دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاک و ہند اور دنیا کے نوادرات سے مالامال برطانیہ کے محل اور میوزیم
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
پوئیس کیسل (Powis Castle) برطانیہ کی ریاست ویلز میں واقع ہے۔ برمنگھم کے جنوب مغرب میں واقع یہ محل برمنگھم سے ڈیڑھ گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ پرسوں ہم نے اپنے بھانجے سید محمد عارف کی وساطت سے اس محل اور میوزیم کی سیر کی۔ محل اور اس سے ملحقہ قائم برطانیہ کے لارڈ کلائیو لائڈ کے خاندان سے منسوب میوزیم میں ان کے خاندان سے وابستہ نوادرات اور قیمتی اشیا رکھی گئی ہیں۔ میوزیم میں رکھا ہوا بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کا ایک پالکی نما سفری صوفہ توجہ کا مرکز بنا جس کے بعد میں نے بغور اس محل میں موجود تمام نوادرات کا جائزہ لیا۔

یہ ایک بہت ہی خوبصورت اور مضبوط پالکی نما صوفہ ہے جسے پر بیٹھ کو نواب سفر کے دوران اپنی رعایا سے ملاقات اور بات چیت کیا کرتے تھے۔ بنگال کا یہ پالکی نما صوفہ اور اس جیسے ہزاروں نوادرات اور دوسری قیمتی اشیا ہیں جو ہندوستان اور اپنے دوسرے نو آبادیاتی ممالک سے لوٹ کر یا پھر دھوکہ دہی سے اونے پونے داموں میں خرید کر برطانیہ لائے گئے اور انھیں یہاں کے محلوں کی زینت بنایا گیا۔ سولہویں سترویں صدی میں یورپ اور برطانیہ کے حکمرانوں اور نوابوں کے درمیان یہ مقابلہ ہوتا تھا کہ کس کے پاس بیش قیمت نوادرات اور مہنگی و انوکھی اشیا کا خزانہ موجود ہے۔

نوادرات حاصل کرنے کے لیے ان حکمرانوں میں ایک باہمی مقابلہ بازی اور رسہ کشی جاری رہتی تھی۔ دنیا کے بہت سے ممالک سے وہ ہنرمندوں، مصوروں، مجسمہ سازوں سے ان کے فن پارے اکٹھے کرتے رہتے تھے۔ برطانوی حکومت نے عالمی جنگ کے بعد نیشنل ٹرسٹ بنا کر نوابوں اور شاہی خاندان کے محل اپنی تحویل میں لے کر ان کو میوزیم کا درجہ دے کر اپنی عوام اور ملک میں آنے والے سیاحوں کے لیے کھول دیا اور ان کی دیکھ بھال کے لیے حکومتی امداد دینے کے علاوہ ان محلوں میں داخلے پر ٹکٹ بھی لگا دیا۔

ایک اندازے کے مطابق ایک کھرب پاؤنڈ مالیت کے نوادرات اور قیمتی اشیا صرف ہندوستان پر قبضہ کرنے کے دوران وہاں سے لوٹ کر بحری جہازوں کے ذریعہ برطانیہ پہنچائی گئیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ لارڈ رابرٹ کلائیو 1744 ء سے لے کر 1767 ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم رہا۔ اس کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پاک و ہند پر زبردستی حملہ کرنے اور فتح حاصل کرنے کے لیے اپنی فوجیں وہاں تعینات کیں۔ اس طرح ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا آغاز ہوا۔ہندوستان میں لارڈ کلائیو کی سرگرمیوں پر سخت مزاحمت ہوئی جسے تشدد سے کچلا گیا۔ پلاسی کی اہم جنگ میں 1757 ء میں رابرٹ کلائیو لائیڈ نے بنگال کے حکمران سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قبضہ کر لیا۔ نواب کا سپر سالار میر جعفر غداری کر کے انگریزی فوجوں سے مل گیا تھا۔ جنگ میں شکست کے بعد رابرٹ کلائیو نے سراج الدولہ کا سارا خزانہ لوٹ لیا اور اس کی ساری دولت، نوادرات اور قیمتی اشیا سمیٹ کر برطانیہ واپس آ کر امیر آدمی بن گیا۔ بعد میں کلائیو لائیڈ بنگال کا گورنر اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کا کمانڈر ان چیف بنا۔ سراج الدولہ کے محل کی قیمتی اشیا اور نوادرات رابرٹ کلائیو سے منسوب اس میوزیم کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ وہاں تعینات گائیڈ بڑے فخر سے اپنی نئی نسل کو بتاتے ہیں کہ ہم نے جنگ جیتی اور مال غنیمت یہاں لے کر آئے۔

ٹیپو سلطان 1782 ء میں ریاست میسور کا تخت نشین ہوا، وہ ایک متقی مسلمان تھا جس نے ہندو اکثریتی آبادی پر حکومت کی۔ لارڈ کلائیو لائیڈ کے بیٹے ایڈورڈ کلائیو نے اپنے باپ کے بعد ہندوستان میں نو آبادیاتی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور اپنے باپ کی طرح اپنے خزانے بھرے۔ 1798 ء میں اسے مدراس کا گورنر بنایا گیا۔ مدراس کے گورنر کے طور پر ایڈورڈ کلائیو لائیڈ نے 1799 ء میں سرنگا پٹنم پر حملہ کر کے ریاست میسور کے ایک وزیر میر صادق کو خرید کر اپنے ساتھ ملا لیا اور اس کی مدد سے سلطان ٹیپو کو شکست دی۔ٹیپو سلطان اس جنگ میں بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ ٹیپو سلطان کے مارے جانے کے بعد برطانوی فوج سرنگا پٹنم شہر میں گھس گئی اور ٹیپو سلطان کے خزانے کی تمام قیمتی اشیا اور نوادرات لوٹ لیے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں لارڈ ایڈورڈ کلائیو اور اس کی بیوی ہنریٹا وہ تمام نوادرات اور قیمتی اشیا کا ذخیرہ بحری جہاز میں بھر کر برطانیہ لے آئے۔ پوئیس محل ملنے پر انھوں نے یہ ساری اشیا اپنے اس محل میں منتقل کیں جو اب ان کے خاندان کے نام سے منسوب ملحقہ میوزیم میں موجود ہیں۔نواب سراج الدولہ، ٹیپو سلطان سے لوٹی گئی اور ہندوستان کی دوسری جگہوں سے لائی گئی ان قیمتی اشیا اور نوادرات میں کھانے کے برتن، چینی کے بیش قیمتی گلدان اور دوسرے سجاوٹ کی چیزیں، فرنیچر، بندوقیں، خیمے۔ سامان حرب، ہیروں سے مرصع خنجر، تلواریں، بدھا کا قیمتی اور نایاب مجسمہ، ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کی انتہائی نادر مورتیاں، ٹیپو سلطان کی تلواریں اور دوسری بہت سی دوسری اشیا کے علاوہ بستروں کی چادریں، پہننے کے زریں کپڑے بھی شامل ہیں۔

تاریخ کی ایک اور ستم ظریفی دیکھیں کہ برطانیہ کے خلاف جنگ کرنے والے سلطان ٹیپو کی ایک پڑدوھوتی نور عنایت خان نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی فوج کے لیے جاسوسی کا کام سرانجام دیا۔ فرانس میں جاسوسی کرتے ہوئے جرمن فوج نے اسے پکڑ لیا لیکن کچھ نہ اگلوا سکنے پر اسے گیس چیمبر میں جلا دیا۔ برطانوی حکومت نے جنگ کے خاتمہ پر 1945 میں نور عنایت خان کو برطانیہ کے سب سے بڑے جنگی اعزاز ”جارج کراس“ سے نوازا۔
واپس کریں