاہوں سے بحری جہازوں پر مزدروں کی حیثیت سے برطانیہ اور امریکہ جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کو سستے مزدوروں کی ضرورت تھی اس لئے پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں میرپور اور اس کے نواح سے ہزاروں افراد برطانیہ پہنچے تھے۔ ڈیم کی تعمیر کے دوران جو پندرہ سولہ سو ووچر حکومت پاکستان کو ملے تھے وہ حکومتی ارکان نے اپنوں میں بانٹ لیے تھے۔

میرپور کی متاثرہ زمین بہت زرخیز تھی جس میں سال میں دو فصلیںپیدا ہوتیں ان میں باغات، پھلدار پودوں کے علاوہ ہر قسم کی سبزیاں کاشت کی جاتیںتھیں۔ میرپور اور ڈڈیال کے لوگ خوش حال اور خود کفیل تھے۔ زمین بہت مہنگی تھی جبکہ واپڈا حکام سستی قیمت پر اراضی کا حصول چاہتے تھے۔منگلا ریسٹ ہائوس میں صدر پاکستان جنرل ایوب خان کو چیف انجینئر واپڈا خواجہ غفور نے بریفنگ میں بتایا کہ بنجر زمین کی قیمت زیادہ مقرر کی جا رہی ہے جس پر ایوب خان برہم ہو گئے اورزمین کی قیمت پر کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا۔میرپور کے ممتاز وکیل عبدالخالق انصاری اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں "پاکستان کے سیاست دان بہت کم ظرف تھے جنھوں نے جبر سے ڈیم تو بنا لیا لیکن خالص انسانی مسئلہ کو حل نہیں کر سکے۔ "

1967ء میں منگلاڈیم کی تکمیل تک میرپور کا تاریخی شہراور اس کے ارگرد بسنے والے 280 دیہات منگلا جھیل کے پانی میں غرق ہوئے۔ ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ بے گھر ہونے والے افراد کو فیصل آباد، سرگودہا، جوہر آباد اور گوجرانوالہ کے علاوہ کچھ اور جگہوں پر زمین الاٹ کی گئی ۔ بہت سے خاندان ان علاقوں کے رہن سہن سے ناواقفیت کی وجہ سے وہاں بس نہیں سکے۔ بہت سے خاندانوں کی زمینوں پر مقامی افرادنے قبضہ کر لیا۔ میرپور شہر کو بلاہ گالہ کی پہاڑیوں پرکسی مناسب منصوبہ بندی کے بغیر دوبارا بسایا گیا ۔ چالیس سال بعد منگلا ڈیم کی اپ ریزنگ ہوئی تو مزید 113 مزید دیہات پانی میں غرق ہوئے اور پچاس ہزار سے زیادہ افراد کو بے گھر ہونا پڑا۔ ان کی آبادکاری کے لیے شہر کے نزدیک چھوٹے چھوٹے قصبے آباد کیے گئے۔

حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے دودفعہ قربانی دینے کے باوجود میرپور کے شہری ابھی تک پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ رابطہ سڑکوں کا برُا حال ہے ۔ رٹھوعہ ہریام پل کی تعمیردس سال سے تاخیر کا شکار ہے۔اتنی بڑی آبادی کے لئے ڈھنگ کا کوئی پارک یا تفریح گاہ موجود نہیں ہے۔ نئی جگہوں پر آباد ہونے والے قصبے اور ہملٹ ابھی تک بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ منگلا ڈیم کے متاثرین آج بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر ان مسائل پر بات کی جائے تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

واپس کریں