دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کھڑی ( میر پور)کیا واقعی ایک لاوارث علاقہ ہے ؟
سید شبیر احمد
سید شبیر احمد
کل چار ماہ بعد اپنے آبائی گائوں جانے کا اتفاق ہوا۔ افضل پور سے آگے جانے والی سڑک بوجہ خرابی سائفن بند تھی ۔پل پار کرنے کے بعد ایجوکیشن کالج تک بڑی اچھی سڑک دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔لیکن یہ خوشی فوراً ہی پریشانی میں بدل گئی جب یہ سڑ ک بھی بند دیکھی۔سہہ پہر کے چار بجے اس متبادل راستے پر پتھر اور مٹی ڈال کر ایک ٹریکٹر سے ہموار کرنے کا کام جاری تھی۔ کام کرنے والے ایک بندے سے پوچھا کہ بھائی کتنی دیر لگے گی،انتہائی بدتمیزی سے جواب ملا ایک گھنٹہ۔ انتظار نہیں کر سکتے تو کسی اور راستہ سے چلے جائیں۔ایک گھنٹہ وہاں انتظار کرنے کے بعد مشکل سے پتھروں سے گاڑی گزاری۔ بھلے مانسو کیا لوگوں کو تنگ کرنے کی بجائے رات کو یہ کام نہیں کرسکتے۔وہاں انتظار میں کھڑے ایک صاحب نے بتایا کہ بھائی شکر کریں بارش نہیں ہو رہی، ورنہ اس سڑک سے گزرنا محال ہو جاتا
چیچیاں بازار اور بابا پیرے شاہ غازی و میاں محمد بخش کے مزارات تک جانے والی سڑک عرصہ دراز تک خراب رہنے کے بعد پچھلے چھ ماہ سے زیر تعمیر ہے۔غیر مناسب منصوبہ بندی اور ٹھکیداروں کی بد معاشی کی وجہ سے چیجیاں بازار کے دوکاندار اور اڑوس پڑوس میں بسنے والے افراد اوراس سڑک پر سفر کرنے والے مسافر منوں کے حساب سے دھول اور مٹی اب تک پھانک چکے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک سڑک پر کام شروع ہونے پر ٹھکیدار کی طرف سے ایک بورڈ نصب ہوتا تھا جس پر سڑک کی لمبائی ،چوڑائی، مدت تکمیل اور تخمینہ لاگت درج ہوتا تھا ۔لیکن اب ایسا نہیں ہے ، کسی کو نہیں پتہ کہ سڑک کون سی کمپنی بنا رہی ہے اور کب مکمل ہو گی۔ نہ ہی ٹھیکیدار کی طرف سے سڑک کی تعمیر کی مناسبت سے ہدایات کے بورڈ نظرآتے ہیں۔
منگلا سے علی بیگ تک نہر اپرجہلم کے کنارے سڑک کی تعمیرو توسیع بہت عرصہ بعد 2000ء میں بیرسٹرسلطان محمدچوہدری کے بطوروزیراعظم دور میں ہوئی تھی جس کی کوالٹی بہت بہتر تھی۔ تین سال پہلے آنے والے زلزلہ میں اس سڑک کو شدیدنقصان پہنچا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت میںاس علاقہ سے منتخب وزیرچوہدری رخسار احمد کی کوششوں سے اس سڑک کی دوبارہ تعمیر شروع ہوئی۔ زلزلے میں نہر پر بنے ہوئے پلوں کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔افضل پور اور بنی کے مقام پر بنے پُل گر گئے تھے۔ افضل پور پُل کی تعمیر کے لئے تو حکومت نے فنڈ مہیا کر دئیے اور اس کی دوبارہ تعمیر بھی ہو گئی لیکن بنی پُل ابھی ارباب بست و کشاد کی نظرِ کرم کا منتظر ہے۔
نہر اپر جہلم پر واقع اس سڑک کی دوبارہ تعمیر کا ٹھیکہ آزاد کشمیر کی ایک بڑی کمپنی سیون سٹار کو دیا گیا۔ لیکن اس فرم کی طرف سے بھی سڑک کی تعمیر کے بارے میں ضروری معلومات کا بورڈ کہیں نصب نہیں کیا گیا۔اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک سڑک زیر تعمیر ہے۔ سڑک کی تعمیر میں کافی کوتاہیاں کی گئیں۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں اور علاقہ کے لوگوں نے سڑک کی ناقص تعمیر پراحتجاج بھی کیا۔ چیچیاں پُل سے جاتلاں بازار تک ڈب،پنڈی سبھروال ،پل منڈا اور ساہنگ کے مقامات پر برساتی نالوں کے پانی کے اخراج کے لئے سائفن تعمیر کیے گئے تھے۔2019 ء میں آنے والے زلزلہ کی وجہ سے ان سب سائفن کو کافی نقصان پہنچا تھا ۔ سڑک کی تعمیر کرتے وقت ان سائفن کی مرمت بہت ضروری تھی۔پل منڈا والا سائفن ضروری مرمت نہ ہونے اور ضرورت سے زیادہ وزنی ڈمپرگزرنے کی وجہ سے بیٹھ گیا۔ ان سائفنوں کے مقام پر سڑک ابھی تک نامکمل ہے۔ وہاں پر مٹی اور بجری کے تودے لگا دئیے گئے ہیں ۔سڑک پر سفر کرنے والوں کے لئے ان جگہوں پر کوئی بورڈ آویزاں نہ ہونے کی وجہ سے اب تک کتنے لوگ پر حادثہ کا شکار ہو چکے ہیں۔اب تو جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ تیسں چالیس ہزار کے خرچہ سے کمپنی ان مقامات پر نمایاں بورڈ لگا سکتی تھی۔ پچھلے دنوں علاقہ کی سول سوسائٹی نے چند مقامات پر ایسے بورڈ نصب کروائے ہیں لیکن وہ اتنے نمایاں نہیں ہیں۔ سڑک کی تعمیر کرنے والی سیون سٹار کے نوجوان مالک یورپ کا اکثر دورہ کرتے رہتے ہیں۔ان کو تو ایسی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے زیر تعمیر سڑک پر ضروری اور نمایاں ںظر آنے والے بورڈ نصب کروانے چاہیں۔افضل پور سے جاتلاں تک نہر کے کنارے حفاظتی دیوار بنانے کا کام بھی عرصہ دراز سے رکا ہوا ہے شاید کسی بڑے حادثہ کا انتظار ہو رہا ہے۔
چیچیاں سے جاتلاں تک بننے والی ایک چھوٹی نہر کے ساتھ بہت عرصہ پہلے ایک سڑک تعمیر ہوئی تھی ۔ کچھ عرصہ بسیں بھی اس پر چلتی رہیں۔لیکن اب اس سڑک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے کسی بھی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اس سڑک کی دوبارہ تعمیرو مرمت سے نہرکے کنارے والی سڑک پر ٹریفک کا دبائو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کنارے بسنے والے بہت سے گائوں اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔نہراپر جہلم کے دونوں طرف آباد گائووں کو آپس میں ملانے کے لئے بہت سی رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ ان سڑکوں کی تعمیر عموما ًناقص ہوتی ہے جو بننے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس وقت علاقہ کی تمام رابطہ سڑکوں کی مرمت کا کام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
افضل پور ہائی سکول اس علاقہ کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے ۔حالیہ زلزے میں اس کی عمارت کو بھی کافی نقصان پہنچاتھا۔ سول سوسائٹی نے عمارت کی تعمیر کے لئے کافی کوششیں کیں، وہ تحریک چلا سکتے ہیں لیکن تعمیر و مرمت کے لئے فنڈ مہیا کرنا حکومت کا کام ہے۔ اب حکومتی سطح پر اس کا کام شروع ہوا ہے جس کی تکمیل جلدی ہونی چائیے۔ 2019 ء میں آنے والے زلزلے کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیموںنے زلزلے میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر اور دوسری امداد فراہم کرنے میں بہت کام کیا ۔لیکن حکومت کی طرف سے متاثرین کے لئے ٹھوس اقدام اور اعلانات پر عملدارمد کے لئے لوگ ابھی تک منتظر ہیں۔صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات لوگوں کو بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔علاقہ کھڑی میں سرکاری سطح پرتعلیمی اداروں کی بہتات ہے لیکن معیار تعلیم میں سب ادارے بہت ہی پیچھے ہیں۔
پنڈی سبھروال میں پچاس سال سے زیادہ عرصہ سے ڈسپنسری قائم ہے چند سال پہلے تک یہاںصرف ایک ڈسپنسر ہی تعینات ہوتا تھا۔ ڈاکٹرعبدالخالق مرحوم نے عرصہ دراز تک اس ڈسپنسری میں لوگوں کی خدمت کی اور ناگفتہ بہ حالات کے باوجود لوگوں کی طبی ضرورتیں پوری کرنے کی کوششیں کیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے یہاں ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر تعینات ہیں۔اب تک تو اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال میں تبدیل ہو جانا چاہیے تھا لیکن اتنا عرصہ گز رجانے کے باوجود اتنی بڑی آبادی کے علاقہ میں حکومتی سطح پر ہسپتال کا نہ بننا اورپنڈی سبھروال جیسی پرانی ڈسپنسری کو ہسپتال کا درجہ نہ دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر یہاں ہسپتال بن جائے تو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور پر مریضوں کا دبائو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ علاقہ کے سرکردہ سیاسی لیڈران اور سماجی راہنمائوں کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا۔ اس وقت جب کہ صدر آزاد کشمیر، وزیر برقیات اور وزیر ہائوسنگ کاتعلق اسی علاقہ سے ہے ۔ کمشنر میرپور،ڈپٹی کمشنر میرپور اور وزیر اعظم کے پرنسپل سٹاف افیسر بھی اسی علاقہ میں پلے بڑھے اور یہیں کے باسی ہیں۔ اتنے طاقتور حکومتی عہدے داران اور بیور کریٹس کی موجودگی میں بھی اگر یہ علاقہ پسماندہ رہ جائے اور اس میں جاری تعمیر وترقی کے کاموں میں تیزی نہ آئے اور اس علاقہ میں رہنے والے افراد کو آسانیاں فراہم نہ ہو سکیں تو پھر واقعی یہ ایک بدقسمت علاقہ ہو گاجس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔لیکن میں بڑا پر امید ہوں کہ آنے والے دنوں میں حالات میں بہتری آئے گی۔

واپس کریں