دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فیصلہ جو بہت پہلے ہوچکا تھا ۔
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
آرٹیکل تیس سو ستر اے پہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر ۔ منظر اور پس منظر میں سچائی کی کھوج پہ سلسلہ وار تحریروں کی قسط اول ۔ تحریر و تحقیق : واحد کاشر ۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل ایک بینچ نے رواں سال 5 ستمبر کو درخواست گزاروں اور حکومت ہند کی جانب سے 16 دنوں تک دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا فیصلہ سُنا دیا ہے ۔ میری کُچھ عرصے سے بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں رہنے والے سیاسی و سماجی دوستوں سے اس متوقع فیصلے پہ جب بھی گفتگو بھی ہوئی اس میں اُنھیں کوئی اُمید کی کرن نظر نہیں آرہی تھی ۔ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ عمومی طور پہ اُس پار کے کشمیریوں کو بھارت کے نظام انصاف سے کبھی اُمید لگی ہی نہیں تھی ۔
بھارت کے ایک بڑے موقر جریدے کے ایڈیٹر نے مجھے بتایا تھا کہ تین سو ستر والا دروازہ اب ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا ، بھارت کی عدالت عظمیٰ بھارتی سرکار کے فیصلوں کو ہی آگے بڑھائے گی ۔۔ہاں البتہ اُسی میں سے کشمیریوں کو راحت تلاشنے کی ضرورت ہوگی ۔۔۔ شاید اُن کا اشارہ وہاں پہ انتخابات کروانے سے متعلق تھا ۔۔۔ اور پھر وہی ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کو متفقہ طور پر برقرار رکھا ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جموں کشمیر میں اگلے سال ستمبر تک انتخابات کرانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کا یہ کہنا بڑا دلچسپ لگا کہ ’’صدر راج کے دوران ریاست کے ذریعہ لیے گئے مرکز کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ دفعہ 370 جنگ کی صورت میں ایک عبوری شق تھی۔ اگر ہم اس کے متن پر بھی نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایک عارضی بندوبست تھا۔۔۔۔۔ جسٹس چندرچوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری بنانے کے فیصلے کو درست قرار دینے کے بھارتی صدر کے اختیار کو درست سمجھتا ہے۔
یاد رہے کہ دفعہ 370 کو بے اثر کرنے کے خلاف دائرعرضی گزاروں نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ صدر راج کے دوران مرکزی حکومت ریاست کی جانب سے اتنا اہم فیصلہ نہیں لے سکتی۔ کہ اس کے لئے قانون ساز اسمبلی کی منظوری لینا ضروری ہے ۔ ایک مرحلے پہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ جموں کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے بعد داخلی خودمختاری کا حق حاصل نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ آرٹیکل 370 جموں کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال کی وجہ سے ایک عارضی انتظام تھا اور یہ آئین کے آرٹیکل 1 اور 370 سے واضح ہے۔
یہ فیصلے کا لُب لباب سمجھ لیں ۔ لیکن یہ بات یہاں پہ ختم نہیں ہوجاتی بلکہ بھارتی سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے نے بہت سی نئی گرہوں کی نشاندھی کی ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے ۔آنے والی اقساط میں ہم آرٹیکل تیس سو ستر اے پہ بھارتی موقف کی حقیقتوں کا تجزیہ کریں اور مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق بھارت کے ساتھ جُڑی شرائط پہ مختلف نکتہ ہائے نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا بھارت جن واقعات کو جواز بنا کر اس بظاہر عارضی الحاق نامے کو حتمی سمجھتا ہے اُس میں تاریخی طور پہ کتنی سچائیاں ہیں ؟
کیا مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق نامے پہ محض تین اُمور ، دفاع ، کرنسی اور اُمور خارجہ پہ ہی دستخط کئے تھے ؟ اس الحاق نامے کی باقی جزویات اس پہ کیا تاثر دیتی ہیں ؟ اس پہ بھارتی تشریعات اپنے وجود میں کتنی صداقت رکھتی ہیں ؟ بھارتی سپریم کورٹ میں اس آرٹیکل کے خاتمے کے خلاف کیا کیا دلائل دئیے گئے ؟ کوشش ہوگی کہ اس مسئلے پہ جو کُچھ اپنے علم میں ہے اسے بروئے کار لائیں ۔ ساتھ دیجئیے گا ۔ جُڑے رہئیے گا اور اپنے اتفاقی یا اختلافی نوٹس کے ذریعے مطلع رکھئیے گا ۔


واپس کریں