دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈوگرہ راجواڑے کی عیدقربان
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن ڈڈیال
ایک سو ایک سالہ ڈوگرہ عہدِ استبداد جموں کشمیر کے خطے کی غلامی و استحصالیت کے عہد کا قریب ترین دور ہے ، اس لئے تاریخ کے ہر طالب علم کا فرض ہے کہ وہ موجودہ عہدِ استبدادیت کا سرا ڈوگرہ دورِ غلامی سے تلاش کرنے کی کوشش کرے ۔اُس دور کی عید کیا ہوتی تھی ؟ اس کے لئے ہمیں کوئی لمبا سفر نہیں طے کرنا پڑے گا ، آج بھی ہمارے گھروں میں اُس دور کے چند بزرگ زندہ ہوں گے جنھیں جموں کشمیر کے خطوں پر برطانوی سامراج کے کاسہ لیسی میں لپٹے ڈوگرہ خاندان کے عہد حکمرانی کا تجربہ ہوچکا ہوگا ۔ بڑی عید کا آغاز آدھی رات کو ہی ہوجایا کرتا تھا جب ہمارے بزرگ رات کی تاریکی میں بڑے جانور کا ذبیعہ کرنے کی تیاری کررہے ہوتے ۔۔ یہ عمل انتہائی خفیہ رکھا جاتا تھا اس میں کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی تھی کہ مبادا کہیں سرکار کے ایجنٹوں کو خبر نہ ہوجائے ۔۔ جانور کو ذبیعہ کے بعد اس کی کھال ، پائے اور سری کو فوری ٹھکانے لگایا جاتا اور ذبع والی جگہ کو جلدی جلدی اُس کی نارمل حالت میں لانے کی کوشش کی جاتی کہ اگر مہاراجہ کے ہرکاروں کو خبر مل گئی تو قید کے ساتھ ساتھ بھاری جُرمانہ کون ادا کرے گا ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے سابقہ ریاست چھبال کے علاقوں سے لے کر مظفر آباد سمیت وادی کشمیر کے پیشتر خطوں میں مسلمان اکثریت کا بُری طرح دم کررکھا تھا مُسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود اس خطے میں "گاو کشی" کے قوانین کا نافذ کیا جانا اس خاندان کے رعایا کے ساتھ سلوک کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔

ڈوگرہ راجواڑے کے بانی گلاب سنگھ نے سرکاری طور پر گائے کے ذبیحے کیلئے عمر قید کی سزا مقرر کی تھی مگر اسکے ولی عہد رنبیر سنگھ کی مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ اس نے کشمیریوں کو ایسی خطرناک سزائیں دیں کہ لوگ جانور کو ذبع کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچا کرتے تھے ۔تاریخ کی ورق گردانی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ڈوگرہ حکمران پرتاپ سنگھ کے آخری دور میں سرینگر کے ممتاز تاجر خاندان کاؤسہ کے تین افراد کو گائے ذبح کرنے پر پھانسی دیدی گئی اور پھر ان کی لاشوں کو سرینگر کے بازاروں میں گھسیٹا گیا تاکہ لوگ عبرت پکڑ سکیں۔سرینگر کے صمد بابا کو اپنے تمام خاندان کے سترہ افراد سمیت زندہ جلایا گیا۔ انہیں علاقے کے تھانے دار بھولا ناتھ کی زیر نگرانی لکڑی اور خشک گوبر کے ڈھیر میں رکھ کر نذر آتش کیا گیا۔ اس طرح سجان سنگھ کی زیر قیادت حول سرینگر میں بارہ افراد اور سرینگر کے مضافاتی علاقے دودھ گنگا میں ایک اور خاندان کے انیس افراد کو زندہ جلایا گیا۔
اسی ڈوگرہ جبر کے عہد حکومت میں گائے ذبح کرنے کے الزام میں کئی لوگوں کو کھولتے ہوئے تیل میں زندہ جلانے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ رنبیر سنگھ کے زمانے میں ایک خاتون کی زبان گائے کو مارپیٹ کرنے کے الزام میں کاٹ دی گئی جبکہ ایک اور واقعے میں گائے ذبح کرنے کے شبے میں ایک نوجوان کو دوران حراست کئی روز تک زبردستی بے انتہا نمکین کھانا کھلایا گیا جس سے وہ بالآخر شہید ہوگیا ۔ 1920 کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق کشمیر کی جیلوں میں محبوس 117 افراد میں 97 افراد گاؤ کشی کے الزام میں قید تھے۔

ڈوگرہ عہد کی عید ایک شام غریباں کا منظر پیش کرتی تھی ایسی شام غریباں جس پہ ڈوگرہ لشکری پہرے بٹھا کر عوام کی اکثریت کا استحصال کرتے تھے ، لوگوں کے سر پر مطلق العنان نظام کے من مانے احکامات ہمہ وقت منڈلاتے، بات بات پر رعایا ظلم وتشدد کی بھٹی میں تپائی جاتی، تعصب، استحصال، کور چشمی کا کھلا مظاہرہ ہوتا، ظلم کے خلاف اُف تک کہنے پر جیل لازم وملزوم ہوتی، اونچی آواز میں بولنے پر ریاست بدری کا کالا قانون حرکت میں آتا، مہاراجہ کے تئیں غلامانہ وفاداری کا اظہا بآواز بلند مہاراجہ کی جے بولنا فرض عین مانا جاتا۔ ڈوگرہ شاہی کے خلاف بغاوت کے ادنیٰ شبے میں باغی کی جائیداد کی ضبطی قانوناً جائز ہوتی، حکام سے معمولی اختلاف کرنے پر املاک کی قرقی یقینی ہوتی، بے گاری کی لعنت پر سر تسلیم خم کرنا، ظالمانہ ٹیکسوں کا رونا نہ رونا، سیاسی گھٹن کے سامنے مکمل خودسپردگی اختیار کرنا اور سب سے بڑھ کر جہالت و غربت کو کردہ الہٰی ماننا،، یہ سب کشمیر کے سیاسی ماضی کی تلخ وتند حقیقتیں تھیں جو تاریخِ انسانیت کے ماتھے پر بدنما دھبے ہیں۔

آج مغربی جموں کے کُچھ پیادے جب اسی ڈوگرہ جبر کے عہد کو “ریاستی“ عہد کی بوتل میں پیش کرتے ہیں تو گمان ہوتا ہے کہ یہ لوگ تاریخ کے زاویہ ہائے نظر کے بجائے وقتی مفادات کی لے میں اس قدر گُم ہیں کہ انھیں اپنی چارپائی کے نیچے سانپ نظر نہیں آتا ؟ پھر اس پہ مستزاد یہ کہ ان کی اکثریت “آزاد“ کشمیر کی آزادی کو گائے ذبع کرنے کی آزادی سے تشبیہ دے کر اپنے اجداد کی تاریخی جرائم پہ کس قدر بے شرمی سے پردہ ڈال رہی ہوتی ہے ؟ جو عہد غلامی و استبداد جموں کشمیر پہ ایک سو ایک سال تک غالب رہا موجودہ عہد د راصل اُسی عہدِ سیاہ کی ایکسٹینشن یا توسیع ہی تو ہے ؟ ایک انگریزی کہاوت ہے ۔
Two wrongs do not make a right ( دو غلطیاں ایک کو صحیح نہیں بنا سکتیں )

اس تاریخی حقیقت سے انکار کی اب کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی کہ ڈوگرہ دور دراصل ایک استبدادی دور محکومیت ہی تھا جس میں اکثریت کو فرنگی سامراج کی پشت پناہی سے اقلیت کے تابع رکھا گیا اور فرنگی یعنی انگریز نے اس کے بدلے میں یہاں سے پہلی جنگ عظیم سے دوسری تک ایک لاکھ سے زائد فوجی اپنی جنگوں کے لئے حاصل کئے ۔ڈوگرہ راجواڑہ دراصل انگریز سامراج کی افواج کے لئے ایک "بھرتی سنٹر" بن کر اُبھر چکا تھا ۔


اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کُتب کے استفسارات کو مدنظر رکھا گیا ۔
(kashmir a walk through history) مصنف خالد بشیر
Kashmir The Unwritten History) مصنف کرسٹوفر سینڈن
The making of a frontier. COLONEL ALGERNON DURAND, C.B., C.I.E. کشمیر کی پرانی یادگاریں سر والٹر لارنس

یہ اقتباس جموں کشمیر پہ ڈوگرہ خاندانی راجواڑے کے طرزَ حکمرانی پہ راقم کے ایک طویل مضمون کا حصہ ہے ۔
واپس کریں