دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پوٹھوہار۔ خطہ دل ربا!
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
جنوری 2020 ء کی بات ہے شاہد صدیقی کا لکھا ہوا باقی صدیقی پر مضمون اخبار میں پڑھا تو ان کو مضمون کی پسندیدگی پر برقی ڈاک (ایمیل) کے ذریعے اپنے احساسات لکھ بھیجے۔ اگلے دن ان کا شکریہ کا جواب آ گیا۔ پھر انہی دنوں ان کی اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں یادیں جب اخبار میں چھپیں تو بے اختیار مجھے اپنی بے جی یاد آ گئیں اور بے جی سے ان کی یاد پر نہ رونے کا وعدہ کرنے کے باوجود دونوں ماؤں کو یاد کر کے میری آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔میں نے انہیں پھر ایمیل کی تو فوراً اس کا جواب بھی آ گیا۔ جب میری پہلی کتاب ”مشاہدات و تاثرات“ چھپی تو ان سے ان کا پتہ معلوم کر کے کتاب ان کو بھیجی جس کی بھی رسید ایمیل سے فوراً مل گئی۔ مجھ جیسے دور دیہات میں بسنے والے فقیر منش انسان کے لئے ان جیسے مصروف اور ایک بڑے مصنف کا ہر ایمیل کا جواب دینا میرے لئے اعزاز کی بات تھی کیونکہ اس سے قبل میں اچھے اور بڑے قلمکاروں کی بے اعتنائی کا شکار ہو چکا تھا۔

جب بک کارنر جہلم پران کی کتاب کی رونمائی میں ان کی آمد پر گگن شاہد نے کمال مہربانی سے دعوت دی تو پھر رہا نہیں گیا۔ اس دن میں جان بوجھ کر مقررہ وقت سے کچھ دیر میں پہنچا کہ شاہد صاحب بڑے آدمی ہیں دیر سے ہی تشریف لائیں گے۔ لیکن یہاں ایک بار پھر خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا، جب یہ پتہ چلا کہ وہ تو وقت سے پہلے بک کارنر پر تشریف لا چکے تھے۔ میرے جیسے علم و ادب کے ایک ادنی سے طالب علم کے لئے ان کی شفقت ان کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو ہے جو مجھے بہت کم بڑے ادیبوں اور قلمکاروں میں نظر آیا حالانکہ یہ میری ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ڈاکٹر شاہد صدیقی کا بچپن پوٹھوہار کے شہر راولپنڈی میں گزرا جو کبھی انتہائی اہمیت کا حامل شہر اور سیاسی و فوجی قیادت کا منبع ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے پوٹھوہار اور راولپنڈی شہر کے بارے میں اپنی یادداشتیں اکٹھی کر کے خواب ہوتی ان گلی کوچوں اور مقامات کی یاد دوبارہ تازہ کر دی ہے جن سے نئی نسل آشنا نہیں ہے۔ پوٹھوہار اور راولپنڈی سے ہمارا ناتا بہت پرانا ہے۔ راولپنڈی ایک ایسا شہر ہے جس سے ماضی میں آزاد کشمیر کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔ ہمارا آدھا میرپور کسی زمانے میں راولپنڈی میں بستا تھا۔ ہم بھی اپنے آپ کو اب تک پوٹھوہار کا وسنیک مانتے ہیں۔ ہماری زبان اور ہمارا رہن سہن پنڈی سے ملتا جلتا ہے۔ اسی لئے پوٹھوہار کے طلسم کدے کو ہم کشمیری بچپن سے جانتے ہیں۔

ان کے ابتدائی مضامین میرا گاؤں میری دنیا، میری ماں میری استاد، میرے والد میرے دوست پڑھ کر یوں لگا، یہ تو میرے گھر کی کہانی ہے جو انہوں نے لکھی ہے۔ جو محبت، پیار ہمیں اپنے گراں (گاؤں )، اپنی بے جی اور اپنے ابا جان سے ہے اس کا اظہار شاہد صاحب نے جن بہتر الفاظ میں کیا ہے اس سے بہتر اور کیا ہو گا۔ پوٹھوہار میں فصلوں کی کٹائی اور اس کے بعد گاؤں میں لگنے والے میلے ٹھیلے اب ماضی کی ایک یاد بن کر رہ گئے ہیں۔ بچپن میں گاؤں میں گزارہ ہوا وقت اور رمضان پر ان کا مضمون پڑھ کر اپنے بچپن کا گاؤں کا رمضان یاد آ گیا۔ جب ابھی لاؤڈ سپیکر نہیں تھے اور ہم بچے مسجد کے باہر کھڑے ہو کر اذان کا انتظار کرتے تھے، جیسے ہی اذان ہوتی ہم ”روزہ کھل گیا“ کا شور مچاتے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔راولپنڈی واقعی پوٹھوہار کا جھومر ہے۔ ٹاہلی موری ایک قدیم بستی ہے اس پر مضمون پڑھ کر 80 کی دہائی کے ابتدائی سال میں مجھے راولپنڈی میں اپنا گزرا ہوا وقت یاد آ گیا۔ ہم بینک کی طرف سے ٹریننگ کے لئے لالہ زار میں بنے ہوسٹل میں مقیم تھے اور ہمارا ٹریننگ کالج ہارلے سٹریٹ میں واقع تھا۔ ان کے مضمون کی منظر نگاری سے ساری ٹاہلی موری میری نگاہوں میں گھوم گئی جب ہم سوزوکی پر بیٹھ کر ٹاہلی موری چوک سے لالہ زار جایا کرتے تھے۔

راولپنڈی کی ہارلے سٹریٹ میں ہمارے بینک کا سٹاف کالج تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کا پہلا انٹرویو دیا تھا۔ ہمارے چھ ماہ اس سٹریٹ میں گزرے۔ یحیی خان کی کوٹھی سے دو کوٹھیاں چھوڑ کر ہمارا کالج ایک بڑی سی کوٹھی میں تھا۔ اسی طرح بینک روڈ کا جو نقشہ انہوں نے کھینچا ہے وہ آج کی بینک روڈ سے بہت پہلے کا ہے جو اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ اسی کی دہائی میں بینک روڈ پر واقع اپنے بینک کی برانچ میں میری پندرہ دن کی ٹریننگ کا وقت بھی کبھی نہ بھولنے والا ہے۔ اب تو تبدیل شدہ بینک روڈ پہچانی نہیں جاتی۔ مریڑ حسن، لال کڑتی اور ڈھیری حسن آباد کی اپنی حسین یادیں ہیں جن کے متعلق شاہد صدیقی نے اپنے الفاظ میں لکھا ہے۔ وہ لوگ جن کا بچپن ان جگہوں پر گزرا ہے اور اب وہ کہیں اور ہجرت کر گئے ہیں ان کو یہ مضمون ضرور پڑھنے چاہیں، ان سے ان کے بچپن کی یادیں لوٹ آئیں گی۔راولپنڈی کے سنیماوں کے بارے میں پڑھ کر مجھے اپنی ان سینماؤں میں دیکھی ہوئی فلمیں یاد آ گئیں۔ کیسے شبستان سنیما میں شبنم کی فلم آئینہ کے ٹکٹ ایک خاتون کی منتیں کر کے کتنی مشکل سے ان سے خرید کروائے تھے۔ سیروز اور اوڈین سنیما میں بڑی اچھی انگریزی فلمیں لگتی تھیں جن کو دیکھنے شہر کے پڑھے لکھے لوگ آتے تھے۔ شاہد صاحب کی طرح میں نے بھی بہت سی یادگار انگریزی فلمیں یہاں دیکھی ہیں۔ گوالمنڈی کی ایک اپنی تاریخ ہے جس کے بارے میں پڑھ کر واقعی بہت لطف آیا۔

مال روڈ بھی ماضی میں ایک خوبصورت سڑک ہوتی تھی۔ جہاں کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اس وقت جانے کی ہماری جیب اجازت نہیں دیتی تھی لیکن ان سب کو دیکھا ضرور۔ مال روڈ کے بارے میں پڑھ کر یہاں پر ایم ایچ ہسپتال کے سامنے واقع ائر فورس کے دفتر میں 1974 ء میں دیا ہوا جی ڈی پائلٹ کے لئے ٹیسٹ بھی مجھے یاد آ گیا۔ لیاقت باغ میں بسوں کا اڈا ہوتا تھا ہم طالب علمی کے دور میں آدھا کرایہ دے کو میرپور سے پنڈی کا سفر کرتے۔ موتی محل، سنگیت، روز اور ریالٹو سنیما میں فلمیں دیکھ کر میرپور واپس لوٹ جاتے۔کمپنی باغ جو لیاقت باغ بنا ایک خوبصورت اور تاریخی جگہ تھی۔ چند سال قبل یہاں کشمیری لیڈر امان اللہ کا جنازہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو باغ کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ راولپنڈی ایک قدیم شہر ہے جہاں بڑے مالدار ہندو اور سکھ بستے تھے جنہوں نے بڑی بڑی حویلیاں بنا رکھی تھیں۔ لال حویلی اور حویلی سوجان سنگھ ایسی ہی نشانیاں ہیں جن کو اگر الاٹ منٹ اور قبضہ مافیا سے بچایا جاتا تو ان کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے اب یہ حویلیاں سیاحوں کے لئے بڑی اہمیت کی جگہ بن جاتیں۔

پتہ نہیں کیوں ہم اپنی تاریخی اہمیت کی جگہوں کی قدر نہیں کرتے۔ شاہد صدیقی کو ان کی تاریخ یاد ہے۔ بیکریوں کے تذکرے سے یاد آیا کہ بینک روڈ کے کارنر پر یونیک بیکری تو ہمارے سامنے ہی بنی تھی۔ ہم چار دوستوں کا گروپ جب بھی صدر خریداری کرنے جاتا تو یہاں سے کچھ نہ کچھ ضرورخریدتے۔ جس طرح کرشن چندر نے اپنی سوانح حیات ”میرے یادوں کے چنار“ میں میرپور اور پونچھ شہر کی جزئیات کا تذکرہ کیا ہے اسی طرح شاہد صدیقی نے بھی راولپنڈی کے بارے میں لکھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی خیال رکھا ہے۔گورڈن کالج پوٹھوہار اور راولپنڈی کی سب سے بڑی اور اعلی علمی درسگاہ تھی۔ گورڈن کالج کو پوٹھوہار میں وہی مقام حاصل تھا جو پنجاب میں گورنمنٹ کالج لاہور کو تھا۔ آزاد کشمیر کے اکثر لوگ راولپنڈی کے گورڈن کالج سے فارغ التحصیل ہیں جن میں ریٹائرڈ چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ عبدالمجید ملک جیسی شخصیات شامل ہیں۔ شاہد صدیقی نے گورڈن کالج پر ایک پورا گوشہ کتاب میں رکھنے کے علاوہ راولپنڈی کے تعلیمی اداروں میں اپنے گزرے ہوئے وقت کو بڑے احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔

پوٹھوہار نابغہ روز گار ہستیوں کا علاقہ تھا اور اب بھی ہے۔ ان ستاروں کے جھرمٹ میں موسیقار مدن موہن، شاعر اور گیت نگار گلزار، اداکار بلراج ساہنی، سنیل دت اور مینا کماری، گیت نگار آنند بخشی اور شیلیندر کے بارے میں پڑھ کر جہاں ان کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل ہوئیں وہیں پروفیسر موہن سنگھ، راجہ مہدی علی خان اور درشن سنگھ آوارہ پر مضامین نہ ہونے پر کچھ تشنگی کا احساس ہوا۔ اس بارے میں شاہد صاحب نے بتایا کہ وہ جلد ان پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔بابا جی فضل کلیامی اور میاں محمد بخشؒ کے بارے میں لکھے بغیر پوٹھوہار پر بات مکمل نہیں ہوتی۔ فتح محمد ملک، رشید امجد، کیپٹن سرور شہید اور یوسف حسن جیسی شخصیات پر بھی شاہد صاحب نے بہت خوب لکھا۔ بک کارنر کے شاہد حمید صاحب کے بارے میں ان کا مضمون پڑھ کر مجھے ان سے اپنی 80 کی دہائی کے پہلے سالوں میں ملاقاتیں یاد آ گئیں جب وہ بھرپور جوان تھے۔ پھر غم روز گار کہیں کا کہیں لے گیا اور ملاقاتیں موقوف ہو گئیں۔ شاہد صاحب کے مضمون نے ان کی شخصیت کی ان پہلوؤں کی یاد دلائی جنھیں میں نے اسی کی دہائی میں دیکھا۔

ٹیکسلا ہزاروں سال پرانی تاریخی یونیورسٹی کا شہر ہے۔ اس جیسے تاریخی شہر کو اس کی تاریخی اہمیت کے مطابق ہم نے وہ مقام نہیں دیا جو اسے ملنا چاہیے تھا۔ شاہد صاحب نے اس پر بہت اچھا لکھا اسی طرح دوسروں کو بھی اس پر لکھنا چاہیے۔ کچھ سال پہلے تھائی لینڈ میں ایک بدھ خاتون نے ایک ملاقات میں اس یونیورسٹی کے بارے میں مجھ سے معلومات لے کر اسے دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ قلعہ رہتاس، کٹاس راج اور روات کا قلعہ پوٹھوہار کا تاریخی ورثہ ہیں جن پر لکھ کر انہوں نے پوٹھوہار کی تاریخ کا حق ادا کیا ہے۔ کھیوڑہ کی نمک کی کان ایشیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے اسی طرح اٹک کا قلعہ بھی اپنی تاریخی اہمیت کے علاوہ کچھ بڑے لوگوں کی وجہ سے بھی کافی مشہور ہے جن پر آپ نے تفصیل سے لکھا۔پوٹھوہار، خطہ دل ربا کا ہر مضمون اپنی سادہ زبان اور بے ساختہ انداز بیان کی وجہ سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس سے قاری کی ساری توجہ کتاب پر مرکوز ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں یہی مصنف کی کامیابی ہے۔ ان کے لکھے ہوئے کو پڑھنے کے لئے کسی لغت کی ضرورت نہ پڑتی۔


واپس کریں