دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تپتی ریت میں سیپیاں تلاش کرنے والا بابا
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
از ۔ واحد کاشر لندن ۔ ڈڈیال

برسلز میں کشمیر پر یورپی پارلیمنٹ کے سوشلسٹ گروپ نے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کررکھا تھا ،ہمارے وطن جموں کشمیر کے دونوں اطراف کی سیاسی قیادت وہاں مدعو تھی ، دیگر مہمانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کی مکمل آزادی کے سرخیل اور قائد جناب امان اللہ خان بھی شرکا میں شامل تھے مگر انھیں بھارت کی ایما پر کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا تھا پھر انھیں گرفتار کر کے پابند سلال کردیا جاتا ہے، یہ برسلز کی ہائی سیکورٹی جیل کا کوئی سیل تھا جہاں انھیں قید رکھا گیا تھا ، یہ قیدی اپنی معمول کی زندگی میں ریڈ اینڈ وائٹ نامی برانڈ کے سگریٹ پیا کرتے تھے بلکہ آپ کہہ لیں وہ ٹو چین سموکر تھے مگر اس رات ایک ایسا واقعہ پیش آنے والا تھا جس نے ہم سب کے لئے ضد، اور کبھی نہ جھکنے کی ایک مثال قائم کردی تھی۔

انھیں جیل میں پہنچے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ سگریٹ پینے کا خیال آیا ، جیب میں ہاتھ مارا تو یاد آیا کہ سیل میں داخلے سے پہلے جیب میں موجود تمام چیزیں جمع کروانا پڑتی ہیں جو وہ کروا چکے تھے ، سگریٹ پینے کا ابال انھیں بار بار ستا رہا تھا ، مگر جیل حکام انھیں اُصول و ضوابط کے تحت رہائی تک کچھ بھی واپس نہیں کرسکتے تھے ، آدھی رات کا وقت ہوا ہوگا انھیں سگریٹ کی شدت طلب ہورہی تھی۔ اس بیرک میں ایک اور قیدی بھی تھا اس سے مدعا بیان کیا تو اس قیدی نے انھیں فقط ماچس کی تیلیاں دینے پہ اکتفا کر کے امتحان میں ڈال دیا تاریخ کا بیٹا ایک دم اٹھا اور اپنے آپ سے عہد کر بیٹھا کہ وہ آج کے بعد سگریٹ نہیں پئے گا وہ دن اور پھر مرتے دم تک اس ناتواں سے بابے نے پھر سے کبھی بھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ یہ پورے 40 سال کی ہاں تھی جو ایک ضد میں آکر آخر۔ نہ میں بدل گئی ، جو کہہ دیا وہ کردیا۔

تاریخ کا مصنف ایسے ضدی انسانوں سے خائف ہو کر چلتا ہے یہ وہ جانباز ہوتے ہیں جو جہاں بیٹھتے ہیں وہیں پہ آزادی ، بغاوت اور حریت کی آدرشیں سمٹ آتی ہیں۔ اپنے دور طالب علمی میں ،میں نے اِنھیں ڈھلتی رات کے آخری حصے میں آزادی کی دیوی سے باتیں کرتے دیکھا تھا، وہ صبح کاذب کی لو پھوٹنے تک جاگتے رہتے تھے اور ہمارے عظیم ہمالیائی وطن کی لیلیٰ آزادی سے فکر وعشق کی ریاضتیں کرتے رہتے ، وہ ہمارے عہد کے بڑے باپ تھے ۔ اسی لئے ہماری خوبصورت آزادی کے بال سنوارا کرتے تھے ، وہ ہماری جدوجہد آزادی کے ضدی ترین انسان مشہور ہوئے ۔ میں نے ایک دفعہ آزادی کے مقدس صحیفوں میں اسی ضد کے متعلق پڑھا ۔ تو معلوم ہواکہ آزادی کا حصول صرف انھی اقوام کو میسر آتا ہے جو ضدی ہوتی ہیں ، اپنے عزم میں کوئی لچک نہیں دکھاتیں ، اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنی ضد سے عبور کرتی ہیں ، یہ ضد بالاخر انھیں منزلِ آزادی سے ہم کنار کردیتی ہے ۔ ی

ہ قائد تحریک جناب امان اللہ خان صاحب ہی تھے جھنوں نے ہمارے مقدس وطن کے ہزاروں نوجوانوں کو ضد کے عہد کی راہ دکھائی تھی تو آزادیوں کے قافلے چل پڑے تھے، آپ ان کی سوچ اور فکر سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اُن کی دہائیوں پر مشتمل جدوجہد سے انکار کی جرات نہیں کرسکتے وہ اس صدی کے عظیم باپ ہیں جھنوں نے ساری زندگی ہمارے وطن کی مکمل آزادی کا خواب اپنی اکھیوں میں سمویا ہے ، حریت کی کچی کلیوں کی نگہداشت کی ہے ، وہ ساری زندگی تپتی ریت میں ہماری آزادی کی سیپیاں تلاش کرتے رہے ،وہ شعور کی شمع جلا کر جس مرضی کونے میں اکھیاں بند کر کے سو جائیں اُن کی بخشی روشنی بہرحال روشن ہی رہتی ہے ۔ امان صاحب وقت سے بہت پہلے ہم سے جدا ہوگئے مگر ان کا بخشا ہوا انقلابی فہم و شعور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا۔۔ ان کا دیا ہوا درس اس وقت تک ہمارے جانبازوں کا پرچم بنا رہے گا جب تک انھی کے بخشے خواب پورے نہیں ہوتے۔ پروردگار انھیں جنت الفردوس میں ارفع مقام عطا فرمائے ۔ آمین
واپس کریں