دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی بھارت یاترا اور جموں کشمیر
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
پاکستان کے وزیر حارجہ بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت بظاہر ایک اچھی شروعات ہے ۔ ہم جموں کشمیر کے عوام کو ہندوپاک کے آپسی رشتوں کی بحالی کو مثبت لینا ہوگا کیونکہ اسی سے منقسم جموں کشمیر کے تمام خطوں میں بہتری آسکتی ہے ۔ گفتگو و مکالمہ ہی آج کی ضرورت ہے ۔لیکن اس مثبتی سے پہلے بہت سے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں جن سے نکلنے کی کوشش کرنا ضروری ہے ۔جموں کشمیر کی منقسم ریاست بالخصوص بھارتی زیر قبضہ جموں کشمیر کے عوام کا ایک بڑا طبقہ پاکستانی حکومت کے اقدامات کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتا ہے ۔

پاکستانی زیر انتظام (آزاد) کشمیر کے عوام کی بہت بڑی تعداد بھی پاکستان حکومت کے پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے مابعد اور پہلے کے اقدامات سے ناخوش ہے ۔بلکہ ایک اچھی خاصی تعداد پانچ اگست کے اقدامات کو ہندوپاک کا سانجھا پلان بھی سمجھتی ہے ۔ایسے میں جہاں ہندوپاک کے تعلقات میں بہت بڑا خلا ہے وہیں پہ جموں کشمیر کے عوام کے ہاں بھی پاکستانی حکومتوں کے اقدامات یا خاموشی پہ حدشات پائے جاتے ہیں اور ان حدشات کی ایک معقول وجہ بھی موجود ہے ۔اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ بھارت کے پانچ اگست 2019 کے بعد کے اقدامات اسے اس کے زیر قبضہ خطے کو ایک باجگزار کالونیل عہد میں لے کر چلے گئے ہیں ۔ بھارت کےان اقدامات کی قطعی کوئی جسٹیفیکشن ہی نہیں بنتی بلکہ خود بھارت کا کٹھ پتلی طبقہ بھی اس سے نالاں ہے ۔

را کے سابق چیف اے ایس دلت کی نئی کتاب کا باب "کشمیریت" اس کا احاطہ جو دلت نے کشمیریوں کے ساتھ مکالمے کے حوالے سے لکھا ہے چند لفظوں میں یوں کرتا ہے کہ "تین سو ستر کے ٹوٹنے کے بعد اب بھارت اور جموں کشمیر کا کیا رشتہ باقی رہ گیا ہے ؟ "۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے خود راقم سے دوران گفتگو کہا تھا کہ "اب جموں کشمیر آئینی طور پہ بھارت سے عملی طور پہ الگ ہوچکا ہے " ۔دھارہ تین سو ستر اور پینتیس اے کے خاتمے کے بعد بھارت کا ہر اقدام عالمی قوانین کی کسی بھی تشریع میں ایک کالونیل اقدام کے سوا کہیں بھی فٹ نہیں ہوتا ۔ خواہ وہ ملازمتوں کے نام پہ ترقی کا ناٹک ہو یا بیرونی سرمایہ کاری ۔ ان اقدامات سے بھارت دراصل خود بھارتی سرمائے کو گردش میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس سے سرمایہ بڑھتا رہے ۔

پاکستان کی صورت حال معاشی اعتبار سے بد سے بدترین سطح پہ چلی گئی ہے ایسے میں بھی اُس کی حکومتوں کی طرف سے اس کے زیر انتظام (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) میں نام نہاد آئینی ترمیموں اور قوانین کو نافذ کرنے کے اقدامات بداعتمادی میں اضافہ کررہے ہیں ۔ یوں تو پاکستان کشمیریوں کا خودساختہ وکیل بھی کہلواتا ہے لیکن اُسی چھری سے اُن کے لامحدود حق خودارادیت کو مسدود و محدود بھی کرتا ہے ۔جموں کشمیر کی مکمل آزادی کی حامی آوازوں کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے ۔ سیاست دانوں کی بنی گالہ ، لاڑکانہ ، رائے ونڈ کی منڈیوں میں خرید و فروخت ہو یا پھر جی او سی مری کے زیر اہتمام حکومتوں کی تبدیلی اور کان مروڑنا۔ کہیں بھی کوئی پردہ نہیں۔ جنتا سب جانتی ہے !

کرنا کیا ہوگا ؟ پاکستان کی حکومت کو جموں کشمیر پہ اپنی پالیسی کو ازسر نو جموں کشمیر دوست پالیسی میں فلفور بدلنا ہوگا ۔ پاکستان حکومت کو اقوام متحدہ کے پاک بھارت کمیشن برائے کشمیر کی آئینی فقہ کے تحت (آزاد) جموں کشمیر کی قانونی حثیت کی بحالی پہ فوری اقدامات اٹھانا پڑیں گے ۔ پاکستان حکومت کو اپنے زیر انتظام دونوں خطوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے والے تمام اقدامات پہ فوری روک لگانا ہوگی اور گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی بحالی کرنا ہوگی ۔ نیز آزاد کشمیر میں اس کو غیر موثر کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔
پاکستان حکومت کو ان دونوں خطوں میں مکمل آزادی کا سوال اٹھانے والے طبقات کے ساتھ مربوط سیاسی عمل و مکالمے میں شامل ہونا چاہئیے تاکہ تمام اُمور پہ کھل کر گفتگو کا آغاز ہوسکے ۔ فہرست بہت طویل ہے کیونکہ پچھتر سال بھی گزر چکے ہیں لیکن شروعات تو کہیں سے کرنی ہوگی ۔ورنہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے ۔۔۔ اور مزید تاخیر کسی طرح بھی موزوں نہیں ہوسکتی ۔

(باقی آئندہ)
واپس کریں