دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نہر اپر جہلم، علاقہ کھڑی کی شان
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
کتنا حسین منظر تھا۔یہ 9د سمبر1915 ء کی ایک سرد دوپہر تھی۔ منگلا کا وہ تاریخی مقام جہاں سے یونانی بادشاہ الیگزینڈر نے راجہ پورس کی فوجوں پر حملہ کرنے کے لیے دریا پار کیا تھا، دو ہزار سال بعد آج اسی مقام پر ایک میلے کا ساسماں تھا۔ یہ میلہ نہر اپر جہلم کی تکمیل پر اس کے افتتاح کے لیے سجایا گیا تھا۔ وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ ثانی نو تعمیر شدہ نہر اپر جہلم کا افتتاح کرنے کے لیے خصوصی طور پر یہاں موجود تھا۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ والیِ ریاست جموں وکشمیر بھی اس موقع پر مدعو تھا کیوں کہ یہ افتتاح اس کی ریاست کی حدود میں ہو رہا تھا۔منگلاکے قریبی دیہاتوں کے بہت سے لوگ،جنہوں نے اس نہرکی کھدائی میں حصہ لیا تھا، وہ بھی جمع تھے۔لوگ حیرانی سے پتھروں سے بنے محراب دار پُل اور اس پر نسب لوہے سے بنی مشینری کو دیکھ رہے تھے،جس کی مدد سے پل کے دَروں کے درمیان ایستادہ لوہے کے بڑے بڑے دروازے لوہے کی تاروں سے بنے ہوئے رسوں کی مدد سے چرخیوں سے آہستہ آہستہ کھلنے کا منظر دیکھنا چاہتے تھے۔ حکومت پنجاب کے آب پاشی کے انسپکٹر جنرل سر جون بینٹن فخر سے پھولے نہیں سما رہے تھے کیوں کہ ان کے تیار کردہ منصوبہ کی یہ آخری نہر تھی جو پایہ تکمیل تک پہنچی تھی۔ اس نہرسے ضلع گجرات سیراب ہونے جا رہا تھا۔ وہ منڈی بہاؤالدین سمیت پورے ضلع گجرات کو سرسبز و شاداب ہوتا دیکھ رہے تھے۔

نہر اپر جہلم آب پاشی کے لیے انسانی ہاتھوں سے کھودی گئی ایک نہر ہے، جوپنجاب کے ضلع گجرات کے ایک بڑے رقبے کو سیراب کرتی ہے۔145میل سے زیادہ لمبی یہ نہر ریاست جموں و کشمیر میں منگلا کے مقام پر دریا جہلم سے نکالی گئی تھی۔ ریاست جموں وکشمیر کے کچھ علاقہ سے گزر کر پنجاب کے ضلع گجرات اور منڈی بہاؤالدین کو سیراب کرتی ہوئی یہ نہر ہیڈ خانکی کے بیراج سے دریا چناب میں گرتی ہے۔اس نہر کا بنیادی نقشہ اور تعمیر برطانوی راج میں پنجاب حکومت کے آب پاشی کے برطانوی انجینئر سر جون بینٹن کی زیر نگرانی ہوئی۔ سرجون بینٹن1914ء میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب کے آب پاشی کے انسپکٹر جنرل مقرر ہوئے۔برطانوی راج کی پنجاب گورنمنٹ نے انیسوی صدی کے آخر میں دریا جہلم کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے دریا چناب تک پہنچانے اور پنجاب کو دریا جہلم،چناب اور راوی کے پانیوں سے سیراب کرنے کے لیے تین نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ آب پاشی کے اس منصوبے کو (TCS-Tripple Canal System)کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت تین نہریں، نہر اپر جہلم، نہر باری دوابہ اور نہر اپر چناب نکالنے کا فیصلہ ہوا۔اس نہری نظام کے تحت نکلنے والی تین نہروں کی لمبائی433 میل سے زیادہ تھی، جن سے پنجاب کا 1,750,000ایکڑ سے زیادہ رقبہ سیراب ہونا تھا۔

نہر اپر جہلم کے ابتدائی سروے کے مطابق منگلا سے تھوڑی دور علاقہ کھڑی میں چنگڑھ کے مقام سے نہر نکالنے کا منصوبہ تیار ہواجس پر لاگت کا تخمینہ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا تھا۔اس مقام پر دریا میں ایک موڑ تھا جہاں پر پانی کا بہاؤ تیز اورکافی گہرا تھالیکن یہا ں سے نہر نکالنے میں کافی مشکلات تھیں۔ دوسری متبادل جگہ منگلا کا مقام تھا جہاں سے یونانی بادشاہ الیگزینڈر نے دریا عبور کر کے راجہ پورس کی فوجوں پر حملہ کیا تھا۔ اس مقام پر دریا انگریزی حرف Sکی طرح بل کھا رہا تھا۔وہاں گہرے پانی کا ایک تالاب بھی تھا،پانی کا بہاؤ تیز تھا اس لئے یہاں سے نہر نکالنے میں زیادہ آسانی تھی۔ اس مقام سے نہر نکالنے پر خرچے کا تخمینہ3.240 ملین روپے کا تھا۔ دونوں جگہوں سے نہر نکالنے کی صورت میں نہر کے ابتدائی حصے کا گزر ریاست جموں و کشمیر سے ہوتا تھا۔ برطانوی راج اور اس کی پنجاب گورنمنٹ ریاست کے والی مہاراجہ پرتاب سنگھ پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ انھیں نہر کی کھدائی اور اس سے منسلک دوسری تعمیرات میں ریاست کی انتظامیہ اور پنجاب گورنمنٹ کی مشینری کے درمیان فساد کا خدشہ تھا۔ پنجاب حکومت نے مہاراجہ پرتاب سے منگلا کے مقام سے نہر نکالنے کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اس کے دربار سے مذاکرات کیے۔دونوں اطراف سے بہت سی تجاویزپیش کی گئی،جن پر غور و خوض کے بعد باہمی مشاورت سے پنجاب گورنمنٹ اور مہاراجہ کے دربار کے درمیان15 ستمبر1904ء کو ایک معائدہ طے پا گیا،جس میں مہاراجہ نے ریاست کی حدود میں دریا جہلم سے نہر نکالنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔مہاراجہ کے دربار نے ریاست اور اپنی عوام کے مفاد کے تحفظ کے لیے کافی کڑی شرائط رکھیں۔ اس معائدہ کے چیدہ چیدہ نقات درج ذیل ہیں۔

٭ نہر کی زمین ریاست کی ملکیت رہے گی البتہ نہر نکالنے پر پنجاب حکومت سے رائلٹی کی مد میں کوئی رقم وصول نہیں کی جائے گی۔پنجاب حکومت ہر سال مہاراجہ کو نہر کی کھدائی میں استعمال ہونے والی زمین کے کاشت شدہ حصے پر عائد محصول کی رقم کے برابر رقم ادا کرے گی۔
٭ پنجاب حکومت کو اس کے منظورشدہ منصوبوں کے مطابق ریاستی علاقہ میں ریاست کو آب پاشی کے لیے ضروری چھوٹی نہریں تعمیر کر کے دے گی۔ریاست کو نہر کے ساتھ مختلف مقامات پر پن بجلی سے چلنے والی ملیں لگانے کے حقوق حاصل ہوں گے۔ریاست اپنے علاقہ میں نہر سے نکلنے والی آب پاشی کی چھوٹی نہروں کی دیکھ بھال کا خود انتظام کرے گی۔ ان نہروں کے پانی کی تقسیم،آب پاشی پر محصولات کا تعین
اور ان کی وصولی کاکام خود سرانجام دے گی۔
٭ پنجاب حکومت کی طرف سے نہر کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے نہر کی حدود پر نشان لگائے جائیں گے اور ایسا کرتے ہوئے کسی مذہبی ادارے یا لوگوں کے مقدس مقام پر کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔پنجاب حکومت انسانی ضروریات کے مطابق مناسب مقامات پر نہر پار کرنے کے لیے گاڑیوں اور پیدل آمدورفت کے لیے مفت پل تعمیر کرے گی۔ پُلوں کا درمیانی فاصلے ایک میل سے زیادہ نہیں ہوگا۔جاتلاں اور
چیچیاں کے مقام پر گھٹیالی اور سکھ چین پور پتن تک رسائی کے لیے بڑے پل تعمیر ہوں گے۔ریاست نہر کی تعمیر کے لیے درکار پتھر،چونے کا پتھر اور چٹانوں کے استعمال کی اجازت دے گی،البتہ ریاست کی حدود سے باہر ان پتھروں کو استعمال کرنے کی صورت میں پنجاب حکومت ریاست کو رائلٹی ادا کرے گی۔ پنجاب حکومت ریاست کی حدود میں ہیڈ ورکس اور سائفن کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹیں بنانے کے
لیے بھٹے لگائے گی۔
٭ پنجاب حکومت کے ریاست کی حدود میں نہر کے حکام کے لیے تعمیر شدہ ڈاک بنگلے اور ریسٹ ہاؤس ریاستی انتظامیہ تحصیل دار اور اس سے بڑے عہدے کے افسر استعمال کرنے کے مجاز ہوں گے۔

1909ء میں سر جون بینٹن نے منگلا کا دورہ کیا اور اس مقام پر اخراجات کم ہونے کی وجہ سے یہاں سے نہر نکالنے کی حتمی منظوری دے دی۔جس پر نہر کی کھدائی کا کام شروع ہو گیا۔1913ء تک کھدائی اور تعمیر کا کام زور و شور سے جاری رہا۔1914میں جگو ہیڈ کی تعمیر کے دوران اس نالے میں اچانک پانی کا ایک بڑا ریلہ آ جانے کی وجہ سے اس کے پشتوں کو شدید نقصان پہنچا،جس کے نتیجے میں اس کی تعمیر میں کافی تاخیر ہوئی۔دسمبر 1915میں اس کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تھا اور نہر کا باقاعدہ افتتاح بھی وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ کے ہاتھوں ہو چکا تھا۔ 1916ء کے موسم بہارمیں پہلی دفعہ نہر میں پانی چھوڑا گیا۔ جس سے ضلع گجرات کا چہرہ بدل گیا اور 1920 ء کی دہائی کے وسط میں یہ اناج اگانے والا ایک خوش حال خطہ بن گیا۔

ریاست جموں وکشمیر کی حدود میں چھوٹی بڑی بہت سی ندیاں اوربڑے بڑے نالے نہر کے راستے سے گزرتے تھے۔یہ ندیاں اور نالے دریا جہلم میں جا کرگرتے تھے۔ان ندیوں اور نالوں کے بارشی پانی کو کنٹرول کرنے کے لیے نہر پربہت سے ہیڈ ورکس اور سائفن تعمیر کیے گئے۔چھوٹے ندیوں کا پانی نہر کے نیچے سے نکالنے کے لیے پکی اینٹوں اور چونے کے پتھر اور لوہے کے گارڈر سے سائفن تعمیر کیے گئے۔ان چھوٹی ندیوں میں پانی کے بہاؤ اور بارش کے پانی کے اخراج کو مد نظر رکھ کر سائفن کے تین سے پانچ دَر رکھے گئے۔ریاست کی حدود میں ایسے سائفن سنکیاہ،ڈب،پنڈی سبھروال،پل منڈا اور ساہنگ کے مقامات پر تعمیر کیے گئے۔ریاست کی حدود میں بنگ،جاتلاں اور کیرتن گڑھ (موجودہ علی بیگ) کے مقام پر بہت بڑے بڑے پہاڑی نالے گزرتے تھے۔موسم برسات میں ان نالوں میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ اور تیز ہوتا تھا۔نہر کے نیچے سے اس پانی کا اخراج ممکن نہیں تھا کیوں کہ اس سے نہر کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔اس لیے ان مقامات پر بارش کے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے بڑے ہیڈ ورکس تعمیر کیے گئے۔یہ ہیڈ ورکس ریاست جموں وکشمیر کی حدود میں بنگ، جاتلاں اور علی بیگ کے مقامات پر تعمیر کیے گئے۔ان کی تعمیر میں اینٹیں،پتھر اور چونے کے علاوہ لوہے کی بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا۔ اینٹوں کی ترسیل کے لیے نہر کے نزدیک انٹیں بنانے کے بھٹے لگائے گئے۔نزدیکی چٹانوں سے پتھر کاٹ کر ان کو تراش کر چونے اور سیمنٹ کے ساتھ استعمال کر کے دیواریں بنائی گئیں۔ پھر لوہے کے بڑے بڑے دروازے لگا کر ان دروں کو بند کر دیا گیا۔بارش کا پانی زیادہ آجانے کی صورت میں لوہے کے ان دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے۔جس سے نہر میں آنے والا بارش کا فالتوپانی دریا میں چلا جاتا ہے۔نہر سے پانی کے اخراج کے لیے نہر کے ساتھ سکیتر بنائے گئے تھے۔ ان سکیتروں سے ہو کر بارش کا پانی دریا جہلم میں جا کر گرتا تھا۔ ہیڈ ورکس میں نسب لوہے کے دروازے کھولنے میں استعمال ہونے والی ساری مشینری برمنگھم کی فیکٹریوں میں بنائی گئی۔ مشینری بحری جہازوں کے ذریعے پہلے کراچی بندرگاہ پر لائی گئی پھر وہاں سے بذریعہ ریل گاڑی یہ مشینری سرائے عالمگیر ریلوے سٹیشن تک لائی گئی۔منگلا اور دوسرے ہیڈورکس پر بھاری مشینری کی ترسیل کے لیے سرائے عالمگیر سے منگلا تک نہر کے دائیں کنارے پر ریل کی پٹڑی بچھائی گئی اور ریل گاڑیوں کے ذریعے یہ مشینری ان ہیڈ ورکس تک پہنچائی گئی۔

منگلا سے دومیل کے فاصلے پر پہلا ہیڈ ورکس بنگ کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔اس سے دس میل کے فاصلے پر دوسرا ہیڈ ورکس جاتلاں کے مقام پر کسگمہ سے بہہ کر آنے والے نالے پر بنایا گیاجو اُس وقت تک پنجاب کا سب سے بڑا ہیڈورکس تھا۔ اس سے ایک میل کے فاصلے پر علی بیگ کے مقام ریاست کی حدود میں تیسرا ہیڈورکس بنایا گیا۔علی بیگ ہیڈورکس برطانوی راج اور ریاست جموں و کشمیر کی سرحد پر واقع تھا۔اب یہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سرحد پر واقع ہے۔اسی دور میں علی بیگ کے مقام پر اس علاقے کے سکھوں کے سب سے بڑے گورودوارے کیرتن گڑھ کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔جو اُس وقت اس علاقے کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ریاست کی حدود میں منگلا سے علی بیگ تک نہر کے بائیں کنارے پر سڑک بنائی گئی۔یہ سڑک عرصہ تک میرپور کو پنجاب سے ملانے کا واحد ذریعہ تھی۔

علاقہ کھڑی میں نہر بننے کی وجہ سے لوگوں کی زمینیں نہر کے دونوں اطراف میں بٹ گئی تھیں اس لیے منگلا سے علی بیگ تک تین ہیڈ ورکس کے علاوہ نہر پار کرنے کے لیے ڈب، پنڈی سبھروال، افضل پور،منڈہ اور بنی کے مقامات پر چھوٹے پل تعمیر کیے گئے۔ اس کے علاوہ دریا جہلم پر گھٹیالی اورسکھ چین پور پتن پر مہاراجہ کے خاندان کی رسائی اور سامان کی ترسیل کے لیے چیچیاں اور جاتلاں کے مقامات پر بڑے پل تعمیر کیے گئے۔ جاتلاں اور بنگ کے مقامات پر نہر کے حکام کے ٹھہرنے کے لیے ڈاک بنگلے تعمیر کیے گئے جو ابھی تک قائم ہیں۔ ان ڈاک بنگلوں میں ریاست کے تحصیلدار اور اس سے بڑے عہدے کے افسران ٹھہر سکتے تھے۔ ریاست کی حدود میں نہر کے بائیں کنارے پر بننے والی سڑک پر برطانیہ سے خصوصی طور پر لائے گئے درخت لگائے گئے تھے۔ وہ 1980ء تک قائم و دائم رہے اور پھر نامناسب دیکھ بھال کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہونے لگی۔بعد میں 2001ء میں سڑک کی توسیع کے نام پر ان سب درختوں پر آری پھیر دی گئی۔اب ان درختوں کی جگہ خالی ہے جس سے نہر انتہائی بے رونق دکھائی دیتی ہے۔بچپن میں ہمارے گاؤں کے نزدیک ہونے کی وجہ سے والدین کے منع کرنے کے باوجود ہم اس نہر میں نہایا کرتے تھے۔اسی نہر کے کنارے افضل پور کے مقام پر بڑے بڑے درختوں میں گھری ہماری مادر علمی گورنمنٹ ہائی سکول افضل پور کی عمارت ہے۔ ریاست کی حدود میں ڈب، افضل پور، منڈا اور بنی کے مقام سے چھوٹی نہریں نکالی گئی تھیں جو نہر کے دائیں طرف والے کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ان چھوٹی نہروں کی آب پاشی کی وجہ سے کھڑی میں چاول کی بڑی اچھی خوشبودار فصل ہوتی تھی،جو اب معدوم ہوتی جا رہی ہے۔اس نہر کی وجہ سے علاقہ کھڑی کی رونق ابھی تک قائم ہے۔

نہر کے دائیں کنارے پر ریل کی پٹڑی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ لکڑی کے تختے نزدیکی دیہاتوں کے لوگ اکھاڑ کر لے گئے تھے۔ بعد میں ایک سیاسی حکومت کے دور میں اس ریل کی پٹڑی اکھاڑ کر کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔ اگر اس کی صحیح طور پر دیکھ بھال کی گئی ہوتی تو یہ پٹڑی اب تک موجودہوتی جس سے نہر کی مضبوطی قائم رہتی۔ 2019ء میں ضلع میرپور میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کی وجہ سے علاقہ کھڑی میں بہت زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ نہر کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔افضل پور اور بنی کے پل مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔منڈہ کے سائفن کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ دو تین مقامات پر نہر کے کناروں کوشدید نقصان پہنچا جس وجہ سے نہر کو بند کر دیا گیا۔نہر کے کنارے سڑک بنگ ہیڈ سے لے کر جاتلاں تا مختلف مقامات پربیٹھ گئی اور بہت سے دوسری جگہوں پر مکمل تباہ ہو گئی۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کے نہر کے کناروں کو صحیح طریقہ سے دوبارہ تعمیر کرنے کی بجائے محض روایتی لیپا پوتی سے کام لیا گیا اور نہر کو چند ماہ کی بندش کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔ زلزلے میں تباہ ہونے والے افضل پور پل کو گیارہ کروڑ کی خطیر لاگت سے دوبارہ بنا دیا گیا ہے جب کہ ہماے گاؤں بنی والے پل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دوبارہ تعمیر کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت نے زلزلے سے تباہ ہونے والی سڑک بنگ سے علی بیگ ہیڈ تک نئی بنا دی ہے۔سوائے پل منڈا کے مقام پر نیا پل تعمیر کرنے کے گزشتہ ستر سالوں میں نہر کی نامناسب دیکھ بھال اورحفاظت کی وجہ سے نہر اب کئی مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے

واپس کریں