دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خشک پتوں کی محبت
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
اُن دنوں میری تعیناتی نہر اپر جہلم کے کنارے آباد ایک قصبہ میں تھی۔ گھنے درختوں میں گھِرایہ چھوٹا سا خوبصورت قصبہ تھا۔نہر کے بائیں کنارے سڑک کے ساتھ ایک چھوٹا سا بازار تھا جس کے ایک طرف ہمارے بینک کی برانچ واقع تھی۔ قصبے کے زیادہ تر افراد برطانیہ میں آباد تھے۔ بھلے وقتوں میں بینک منیجر کو معاشرے میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ بینک منیجر سے دوستی فخر کی بات ہوا کرتی تھی۔لوگ اپنے گھروں کے مسائل میں ان سے صلاح لیتے تھے۔ ایسے میں بہت سے افراد سے میری شناسائی ہوئی۔نئی دوستیاں بھی بنیںجن میں سے کچھ ابھی تک برقرار ہیں ۔ ان ہی دنوںمیں ایک بڑے ہی نفیس آدمی میری برانچ میں آئے۔وہ چند دن پہلے ہی برطانیہ سے وطن واپس آئے تھے۔ ان کا تعلق اسی قصبے کے بڑے زمین دار گھرانے سے تھا۔ خوبصورت لب و لہجے میںعلمی و ادبی گفتگو کرنے والے شاہ میرنے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کر رکھی تھی ۔بینک کے معاملات نمٹانے کے بعد ان سے بہت سے موضوعات پر باتیںہوئیں۔اٹھتے ہوئے بڑے خلوص سے دوسرے دن شام کواپنے گھر میں کھانے کی دعوت دے ڈالی۔ ان سے مزید دو چار ملاقاتوں میں دوستی کا گہرا رشتہ استوار ہو گیا۔میں بیٹے کے برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں داخلے کے سلسلے میں 2004 میں پہلی دفعہ برطانیہ آیا۔شاہ میر صاحب کو پتہ چلا تو وہ مجھے ملنے لیڈز آئے۔اس کے بعد میری پوسٹنگ مختلف جگہوں پر ہوتی رہی جس وجہ سے ان سے رابطہ کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہو گیا۔
برطانیہ کے شہر نیو کیسل میں میرے ہم جماعت اور بینک کے ساتھی خوشنود چودھری بستے ہیں۔ حالیہ برسوں میں جب بھی میں برطانیہ جاتا ہوں تو میرا قیام برمنگھم میں ہوتا ہے۔ وہ اکثر مجھے اپنے پاس بلاتے رہتے ہیں لیکن بوجوہ میں ان کے پاس کبھی نہیں گیا۔ چند ہفتے پہلے برمنگھم میں ایک مشترکہ دوست کے ہاں اتفاق سے ہم اکٹھے ہوئے تو خوشنود اس بات پر اڑ گیا کہ اس دفعہ تمھیں نیو کیسل ضرور لے کر جائوں گا۔ میں نے بہت بہانے بنائے لیکن " نہ پائے رفتن نہ جائے مانند" مجھے اس کے ساتھ جانا ہی پڑا۔ وہ سیاسی اورکاروباری بندہ ہے۔ دو دن اس نے مجھے خوب سیر کرائی ،مزیدار کھانے کھلائے ،اپنے دوستوں سے ملوایا۔ بڑی خاطر مدارت کی۔ ایک دن سہہ پہر کو اس نے مجھے کہا کہ یار آج اپنے ایک پرانے بزرگ دوست کو اولڈ پیپل ہوم میں ملنے جانا ہے، تم بھی تیار ہو جائو۔
اولڈ پیپل ہوم کی عمارت بڑے بڑے درختوں سے گھری ہوئی تھی ۔ کائونٹر پرخوشنود نے اپنا نام اور پتہ لکھوایا ۔ نرم اور مہربان چہرے والی نرس کوریڈور سے ہمیں ایک کمرے کے سامنے لے گئی، دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا۔ سر ! آپ کے مہمان۔ دروازہ کھول کر جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے کرسی پر بیٹھی شخصیت کو دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ وہ شاہ میرتھے۔ میں انھیں بیس سال بعد دیکھ رہا تھا۔وہ بہت کمزور ہو گئے تھے۔ چہرے پر جھریاں نمایاں ہو گئی تھیں، سرخ و سپید رنگ میں پیلاہٹ آ چکی تھی۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے۔خوشنود میرا تعارف کروانے لگا تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا جس سے وہ سمجھ گیا کہ وہ مجھے جانتے ہیں۔ شاہ میرنے میرا ہاتھ پکڑ مجھے اپنے پاس پڑی کرسی پر بٹھا لیا۔ کافی دیر خاموش رہے، پھر مجھ سے میرا اور بچوں کا حال احوال پوچھا ۔ میں انھیں وہاں دیکھ کر بہت حیرانی سے سوچ رہا تھا کہ وہ یہاں کیسے۔ پاکستان میں ان کے خاندان کو میں جانتا تھا لیکن ان کے بیوی بچوں کا میں نے کبھی نہیں پوچھا تھا۔ میں کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کبھی پسندنہیں رہا۔
ہم ایک گھنٹہ وہاں ٹھہرے ۔خوشنود نے اُن سے اجازت چاہی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ہم سے کچھ دیر اور باتیں کرنا چاہتے ہیں لیکن خوشنودکو ذرا جلدی تھی ۔ میں نے ان سے کہاکہ میں کل پھرآئوں گا، آپ کے پاس اور ڈھیر ساری باتیں کروں گا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے کہا کہ میں انتظار کروں گا۔ تم جاتے ہوئے کائونٹر پر اپنا نام لکھواتے جانا۔ اگلے د ن خوشنود شام کوملنے کا پروگرام طے کر کے مجھے اولڈ پیپل ہوم کے گیٹ پر اتار کر خود بریڈفورڈ میں اپنی ایک بزنس میٹنگ کے لیے چلا گیا۔ نرس مجھے شاہ میر کے کمرے میں لے گئی۔شاہ میرکل کی طرح کھڑکی کے سامنے رکھی ایک آرام دہ کرسی پر نیم دراز تھے۔ مجھے وہ بہت کمزور اور اداس نظر آئے۔نومبرکی یہ ایک سرد صبح تھی۔ اولڈہوم کی کھڑکی سے باہر کا منظر بہت ہی واضح نظر آرہا تھا۔ کھڑکی کے سامنے والے درخت کے نیچے خشک پتے مجھے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ خزاں کا موسم ہمیشہ سے مجھے پسند رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر ان کی آنکھیں مجھے روشن ہوتی نظرآئیں ۔میں نے انھیں کہا کہ آپ کو اس اولڈ ہوم میں دیکھ کر مجھے بہت دکھ اور حیرت ہوئی ہے۔آپ کی فیملی کہاں ہے۔؟
" اوہو ! شاہ جی۔ آپ سے اس موضوع پر کبھی بات ہی نہیں ہوئی ۔ میری فیملی تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ورنہ وہ میرے ساتھ ہوتی۔"
باتوں باتو ں میں انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک سال سے یہاں قیام پذیر ہیں۔سبھی سہولتیں میسر ہیں۔ نرسیں بڑا خیال رکھتی ہیں۔ وقت پر کھانا، دوائیاں اور دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں ہے۔
" میں یہاں پر خوش ہوں، یوں بھی اب زندگی کے آخری ایام ہیں۔"
" پرسوں ہی ڈاکٹر نے بتایا تھا ۔ میرا دل اب صرف تیس فیصد کام کر رہا ہے"
"پتہ نہیں کب تک ساتھ دے گا۔ ؟ بس خوشنود کبھی کبھار ملنے چلا آتا ہے۔ " ۔
وہ مسلسل بولتے جا رہے تھے۔ "شاہ جی ! پتہ نہیں کیوں آپ سے مل کر آج مجھے اپنا قصبہ یاد آ گیا ہے ۔ آج میرا دل بہت سی باتیں کرنے کو چاہتا ہے۔ " وہ بڑی اداسی سے بولے ۔
ان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ شدید تنہائی کا شکارہیں۔ اس لیے میں نے انھیں بولنے دیا اور کرید کرید کر ان سے باتیں پوچھنے لگا۔باتیں ہماری پہلی ملاقات سے ہوتی ہوئی ان کے بچپن تک چلی گئیں۔ میں ہمہ تن گھوش ہو گیا۔

" شاہ جی ! نہر اپرجہلم نہر کے کنارے بڑے بڑے درختوں میں گھرے ہوئے قصبے میں میرا گھر تھا۔ اسی قصبے میں پچیس سال پہلے آپ سے آپ کے بینک کی برانچ میں پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔ داداجان علاقہ کے بڑے زمین دار تھے ۔ گائوں سے باہر اپنی زمین پر انھوں نے بہت بڑی حویلی تعمیر کروائی تھی جو اب چچا کے بیٹوں کے مصرف میں ہے ۔حویلی سے ملحق ایک باغ بھی انھوں نے لگوایا تھا جس میں آم ،جامن اور امرود کے علاوہ بہت سے درخت لگوائے تھے۔ میرا بچپن ان درختوں کے نیچے کھیلتے گزرا۔خزاں کا موسم آتے ہی درختوں کے پتے زرد ہو کر گرنا شروع ہو جاتے تھے ۔ مجھے خشک پتوں پر چلنا بہت اچھا لگتا تھا۔خشک پتے جب پائوں کے نیچے آتے تو اس سے پیدا ہونے والی چُڑچُڑ کی آواز مجھے جلترنگ کی طرح محسوس ہوتی ۔سکول گائوں سے ایک میل کے فاصلے پر نہر کے دوسرے کنارے پر واقع تھا جہاں ہم پیدل جایا کرتے تھے۔ سکول میں بھی بڑے بڑے درخت تھے۔ سکول میں ہمارے کلاس روم سے باہر گھاس پر گرے ہوئے خشک پتوں پر چلنا مجھے بڑا بھلا لگتا تھا۔
اللہ بخشے ابا جی کو ،انھیں مجھے اعلی تعلیم دلانے کا بہت شوق تھا۔ان کی کوششوں سے 60ء کی دہائی میںمجھے برطانیہ کی برمنگھم یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا۔یونی ورسٹی برمنگھم شہر میں ایج باسٹن کے علاقہ میں بڑے بڑے درختوں میں گھری خوبصورت جگہ پر واقع تھی۔ آج کے مقابلہ میں اُس وقت سہولتوں کا فقدان تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے برمنگھم کے قریب دیہات میں ایک گھر میں رہنے کی جگہ مل گئی ۔ میں تین دن ایک جنرل سٹور پرکام کرتا اور تین دن یونیورسٹی میں پڑھائی کرتا۔ ہمارا سیشن ستمبر میں شروع ہوا تھا ۔ یونی ورسٹی میں فارغ اوقات میں درختوں کے نیچے خشک پتوں پربیٹھ کر کتابیں پڑھنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ایک دن میں چنار کے ایک درخت کے نیچے پتوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ دور سے ایک لڑکی پتوں پر دوڑتی ہوئی میری طرف آتی دکھائی دی۔ مجھے خشک اورزرد پتوں کے درمیان بیٹھا دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئی ۔
میرے پاس کھڑے ہو کراس نے پوچھا۔ " آپ کوخشک پتے کیابہت پسند ہیں۔ "
"جی ہاں، اسی لئے ان کے درمیان بیٹھا ہوں۔" میں نے ترت جواب دیا۔
وہ میرے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ اسے نے بتایا کہ اسے بھی زرد اورخشک پتے بڑے اچھے ہیں۔ خشک پتوں پر چلنے کی آواز اسے بہت بھاتی ہے، اسی لئے وہ بھاگتی ہوئی وہاں آئی ہے ۔یوں خشک پتوں کی مشترکہ پسند کی وجہ سے ہماری آپس میں جان پہچان ہوگئی۔ اس کا نام نتاشہ تھا۔ وہ یونی ورسٹی میں قانون پڑھنے آئی تھی ۔اس کا خاندان برمنگھم کے مضافات میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے والسل میں رہتا تھا، جہاں اس کے والدکی ایک چھوٹی سی گروسری شاپ تھی ۔ یونیورسٹی سے واپسی پروہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے علاوہ ایک کپڑوں کی دوکان پر بھی کام کرتی تھی۔ہماری جان پہچان آہستہ آہستہ دوستی میں بدل گئی ۔ فارغ وقت میں ہم یونیورسٹی میں اکٹھے نظر آنے لگے۔ یونیورسٹی کی کینٹین سے زیادہ ہمارا وقت درختوں کے نیچے گزرتا ۔ ہم دنیا جہاں کی باتیں کرتے۔ خشک پتوں پر چلنے سے شروع ہونے والی ہماری جان پہچان دوستی کی حدسے گزرتے ہوئے چاہت میں بدل گئی۔ اس کے گھر والے اس کا ایک ایشیئن سے ملنا پسند نہیں تھا۔ ان دنوں برطانیہ میںپاکستان اور انڈیا سے آنے والے افراد کو نسلی بنیاد پر مقامی لوگوں کی نفرت کا سامنا تھا۔اُدھر میری ماں مجھے ہر خط میں تاکید کرتی تھی کہ کسی گوری سے دل نہ لگا لینا۔ میں اپنی پسند سے تمہاری شادی کروں گی۔ نتاشہ مجھ سے شادی کر کے پاکستان جانے پر تیار ہو گئی تھی ۔نتاشہ بڑی دھان پان سی نازک سی لڑکی تھی۔ ایک ہفتہ وہ یونیورسٹی نہیں آئی ۔ میںاس کا پتہ کرنے ایک دن ان کی گروسری شاپ پر گیا ۔اس کے والد کی زبانی پتہ چلا کہ اسے نمونیا ہو گیا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل ہے۔ میں ہسپتال میں اس کا پتہ کرنے گیا تو پتہ چلا کہ نمونیا کے شدید حملہ کی وجہ سے اس کے پھیپھڑے متاثر ہوئے ہیں۔ میں روزانہ یونی ورسٹی سے فارغ کر اسے دیکھنے ہسپتال جاتا۔ دھان پان تو وہ پہلے ہی تھی نمونیا سے وہ جان بر نہ ہو سکی اور دو ہفتے ہسپتال میں رہ کر اللہ میاں کے پاس چلی گئی۔ مجھے اس کی موت کا انتہائی شدیدصدمہ ہوا،جس سے سنبھلنے میں مجھے ہفتوں لگ گئے۔ میرا دل بجھ سا گیا ۔

نتاشہ کی جدائی کا صدمہ لئے پڑھائی ختم ہونے پر میں وطن واپس لوٹ گیا۔ والدہ مجھے اکیلاواپس پا کر بہت خوش ہوئیں لیکن انھیں علم نہیں تھا کہ میں کیسے اکیلا واپس آیا ہوں۔ والدہ نے میرے لئے لڑکی تلاش کر رکھی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی خوشیاں دیکھنے کے لیے انھیں میری شادی کی جلدی تھی۔ نتاشہ کے چلے جانے کے بعد میرے دل میں شادی کی خواہش نہیں تھی۔ میں نے کافی دیر شادی کی بات پر چپ سادھے رکھی۔ ایک شام کو ابا جان نے مجھے پاس بٹھایااور کہنے لگے۔
"بیٹے ! اگر آپ کی کوئی پسند ہے تو بتائو، ورنہ جہاں ماں کہتی ہے، شادی کر لو۔ میں نے نتاشہ والی ساری کہانی ابو کو بتا دی۔ انھوں نے بہت افسوس کیا اور کہنے لگے ۔
"بیٹا اگر آپ نتاشہ کو ساتھ لے آتے تو ہم اسے فورا قبول کر لیتے۔ لیکن اگر اب وہ نہیں ہے تو اپنی ماں کی بات مان لو۔ "
"تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو اور ماں تم سے بہت پیار کرتی ہے۔"
اس سے ایک ماہ بعد میری غزالہ سے شادی ہو گئی۔ وہ بھی بڑی نازک سی سادہ مزاج لڑکی تھی۔ زندگی ایک ڈگر پر رواں ہو گئی۔ شادی کو دس سال کا عرصہ گزر گیا۔ آنگن میں پھول کھلنے کی آرزو لیے اماں اورابو جان دنیا سے رخصت ہوگئے۔ شادی کے دس سال بعد بھی جب کوئی بچہ نہیں ہوا تو غزالہ مجھے دوسری شادی کرنے پر اصرار کرنے لگی۔ اسی دوران مجھے پی ایچ ڈی کے لیے سکالرشپ ملا تو میں ایک بار پھر برطانیہ آ گیا۔ وہ بھی میرے ساتھ برطانیہ چلی آئی ۔میری پی ایچ ڈی کے دوران ہی غزالہ کو کینسرتشخیص ہوا اور وہ آنناً فاننا اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اُس کی موت کا مجھے بہت دکھ ہوا۔ اِس نے بارا سال بڑی خاموشی سے میرے ساتھ گزار دئیے تھے۔ کبھی کسی چیز کی تمنا نہیں کی۔ بچوں کے لیے وہ سوکن تک برداشت کرنے پر تیار ہو گئی تھی ۔لیکن اس کی موجودگی میں صرف بچوں کے لیے دوسری شادی کرنے کومیرا دل نہیں مانا۔ اب میں بالکل تنہا ہو گیا تھا۔پی ایچ ڈی مکمل ہونے کے بعد میں پاکستان واپس نہیں گیا اور نیو کیسل یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔یونی ورسٹی ، گھر اور بڑے بڑے درختوں سے گھرے پارک اب میرا ٹھکانا تھے۔
پھر ایک دن یونی ورسٹی میںمیری ملاقات یاسمین سے ہوئی ۔وہ راولپنڈی کے کالج میں لیکچرار تھی اور گورنمنٹ کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے برطانیہ آئی تھی۔ سلام دعا سے بات آگے بڑھی تو ہم میں بہت سی باتیں مشترک نکل آئیں۔ اسے بھی خزاں پسند تھی،خشک پتوں پر چلنا اسے بھی اچھا لگتا تھا۔میری طرح اردو ادب، شاعری اور موسیقی کی وہ بھی دلدادہ تھی۔ اسے بھی کتابیں پڑھنے سے بڑی دلچسپی تھی۔میرے گھر میں میری ذاتی لائبریری دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی تھی۔ اس کے خاوند کا دس سال پہلے انتقال ہو چکا تھا۔دو بیٹے تھے جن کی خاطر اس نے دوبارہ شادی نہیں کی تھی ۔ بیٹے پاکستان میں دادی اور دادا کے پاس تھے۔ بڑی خوبصورت اور بردبار خاتون تھی۔ اس سے ملاقاتیں شروع ہوئیں توپتہ نہیں کیسے اور کب انجانے میں میرے دل میں اس کے لئے جگہ بن گئی ۔ کہتے ہیں کہ سچا پیار ایک دفعہ ہی ہوتا ہے ۔ہم میں جو تعلق بن رہا تھا میں اسے پیار کا نام تو نہیں دے سکا لیکن مجھے اس سے اتنی اُنسیت ہو گئی تھی کہ میرا دل چاہتا تھا کہ ہم اکٹھے رہیں۔میں نے دل میں اس سے شادی کا ارادہ کر لیا اور اس کے بچوں کو بھی اپنانے پر تیار ہو گیا۔ یہ فیصلہ کوئی جذباتی نہیں تھا بلکہ میں نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کیونکہ اب میں تنہائی سے اکتا گیا تھا۔یہ فیصلہ کر کے اگلے دن میں نے یاسمین کو رات کے کھانے کی دعوت دی جو اس نے کچھ پس و پیش کے بعد قبول کر لی۔ کھانے پر میں نے اسے پروپوز کیا تو وہ ایک دم نروس ہو گئی۔پچاس سال عمرکی وہ ایک جہاں دیدہ خاتون تھی۔ کچھ دیر سنبھلنے کے بعداس نے کہاکہ اس بارے میں پھر بات کریں گے۔ اگلی ملاقات میں ڈھیرساری باتیں ہوئیں۔وہ اس ملاپ پر راضی تھی لیکن بچوں اور اپنے سسرال کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے سے گریزاں تھی ۔ چھ ماہ بعداس کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی اور اگلے تین ماہ میں وہ پاکستان واپس چلی گئی۔میں بھی پاکستان گیا۔ پاکستان میں جب یاسمین نے اپنے سسرال میں اپنی دوسری شادی کی بات کی تو ایک ہنگامہ سا کھڑا ہو گیا۔ دونوں بیٹے نوجوانی کی عمرمیں داخل ہو گئے تھے انھیں بھڑکایا گیا۔ہمارا معاشرہ خاص کررشتہ دارادھیڑ عمر میں عورت کی شادی اور وہ بھی غیر برادری میں کب قبول کر سکتے ہیں۔ سسرال والوں اور دوسرے قریبی رشتہ داروں نے اس کا برا حال کردیا۔ فون پرروتے ہوئے اس نے مجھے ساری صورت حال بتا ئی ۔ وہ میرے ساتھ نئی زندگی گزارنے پر تیار تھی لیکن اس معاشرے کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی ۔مجھے برطانیہ واپس چلے جانے اور اسے بھول جانے کا مشورہ دیتے ہوئے وہ بہت روئی تھی۔
میرا دل جو خوشیوں کی آمدکے انتظار میں پھرسے روشن ہو گیا تھا، یہ سن کر ایک دم ہی بجھ سا گیا۔مایوس دل و دماغ کے ساتھ اگلے دن میں برطانیہ واپس آ گیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ دل کے تازہ زخم آہستہ آہستہ بھرنے لگے تو زندگی کا پہیہ پھر رواں دواں ہو گیا۔تین سال پہلے دل نے بغاوت کر دی ، پہلے دو صدمے تو وہ آسانی سے جھیل گیا تھا ،لیکن تازہ صدمے کا اس پر گہرا اثر ہوا تھا۔اس نے جسم کا ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔تین ماہ ہسپتال میں رہا۔ صحت مند ہونے پر پاکستان گیا۔اپنے حصہ کی زمین اوراپنا مکان ایک ٹرسٹ ہسپتال کے نام کر آیا ہوں۔ برطانیہ واپس آ کر یہا ں کااپنا مکان بھی فروخت کر دیا ہے اورآدھی رقم ایک ویلفیئر ٹرسٹ کو دے دی ہے۔ ایک سال سے اس اولڈ ہوم میں رہ رہا ہوں۔
دو ہفتے پہلے پھر دل میں درد اٹھا تھا ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں دل آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ رہاہے ۔ پتہ نہیں کب بند ہو جائے ؟ ۔ دن کو اس کرسی پر بیٹھ کر سامنے درختوں کو دیکھتا رہتا ہوں۔ اب تو کتابیں پڑھنے کو بھی جی نہیں کرتا۔تنہائی میں وقت گزارنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اب پتہ چلا ہے۔روز درختوں سے گرنے پیلے پتوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں شاید زندگی کے درخت پر لگا میرے نام کا پتا بھی پیلا ہو گیا ہے ۔پتہ نہیں کب ذرا سی تیز ہوا چلے تو یہ بھی گر جائے۔"
ہم سارا دن باتوں میں اتنے محو رہے تھے کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔نرس دو دفعہ کمرے سے ہو کرچلی گئی تھی ۔ شاہ میر کے لیے اس کا لایا ہوا کھانا اسی طرح رکھا رکھا ٹھنڈا ہو گیا تھا ۔شاہ میر کی زندگی کی کہانی نے مجھے بہت زیادہ اداس کر دیا تھا۔شام کو جب خوشنود کمرے میں مجھے لینے آیا تو شا ہ میر کو چھوڑ کر جانے کا میراجی نہیں چاہ رہا تھا۔ میں چند دن بعد دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے اداس دل لیے ان کے کمرے سے باہر آ گیا۔




واپس کریں