دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صوبیدار تاج ولی کا عمرہ اور شہید فیاض محمد
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
صوبیدار تاج ولی بڑی سنجیدہ اور بردبار شخصیت کے مالک ہیں۔ 2006 ء کے حج کے دوران مکہ مکرمہ میں جرول تاثیر محلہ کی ایک بلڈنگ کے ایک کمرے میں ہم اکٹھے رہائش پذیر تھے۔ وہ بہت زیادہ عبادت گزار اور ذکر اذکار کرنے والے فرد تھے جب کہ میں ایک معتدل سا بندہ تھا۔ وہ مجھے بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے تھے، ناکامی پر کچھ دن وہ مجھ سے کچِھے کچِھے رہے، لیکن میری نرم خو طبیعت دیکھ کر جلد ہی وہ بھی نرم ہو گئے، جس کے بعد ہماری دوستی ہو گئے جو اب تک قائم ہے۔ایک دن تہجد پڑھنے کے لئے ہم خانہ کعبہ جاتے ہوئے راستے میں وہ کہنے لگے۔” پیر صاحب! آج میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں، آپ بھی میرا ساتھ دیں۔ “ میں بھی تیار ہو گیا، میرے حامی بھرنے پر وہ خوش ہو گئے۔ فجر کی نماز ادا کر کے ہم اپنی بلڈنگ میں واپس آئے اور کچھ دیر آرام کر نے کے بعد احرام باندھ کر مسجد عائشہ گئے اور وہاں نفل ادا کر کے عمرہ کی نیت سے ہم حرم میں آ گئے۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد جب ہم اپنی رہائش کی طرف روانہ ہوئے تو وہ مجھے کچھ اداس سے نظر آئے۔ میں نے ان سے اداسی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے۔” پیر صاحب! میں نے آج کا عمرہ اپنے ایک شہید سپاہی کی طرف سے ادا کیا ہے۔“ ” پتہ نہیں آج تہجد کے لئے اٹھتے ہی اچانک وہ کیسے مجھے یاد آ گیا۔ وہ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھا“۔ رہائش پہنچ کر میں نے ان سے کہا کہ کچھ اس شہید کے بارے میں بتائیے۔ وہ کہنے لگے۔ پیر صاحب! اس وقت بڑے زوروں کی نیند آئی ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانے پر بات ہوگی۔ نماز کے بعد دستر خوان پر بیٹھے میں نے شہید کے بارے میں جاننے کے تجسس میں پھر بات چھیڑی تو وہ گویا ہوئے۔

فیاض محمد میری یونٹ میں تھا۔ اچھے قد کاٹھ کا بڑا خوبصورت کڑیل دیہاتی نوجوان تھا۔ بڑا ملنسار، ہنس مکھ اور فٹافٹ سارے کام کرنے والا سپاہی تھا۔ بہت جلد میرا اس سے چھوٹے بھائیوں والا تعلق بن گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہماری یونٹ جہلم کے علاقہ میں معمول کی مشقوں میں مصروف تھی۔ فیاض محمد میرے پاس آیا اور دو دن کی چھٹی کی درخواست کی۔ عموماً جنگی مشقوں کے درمیان چھٹی نہیں ملتی۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ وہ چھٹی کے لئے کبھی اتنا اصرار نہیں کرتا تھا لیکن اس دن وہ اصرار کرنے لگا۔” سر جی! میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ مجھے چھٹی ضرور چاہیے۔ مجھے گھر جانا ہے میں پرسوں شام سے پہلے لوٹ آؤں گا۔“

میں نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ وجہ بتانے سے ہچکچانے لگا۔ میں نے کیپٹن صاحب سے خصوصی درخواست کر کے اس کی دو دن کی ایمرجنسی چھٹی منظور کروا دی۔ اگلے دن صبح صبح وہ اپنے گاؤں روانہ ہو گیا۔ دوسرے دن شام کو وہ واپس آ گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ بجھ سا گیا ہے اس کے ساتھ گھر میں ضرور کوئی ایسی بات ہوئی ہے۔ مشقیں ختم ہو گئیں ہم بیرکوں میں واپس آ گئے۔ میرے علاوہ اس کے کچھ اور ساتھیوں نے بھی محسوس کیا کہ اسے چپ سی لگ گئی ہے جس کا اظہار بھی انھوں نے مجھ سے کیا۔ وہ تو بڑی باتیں کرنے والا ایک ہنس مکھ جوان تھا۔ یونٹ میں سب کے ساتھ اس کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ پنجابی ماہیے اس بہت پسند تھے۔ اس کی آواز بھی بہت پیاری تھی، اکثر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر گنگناتا رہتا تھا۔

ہماری یونٹ مختلف شہروں میں پوسٹ ہوتی رہی۔ فیاض محمد پہلے والا نہیں رہا تھا اسے چپ سی لگ گئی تھی۔ وہ چپ چپ سا اپنے خیالوں میں گم رہنے لگا تھا۔ پہلے اس کے نام گھر سے خط وغیرہ آتے رہتے تھے لیکن اب وہ بھی آنے بند ہو گئے تھے۔ دو ماہ بعد جب اس کی چھٹی کی باری آئی تو میں نے اس سے درخواست دینے کہ کہا تو اس نے انکار کر دیا۔ اور کہنے لگا کہ وہ چھٹی پر نہیں جائے گا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ تم چھٹی پر کیوں نہیں جا رہے ہو۔ کیا گھر والوں سے ملنے نہیں جانا؟

میری بات سن کر وہ اداس سا ہو گیا اور کہنے لگا۔ ”سر جی! میں نے گھر کس کے پاس جانا ہے۔ گھر میں میرا اب کوئی نہیں ہے۔“ میں کس کے پاس جاؤں، یہ کہتے ہوئے وہ رو دیا۔ چھ فٹ کے کڑیل جوان کو یوں روتا دیکھ کر مجھے غصہ آ گیا اور میں غصے سے اس سے پوچھا۔ کیا بات ہے فیاض محمد۔ اتنے بہادر اور جاں باز سپاہی ہو کر رو رہے ہو۔ مجھے سچ سچ بتاؤ، کیا بات ہے۔ میرا غصہ دیکھ کر وہ چپ ہو گیا، کچھ نہیں بولا اور وہاں سے چلا گیا۔ دوسرے دن میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا، دلاسا دیا اور اس کے گھر کے حالات جاننے کے لیے اسے کریدنے لگا۔ ایسی کیا بات ہے کہ وہ چھٹی پر گھر نہیں جانا چاہتا۔ تب اس نے مجھے اپنے گھر کے حالات بتائے۔ وہ کہنے لگا۔

”سر جی! پانچ سال کی عمر میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ والدہ کی وفات کے چند ماہ بعد ہی والد صاحب نے دوسری شادی کر لی۔ میری سوتیلی والدہ انتہائی سخت مزاج اور غصیلی خاتون تھیں۔ انھوں نے پہلے دن سے ہی مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ بات بات پر میری پٹائی کر دیتی تھیں۔ شام کو والد جب گھر آتے تو میری من گھڑت شرارتوں کے فرضی قصے سنا کر ان سے شکایت کرتیں اور والد صاحب میری پٹائی کر دیتے۔ میرے دو سوتیلے بھائی پیدا ہوئے۔ سوتیلی والدہ اپنے بیٹوں کے لئے بہت کچھ کرتیں لیکن میرے لئے ان کے دل میں پیار کے جذبات کبھی نہیں جاگے۔

میری چچی بہت اچھی تھیں ان کا گھر ہمارے پڑوس میں ہی تھا۔ جب بھی میں ان کے گھر جاتا، وہ مجھ سے بہت پیار کرتیں۔ کبھی کبھی میرے لئے گڑ والے میٹھے چاول بنا دیتیں جو مجھے بہت پسند تھے۔ ان کی بیٹی زینب مجھ سے چھ سات سال چھوٹی تھی۔ پتہ نہیں کب وہ مجھے اچھی لگنے لگ گئی تھی۔ گاؤں کے سکول میں جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا میری سوتیلی والدہ نے میرے دونوں سوتیلے بھائیوں کو اپنے بھائی کا بیٹا انگلینڈ بھجوا دیا تھا۔ اب میں گھر کا کام بھی کرتا تھا اور ساتھ والد صاحب کا کھیتوں میں ہاتھ بھی بٹاتا تھا۔ میٹرک کا امتحان دے کر میں فارغ ہوا تو میں نے والد صاحب سے شہر کے کالج میں داخلے کی بات کی تو والدہ نے کہا کہ کیا ضرورت ہے آگے پڑھنے کی۔ اس نے کون سا نوکری کرنی ہے۔ اپنے والد کا کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹائے گا۔

والد صاحب میری سوتیلی والدہ کے سامنے کچھ نہیں بولتے تھے۔ وہ اکثر والد صاحب سے میری شکایتیں لگاتیں تو وہ غصے میں آ کر میری پٹائی کرتے تھے۔ میں نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر لیا لیکن میرا کالج میں داخلہ نہیں ہو سکا۔ مجھے کالج میں داخلہ نہ ملنے کا انتہائی رنج و غم تھا۔ میرا کام میں دل نہیں لگتا تھا، ایسے میں میری سُستی کی وجہ سے ہماری گائے کہیں گم ہو گئی۔ والدہ نے ابا جی سے شکایت کی کہ میں نے جان بوجھ کر گائے کہیں بھگا دی ہے اور بھی بہت سی باتیں کیں، جس سے غصہ میں آ کر ابا جی نے ان کے سامنے مجھے ڈنڈوں سے بہت مارا۔ میرے جسم پر نیل پڑ گئے۔ اُس دن مجھے میری والدہ بہت یاد آئیں۔ کچھ درد کی تکلیف سے اور کچھ انھیں یاد کر کے میں ساری رات روتا رہا۔ صبح اٹھ کر میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں گھر چھوڑ دوں گا۔ اگلے دن گاؤں کے ایک لڑکے کی زبانی پتہ چلا کہ قصبے کے سکول میں فوج میں بھرتی ہو رہی ہے۔ میں وہاں گیا اور فوج میں بھرتی ہو کر رنگروٹ بن گیا۔ میری تنخواہ لگ گئی تو میں نے اس میں سے والد کو کچھ رقم منی آرڈر کے ذریعے بھیجی۔ تب والد مجھے ملنے سینٹر میں آئے۔ دو سال بعد میں گھر گیا تو فوج کی ٹریننگ کی وجہ سے مجھ میں رکھ رکھاؤ اور شخصیت میں نکھار آ چکا تھا۔ چچا کے گھر گیا تو چچی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ زینب گاؤں کے سکول پڑھ رہی تھی۔ اس کے بھی میرے بارے میں پسندیدگی کے جذبات تھے۔ یوں ہماری چاہت پروان چڑھنے لگی۔ اب وہ کبھی کبھار مجھے خط لکھنے لگی تھی۔ میں اس کے خط کا جواب لکھ کر رکھ لیتا لیکن کبھی پوسٹ نہ کرتا تھا مبادا وہ کسی کے ہاتھ لگ جائے، جس سے اس کی بدنام ہو۔ جب کبھی میرا گاؤں جانا ہوتا تو سارے لکھے ہوئے خط اس کے حوالہ کر دیتا۔

سر جی! آپ کو پتہ ہے میں جہلم میں مشقوں کے درمیان چھٹی لے کر گھر گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ میرا سوتیلا بھائی انگلینڈ سے واپس آیا تھا۔ جسے زینب پسند آ گئی تھی۔ میری سوتیلی والدہ نے زینب کا رشتہ میرے سوتیلے بھائی کے لئے مانگا تھا۔ چچا اس رشتے پر راضی تھے۔ زینب نے خط لکھ کر مجھے بلایا تھا کہ اس کے گھر والے اس کا رشتہ طے کر رہے ہیں تم کچھ کرو۔ میں اسی لئے چھٹی لے کر گھر گیا تھا اور ابا جی سے اس بارے میں بات کی۔ والدہ کو پتہ چلا تو انھوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ چچا سے بات کی تو انھوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ زینب کا رو رو کر برا حال ہو گیا۔ لیکن رشتوں کی اس جنگ میں میرا لندن پلٹ سوتیلا بھائی جیت گیا اور زینب کو بیاہ کر اپنے ساتھ لندن لے گیا۔ اب میرا گھر جانے کو دل نہیں چاہتا۔ ایک والد کا دم ہے جو سوتیلی والدہ کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ میں گھر کا بڑا بیٹا تھا۔ اگر وہ چاہتے تو زینب سے میری شادی ہو سکتی تھی لیکن والدہ کے سامنے وہ میرے لئے نہیں بول سکے۔”

مجھے فیاض کی کہانی سن کر بہت افسوس ہوا۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ وہ مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ٹینشن بڑھی تو ہماری یونٹ کی تعیناتی بٹل سیکٹر میں ہو گئی۔ انڈین فوج بغیر بتائے بلا اشتعال فائرنگ شروع کر دیتی تھی۔ ہم اس کا فوری مناسب جواب دیتے رہتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ فیاض محمد اب زیادہ نڈر ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی جان کی پرواہ کرنی چھوڑ دی تھی۔ وہ کہتا تھا میری موت پر کس نے رونا ہے۔ وہ بارڈر پر ہر وقت ڈیوٹی دینے پر تیار رہتا تھا۔ کارگل کی جنگ میں وہ اگلے مورچوں پر تھا۔ ایک دن وہ اپنے تین ساتھیوں سمیت وطن پر قربان ہو گیا۔ میں اس کا جسد خاکی لے کر اس کے گاؤں گیا۔ اس کی سوچ کے برعکس اس کے والد سمیت اس کے گاؤں کا ہر فرد اس کے لئے غمگین تھا۔ سب کی آنکھیں پرنم تھیں۔ اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اس کے گاؤں کے قبرستان میں دفن کر کے میں واپس اپنی یونٹ میں آ گیا۔ اب بھی جب کبھی وہ مجھے یاد آتا ہے تو میری آنکھیں بے ساختہ بھیگ جاتی ہیں۔ وہ میرے چھوٹے بھائیوں جیسا تھا۔ آج صبح میں تہجد کے لیے اٹھا تو وہ مجھے یاد آ گیا تو اس کے لئے میں نے عمرہ کرنے کی نیت کر لی تھی۔ میں نے صوبیدار صاحب کی طرف دیکھا تو واقعی ان کی آنکھوں میں اس شہید کے لئے آنسو تھے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔



واپس کریں